اسلامیات

بچہ کے کان میں اذان و اقامت کا بیان

قسط نمبر (2) (حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)

الحمدُ للّٰہِ ربِّ العٰلمین، الرَّحمٰنِ الرَّحیم، والصَّلوٰۃُ والسَّلامُ علیٰ رسولہِ الکریمِ۔
جب بچہ پیدا ہو تو مستحب ہے کہ پہلے اس کو غسل دے اور پاک، سفید کپڑے میں لپیٹ کر قوم کا بزرگ آدمی اس کے دائیں کان میں اذان اور اس کے بائیں کان میں اقامت (تکبیر) کہے۔ (کنز العباد)
ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، تو آں حضرت ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے کان میں اذان دی۔ (ترمذی و ابوداؤد)
اور مفتاح النجاۃ میں صاف لکھا ہے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھما کی پیدائش کے بعد آں حضرت ﷺ نے ان کے دائیں کان میں اذان دی اور بائیں کان میں اقامت کہی۔
اور سیوطی نے جامع صغیر میں مسند ابی یعلی سے نقل کیا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس کسی کو لڑکا پیدا ہو، پھر اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے، تو اس لڑکے کو ام الصبیان کی بیماری نقصان نہ کرے گی۔ ام الصبیان مختلف قسم کی ہوتی ہے، جس میں اکثر بچے مر جاتے ہیں۔
اذان کے الفاظ وہی ہوں گے، جو اذان میں کہے جاتے ہیں اور حیَّ علیٰ الصلاۃ کہتے وقت دائیں طرف منھ پھیرے اور حیَّ علیٰ الفلاح کہتے ہوئے منھ بائیں طرف پھیرے ۔ اور اقامت میں حیَّ علیٰ الفلاح کے بعد قد قامت الصلاۃ بھی کہے۔ (رفاہ المسلمین)
اور اقامت کے بعد یہ دعا پڑھے:
أللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ بَراً تَقِیِّاً وَّ أنْبَتَہُ فِی الْاِسلامِ نَباتاً حَسَناً
اور اس دعا کی کثرت کرے:
أعِیذُہُ بِاللّٰہِ الصَّمَدِ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ ا8ذا حَسَدَ (شرعۃ الاسلام)
اور نو زائدہ کے کان میں اس آیت کا پڑھنا بھی مستحب ہے ، اگرچہ لڑکا ہو:
أللّٰھُمَّ ا8نِّی أعِیذُھا بِکَ وَ ذُرِّیَتَھَا مِنَ الشَّیْطانِ الرَّجِیْمِ (سفر السعادۃ)
اور( رزین میں) سورہ اخلاص کا پڑھنا بھی آیا ہے۔
تحنیک کا بیان
چھوہارا یا کوئی میٹھی چیز چبا کر یا پیس کر بچے کے تالو میں ملنا مستحب ہے ؛ لیکن چھوہارا افضل ہے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ
أنَّ رَسولَ اللّٰہِ ﷺ کانَ یُؤتیٰ بِالصِّبیانِ، فَیُبَرِّکُ عَلَیْھِمْ وَ یُحَنِّکُھُمْ۔ (مسلم، کتاب الادب، باب استحباب تحنیک المولود)
جب کسی کے لڑکا پیدا ہوتا، تو اس کو پیغمبر خدا ﷺ کی خدمت میں لاتے ۔ آپ ﷺ اس کو برکت کی دعا دیتے اور چھوہارا چباکر اس کے تالو میں ملتے۔حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنھما پیدا ہوئے، تو اس وقت آں حضرت ﷺ نے چھوہارا چبا کر اس کے تالو میں ملا۔ (جامع شتی)
اس طرح سب چیز سے پہلے ان کے شکم میں حضور اکرم ﷺ کا لعاب مبارک پہنچا ۔ اور بخاری کی شرح عینی میں ہے کہ جب لڑکا پیدا ہو، تو اس کو کسی مرد صالح کے پاس لے جائے ۔ وہ چھوہارہ چباکر اس کے تالو میں ملے کہ یہ مستحب ہے ۔ اور سب چیز سے بہتر تمر ہے ، یعنی سوکھی کھجور۔ اور یہ نہ ہو، تو تر کھجور ۔ حضور اکرم ﷺ نے کھجور کو ایمان دار آدمی کے ساتھ تشبیہ دی ہے ،ا س طرح بچے کے پیٹ میں ایمان کی حلاوت داخل ہوگی ۔ اور کھجور نہ ہوتو شہد۔ اور یہ نہ ہوتو کوئی ایسی چیز جو میٹھی ہو اور آگ کا اثر نہ پہنچا ہو، تالو میں ملے۔
