مسلمان روز اول سے اسلامی قوانین، قرآنی ہدایات اور نبوی ارشادات کا پابند ہے، اسلام مخالف دوسری تہذیبوں، رسم ورواج اور طور طریقوں کو نہ قبول کرنا ایک کامل مسلمان کی علامت،اس کا فخر اور امتیاز ہے؛ کیوں کہ اسلام ایک کامل ومکمل، ابدی اور آفاقی مذہب ہے، زندگی کے کسی گوشہ میں وہ اپنے ماننے والوں کو تنہا نہیں چھوڑتا ، اس کی تعلیمات ہر موڑ پر رہنمائی کرتی ہے، لہذا کسی موقع پر بھی اسلام کے خوبصورت نظام کے بجائے کسی دوسری تہذیب کو عملی طور پر اختیار کرنا، یہ اسلام پر اس غیر تہذیب کو ترجیح دینے کے مترادف ہے، جو ایک مسلمان کی شایان شان کبھی نہیں ہو سکتا۔
اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے علاقوں میں بہت سی چیزوں میں ہمارے بعض مسلمان جانے انجانے میں اسلام مخالف طور طریقوں کو اپنائے ہوئے ہیں اور اسلامی طریقہ ان کی زندگی سے دور جا رہا ہے؛ مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر بہت سی ہندوانہ رسمیں ہمارے مسلم معاشرہ میں دبے پاؤں آگئی ہیں اور ہمارے نبی ﷺ کے طریقے غائب ہو رہے ہیں؛ چنانچہ بعض مسلم علاقوں میں بارات کا غیر معمولی انتظام کیا جا رہا ہےاور دوسری جانب ولیمہ کی سنت آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے، دولہے والے اپنے تمام متعلقین، رشتہ دار اور احباب کو صرف بارات میں مدعو کرتے ہیں اور لڑکی والوں سے اچھے انتظامات کا مطالبہ کرتے ہیں؛ بلکہ ان پر دباؤں ڈالتے ہیں، ناشتہ، ریفریشمنٹ، مشروبات سے لے کر کھانے کی انواع اور میٹھے کی اقسام سب کی لڑکے والوں کی طرف سے لسٹ تھما دی جاتی ہےاور لڑکی والے چار وناچار تمام انتظامات کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، حتی کہ بعض تو بارات لانے، لے جانی والی گاڑیوں کا خرچ بھی کسی اور نام سے لڑکی والوں سے ہی وصول کرلیتے ہیں، اسی طرح باراتیوں کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے، دو سو، ڈھائی سو اور اس سے بھی زیادہ بارات لے کر جاتے ہیں۔
جب کہ اسلام میں نہ صرف یہ کہ اس کی کہیں سے کہیں تک کوئی اجازت نہیں ہے، بلکہ اس میں اسلامی تعلیمات کے اعتبار سے بہت سی غلط باتیں ہیں، اسلام ناحق کسی کے مال کو کھانے اور استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا؛ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالی نے بالکل صراحت کے ساتھ فرمایا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (سوره نساء: 29)
اے ایمان والوں! تم ایک دوسرے کا مال ناحق طریقہ پر مت کھاؤ، مگر یہ کہ وہ مال تمہاری آپسی رضامندی کی تجارت سے تمہیں حاصل ہو، (اور ایسا کر کے ) تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو، بے شک اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔
اور اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالی نافرمانوں اور خلاف ورزی کرنے والوں کو وعید کے انداز میں فرماتے ہیں کہ جو اللہ کی اس ہدایت کے باوجود اس پر عمل نہیں کرے گا اور ایک دوسرے کے مال کو ناحق استعمال کرے گا، تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا. (سوره نساء: 30)
اور جو اس طرح کی ظلم وزیادتی کرے گا تو ہم اس کو جہنم کی آگ میں پہنچادیں اور یہ عمل اللہ کے لیے بالکل آسان ہے۔
اسی طرح نبی پاکﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي خُطْبَتِهِ فِي حَجَّتِهِ: «أَلَا وَإِنَّ الْمُسْلِمَ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَحِلُّ لَهُ دَمُهُ وَلَا شَيْءٌ مِنْ مَالِهِ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسِهِ، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟»، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: «اللَّهُمَّ اشْهَدْ». (سنن الدار قطني، كتاب البيوع، حديث نمبر: 2881)
ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا: سنو! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس کا خون حلال ہے اور نہ اس خوش دلی کے بغیر اس کا مال دوسرے مسلمان پر حلال ہے۔ کیا میں نے پیغام پہنچادیا؟ صحابہؓ نے عرض کیا : جی، اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: اے اللہ آپ گواہ رہیے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے صحابہ کے اب تک کے سب بڑے مجمع میں انتہائی بلیغ اور جامع خطبہ دیا تھا، جس میں پوری اسلامی تعلیمات کا خلاصہ اور اس کی انتہائی اہم اور بنیادی باتیں بیان فرمائی تھیں اور آپ ﷺ نے صحابہؓ سے اعتراف بھی کروایا تھا کہ میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچادیا نیز اس اقرار اور اعتراف پر اللہ کو گواہ بھی بنایا تھا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس خطبہ میں کتنی اہم باتیں بیان فرمائی ہوں گی، انہیں پیغامات میں اللہ کے نبی ﷺ کا ایک پیغام یہ ہے ’’ ایک مسلمان کا مال اس کی رضا مندی بلکہ خوش دلی کے بغیر دوسرے مسلمان کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔
اب ہم غور کریں کہ بارات کا کھانا جو لڑکے والے، ان کے متعلقین اور رشتہ دار واحباب کھاتے ہیں، یہ کھانا جو لڑکے والوں کے مطالبہ پر، یا معاشرے کے دباؤ میں تیار کیا گیا ہے، کیا اس کا کھانا حلال اور طیب ہے ؟ اور اگر کہیں بالفرض نہ معاشرے کا دباؤ ہو اور نہ ہی لڑکے والوں کی ڈمانڈ ہو؛ پھر بھی ایک غلط رسم کی وجہ سے یہ کھانا درست نہیں ہوسکتا۔
آج کل بعض مسلمان بڑے فخر سے اپنے متعلقین کو بارات کی دعوت دیتے ہیں، لڑکی والوں کے پیسے اور ان کے انتظامات سے اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں، لڑکی والوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ہماری حیثیت کے مطابق انتظامات کیے جائیں؛ بلکہ بسا اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ اپنی حیثیت سے بھی زیادہ کا مطالبہ کرتے ہیں؛ گویا سارے ارمان لڑکی والوں کے پیسے پر ہی پرپورے کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں، یعنی جو چیز عیب اور شرمندگی کی ہے، وہ فخر اور بڑائی کی ہوگئی، یہ کیسی بے شرمی کی بات ہے۔
نیز یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگ لڑکی والوں سے تو عمدہ انتظامات، معیاری استقبال اور لذیذ کھانوں کا مطالبہ کرتے ہیں؛ لیکن جب ولیمہ کرنا ہوتا ہے تو پھر خانہ پری اور صرف ادائے رسم پر اکتفا کرتے ہیں، نہ استقبال کے معیاری انتظامات اور نہ ہی کھانے میں انواع واقسام اور نہ مدعووین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ، یعنی بس رسمی سا ولیمہ کرکے ذمہ فارغ کر لیتے ہیں۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر بعض مقامات پر ولیمہ کی سنت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہے، لڑکے والے بارات میں ہی اپنے تمام مہمانوں کو مدعو کرلیتے ہیں اور اسی پر اکتفا کرتے ہوئے ولیمہ غائب کردیتے ہیں، جب کہ ولیمہ نبی پاک ﷺ کی سنت ہے، اس سے نکاح میں برکت ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اپنے تمام نکاح کے بعد ولیمہ کیا ہے اور امت کو بھی اس کی تاکید فرمائی ہے؛ چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: «أولم ولو بشاة» (صحيح بخارى، حديث نمبر: 2048)
رسول الله ﷺ نے عبد الرحمن بن عوف سے فرمایا: ولیمہ کرو؛ چاہے ایک بکری کا ہی کیوں نہ ہو۔
أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: «مَا أَوْلَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهِ أَكْثَرَ – أَوْ أَفْضَلَ – مِمَّا أَوْلَمَ عَلَى زَيْنَبَ» (صحيح مسلم، حديث نمبر: 1428)
حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب کا ولیمہ جتنا عمدہ اور وسیع کیا تھا، اتنا کسی زوجہ کے نکاح کے وقت نہیں کیا۔
لہذا ولیمہ ہمارے نبی ﷺ کی سنت اور برکت والی دعوت ہے، اس سے نکاح میں برکت ہوتی ہے، اس مبارک دعوت کو ہم نے چھوڑ دیا اور بارات کی دعوت کو رواج دینے لگے، اس پر زیادہ توجہ دینے لگے، بالکل صحیح ہے کہ جہاں کوئی غلط چیز رواج پا جاتی ہے، وہاں سے سنت اپنا منہ موڑ لیتی ہے؛ اسی لیے بارات کی نحوست کی وجہ سے ولیمہ کی سنت ہمارے معاشرے سے رخصت ہورہی ہے، جس کا وبال بھی مختلف صورتوں میں ہمارے معاشرے میں ظاہر ہو رہا ہے، کسی گھر میں سکون نام کی چیز نہیں، والدین کو لڑکے اور اپنی بہو سے تکلیف رہتی ہے، اولاد کو والدین کے رویہ سے شکایت رہتی ہے۔یہ ہمارے لیے لمحہ فکر اور مقام عبرت ہے، ہمیں اپنے رویہ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کی سنت کے پابند ہیں؛ لہذا ہمیں بارات کی رسم کو ختم کرنے اور بارات میں شرکت سے اجتناب کرنے کی ضررورت ہے، کہیں بدرجہ مجبوری شرکت بھی کرنی پڑے تو ہم عہد کرلیں کہ بارات کا کھانا نہیں کھائیں گے، کوئی بارات کی دعوت دے تو اس سے کہیں کہ آپ ہمیں ولیمہ کی دعوت دیجیے ہم اس میں شرکت کریں گے ان شاء اللہ، اور بارات میں جانے سے معذرت کردیں، اسی طرح لڑکے والوں کو بھی چاہیے کہ اپنے لڑکے کی شادی کی برکت کی خاطر اس بری رسم پر عمل نہ کریں، ان شاء اللہ اللہ تعالی اس شادی کو بابرکت بنائے گا اور لڑکی والوں کے دل سے بھی دعا نکلے گی اور اگر کوئی لڑکے والے بارات پر مصر ہوں تو گاؤں کے بڑے لوگوں کے ساتھ مشورہ کر کے انہیں سمجھایا جائے اور اس معاملہ کو حل کیا جائے، نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ شادی کے موقع پر اپنی غیر اسلامی خواہشات پر کنٹرول رکھیں، خود اپنی شادی ہو یا اپنے دوست واحباب کی، سب میں بارات کی نحوست سے پرہیز کریں، ان شاء اللہ اس کے خوشگوار نتائج معاشرے میں ظاہر ہوں گے، بہت سے تنازعات اور اختلافات اس کی برکت سے ختم ہوجائیں گے۔ اللہ تبارک وتعالی ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے گھروں کو سکون و اطمینان، اتحاد واتفاق اور خیر وبرکت کا گہوارہ بنائے۔ آمین!