مضامین

احساس زیاں کافی نہیں احساس عمل بھی ضروری ہے۔۔!

محمد شکیب قاسمی

بر صغیر میں اسلامی روایات کے تحفظ میں مدارس اسلامیہ کا جو کردار رہا ہے اس کی تاریخ سے شاید ہی اہل علم میں کوئی ہو جو ناواقف ہو، نیز معاشرے کی دینی ضروریات کی تکمیل میں مدارس کا حصہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہمارے یہ مدارس مسلمانوں کے اس تاریخی اور روایتی نظام تعلیم کا تسلسل ہیں جس سے ہماری درخشندہ علمی روایات وابستہ ہیں، موجودہ دور میں جہاں بہت سے جدید چیلینجز سے ہمارا سامنا ہے، اور جہاں مسلمانوں کی مختلف اقدار وروایات اس وقت اپنے نازک ترین دور سے گزر رہی ہیں، ایسے میں مدارس کا مسئلہ بھی بڑا سنگین ہوتا چلا جا رہا ہے، حیرت اس امر سے ہے کہ ہماری جانب سے ان موضوعات پر کوئی خاص توجہ نہیں ہے یا کم از کم جیسی توجہ ہونی چاہئے وہ نہیں ہے، یہ انفرادی سطح کا نہیں بلکہ ہمارےاجتماعی کاز کا مسئلہ ہے، مختلف جزوی مسائل پر تو ہماری توجہ بھر پور ہے لیکن جو مسئلہ نہایت حساسیت کا حامل ہے اس پر ہمارے حلقے میں کوئی خاص سگبگاہٹ نہیں ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ ان امور کی جانب سنجیدگی ومتانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پر مثبت ایپروچ کے ساتھ غور وخوض کیا جائے، اس کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کے ہم اپنا جائزہ لیں اور مسائل کی نشاندہی کریں، کیونکہ اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مسئلہ کو سمجھا جائے اس کے بعد ہی اس کے حل کی جانب کچھ گفتگو آگے بڑھ سکتی ہے، بلا ادراک مسائل ان کے حل کی کاوش یہ ظاہر بات ہے ایک بچکانہ کوشش سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتی۔

مدارس کے حوالے سے ذیلی مسائل آئے دن ہمارے سامنے آرہے ہیں اور مختلف نوعیتوں سے گفتگو کا مرکز بنے رہتے ہیں، کہیں تعلیمی انحطاط پر گفتگو ہے، کہیں تربیتی نظام پر سوالات، کہی کثرت مدارس کا شکوہ ہے تو کبھی مدارس میں افتاء وقضاء کے شعبوں کی بہتات کا مسئلہ (جس کے نتیجہ میں مدارس کی شبیہ اور ان کے اعتماد کو انتہائی درجہ نقصان ہو رہا ہے)، کہیں نصاب پر گفتگو ہے تو کہیں دوسرے امور پر تبادلہ خیال جن میں بہت سے امور اخلاقیات اور معاشرت کے باب سے متعلق ہیں، ایک عرصے سے اہل خرد حضرات کی جانب سے اس پر سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اسباب ووجوہات ہیں کہ مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کی تعداد فکری طور پر انحطاط کا شکار ہے؟ (یہ ظاہر ہے عمومی وضع کا بیان ہے، البتہ ایک تعداد کم ہی صحیح وہ پختہ فکر بھی نکل رہی ہے) ان تمام مسائل کے سنجیدہ حل کے لئے ہمیں ان کی تہہ تک پہنچنا ہوگا، ایک طبقہ اس بات پر بہت فکر مند ہے کہ مدارس کے طلبا میں عمومی سطح پر تعلیمی ذوق کا فقدان ہے، ایسے میں جو کھیپ سامنے آرہی ہے وہ اپنے علمی، تربیتی واخلاقی نقطہ نظر سے ماضی کی مناسبت سے کہیں کمتر ہے، اور اس کے تناسب میں عدم توازن تشویشناک حد تک پہنچ رہا ہے، ظاہر ہے مدارس کے بنیادی مقاصد میں تعلیم وتربیت اہم ترین مقاصد میں شامل ہیں، لہذا اس حد تک ان امور میں گراوٹ کا پایا جانا یہ اپنے میں بہت سے سوالات کھڑے کرتا ہے، اس پر تشویش کا ہونا ہر ذی ہوش کی جانب سے امر معقول ہے، ایسے میں مدارس کا تعلیمی اسٹرکچر خود سوالات کے گھیرے میں ہے کہ آیا ایسا پروڈکٹ جو اپنی افادیت کے تناظر میں اس درجہ زوال کا شکار ہے اتنی کثیر تعداد میں کیسے منظر عام پر آرہا ہے؟ اس کے کیا اسباب ہیں؟ اور اس کے تدارک کے لئے کیا ممکنہ صورتیں ہیں؟ اس تشویش میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب ان امور کی اصلاح کی جانب خاطر خواہ پیش رفت دکھائی دیتی محسوس نہیں ہوتی، جہاں تک ان مدارس کی افادیت کا تعلق ہے اس سے انکار کرنا یقینا ممکن نہیں ہے، یہ حقائق سے انحراف کئے جانے کے مترادف ہے، یہاں گفتگو مستقبل میں اس افادیت کو برقرار رکھنے کی ہورہی ہے، اور موجودہ زمانے میں جہاں نت نئے مسائل ہر آن وہر لمحہ وجود میں آرہے ہوں ایسے میں مدارس کے فضلا کا کیا کردار ہو اور مستقبل کا منشور کیا ہونا چاہئیے جس سمت پر چل کر اس کی افادیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

نفسیات کا ایک مسلمہ اصول ہے، اس کی رو سے ہر پچاس وسو سال کے درمیان پر کم وبیش افراد انسانی کی نفسیات، مزاج، ذوق، انداز فکر ونظر اور رد وقبول کے معیارات میں واضح تبدیلی کا آنا ایک بدیہی امر ہے، ظاہر ہےیہ اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور مسلمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا، ایسے میں ان اہم امور کو نظر انداز کرنا اور ان سے نظریں پھیر لینا بے جا معلوم ہوتا ہے، اس کا اثر ظاہر ہے کہ اس زمانے میں موجود طلبہ مدارس کی نفسیات پر پڑنا ایک معقول بات ہے، لہذا ضروری ہے کہ ان مسائل کا حل پیش کرتے وقت ان حقائق کو بھی سامنے رکھا جائے، آپ کتنی ہی رکاوٹیں لگائیں ایسےمیں جو چیزیں پہنچنی ہیں وہ اپنی تمام تر مضرات کے ساتھ ہمارے درمیان آکر رہینگی، ایسے میں اہم ترین امر ہے کہ طلبہ کی فکری پختگی اور تربیت پر بالخصوص توجہ دی جائے، یہ کام انفرادی سطح پر تمام ہی ادارے اپنی بساط کے مطابق انجام بھی دےہی رہے ہیں، البتہ ہمیں اگر معاصر دنیا سے ہم آہنگ ہونا ہے، اور اپنا علمی وجود اپنی حسین روایات کےساتھ دنیا کو تسلیم کرانا ہے تو ہمیں زمانے کی رفتار کو سمجھنا بھی ہوگا اور اس کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بھی بڑھنا ہوگا، واضح کرتا چلوں "آگے بڑھنے“ سے مراد اپنی اقدار وروایات سے سمجھوتہ ہرگز نہیں ہے، بلکہ ان روشن روایات کو مکمل تحفظ فراہم کرتے ہوئے اس کی سبیل پر غور کیا جانا چاہئے، البتہ یہ جبھی ممکن ہوگا کہ آپ بھی اسی رفتار سے سوچیں جس رفتار کے ساتھ آپ کی معاصر دنیا سوچ رہی ہے ( یعنی وہ معاصر نظام تعلیم جو آج کی دنیا میں اپنا علمی تشخص رکھتا ہے، اصل آپ کا علمی مقابلہ انہی کہ ساتھ ہے، کیونکہ ان کے مکمل نظام ہائے تعلیم کی اساس لبرل ازم، حریت پسندی اور فکری ارتداد پر ہے جبکہ آپ کا نظام تعلیم توحید کی مضبوط بنیادوں سے جڑا ہے) تبھی جاکر آپ اپنے مسائل کا حل اپنی منشا کے مطابق پیش کر پائینگے، ورنہ ہر چہار جانب سے مداخلت ہوگی اور اس کو ہم بہت زیادہ عرصے تک شاید نہ روک پائیں، ایک وقت آئے گا جب پانی سر سے اوپر جا چکا ہوگا، لہذا اس کے لئے ہمارے پاس بہترین منصوبہ بندی اور مئوثر ورک پلان موجود ہونا چائیے جن پر عمل کر کے ہم وقتا فوقتا اپنی خود احتسابی کرتے ہوئے اصلاح کا کام انجام دے سکیں۔