نام رکھنے کا بیان
ساتویں دن نام رکھنا مستحب ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لڑکوں کا نام اس کی پیدائش سے ساتویں دن رکھا کرو۔ (ترمذی)
محمد اور احمد نام رکھنا مستحب ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لڑکوں کا نام میرے نام پر رکھو۔ (بخاری و مسلم)
اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جس شخص کا نام محمد ہوگا، آں حضرت ﷺ قیامت کے دن اس کی شفاعت فرماکر جنت میں داخل کریں گے ۔ (حاشیہ رفاہ المسلمین)
اشرف الوسائل شرح الشمائل میں لکھا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اپنی اولاد کا نام قصداً و تاکیداً آں حضرت ﷺ کے ناموں سے رکھے، اس لیے کہ حدیث قدسی میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھ کو اپنی عزت اور جلال کی قسم ، میں اس کو ہرگز آگ میں عذاب نہ دوں گا، جس کا نام تیرے نام کے مثل ہوگا۔ (ابو نعیم)
اور ایک روایت میں اس طرح آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک ذات پر عہد کرلیا ہے کہ جس کسی کا نام محمد اور احمد ہوگا، میں اس کو ہرگز دوزخ میں نہ ڈالوں گا۔
اور طبرانی نے جامع کبیر اور عدی نے کامل میں بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : جس شخص کے تین لڑکے ہوں، پھر ان میں سے ایک کابھی نام محمد نہ رکھا، تو بڑی نادانی کی، یعنی اپنی نادانی سے اتنی بڑی نعمت سے محروم رہا۔
اور سنن ابی داؤود میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ لڑکوں کا نام پیغمبروں کے نام پر رکھا کرو یعنی : محمد، احمد، ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یوسف، موسیٰ ، عیسیٰ وغیرہ۔
اور مشکوٰۃ میں روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عبد اللہ اور عبد الرحمٰن سب ناموں سے زیادہ محبوب ہے۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ سب ناموں میں بہتر وہ نام ہے جو حمد سے مشتق ہو، اور وہ نام جو منسوب بعبدیت ہو، یعنی محمد، احمد، حامد، محمود، عبداللہ ، عبد الرحمٰن ، عبد الکریم، عبد الرحیم، عبد القدوس، عبد السلام وغیرہ۔
اور سنن نسائی اور ابو داؤد میں وھب جُشمی سے منقول ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ اپنے لڑکوں کا نام انبیاء علیھم السلام کے نام پر رکھو۔
احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ جس لڑکے کا نام انبیاء اور ملائکہ علیھم السلام کے نام پر رکھا ہوتو کسی کو جائز نہیں کہ اس لڑکے پر لعنت کرے ، یا گالی دے یا چھوٹا نام حقارت سے زبان پر لائے ؛ البتہ اگر تنبیہہ کے طور پر کچھ کہنا ہی ضروری ہو تو اس کے سامنے کہے :’’ تو ایسا ہے ویسا ہے ‘‘۔ نام لے کر برا نہ کہے کہ فلاں ایسا ہے ویسا ہے ۔ اور جس لڑکے کا نام محمد ہو، اس کی تعظیم و تکریم کرنا چاہیے ، کیوں کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس لڑکے کا نام محمد رکھو، تو اس کی تعظیم کیا کرو۔
