اس اسلوب کی وضاحت یہ ہے کہ ایک مصورِواقعہ، واقعہ کی اس طرح تصویر کشی کرتا ہے کہ اس کا ہوبہ ہو نقشہ آنکھوں کے سامنے کھینچ دیتا ہے اور قاری یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ واقعہ خود اس کی نگاہوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ اس اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جو کچھ بیان کیا جاتاہے،وہ مبنی بر حقیقت اور نوعیت واقعہ کے حسب حال ہوتا ہے اور اجزائے واقعہ کو فطری اوروجودی ترتیب کے مطابق اس طرح ربط وتسلسل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ خواہ وہ فرضی ہی کیوں نہ ہوں، لیکن فرضی ہونے کاشک وشبہ تک نہیں ہوتا۔
اس اسلوب میں ابہام وتعمیم سے گریز کیا جاتاہے اور وضاحت وتخصیص سے کام لیا جاتاہے۔اسی طرح گنجلک طرز نگارش کے بجائے بے تکلف اسلوب اختیار کیا جاتاہے۔ اس میں صنائع وبدائع کا بھی خوب استعمال کیا جاتاہے۔اس کا نمونہ دیکھیے۔
نثرکی مثال:
”مہرالنسا جوان بیوہ کی حیثیت سے شاہی محل میں رہنے لگی؛ لیکن ہائے وہ حسن افسردہ جو خود اپنی قوتوں سے واقف نہ ہو، خوب جانتی تھی کہ بجلی کدھر گرے گی؟ جہا ں گیر ایک روز اس کمرے کی طرف جانکلا، جو ضیائے حسن سے شیش محل ہورہا تھا۔ حوروش کنیزوں کے حلقے میں زرق برق لباس آنکھوں کو خیرہ کیے دیتے تھے۔ فطرت کی لاڈلی ہمہ غمزہ وہمہ عشوہ وہمہ ناز نہایت سادے باریک سفید لباس میں تھی، لیکن شیشہ کی طرح شفاف جسم جھلک رہا تھا۔ مقیاس الشباب کی سر کشی بتا رہی تھی کہ وہ دستانے کی طرح چھپی ہوئی محرم سے زیادہ اودی اودی لوگوں کے پیچ وخم اور اعصاب کی قدرتی کھینچ تان کی ممنون ہے۔ اس پر وہ کافوری بر ہنہ، برہنہ حصہ افقی خیال کے لیے باقی رہا، مہرالنسا عالم تصویر بنی ہوئی تھی۔ شاہی نگاہیں جم کر حسن عریانی کا جائزہ بھی نہ لینے پائی تھی کہ ایک کہر بائی قوت نے بجلی کے تاروں میں نہیں؛ زلف عنبریں کے پیچ وخم میں جکڑ نا شروع کیا۔ شاہانہ تمکنت نے دیکھتے دیکھتے حسن گلو سوز سے شکست کھائی“۔(مہدی حسن)
نظم کی مثال: ؎
اک ہوک جگر میں اٹھتی ہے، اک درد سا دل میں ہوتا ہے
ہم رات کو اٹھ کر روتے ہیں جب سارا عالم سوتا ہے
(میر تقی میرؔ)
نکلے تھے منھ چھپائے ہوئے گھر سے غیر کے
تصویر بن گئے جو میراسامنا ہوا
(ریاض خیرآبادی)
کبھی واقعہ نگار جو واقعہ بیان کرنا چاہتا ہے اس میں ’تخصیص‘کے بجائے ’تعمیم‘اور’صراحت‘کے بجائے ’ابہام‘ پیدا کردیتا ہے، جس سے واقعہ کا پر دہئ تصویر اس قدر ہلکا، سادہ اور بے رنگ ہو جاتا ہے کہ پڑھنے والے کو کچھ پلے نہیں پڑتا، جیسے اس طرح کہ:
”حیدرآباد سے مولوی صاحب کا گہرا اور قریبی تعلق رہاہے اور ان کی زندگی کا بہترین زمانہ یہیں بسر ہوا، جہاں مختلف حیثیتوں سے انھوں نے اعلیٰ سے اعلیٰ ترین خدمات انجام دیں“۔
ان خط کشیدہ جملوں میں ’ابہام‘ پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے واقعہ بالکل بے رنگ ہو گیا ہے۔ یہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس قسم کا تعلق تھا۔ بہترین زمانہ سے عمر کی کون سی منزل مراد ہے، مختلف حیثیتیں کیا ہیں اور اعلیٰ ترین خدمات کس نوعیت کی ہیں؟۔
کبھی واقعہ نگار ایک ہی واقعہ میں مختلف جزوی واقعات کے اتنے تخیلات پیش کردیتا ہے کہ ایک نقشہ ذہن ودماغ پر پوری طرح جمنے نہیں پا تا کہ فوراً دوسرا سامنے آجاتا ہے، پھر تیسرا، اسی طرح سلسلہ درسلسلہ چلتا رہتا ہے، جس سے تحریر میں گنجلک پن پیدا ہو جاتا ہے، جیسے:
”(۱)کیا سمندر سوکھ گئے جو بادل نہیں آتے؟ سوکھ گئے۔ سمندر بھی سوکھ گئے۔ (۲)سمندر! سات سمندر پار سے آئے۔ (۳) ہماری لٹیا بھی ڈوب گئی،غڑپ غڑپ۔(۴)غوطے لگا رہے ہیں،اپنے ہی خون میں نہا رہے ہیں۔(۵)دھوپ تو اتنی تیز ہے،بھاپ بھی نہیں بنتی۔(۶)کاہے کی بھاپ بنے؟خون تو خشک ہو گیا،جل کے راکھ ہو گیا۔(۷)کیا سچ مچ بادل بھاپ کے بنتے ہیں؟“۔
(احمد علی صاحب ’بادل نہیں آتے‘)
اس مضمون میں ایک پریشان حال عورت کی فکری پراگندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے،لیکن ہرنمبر میں الگ الگ واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جس سے مضمون پیچیدہ ہو کر رہ گیا ہے۔