نصاب تعلیم کا مسئلہ ایک عرصہ ہوا بہت پرانا ہوا، اس وقت میرے حساب سے وہ اس معنی کر غیر مفید ہے کہ چند کتابوں کی تبدیلی سے ہمارے پیش آمدہ مسائل اور تحدیات کا حل نکلنا ممکن نہیں، ایک وقت تھا اس پر بہت بات ہوئی مختلف زاویہ فکر رکھے گئے، متعدد نظریات سامنے آئے، فریقین نے اپنی بات مدلل انداز سے پیش بھی کی، البتہ اس وقت ہمارے سامنے مسئلہ نصاب سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے، جو مسائل اور کمی ہم اپنے حلقوں میں محسوس کر رہے ہیں اس کا تدارک نصاب کی تبدیلی سے قطعا ممکن معلوم نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کے لئے آپ کو باضابطہ ایک مکمل منشور بنانا ہوگا، کیونکہ اب مسئلہ ہمارے پورے نظام تعلیم اور اس کے اسٹرکچر کا ہوگیا ہے، جب ہم نظام تعلیم کی بات کرتے ہیں اس ضمن میں نصاب تعلیم زیر گفتگو آئے گا، منہج تدریس پر بھی بحث ہوگی، فکری واخلاقی تربیت وغیرہ کا بھی تذکرہ ہوگا، ظاہر بات ہے ان سب کے تانے بانے آپس میں بنیادی طور پر تعلیم ہی سے مربوط ہیں، اگر اس کے لئے مضبوط حل دیا جائے گا تو بہت سی خرابیاں جو مدارس میں در آئی ہیں ان کا ازالہ خود بخود ہو سکتا ہے، جس سطح پر اس وقت ہمارے یہاں مسائل ہیں اس کا حل اگر کوئی میری نظر میں ہے تو وہ ہے ”نظام تعلیم کا سینٹرلائزیشن“، یعنی ایک مرکزی تعلیمی (غیر سرکاری) بورڈ/وفاق/باڈی کا نظام، جو تمام مدارس کے تعلیمی امور کی نگہ داشت کے ساتھ اس کے لئے تعلیمی لائحہ عمل بھی تیار کرے، یہ بات ہورہی ہے تعلیمی وفاق کی، ہمارے درمیان ایک عرصے سےمادر علمی دارالعلوم دیوبند کا رابطہ مدارس موجود ہے، البتہ وہ سردست جس سطح پر کام کررہا ہے اس کو انتظامی سطح ہی تک محدود کہا جا سکتا ہے، جبکہ اس میں بھی مزید اصلاحات کی ضرورت ہے، مطلوبہ تقاضوں کو کاغذی پیراہن سے نکال کر ٹھوس اور قابل عمل صورت کا زمینی سطح پر لانا ناگزیر ہے، میری ناقص رائے میں رابطہ مدارس کی افادیت میں تبھی اضافہ ہوگا جب متحرک تعلیمی وفاق یا تعلیمی بورڈ بنے، یہ کام رابطہ مدارس بھی بہت اچھے پیمانے پر انجام دے سکتا ہے، بہرحال اس تعلیمی وفاق سے داخلی اور خارجی دونوں ہی طرح کے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
داخلی سطح پر اس منتشر تعلیمی نظام کو سمیٹنے کے لئے یہ اقدام نہایت ضروری واہمیت کا حامل ہے، تاکہ مدارس کی ایک ایسی باڈی تشکیل پائے جس کے سامنے تمام مدارس مسئوول اور جواب دہ ہوں، اور مکمل نظام تعلیم کی باضابطہ مانیٹرنگ کمیٹی (Monitoring Committie) تشکیل دی جائے، جو اس کی مکمل نگہ داشت کرے، اس کے اپنے کچھ اصول وضوابط ہوں جن کا پاس و لحاظ ہر درسگاہ کے لئے ضروری قرار پائے، اور ان نارمس اور ضوابط کی بنیاد پر ان مدارس کے تعلیمی اسٹرکچر کو منظوری ملے، جس میں وقتا فوقتا ایک متعینہ دورانیہ کے بعد تجدید کا مرحلہ بھی رکھا جائے جو سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر منحصر ہو، یہ جز وقتی کام نہیں ہوسکتا اس کو مکمل انہماک کے ساتھ باضابطہ طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے، کوشش کی جائے سرکاری سطح پر اس تعلیمی باڈی کی اسناد کو کسی بھی حیثیت سے منظور کرایا جائے (یہ ناممکن نہیں ہے، حکومت گزشتہ دو دہائیوں سے ان جیسی مختلف تجاویز پر بات بھی کررہی ہے، اور ٹیبل پر آنے کی دعوت بھی دے رہی ہے، حکومت کی اس بابت نیت سے قطع نظر قبل اس کے کہ ان کی جانب سے کوئی یک طرفہ پیش رفت ہو، اور کوئی چیز نافذ العمل قرار دے دی جائے جو اپنے رطب ویابس کے ساتھ ہمارے اوپر لاگو ہو، ہمیں چاہئے کہ ہم اپنا متبادل نظام پیشگی تیار کریں، ورنہ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ اور انجام ہم سب کے سامنے ہے، بہتر ہوگا ہم اس کا متبادل ان سے پہلے لے کر پہنچیں اور اس کو پوری قوت کے ساتھ منظور کرانے کی جد وجہد کریں) پھر علیحدہ علیحدہ منظوری کی ایک تو ضرورت نہیں رہتی نیز اس کے ذریعہ تمام مدارس کی کسی نہ کسی سطح پر (کم از کم اخلاقی سطح پر ہی سہی) ذمہ داری بنے گی کہ وہ اس باڈی کا حصہ ہوں اور اس سے جڑیں، کیونکہ اگر اس باڈی کو عوامی سطح پر اعتماد حاصل ہوا (ظاہر ہے یہ جب ہی ممکن ہے کہ کسی نہ کسی درجہ میں مدارس ومراکز اس کی بالادستی کو قبول بھی کرلیں) تو کہیں نہ کہیں آگے جاکر مدارس کے لئے اس کا رخ کرنا ضروری ہوگا (یہ اخلاقی درجہ کی بات اسلئے کہی جا رہی ہے کہ اس ملک میں یہ بہت مشکل ہے کہ آپ اس کو غیر سرکاری رکھتے ہوئے قانونی طور پر اس کو یہ بالادستی دلانے میں کامیاب ہوں کہ اس سے منظوری لئے بغیر مدرسوں کا قیام ممکن نہ ہو سکے، ظاہر ہے حکومت کسی بھی غیر سرکاری ادارے کو اتنی بالادستی نہیں دے سکتی اور اس کو کبھی اس سطح پرقبول نہیں کرے گی البتہ اخلاقی سطح پر اس کو نافذ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ملک کی مرکزی درسگاہوں کا اعتبار اس کو حاصل ہو)، مسئلہ یہ بلکل نہیں ہے کہ اس کا انتظامی اسٹرکچر کیا ہونا چاہئیے کون اس کی قیادت کرے، ظاہر ہے یہ مشترکہ بورڈ ہو جس میں ملک کے تمام مرکزی اداروں کی نمائندگی رکھی جا سکتی ہے، (ویسے اس کے انتظامی اسٹرکچر پر بحث میرے موضوع کا حصہ نہیں ہے)، اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ یہ غیر سرکاری باڈی ہونی چاہئے، تاکہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں شفافیت وانضباط تو لائینگے البتہ خارجی مداخلت سے بچے رہینگے، اس کا نظام اور عوام میں اس کا اعتبار قائم ہو جانے کے بعد رفتہ رفتہ مدارس کے لئے اس سے جڑنا ضروری ہو جائے گا، اس میں دو رائے نہیں ہے کہ یہ امر وقت طلب ہے لیکن یہ کام ہو سکتا ہے، وفاق المدارس پاکستان کا کامیاب ماڈل ہمارے سامنے ہے، کسی بھی ادارےکو قبل از منظوری قیام کی اجازت نہیں ہوگی (یہ پابندی اخلاقی سطح ہی کی سہی)، نیز جو ادارے اس سے مربوط ہوں ان کے تعلیمی مستوی کا فیصلہ یہاں کی منظوری کے بغیر ممکن نہ ہو (یعنی جہاں جیسی ضرورت ہے: ادارے کا انفراسٹکچر، طلبہ کی تعداد، اساتذہ کی تعداد اور دیگر بعض ناگزیر امور طے کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا جانا چاہئے کہ کس درجہ تک یہ ادارہ ہونا چائیے، تخصصات شامل کرنے ہیں یا نہیں)، اس سے آپ کے تمام مدارس آپس میں ایک تو مربوط ہونگے، اسی کے ساتھ کسی ایک مرحلے میں آکر سینٹرالائز امتحان کا نظم بھی ہو، جس میں بشمول چھوٹے بڑے تمام متعلقہ مدارس کے طلبہ شرکت کریں، جس سے علمی بنیادوں پر تنافس ان اداروں کے درمیان قائم ہوگا، جب تک ہم باہمی علمی تنافس قائم نہیں کرینگے تب تک علمی کارکردگی میں خاطر خواہ تبدیلیاں دیکھنے کو نہیں ملینگی، یہ انسان کی فطرت ہے کہ تنافس کے وقت انسان اپنی تمام تر توانائی بروئے عمل لاتا ہے جس سے کہ بہتر سے بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں، انتظامیہ کی جانب سے بھی ایسے میں اس جانب خصوصی توجہ رہے گی وہ بھی اپنے تعلیمی اسٹرکچر کو ہر سال پیش آمدہ احوال ومسائل اور حاصل کردہ علمی نتائج کے تناظر میں داخلی سطح پر منظم ومنضبط کرنے کے لئے کوشاں رہے گی، اس کا مقصد صرف اور صرف تعلیمی معیار کی بلندی ہونا چائیے اس سے زیادہ اس کا مقصد نہیں ہے، یعنی کہ انتظامی امور جو کہ بعض ادارتی سطح کے ہیں ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا اور بعض وہ انتظامی امور جو سرکاری نوعیت کے مطالبات ہیں ان کو حکومت کے متعینہ ضابطوں پر چلانا ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ ملکی قوانین کا معاملہ ہے، یہاں بنیادی طور پر زیر بحث تعلیمی نظام ہونا چاہئیے جب تعلیمی وفاق ہوگا اور سب چیزیں پبلک پورٹل پر عوام کے سامنے ہونگی یعنی دن رات کی تعلیمی کارگزاریاں ایسے میں اس کے مثبت اثرات انتظام پر بھی یقینا مرتب ہونگے، ہر ادارہ چاہے گا اپنی کارکردگی کو بہتر سے بہتر طریقے پر انجام دے بالخصوص تعلیمی کارکردگی پر سنجیدہ ارتکاز میں اضافہ ہوگا تاکہ عوامی سطح پر بھی ادارہ نیک نامی حاصل کر سکے۔

اسی طریقے سے ضرورت ہے کہ ان مدارس کو باہمی طور پر تحقیقی ذوق سے بھی جوڑا جائے، اس کے لئے مختلف درجات ہونے چاہئیں یعنی درجہ بندی کی جانی چاہئیے جیسے جامعات میں ہوتا ہے، کہ یونیورسیٹی میں الگ الگ نوعیتیں ہوتی ہیں، کسی کو اگر ریسرچ یونیورسیٹی کا درجہ حاصل ہوتا ہے تو وہ اس کو برقرار رکھنے میں کوشاں رہتی ہے تو کوئی اس کو حاصل کرنے کے لئے فکر مند ہوتے ہیں، ایسے میں مجموعی اعتبار سے ادارے کی کارکردگی بہتر رہتی ہے، اگر مدارس میں بھی اس نوعیت کی کوئی درجہ بندی کی جائے تو یقینی طور پر اس کے مفید ثمرات ظاہر ہونگے، مثلا: تخصصات کا فیصلہ ادارے کی مجموعی کارکردگی کو دیکھ کر کیا جائے، کارکردگی کی بنیاد پر مدرسہ کو اجازت دی جائے پھر اس کو برقرار رکھنے کے لئے ان کو اس معیار کے تسلسل کو بھی باقی رکھنا ہوگا، تعلیمی ماحول میں اس مثبت تبدیلی سے خود بخود مزاجوں میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوجائے گی، پھر آپ کو مدارس کی کثرت اور معیار تعلیم کے انحطاط کے فکر کرنی کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ یہ باڈی ان امور کو مسلسل انجام دے گی، اس طے شدہ مستوی کو برقرار رکھتے ہوئے مدرسہ جس کو چلانا ہے چلائے، بصورت دیگر ان کی منظوری متاثر ہو سکتی ہے علاوہ ازیں ارباب خیر بھی اس جانب یقینا متوجہ رہینگے، کیونکہ مدارس کا بنیادی مقصد تعلیم ہے تو اسی کسوٹی پر ان کو پرکھا جائے گا کہ کون کس درجہ اپنے مقصد میں کامیاب ہے، اور اس سے مالیات کی یافت میں بھی ایک توازن قائم ہوگا۔
