اسلامیات

حساب خودی

محمد یاسین جہازی

خدا کی بنائی ہوئی بے شمار مخلوقات میں سے ایک اعلیٰ و اشرف مخلوق کا نام بشرہے۔ اس کی برتریت کا راز یہ ہے کہ اس کی ادراک و شعور دوسری تمام مخلوقات کی بنسبت اعلیٰ معیار تک پہنچا ہوا ہے۔ دنیا کا سب سے پہلا شخص حضرت آدم علیہ السلام ہیں، اس لیے ان کی جانب نسبت کرتے ہوئے اسے آدمی بھی کہاجاتا ہے۔اس کا ایک تیسرا نام بھی ہے اور وہ ہے: انسان۔ یہ عربی کے لفظ انس سے بنا ہے، جس کے لغوی معنی محبت و الفت کے ہیں۔ چوں کہ انسان کے اندر محبت کا جذبہ پایا جاتا ہے، اس لیے اسے اس نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اور یہیں سے ہم عوام الناس کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ انسان کی ادراک و شعوراس کے اندر محبت وپیار کاجذبہ پیدا کرتا ہے اور یہی جذبہ اسے تمام انسانوں؛ بلکہ دیگر مخلوقوں کے ساتھ خیرخواہی اور ہمدردی کا سلیقہ بخشتا ہے۔ چنانچہ یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ اپنے کسی بھائی کے ساتھ یا کسی جاندار مخلوق کے ساتھ ظلم ہوتا دیکھ کر دکھی ہوتا ہے۔ وہ جب یہ دیکھتا ہے کہ دوسرا شخص کسی تکلیف میں مبتلا ہے، تو اسے دیکھ کر اس کی چبھن یہ بھی محسوس کرتا ہے۔ اور اس کی وجہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے کہ وہ انسان ہے، محبت و ہمدردی اس کی فطرت کا ایک لازمی عنصر ہے۔ عشق و شیفتگی اور لاڈ پیار ہی انسان کی سب سے بڑی امتیازی شناخت ہے۔
اسلام چوں کہ دین فطرت ہے اور محبت و الفت انسان کی فطرت میں داخل ہے، اس لیے اسلام نے انسان کو یہ تعلیم دی ہے کہ
من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا، و من احیاھافکانما احیاالناس جمعیا۔(المائدۃ، ۲۳)
ناحق ایک شخص کو قتل کرنا ایسا ہے جیسا کہ تمام انسانوں کو قتل کردیا۔ اور جس شخص نے ایک جان کو زندگی دی، گویا اس نے سب انسانوں کو زندگی بخشی۔
اس اسلامی ہدایت کی روشنی میں آئیے ہم سب اپنا اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم واقعی انسان ہیں؟ اور اگر انسان ہیں تو کیا انسانیت کے تقاضے کو پورا کر رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم انسیت و محبت کا دعویٰ کرتے کرتے نہ تھکتے ہوں، لیکن ہمارے کسی ظلم و زیادتی کی وجہ سے ایک فرد نہیں، ایک خاندان نہیں؛ بلکہ پورا معاشرہ پریشان ہو رہا ہو اور ہمیں اس کا احساس بھی نہ ہو۔
اپنا محاسبہ شروع کرنے سے پہلے آئیے ایک واقعہ ذہن نشین کرتے چلیں کہ پہلے زمانے میں ایک عبادت گزار شخص تھا۔ ایک فاحشہ اور بدکار عورت نے اسے اپنے دام تزویر میں پھنسانے کی کوشش کی۔ اور ایک لونڈی کو پیغام دے کر اس کے پاس بھیجا کہ میں تمہیں گواہی کے لیے اپنے پاس بلا رہی ہوں (گواہی کے لیے جانا فرض تھا) چنانچہ وہ مرد صالح اس لونڈی کے ساتھ چلا آیا۔ وہ نیک شخص مطلوبہ مکان کے جس کمرے میں داخل ہوتا۔ لونڈی اس کا دروازہ مقفل (بند) کر دیتی۔ اس طرح وہ اس خوبصورت عورت کے پاس پہنچ گیا۔ وہاں عورت کے علاوہ ایک لڑکا تھا اور ایک طرف شراب کا جام رکھا ہوا تھا۔ اب اس بدکار عورت نے اس نیک آدمی سے کہا۔ انی واللہ مادعوتک للشھادۃ اللہ کی قسم! میں نے تجھے کسی گواہی کے لیے نہیں بلایا۔ بلکہ اس لیے بلوایا ہے کہ تم میرے ساتھ ہم بستری کرو۔ یا شراب کا یہ جام پیو۔ یا پھر اس لڑکے کو قتل کرو۔ (تمھیں ان تینوں میں سے ایک کام لازمی کرنا پڑے گا) چنانچہ اس نے شراب نوشی کو دوسرے دونوں گناہوں سے کم تر جرم خیال کرتے ہوئے کہا۔ مجھے شراب کا ایک گلاس پلا دو۔ اس عورت نے اسے ایک پیالہ شراب پلا دی۔ (جب لذت محسوس ہوئی تو) بولا۔ اور پلاؤ۔ اس نے اور شراب پلا دی۔ پھر اس مرد صالح نے شراب نوشی کی مخموری کے باعث اس عورت سے صحبت بھی کی اور اس کے مطالبے پر لڑکے کو بھی قتل کر دیا۔
