
ملک کی شمال مشرقی ریاست تریپورہ میں اقلیتی فرقے کے خلاف بھیانک اور ظالمانہ کارروائی کئے جانے کی خبروں نے انسانیت نواز عناصر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ،حکومت،انتظامیہ اور پولیس کی پشت پناہی میں جو کارروائی ہوئی ،جس میں سینکڑوں افراد کو بے گھر کردیاگیا اور متعددلقمہ اجل بن گئے ،اس سے قبل آسام میں بھی یہی صورتحال پیدا ہوئی تھی،ان واقعات سے ملک بھر کے مسلمانوں میں تشویش کی لہر پیدا ہونالازمی بات ہے۔اس کے ساتھ ساتھ لکھنئو میں بیٹھا وسیم رضوی روزانہ قرآن مجید کی توہین اور حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرتا رہتا ہے دیکھا گیا ہے کہ ان دوتین سال میں پولیس اور انتظامیہ نے کبھی بھی اس کے خلاف کارروائی نہیں کی حالانکہ ملک بھرمیں سینکڑوں مرتبہ اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی اور یہاں تک ممبئی اور مہاراشٹر پولیس نے وسیم رضوی کے خلاف کارروائی میں کوئی خاص دلچسپی دکھائی ہوکہ وسیم رضوی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے ،یہی پولیس تبلیغ جماعت کے اراکین کے خلاف کافی سرگرم رہی ہے۔اور آج تبلیغی بری کئے جارہے ہیں تو یہ لوگ بغل جھانک رہے ہیں۔
تریپورہ کے واقعات کی مذمت کرنے اور وسیم رضوی کے گستاخی کے خلاف بطور پہلی بار بند کا اعلان کیا گیا جوکہ پہلے ممبئی تک محدود تھا،لیکن پھر اس میں ممبئی سمیت مہاراشٹر کےامراوتی ،ناندیڑ اور مالیگاوں ودیگر شہر بھی شامل ہوگئے اور اس بند کے دوران کشیدگی پھیل گئی اور اس کی وجہ سے پولیس نے احتیاط کے طور پر ریاست کے کچھ اضلاع میں کرفیو بھی نافذ کر دیا تھا۔ریاست کے حساس علاقوں میں گشت بڑھا دیا گیا اورکئی شہروں میں اتوار سے کرفیو نافذ کر دیا گیاتھا۔
دوسرے دن بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) نے اس تشدد سےسیاسی فائدہ اٹھانے اور ادھو سرکار کو سبق سکھانے کی غرض سے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے زبردستی بند کروایا اور پولیس سے بی جے پی لیڈروں اور ورکروں کاتصادم ہوگیا۔جعسنگین صورتحال اختیارکرگیا۔
مہاراشٹرمیں مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) کی مخلوط حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ آ ئند ہ چند مہینوں میں اتر پردیش اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس کے پیش نظر اس لیے اس کشیدگی کو بی جے پی کی سازش ہے،اس کے برعکس بی جے پی رہنماؤں نے اسے ریاستی حکومت کی ناکامی قرار دیاہے۔لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ مہاراشٹر میں یہ صورتحال اچانک کیوں پیدا ہوئی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کیوں بڑھ گئی ہے اورعوام کی اکثریت نےاس کے پیچھےسیاسی وجوہات تلاش کرنا شروع کردی ہے۔
مہاراشٹرمیں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہونے کےاسباب جاننے کے لیے حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے،واضح رہیکہ ودربھ کے امراوتی شہر میں 12 نومبر کے تشدد کے بعد 17 نومبر تک کرفیو نافذ کر دیا گیا،یہاں کے پٹھان چوک، اتوارا بازار، چترا چوک اور دیگر حساس علاقوں میں بڑی تعداد میں پولس فورس کو تعینات کردی گئی۔دراصل تریپورہ میں تشدد اور وسیم رضوی کی مذہب اسلام ،قران مجید اور رسول اللہ کی شان میں گستاخی کے خلاف ممبئی کی ایک تنظیم رضا اکیڈمی نے بند کااعلان کیا ،لیکن دوسرے شہروں میں تنظیم کے ماننے والوں نے 12 نومبر کو مالیگاؤں میں بھی بند کا اعلان کیا تھا۔بند کے دوران دوپہر تک امن رہا،لیکن اس کے بعد پتھراؤ کے واقعات بڑھ گئے۔
تریپورہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعہ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے امراوتی کے ضلع مجسٹریٹ کے دفتر کے سامنے ایک احتجاجی مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ احتجاج میں ہزاروں مظاہرین نے شرکت کی۔ تاہم جب احتجاج پرتشدد ہوا تو شہر میں کشیدگی بڑھ گئی۔مالیگاؤں میں رضا اکیڈمی سمیت مسلم تنظیموں نے بند کااعلان کیا تھا۔اور تریپورہ میں تشدد کے ملزمین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیااور بند دوپہر تک پرامن طور پر جاری رہا۔لیکن پھر ایک بھیڑ جمع ہو گئی۔ انہیں اجازت نہیں دی گئی تھی، انہوں نے توڑ پھوڑ کی اور ایک اسپتال اور کچھ دکانوں کو نقصان پہنچایا،جب تک حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش کی گئی، تقریباً تین سے چار ہزار لوگوں کا ہجوم جمع ہو چکا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا۔اس کارروائی میں تین پولیس اہلکار اور سات پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