اسی کو آگے بڑھا کر آپ افتاء وقضاء کے مسئلہ کو بھی حل کرسکتے ہیں، کہ جو آئے دن ہمارے سامنے سنگین مسئلہ کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، کہ ہر شخص بلا کسی رکاوٹ ان امور کو انجام دے رہا ہے اور آئے دن مارکٹ میں نئے نئے ادارے وجود میں آرہے ہیں، جس نے جیسے چاہا اس کو کھول لیا، جب ایک باڈی ہوگی جس کی کسی بھی درجہ نظام پر بالادستی ہوگی تو مسئوولیت قائم ہوگی اور ہر کس وناکس اس کی جسارت نہیں کر سکے گا، اس کے لئے بھی بورڈ ان کی علمی کارکردگیوں کی بنیاد پر منظور کرے گا کہ کونسا ادارہ تخصصات کے کن شعبہ جات کے کھولنے اور چلانے کا مجاز ہے۔ اس سے مدارس میں ناپید ہوئے تحقیقی ذوق کا بھی احیاء ہوسکتاہے، کیونکہ میری نظر میں تمام تر خرابیوں کی جڑ تعلیمی ذوق کا کم ہونا یا ختم ہوجانا ہے (یہ بات عمومی صورتحال کو سامنے رکھ کر کی جا رہی ہے، ایسا نہیں ہے کہ سب کا یہی حال ہے، لیکن تناسب ۱۰ فیصد بھی شاید نہ ہو، ایسے میں اس کو نا ہونے سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے)، اگر ہم کسی بھی طریقے پر تعلیمی ذوق کو بحال کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بہت سے مسائل کا حل از خود نکل سکتا ہے، جب طلبہ علمی کارگزاریوں میں اپنا وقت صرف کرینگے تو فطری طور پر اس سے متعلقہ تمام تر اوصاف کا ظہور ان کی شخصیات میں ہونا شروع ہوجائے گا، نیز ہم دنیا میں موجود تعلیمی مراکز کے سامنے اپنا علمی تشخص بھی قائم رکھ سکینگے اور اپنے میدان میں علمی خدمات بھی نمایاں طریقے پر انجام پائینگی، اسی سے ہمارے درمیان ایسے افراد بھی نکلینگے جن کو آپ معاصر علمی درسگاہوں کا رخ کر واسکتے ہیں اور عالمی مقامات پر وہ نمایاں خدمات انجام دے سکیں گےاور دین اسلام کا صحیح پیغام جامع اور مستحکم انداز سے عالمی سطح پر پیش کر سکینگے، اس پر یہ سوال کرنا میرے حساب سے بے محل ہے کہ ماضی میں ہمارے بڑے تو بغیر اس قسم کے کسی نظام یا بندش کے وجود میں آئے، اور اس کی ضرورت پہلے کیوں نہیں محسوس کی گئی؟ کیونکہ اس جانب میں نے شروع ہی میں اشارہ کیا تھا کہ نفسیات، ذوق، دلچسبیاں، ترجیحات، ماحول سب کچھ بدل گیا ہے، اس کا اثر ہمارے مدارس پر بھی پڑا ہے اور پڑے گا آپ خواہ اپنی دیواریں کتنی بلند وبالا کیوں نہ کرلیں، اسلئے ایسے میں اگر ان پیچیدہ اور بنیادی مسائل کا حل ہے تو وہ صرف علمی ذوق کو بیدار کرنا ہے، اس کے لئے ایک سبیل کی حد تک یہ ایک رائے ذہن میں آتی ہے، کیونکہ معاصر درسگاہوں میں یہ طریقہ کار مجرب ہے CBSE Board, ICSE Board ودیگر علاقائی بورڈ موجود ہیں جو تعلیمی نگہ داشت کا کام انجام دیتے ہیں یہ اگرچہ حکومتی سطح کے ادارے ہیں اور ہم یہاں پر بات کر رہے ہیں غیر سرکاری وفاق کی، ان کی تعلیمی کارکردگی تمام تر اخلاقی گراوٹ کے باوجود اپنے مقاصد کی روشنی میں اسی لئے بہتر ہے کہ ان اداروں کی ایک تو مانٹرنگ ہے اور دوسرے ان کے درمیان باہمی تنافس ہے، ہر ایک سبقت لے جانے کے اصول پر کاربند ہے کہ کیسے اپنے آپ کو نمایاں طور پر پیش کرے، اپنے ادارے کی کارکردگی کو کس طریقے سے منظر عام پر لائے، اس کے لئے وہ اپنے نظام کے مطابق علمی کارکردگی پر خصوصی توجہ دیتے ہیں، ہمارے یہاں مذہب اسلام میں اخلاقیات کے مستحکم ومنضبط اصول موجود ہیں امید ہے اس علمی ماحول کے پیدا ہونے کے نتیجہ میں اس میں بھی مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں، جبکہ خود پڑوسی ملک پاکستان میں اس کی شاندار نظیر موجود ہے وہاں وفاق المدارس (جو کہ غیر سرکاری وفاق ہے) جس طریقے سے ان امور کو انجام دے رہا ہے، اس سے بھی راہنما اصول وضوابط اخذ کئے جا سکتے ہیں اور یہاں کے مقامی احوال و کوائف کے تناظر میں مثبت تبدیلیوں کے ساتھ ایسا قابل عمل منصوبہ تیار کیا جا سکتا ہے، یہ مربوط تعلیمی نظام وہاں سن ۱۹۵۹ سے قائم ہے، جس کی نظیر ابھی شاید ہی کسی اور ملک میں ملے۔

جہاں تک خارجی مسائل ہیں وہ بھی بڑے سنگین ہیں، جس کے لئے اس طرف پیش رفت ضروری ہے قبل اس کے کہ آپ پر کسی غیر مطلوب نظام کو بالجبر قانونی دوائر میں رکھ کر آپ کی داخلی وخارجی مصالح کے برخلاف مسلط کیا جائے اور تھوپا جائے، وقت رہتے آپ اس کا متبادل تلاش کریں ورنہ وہ وقت دور نہیں ہے کہ آپ پر حکومت کی جانب سے اس قسم کی پابندیان عائد ہوں اور یہ بعید از قیاس بھی نہیں ہے کہ اس طرح کے کسی نظام کے ساتھ مربوط کیا جائے، اس لئے بہتر ہے کہ از خود اس کے متبادل نظام کی ترتیب بنائی جائے، اور اس کو اپنے مدارس کے تعلیمی وتربیتی نظام کی افادیت واستحکام کے لئے استعمال کریں، یہ بات جو کہی جا رہی ہے اس کے پیش نظر میرے سامنے حکومت کی جانب سے مجوزہ تعلیمی پالیسی (National Education Policy Draft) ہے، تعلیمی پالیسی ملک میں وقتا فوقتا اپنی جزوی ترمیم کے ساتھ لاگو ہوتی رہی ہے، آج سے پہلے بھی کئی مرتبہ ملک کے تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے تعلیمی پالیسی میں مختلف سطح پر تبدیلیاں لائی گئی ہیں، اور ان تجاویز پر مختلف مراحل میں غور بھی ہوا ہے، سب سے پہلے سن 1968 میں تعلیمی پالیسی بنائی گئی، پھر اس میں سن 1986 میں مزید کچھ اصلاحات ہوئیں، سن 1992 میں اس موضوع پر مزید نظر ثانی کی گئی، اور پھر گزشتہ حکومت کی جانب سے سن 2005 میں اس موضوع پر کام ہوا، اب 2019 کی مجوزہ قومی تعلیمی پالیسی زیر بحث ہے، جس کو ڈاکٹر کستوری رنگن صاحب کی زیر نگرانی مختلف ماہرین کی شمولیت کے ساتھ تیار کیا گیا ہے، جس میں ملک کے تعلیمی نظام میں جہاں بہت سی اصلاحات کی بات کہی گئی ہے اور اس کے لئے مختلف ماہرین سے تجاویز بھی طلب کی گئیں ہیں، وہیں عمومی سطح پر تعلیم کو ایک سیاسی ادارے کے ما تحت کرنے کی بات بھی کہی جا رہی ہے، یعنی پی ایم او کے ما تحت کیا جا رہا ہے جس کے معنی ہیں کہ وہ ایک سرکاری آفس کے ما تحت کام کرے گا، آج سے پہلے اس کی نوعیت اس سے مختلف تھی، ظاہر ہے اس کے اثرات کا ان مدارس پر پڑنا بعید از امکان نہیں کیونکہ بہر حال ہم سب اس ملک کے باشندے ہیں ایسے میں جو اسٹرکچر نافذ ہوگا اس کا اثر اقلیتوں کے تعلیمی نظام پر بھی دیکھنے کو ملے گا، مدارس کے تعلق سے بھی بعض تجاویز کا اس میں تذکرہ ہے، جس میں مدارس کے لئے جو نکات زیر غور ہیں وہ بہت حد تک متنبہ کرنے کے لئے کافی ہیں، بالخصوص مدارس ودیگر مذہبی درس گاہوں کے تعلق سے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس کو قومی دھارا سے جوڑا جائے اور اس کو یقینی بنایا جائے، رپورٹ کے الفاظ کچھ یوں ہیں ”Existing traditional or religious schools, such as madrasas, maktabs, gurukuls, pathshalas and religious schools from other communities may be encouraged to preserve their tradations and pedagogical style, but at the same time must be supported to also integrate the subject and learning areas prescribed by the National Curricular Framework…“ اس سے آپ کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کس رخ پر سوچ رہی ہے، ان کا ایجنڈا صاف اور واضح ہے کہ تمام مذہبی درسگاہ بشمول مدارس ومکاتب کو ملکی تعلیمی اسٹرکچر National Curricular Framework سے جوڑا جائے، اس کے لئے وہ آپ کے نصاب میں بھی تبدیلیاں لاسکتے ہیں۔
اس ضمن میں بہت سی چیزیں ہیں جو ان اداروں پر نافذ ہو سکتی ہیں، اگر وقت رہتے ہم نے اس سمت کوئی مثبت اقدام نہ کیا تو اس کا بڑا نقصان ہو سکتا ہے، اگر اس طرح کا کوئی وفاق ہوگا تو اپنا موقف مضبوطی کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے بنسبت اس کے کہ ہر ادارہ اپنے مسائل تن تنہا انفرادی سطح پر پیش کرے،منتشر علمی فکری اداروں اور نظام کو یکجا اور متحد کرنے کی صورت میں گفتگو کی نوعیت بدل سکتی ہے، یہ نظام جہاں مدارس کے ما بین توافق ورابطے کی شکلیں استوار کرنے میں معاون وممد ثابت ہوگا، وہیں دوسری جانب اس کے ذریعہ نظام تعلیم وامتحانات میں بھی یک جہتی آسکتی ہے، باہر بہت سے ممالک میں مختلف حکومتوں کی جانب سے اس ماڈل کا تجربہ بھی کیا گیا ہے جس کی جانب اوپر رپورٹ میں تذکرہ ہوا اور نافذ بھی ہو چکا ہے، اسلئے اس وقت یہ سوچنا کہ یہ بعید از امکان بات ہے حقائق سے منھ پھیرنے کے مترادف ہے، بیشتر یوروپین ممالک کےمدارس کے نظام کو اگر آپ سامنے رکھیں تو وہاں حکومت کی جانب سے وہ پابند ہیں کہ مذہبی تعلیم آپ کو دینی ہے دیجئے لیکن ان کے لئے قومی دھارا سے جڑنا ضروری ہے اور ہر طالب علم کے لئے O لیول کرنا لازم ہے، اس کو پورا نہ کرنی کی صورت میں ادارے پر بلکہ بچے کے گھر والوں تک پر بھی کارروائی ہوسکتی ہے، اور ان کو بہت سی حکومتی مراعات سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے، اسلئے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان مدارس کے تعلیمی نظام کو مداخلت سے بچایا جائے تو ایسے میں اس جانب ہم سب کو مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے غور وخوض کرنا ہوگا، ایسے میں اب یہ صرف خدشات نہیں بلکہ اس سے کہیں آگے کا معاملہ ہے، اور دور رسی کا تقاضہ ہے کہ ہم اس جانب سنجیدگی سے غور کریں، ضروری نہیں ہے کہ طریقہ کار وہی ہو جو یہاں ذکر کیا گیا ہے، بلکہ بنیادی طور پر مسئلہ کی حساسیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کے مطابق لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے، طریقہ کار کچھ بھی ہوسکتا ہے، اس تحریر سے مقصد صرف اسی جانب توجہ مبذول کرانا ہے، رہا طریقہ کار تو اس پر باضابطہ نئے سرے سے بھی غور کیا جاسکتا ہے۔
کوئی رائے یا کوئی فکرہ ظاہر ہے کہ اتفاق واختلاف اور نقد وتبصرے سے مبرا نہیں ہے، چنانچہ اس سلسلے میں جو بھی رائے، اصلاحات اور تجاویز آپ حضرات کے ذہن میں آئیں اس کو تحریر فرمائیں، تاکہ اس کے مزید قابل عمل اصلاحی پہلو نکھر کر ہمارے سامنے آئیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close