اس واقعے میں جس طرح بزرگ شخص نے شراب نوشی کو دوسرے دونوں گناہوں کی بنسبت کم تر خیال کرتے ہوئے اسے اختیار کرلیا اور پھر سبھی بڑے بڑے گناہ ہوگئے،اسی طرح آج ہماری ذاتی زندگی، خاندانی نظام حیات اور معاشرتی معاملات کا نقشہ اس واقعہ سے مختلف نہیں ہیں۔ ہم لاشعوری طور پر کچھ ایسے کام کرجاتے ہیں، جس کی وجہ سے مفاسد کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ کام بڑے بڑے گناہوں کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ محاسبہ کے طور پر چند پہلو کی نشاندھی کی جاتی ہے۔
(۱) غلط فہمی
غلط فہمی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی چیز کو دیکھ کر یا سن کر وہ سمجھ لیتا ہے، جو حقیقت میں وہ ہے نہیں۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ ہے کہ ایک صاحب کی دکان کے سامنے لوگ پیشاب کرتے تھے، جس کی بدبو اور تعفن سے وہ پریشان تھے۔ دکاندار نے بہت کوشش کی، کبھی اس جگہ دیوار پر لکھ دیا کہ یہاں پیشاب کرنا منع ہے۔ کبھی کسی کو دیکھ لیا تو اسے ٹوک دیا کہ بھائی یہاں پیشاب مت کرو، لیکن لوگ تھے کہ باز ہی نہیں آرہے تھے۔ پھر اس کے دماغ میں یہ ترکیب آئی کہ کیوں نہ ایسا کریں کہ اس جگہ کے متعلق غلط فہمی پھیلائی جائے، شاید اس سے لوگ رک جائیں۔ چنانچہ اس نے وہاں پر یہ لکھ کر ایک بورڈ لگوادیا کہ یہاں جنات و شیطان رہتے ہیں، اس جگہ پیشاب نہ کریں۔ ایک دن ایسا ہوا کہ ایک صاحب کو بڑی تیز لگی ہوئی تھی، جگہ کا پتہ تو تھا ہی، وہ جلدی میں آئے اور اسی جگہ بیٹھ گئے، جب اس کو اطمینان ہوا اور بیٹھے ہوئے ہی اس کی نظر اس بورڈ پر پڑی کہ یہ کہ جنات کی جگہ ہے، پھر کیا تھا اس کا پیشاب رک گیا اس کے ذہن نے کام کرنا بند کردیا، گھبراہٹ کے عالم میں جلدی جلدی پینٹ کا بٹن لگانے لگا، لیکن اتفاق سے ہوا ایسا کہ پینٹ کی بٹن شرٹ میں شرٹ کی بٹن پینٹ میں لگ گئی۔ اب وہ صاحب جب کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، تو کمر سیدھی ہی نہیں ہورہی ہے۔ گھبرایاہوا تو پہلے سے ہی تھا اب مارے خوف کہ چیخیں نکل گئیں کہ مجھے بچاو مجھے جنات نے پکڑ لیا ہے، میری کمر ٹیڑھی کردی ہے۔ مجھے بچاو۔ یہ منظر جب راہ گیروں نے دیکھا تو انھیں بھی یہی لگا کہ اس نے جنات پر پیشاب کیا ہے، اسی وجہ سے جنات نے اس کی ایسی حالت کردی ہے۔
اب دیکھیے کہ حقیقت میں وہاں نہ جنات ہے اور نہ ہی اس کی کمر ٹیڑھی ہوئی ہے،لیکن اس کو غلط فہمی ہوگئی ہے کہ جنات نے مجھ پر اثر ڈال دیا ہے، اس لیے صحیح ہونے کے باوجود وہ بیماری میں مبتلا ہے۔
