اسلامیات

خلاصہ پارہ نمبر 02

تلخیص: مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی صاحب

02 رمضان 1445ھ
دوسرا پاره
تلخیص: مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی صاحب
دوسرا پارہ سیقول” سے شروع ہے ، اس پارہ میں چار باتوں کا ذکر ہے: (۱) تحویل قبلہ (۲) نیکی کے سلسلہ میں آیات (۳) قصہ طاعون (۴) قصہ طالوت تحویل قبلہ کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینہ ہجرت کے بعد سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس قبلہ رہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش رہی کہ خانہ کعبہ قبلہ ہو ، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خواہش پوری کی اور قبلہ بیت المقدس سے بیت اللہ یعنی کعبہ کر دیا گیا ، لیس الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِب الخ (البقرہ ۱۷۷) سے نیکیوں کا ذکر ہے ، اس میں احکام عقائد، عبادات، معاملات ، معاشرت اور اخلاق اجمالی طور پر بیان کیے گئے ہیں، صفا و مروہ کی سعی، مردار ، خون، خنزیر کے گوشت اور غیر اللہ کے نام پر نام زد کیے گئے جانوروں کی حرمت کا بھی ذکر ہے۔ قصاص ، وصیت ، روزے ، اعتکاف ، حرام کمائی، قمری تاریخوں کے ذریعہ حساب اور اس کی اہمیت ، حج ، اللہ کے راستہ میں خرچ کا ثواب ، شراب اور جوا کی حرمت مشرکین سے نکاح، طلاق، عدت، رضاعت مہر وغیرہ کے احکامات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں ، اس کے بعد ماہ رمضان کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ قرآن کریم اسی مبارک مہینہ میں نازل کیا گیا ، اس پورے مہینہ میں روزہ رکھنا فرض ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی کہ میں تم سے بہت قریب ہوں، جو کچھ مانگنا ہے مجھ سے مانگو، میں دعا قبول کرتا ہوں، پھر اعتکاف کا حکم دیا گیا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرو، اس کے بعد چاند کے بارے میں بتایا گیا کہ چاند سے تاریخ معلوم ہوتے ہیں، پھر حج کا بیان ہے کہ حج اسلام کے بنیادی ارکان میں اہم رکن ہے، یہ فرض ہے سے اہم اس میں نہ تو کوئی گناہ کا کام کرے ، اور نہ کوئی آپس میں لڑائی جھگڑا کرے، پھر حیض کا بیان ہے کہ یہ گندگی ہے، ایسی حالت میں عورتوں کے ساتھ ہمبستری کرنا حرام ہے، اس کے بعد طلاق اور رضاعت کا بیان ہے ، اس سورت میں اس کا بھی بیان ہے کہ جب کسی قوم نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو اللہ نے ان پر طاعون کی بیماری بھیج دی، اسی طاعون سے بچنے کے لیے وہ دوسرے شہر چلے گئے، مگر اللہ تعالیٰ نے وہاں بھی ان کو اپنی گرفت میں لے لیا اور موت کے شکار ہو گئے ، اسی طرح یہ تعلیم دی گئی کہ اللہ کی گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا ہے، انسان جہاں کہیں رہے اللہ اس کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے، اس لیے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی سے بچنا چاہیے، اس سورت میں طالوت کے واقعہ کو بھی بیان کیا ہے، طالوت کے پاس لشکر کم تھے، مگر اس کو اللہ کی تائید حاصل تھی ، اس لیے طالوت نے جالوت کے لشکر کو اللہ کے حکم سے شکست دی ، اس لیے فتح و شکست کا تعلق تعداد کی کمی یا زیادتی پر منحصر نہیں ، بلکہ اس کا تعلق اللہ کی نصرت اور مدد سے ہے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ فوج اور جماعت کم ہوتی ہے، مگر اس کے ساتھ اللہ کی مدد شامل ہوتی ہے اس لیے کم تعداد والے لوگ زیادہ تعداد والوں پر فتح حاصل کر لیتے ہیں ، اس لیے جب دشمنوں سے مقابلہ ہو تو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے، اسی سے نصرت اور فتح کی دعا کرنی چاہیے، وسائل تو اسباب ہیں ان کو مہیا کیا جائے ، مگر بھروسہ اللہ پر ہو، تب ہی کامیابی حاصل ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close