پس ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی اولاد کا اچھا نام رکھے ، اس لیے کہ قیامت کے دن انھیں ناموں کے ساتھ پکارے جائیں گے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
تُدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأسْمَاءِکُمْ وَ أسْمَاءِ أبَآءِکُمْ، فَأحْسِنُوْا أسْمَاءَکُمْ (أبو داؤد، کتاب الادب، فی تغیر الاسماء)
قیامت کے دن تم اپنے ناموں اور اپنے باپ کے ناموں سے پکارے جاؤگے، اس لیے اچھے نام رکھا کرو۔
لیکن ایسا نام ہرگز نہ رکھے، جس سے شان یا تکبر ظاہر ہوتا ہے، جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
أخْنَیٰ الأسْمَاءِ یَوْمَ الْقِیَامِۃِ عِنْدَ اللّٰہِ رَجُلٌ تُسَمَّیٰ مَلِکَ الأمْلاکِ (بخاری، کتاب الادب، باب ابغض الاسماء الیٰ اللّٰہ)
قیامت کے دن بد ترین نام اللہ کے نزدیک اس کا ہوگا، جس کا شہنشاہ نام دھرا جائے۔
اور مسلم کی حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک تمام آدمیوں میں سب سے زیادہ مغضوب اور خبیث وہ شخص ہوگا، جس نے اپنا نام شہنشاہ رکھا، اس لیے کہ شہنشاہ خدا کے سوا کوئی نہیں۔ (مسلم)
اور ایسے نام بھی نہ رکھے، جس کے معنی برے ہوں۔ اور اگر کسی نے غلطی سے رکھاہو، تو اس کو بدل ڈالے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک لڑکی کا نام عاصیہ (نافرمان) تھا۔ حضور ﷺ نے اس کا نام جمیلہ رکھا۔ (مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَانَ یُغَیِّرُ الْاِسْمَ الْقَبِیْحَ (ترمذی)
نبی اکرم ﷺ برے ناموں کو بدل دیتے تھے۔
اور ایسے نام رکھنا قطعا جائز نہیں ہے، جس سے شرک ظاہر ہوتا ہو، جیسے عبد کی نسبت غیر اللہ کی طرف کرنا ، جیسے عبد الشمس، عبد اللات، عبد العزیٰ وغیرہ۔ ان کے حرام ہونے میں علماء کا اتفاق ہے۔ (رفاہ المسلمین)
عقیقہ کا بیان
ساتویں دن عقیقہ کرنا مستحب ہے۔ اور اگر اس دن میسر نہ ہوتو چودھویں دن یا اکیسویں دن عقیقہ کرے۔ یا پھر جب میسر ہو، اس دن کرے؛ مگر ساتویں دن کا خیال رکھنا بہتر ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ پیدائش کا دن یا د رکھے۔ اور جس دن پید اہوا ہے، اس سے ایک دن پہلے عقیقہ کرے، ساتویں ہی دن ہوگا، خواہ جب کرے؛ مثلااگر جمعہ کو پیدا ہوا ہے، تو جمعرات کو کرے ۔ اوراگر جمعرات کو پیدا ہوا ہے، تو بدھ کو کرے ۔ اور اگر بدھ کو پید اہوا ہے، تو منگل کو کرے، علیٰ ھذا القیاس اور دن سمجھو۔
(عجالۃ الدقیقۃ فی مسائل العقیقہ)
علما ء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر عقیقہ ساتویں دن یا چودھویں دن یا اکیسویں دن مسیر نہ ہو، تو جب میسر ہو، کرے؛ اگرچہ ستر برس گذر جائیں، اس لیے کہ پیغمبر خدا ﷺ نے اپنا عقیقہ پچاس برس کی عمر میں کیا تھا۔ حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا عقیقہ نبوت کے بعد کیا ۔ (فتاویٰ خانیہ)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
کلُّ غُلامٍ مُرْتَھِنٌ بِعقیقَتِہِ تُذبحُ عنہُ یومَ سابِعِہِ، و یُحَلَّقُ وَ یُسمَّیٰ (أبو داؤد، نسائی، ابن ماجۃ، ترمذی)