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہاں ایک دوسرے سے غلط فہمی اور بدگمانی عام ہوچکی ہے۔ اس سے جہاں بدگمان شخص بدگمانی شخص کو نقصان پہنچاتا ہے، وہیں وہ شخص خود بھی نقصان اور پریشانی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور بے شمار تاریخی واقعات اس پر شاہد ہیں کہ بدگمانی سے کسی شخص کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔آئیے ہم اسلامی تاریخ سے مثال ڈھونڈھتے ہیں کہ صلح حدیبیہ سے پہلے کفار مکہ اور یہود مدینہ نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلادی تھیں، کفار مکہ نے سرور کائنات ﷺکے بارے میں تو یہاں تک مشہور کردیا تھا کہ وہ تو جادو گر ہیں، اس لیے کوئی قریب مت جانا ورنہ ان کے جادو کے شکار ہوجاو گے، لیکن جب صلح حدیبیہ کی وجہ سے دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا اور لوگ ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور معاملات کرنے لگے تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہم اب تک اندھیرے میں رکھے گئے تھے، پھر جس طرح سے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے، اس سے پہلے بیس سالہ اسلام کے دور میں نہیں ہوا تھا۔
(۲) شادی بیاہ میں رسوم و رواجات
زندگی کی ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ جب اپنی لڑکی کی شادی کرتے ہیں،تو سمجھتے ہیں کہ لڑکے والے جہیز، تلک اور بارات وغیرہ کی رسموں کو انجام دے کر غیر ضروری اخراجات کا بوجھ ڈال دیتے ہیں، لیکن جب وہی لڑکی والا اپنے کسی لڑکے کی شادی کرتا ہے، تو وہ تمام رسمیں اور چیزیں اپنے لیے رحمت کا باعث سمجھتے ہیں اور ان چیزوں سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے۔
قرآن و حدیث کی رو سے لڑکے کو لڑکی پر ایک درجہ زیادہ مرتبہ ملنے کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام چلانے کے لیے حاکم ومحکوم اور بادشاہ و رعایہ کا سسٹم رکھا ہے۔ اگر یہ نہ ہوگا تو انسان کا سماجی و تمدنی نظام نہیں چل سکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت بالغہ سے کسی کو بادشاہ اور کسی کو رعایہ بنادیا ہے۔ اسی نظریے کے مطابق خاندانی شیرازہ بندی کے لیے اللہ تعالیٰ نے لڑکے کو حاکم و قوام اور نگراں بنایا ہے اور لڑکی کو اس کا ماتحت۔ یہ تو ایک وجہ تھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ لڑکا چوں کہ مال خرچ کرتا ہے، اس لیے لڑکے کا درجہ بڑا ہے۔
اس فرمان کے مطابق کوئی بھی موقع ہو، مال خرچ کرنے کی ذمہ داری لڑکے پر عائد ہوتی ہے، لہذا شادی بیاہ کے موقع پر بھی مال اور دعوت وغیرہ سبھی خرچ لڑکے کے ذمہ ہے، نہ کہ لڑکی کے ذمہ۔ علاوہ ازیں حدیث میں لڑکی کورحمت کہا گیا ہے، اور شادی کے ذریعہ لڑکی رخصت ہوتی ہے، تو لڑکی والوں کے لیے کوئی خوشی کا موقع نہیں ہوسکتا، کیوں کہ رحمت کی رخصتی خوشی کی وجہ نہیں ہوسکتی، البتہ لڑکے والوں کے لیے مسرت کا مقام ہے کہ ایک رحمت کا ورود ہورہا ہے، جس کی خوشی کے طور پر ولیمہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
قرآن و حدیث کے ان فرمان کے برعکس آج ہمارا حال یہ ہے کہ لڑکی والوں پر سارے اخراجات کی ذمہ داری ڈال دیتے ہیں اور اس طرح ہم ان پر ظلم کرتے ہیں۔ ایسے موقع پر ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں ہم کسی طریقے سے کسی پر ظلم و زیادتی تو نہیں کر رہے ہیں ……!
اس طرح زندگی کے بے شمار واقعات ہیں، جہاں ہم چاہی نہ چاہی، شعوری اور لاشعوری طور پر غلط فہمیوں کے شکار ہوتے ہیں، یا غلط کام کرتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا، اس لیے ایسے موقعوں پر گناہوں سے بچنے کا خود کا اور خودی کا محاسبہ بہت ضروری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close