واضح رہے کہ گزشتہ چندہفتوں کے دوران ملک کی شمال مشرقی ریاست تریپورہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی صورتحال دیکھی گئی، اسے بنگلہ دیش میں تشدد کے ردعمل کے طور پر دیکھا جا رہاتھا۔ بنگلہ دیش میں دسہرہ کے موقع پر دیوی کے پنڈال میں قرآن کی توہین کے بعد تشدد پھوٹ پڑاتھا۔
امراوتی تشدد کے معاملے میں،یہاں کی پولیس نے پیر کو بی جے پی لیڈر اور سابق وزیر انل بونڈے کو گرفتار کیا۔ پولیس نے بی جے پی لیڈر تشار بھارتیہ اور میئر چیتن گاوندے کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔پولیس نے ایم ایل اے پروین پوٹے اور ایم پی کوبھی گرفتارکیاہے۔دراصل پولیس نے کرفیو کے دوران حملے کے سلسلے میں ان بی جے پی لیڈروں کو گرفتار کیاہے۔ امراوتی میں پولس فورس کو حساس علاقوں میں تعینات کیا گیا ہے۔ پولیس نے واضح کردیا تھاکہ ہم سماجی خلفشار پیدا کرنے والوں کو نہیں بخشیں گے۔ لوگوں سے خوف و ہراس کے بغیر امن برقرار رکھنے کی اپیل بھی کی گئی ہے۔
مہاراشٹر کے فساد کے بعد سیاسی حلقوں میں اور سنئیر وزیر نواب ملک نے ان فسادات کو مہاوکاس اگھاڑی حکومت کو گرانے کی سازش قراردیا ہے۔دوسال سے حالات پرامن رہے ہیں۔اچانک تشدد پھوٹ پڑنے پرسوال یہ پیدا ہوا ہے کہ ریاست میں تشدد کے پیچھے کونسے عناصر کارفرما ہیں، مہاوکاس اگھاڑی کے لیڈروں اور وزراء نے اس کو لے کر بی جے پی کو نشانہ بنایا ہے۔جیسا سے پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ این سی پی لیڈر اور وزیر نواب ملک نے بی جے پی کو موردالزام ٹھرایا ہے۔انہوں نے بی جے پی آشیش شیلاراور رضا اکیڈمی کے عہدیداران سے ملاقات کی ایک تصویرجاری کی ہے، آشیش شیلار نے تصویرکو 2016- کی قراردیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مہاوکاس اگھاڑی کی ناکامی پرانی تصویر سے چھپائی نہیں جا سکتی۔ تصویروں کا کھیل بند ہونا چاہیئے۔اس معاملہ میں رضا اکیڈمی نے سختی سے تردید کی ہے جبکہ شیوسینا ترجمان سنجے راوت کے بیان سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ رضا اکیڈمی اتنا اثرورسوخ اور طاقت نہیں رکھتی ہے کہ وہ مہاراشٹر میں فسادات بھڑکاسکے۔
برسراقتدار محاذ کا عام طور پر الزام رہا ہے کہ بی جے پی مہاراشٹر میں عدم استحکام اور کشیدگی پیدا کرناچاہتی ہے ،یہ اسی سازش کا نتیجہ ہے اور اس معاملے میں کانگریس نے بھی بی جے پی کو نشانہ بنایا ہے۔ کانگریس کے ریاستی صدر نانا پٹولے نے الزام لگایا کہ بی جے پی فسادات بھڑکا کر انتخابی فائدہ اٹھانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔دراصل اتر پردیش سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ تریپورہ واقعہ کے تحت بی جے پی مہاراشٹر میں فسادات بھڑکانے اور اتر پردیش میں سیاسی ہلچل پیدا کرنے کی سازش کر رہی ہے، بی جے پی گزشتہ دو برس میں مہاراشٹر میں ایک مستحکم حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ ایک سازش کے تحت مہاراشٹر میں بدامنی پھیلانے کے لیے بی جے پی نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ بی جے پی کا مقصد ملک کے اہم مسائل سے توجہ ہٹانا ہے تاکہ عوام مہنگائی اور بے روزگاری کو بھول جائیں۔فساد بی جے پی کی رچی سازش کا نتیجہ ہے۔
مہاوکاس اگھاڑی کے لیڈروں کا الزام ہے کہ اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے پس منظر میں اس طرح کے واقعات کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ اتر پردیش کے انتخابات فرقہ وارانہ پولرائزیشن پر مبنی ہوں گے، لیکن مہاراشٹر کے حالات کی ذمہ دار ریاستی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔اتر پردیش کے انتخابات میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا استعمال کیا جائے گا۔ انتخابات کے دوران اس طرح کی کوششیں غیر معمولی نہیں ہیں۔ لیکن ریاست میں امن و امان برقرار رکھنا،ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ فسادات سے پاک ریاست حکومت کا کام ہے۔ بی جے پی تو مہاراشٹر کی ادھوٹھاکرے کی قیادت میں مہاوکاس اگھاڑی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے پرایک حربہ استعمال کرنے کے لیے بے چین ہے۔