ہر لڑکا اپنے عقیقے کے ساتھ گروی ہے، اس کی طرف سے ساتویں روز ذبح کیا جائے اور سر منڈوا دیا جائے اور نام رکھا جائے۔
مطلب یہ ہے کہ جب تک لڑکے کا عقیقہ نہیں ہولیتا، اس وقت تک والدین لڑکے سے پورا فائدہ نہیں اٹھاسکتے، جس طرح گروی رکھی ہوئی چیز سے مالک فائدہ نہیں اٹھاسکتا ہے، جب تک کہ اس کو چھڑا نہ لے۔
جامع المتفرقات میں لکھا ہے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ جو کوئی لڑکے کا عقیقہ نہ کرے، تو وہ اس لڑکے کی شفاعت سے محروم رہے گا۔
اور بعضوں نے لکھاہے کہ اگر قدرت ہوتے ہوئے عقیقہ نہ کرے، تو شفاعت سے محروم رہے گا، لہذا ہر ذی حیثیت انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے لڑکے کا عقیقہ کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
مَعَ الْغُلامِ عَقِیْقَۃٌ فَاَھْرِیْقُوْا عَنْہُ دَمَاً وَ اَمِیْطُوا عَنْہُ الاذی۔
لڑکے کی طرف سے عقیقہ ہے،پس اس کی طرف سے خون بہاؤ۔ اور اس سے تکلیف کی چیز دور کرو، یعنی سر منڈواؤ۔(بخاری)
یہاں امر استحباب کے لیے ہے، یعنی مستحب ہے کہ عقیقہ کرے اور سر منڈوائے، اس لیے کہ مؤطا امام مالک میں ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ
مَنْ وُلِدَ وَلَدٌ فَاَحَبَّ أنْ یَّنْسَکَ عَنْ وَلَدِہِ، فَلْیَفْعَلْ۔
جس کو اولاد ہو اور وہ اپنی اولاد کی طرف سے عقیقہ کرنا پسند کرتا ہو، تو وہ عقیقہ کرے ۔
معلوم ہوا کہ عقیقہ کرنا ضروری نہیں ؛ بلکہ ایک پسندیدہ فعل ہے۔
عقیقہ کا جانور
اگر لڑکا ہوتو بہتر ہے کہ دو بکری ذبح کرے اور لڑکی ہوتو ایک۔ نر،مادہ بھیڑ، دنبہ ؛ سب ہی درست ہے۔ ام کُرز رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے :
عَنِ الْغُلامِ شَاتَانِ وَ عَنِ الْجَارِیَۃِ شَاۃٌ وَلایَضُرُّکُم ذَکْرَاناً کُنَّ أوْ ا8نَاثَاً۔ (نسائی)
لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے اور تم کو نقصان نہیں کرتا کہ وہ نر ہو یا مادہ ۔
شاۃ کا اطلاق بکری، بھیڑ، دنبہ ؛ سب ہی پر ہوتا ہے ، جس سے واضح ہوگیا کہ عقیقہ نہ صرف بکری سے ؛ بلکہ بھیڑ، دنبہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ اور ذَکْراناً کُنَّ أو ا8ناثا کی قید سے معلوم ہوا کہ نر ، مادہ کی بھی تخصیص نہیں ہے۔ ہر دو نوع جائز ہے؛ مگر سال بھر کا ہونا چاہیے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ
أنْ یَّعُقَّ عَنِ الغُلامِ شَاتَانِ مُکَافِیَتَانِ، وَ عَنِ الْجَارِیَۃِ شَاۃٌ۔ (رواہ الترمذی و صححہ)
لڑکے کی طرف سے دو بکریاں پورے سال بھر کی ذبح کی جائیں اور لڑکی کی طرف سے ایک۔
شرح المقدمہ میں لکھا ہے کہ گائے اور اونٹ بھی عقیقہ میں درست ہے اور اس کا ساتواں حصہ ایک بکری کے برابر ہے، بشرطیکہ سب حصہ داروں کی نیت عقیقہ یا قربانی کرنے کی ہو۔
لڑکے کے عقیقہ میں اگر دو بکریاں میسر نہ ہوں، تو ایک بھی درست ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
أنَّ النَّبِیَّ ﷺ عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ کَبْشَاً کَبْشَاً۔ (ابو داؤد، و صححہ ابن خزیمہ وابن الجار و عبدالحق)
نبی اکرم ﷺ نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ایک ایک مینڈھے سے کیا ۔
عقیقہ کا گوشتمستحب ہے کہ سر حجام کو دے۔ اور ایک پوری ران دائی کو دے، جس نے بچہ جنایا ہے ۔ اور باقی گوشت کے تین حصے کرے، تو ل کر یا اندازہ سے۔ اور پھر ایک حصہ محتاجوں اور مسکینوں کو دے۔ اور دو حصے جو باقی رہیں، ان کو پکا کر رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو کھلائے یا کچا گوشت بانٹ دے ۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ کل گوشت اپنے کام میں لائے ، اس لیے کہ قربانی اور عقیقہ کا ایک حکم ہے۔
شرح المقدمہ میں لکھا ہے کہ عقیقہ کا حکم قربانی کی طرح ہے ۔ جو شرطیں قربانی میں ہیں، وہ سب شرطیں عقیقہ میں بھی ہیں۔ اور جیسا کہ قربانی کا گوشت خود کھانا اور دوسروں کو کھلانا اور صدقہ کرنا اور رکھنا درست ہے ، اسی طرح عقیقہ کا بھی درست ہے۔
اور فتاویٰ خانیہ میں لکھا ہے کہ عقیقہ کے گوشت کے چار حصے کرے : ایک حصہ فقیروں کو صدقہ کرے اور تین حصے اپنے رشتے داروں کو کھلائے اور اگر کسی کو نہ کھلائے ؛ بلکہ سب آپ ہی کھائیں، یہ بھی جائز ہے۔
اور فتاویٰ رحمانی میں لکھا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے کسی کو جواب میں فرمایا کہ عقیقہ قربانی کی طرح ہے : خود کھاؤ اور دوسروں کو کھلاؤ۔
جب عقیقہ قربانی کی طرح ٹھہرا، تو عقیقہ کا گوشت لڑکے کے ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی؛ سب کو کھانا درست ہوا۔ اگرچہ مشہور اس کے خلاف ہے؛ مگر جس مشہور کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو، تو اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ (رفاہ المسلمین)
اور مستحب ہے کہ عقیقہ کے جانور کی ہڈیاں نہ توڑی جائیں۔ اور اگر ٹوٹ جائے تو کوئی قباحت نہیں، اس لیے کہ قربانی کی ہڈیاں توڑنا درست ہے ۔ اور ان ہڈیوں کو کپڑے میں لپیٹ کر ایسی جگہ دفن کردینا ، جہاں لوگوں کا گذر نہ ہو، بہتر ہے۔ نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں؛ لیکن اس کے پایوں کا دفن کرنا درست نہیں، کیوں کہ یہ مال ہے اور مال کا ضائع کرنا درست نہیں۔
چرم عقیقہ
چمڑے کو اپنے کام میں لانا درست ہے اور چمڑہ بیچ کر اس کی قیمت کا صدقہ کرنا مستحب ہے۔ اگر کوئی اپنے مصرف میں لائے، وہ بھی جائز ہے ۔ چنانچہ تھانوی صاحبؒ فرماتے ہیں :
’’ چوں کہ شرائط واجبہ فی الاضحیۃ عقیقہ میں مستحب ہیں، اس لیے تصدق بالقیمۃ بھی مستحب ہوگا۔ اور انتفاع بالجلد کے جواز میں کوئی شبہ نہیں۔
(امداد الفتاویٰ جلد دوم)

ذبح کرنالڑکے کا باپ اگر خود ذبح کرنا جانتا ہو، تو بہتر یہ ہے کہ وہ خود ذبح کرے ، ورنہ اس کا چچا یا اس کا نائب ذبح کرے ۔ اور اگر یہ نہ ہو تو جو چاہے ذبح کرے۔
سرمنڈوانا
ذبح کے بعد یا ذبح سے قبل لڑکے کا سرمنڈوائے ۔ چھری اور استرا کا ایک ساتھ چلنا ضروری نہیں ،ہر طرح جائز ہے۔ اور اس کے بال کو سونا یا چاندی سے وزن کرکے صدقہ کرے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسنؓ کا ایک بکری سے عقیقہ کیا اور فرمایا : ائے فاطمہ! اس کا سر مونڈ، اور اس کے بال کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کر، پس اس کا وزن ایک درہم یا بعض درہم نکلا۔ (ترمذی)یعنی ایک درہم سے کچھ کم۔
اور لڑکے کے سر پر زعفران یا صندل یا کوئی اور خوشبو دار چیز ملے۔ عقیقہ کے جانور کا خون سر پر ملنا درست نہیں۔ یہ جہالت کی رسم تھی، جس کو شریعت محمدی نے اٹھا دی۔ چنانچہ حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایام جاہلیت میں ہم لوگوں میں سے جب کسی کے یہاں لڑکا پیدا ہوتا تو ایک بکری ذبح کرتے اور اس کا خون لڑکے کے سر میں لگاتے ۔ پھر جب اسلام آیا، تو ہم ساتویں دن بکری ذبح کرتے ہیں اور اس کا سر منڈتے ہیں۔ اور اس کے سر میں زعفران لگاتے ہیں۔ (ابو داود)
اور( رزین میں) اتنا اور زیادہ ہے کہ اور اسی دن اس کا نام رکھتے ہیں۔
عقیقہ کی دعا
یہ دعا پڑھنا مستحب ہے ۔ اگر یاد نہ ہوتو صرف:
بِسْمِ اللّٰہِ وَ الْلّٰہُ أکْبَرُ
کہہ کر ذبح کرے ، عقیقہ ہوجائے گا۔ دعا یہ ہے :
ألْلّٰھُمَّ ھٰذِہَ عَقِیْقَۃُ ابْنِ فُلانٍ، دَمُھَا بِدَمِہِ، وَ لَحْمُھَا بِلَحْمِہِ وَ عَظْمُھَا بِعَظْمِہ، وَ جِلْدُھا بِجِلْدِہِ، وَ شَعْرُھَا بِشَعْرِہِ۔ ألْلّٰھُمَّ تَقَبَّلْھَا مِنِّی وَ اجْعَلْھَا فِدآءً لِاِبْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
اور عجالہ الدقیقہ فی مسائل العقیقہ میں لکھا ہے کہ اس دعا کے بعد یہ بھی پڑھے:
إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفَاً وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکینَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُکِی وَمَحْیَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذَٰلکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمینَ أللّٰھُمَّ مِنْکَ وَ لَکَ۔
پھر بِسْمِ الْلّٰہِ وَ الْلّٰہُ أکْبَرُ کہہ کر ذبح کرے۔
اگر باپ ذبح کرے، تو یہ دعا بعینہ پڑھے ۔ صرف فلاں کی جگہ پر بیٹے کا نام لے ۔ اور اگر کوئی دوسرا ذبح کرے تو ابن فلان کی جگہ پر لڑکے اور لڑکے کے باپ کا نام لے ۔ مثلا اگر لڑکے کا نام عبد اللہ ہے اور باپ کا نام عبد الرحمان ہو تو یوں کہے :
ألْلّٰھُمَّ ھٰذِہَ عَقِیْقَۃُ عَبْدِ الْلّٰہِ بْنِ عَبدِ الرَّحْمٰن
اور منی کی جگہ پر منہ اور لابنی کی جگہ پر لابنہ کہے۔ اور اگر لڑکی کا عقیقہ ہو اور اس کا باپ ذبح کرے تو یہ دعا پڑھے:
ألْلّٰھُمَّ ھٰذِہَ عَقِیْقَۃُ بِنْتِیْ فُلانَۃٍ، دَمُھَا بِدَمِہا، وَ لَحْمُھَا بِلَحْمِہَا وَ عَظْمُھَا بِعَظْمِہَا، وَ جِلْدُھَا بِجِلْدِہَا، وَ شَعْرُھَا بِشَعْرِھا۔ أللّٰھُمَّ تَقَبَّلْھَا مِنِّی وَ اجْعَلْھَا فِدآءً لِبِنْتی مِنَ النَّارِ۔
اور فلانۃ کی جگہ پر لڑکی کا نام لے۔اور اگر کوئی دوسرا آدمی ذبح کرے، تو بنتی کی جگہ پر بنت کے ساتھ باپ کا نام لے۔ اور فلانۃ کی جگہ پر لڑکی کا نام لے اور منی کی جگہ پر من کے بعد لڑکی کے باپ کا نام لے اور لبنتی کی جگہ پر لبنت فلاں یعنی باپ کا نام لے۔
ذبح کرتے وقت دعا نہ پڑھے؛ بلکہ پہلے پڑھے، ورنہ ذبیحہ مکروہ ہوگا۔ ذبح کے وقت صرف بِسْمِ الْلّٰہِ وَ الْلّٰہُ أکْبَرُ کہے۔
عقیقہ میں جانور کے ذبح کی مناسبت سے یہاں قربانی کے مسائل بھی لکھے جارہے ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
%d bloggers like this: