مضامین

بہارمیں علم حدیث کے چند نادر کتب خانے جو ماضی کا حصہ بن گئے

مولاناطلحہ نعمت ندوی


بہارمیں علم حدیث کے چند نادر کتب خانے جو ماضی کا حصہ بن گئے
طلحہ نعمت ندوی



صوبۂ بہارمیں تیرہویں اور چودہویں صدی علم حدیث کی خدمت واشاعت کے لئے بڑی سازگار رہی ہے ،اس دوران کئی اہم مطابع نے اس مبارک فن کی خدمت میں حصہ لیا، اسی دورانیہ میں متعدد اہم کتب حدیث کی تشریح وتوضیح بھی ہوئی ،علم حدیث کے کئی اہم مجموعےبھی تیار ہوئے ،کئی کتابوں کے ترجمے بھی کئےگئے۔خانقاہوں کا قدیم علمی وحدیثی سرمایہ اور ان کی خدمات تو مستقل ایک موضوع ہے،بالخصوص خانقاہ مجیبیہ کی حدیثی خدمات بھی اور اس کا علمی سرمایہ حدیث دونوں مستقل مطالعہ کا موضوع ہیں ،اس لئے یہاں اس پر روشنی نہیں ڈالی جائے گی، علم حدیث کی خدمت میں مطبع خلیلی آرہ نے جو کردار ادا کیا ،نیز آرہ کے علمائے حدیث نے جو خدمات انجام دیں وہ مجموعی طور پر سب سے اہم ہیں ،بیسیوں قدیم مصادر حدیث اور اس فن کے بعض غیر معروف مجموعے اپنی اولین طباعت کے لئے اسی مطبع کے ممنون احسان ہیں ، اس شہر کے علمائے محدثین میں مولانا ابومحمد ابراہیم آروی اور مولانا علی اکرم آروی کے نام سب سے نمایاں ہیں ،کتابوں کی اشاعت کے لئے ایک اہم ذخیرۂ کتب کی ضرورت سے اہل علم انکار نہیں کرسکتے ،چنانچہ یہ ذخیرہ یہاں بھی موجود تھا ،لیکن اس پور ے سرمایہ کی موجودہ حالت کیا ہے اس کا علم نہیں ۔
مولانا سعید حسرت عظیم آبادی کا کتب خانہ



اس کے علاوہ عظیم آباد میں مشہور عالم اور محدث ومدرس مولانا سعید حسرت عظیم آبادی کا کتب خانہ علم حدیث کے نادر کتب سے مالا مال تھا جس کا تذکرہ ان کی سوانح کے ضمن میں کئی جگہ ملتا ہے ،لیکن اس ذخیرہ کی تفصیلات قلمبند نہیں ہوسکیں ،بعد میں اس کا ایک بڑا حصہ کتب خانہ خدا بخش منتقل ہوگیا ۔مولانا محمد سعید نے علمائے حجاز سے بھی کتب حدیث کی اجازت حاصل کی تھیں ،اور نادر کتابوں کی ذخیرہ اندوزی کا جو ذوق انہیں ودیعت ہوا تھا ، اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ قرین قیاس ہے کہ ان کے کتب خانہ میں فن حدیث کا بڑا حصہ حجاز کے کتب خانوں سے نقل کردہ کتابوں پر مشتمل ہوگا ،نیز بعض اشارات سے اندازہ ہوتا ہے انہوں نے ہندوستان سے بھی بہت سے نادر ذخیرے خرید کر اپنے کتب خانہ میں اضافہ کیا تھا ۔بدرالدین عظیم آبادی ان کے کتب خانہ کے متعلق لکھتے ہیں :
ٍ‘‘مولانا محمد سعید مرحوم نے اپنا ذاتی کتب خانہ بھی قائم کیا تھا جس میں عربی او ر فارسی کی بکثرت نادر کتابیں اور قلمی نسخے جمع کئے گئے تھے ،جب حج کے لئے مکہ معظمہ گئے اور وہاں قیام کیا تو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ اور دیگر بلاد عربیہ سے ہزاروں نایاب کتابیں اور قلمی نسخے خرید کر لائے ،مگر افسوس ہے کہ جس طرح ان کا گھر ویران ہوا یہ قیمتی کتب خانہ بھی تلف ہوگیا ،مولانا کے انتقال کے بعد ان کے جانشین حافظ نذرالرحمن حفیظ مرحوم کے انتقال کے بعد ان کے کم سن لڑکے خلیل الرحمن بھی گھر کو سنبھالتے سنبھالتے ختم ہوگئے ’’۔
سید قیام الدین نظامی فردوسی لکھتے ہیں ،‘‘مولانا کی لائبریری کی تمام کتابیں اور قلمی نسخے جناب پروفیسر سید حسن صاحب مرحوم کے پاس تھیں ،پروفیسر صاحب موصوف نے راقم کو بتایا تھاکہ انہوں نے مولانا کےکتب خانہ کی تمام کتابیں خدا بخش اورینٹل لائبریری کو دے دیں ’’۔
علامہ شوق نیموی کا کتب خانہ
مشہور محدث علامہ ظہیر احسن شوق نیموی نے جب فقہ حنفی کے دفاع میں علم حدیث کی ایک جامع کتاب کی تصنیف کا منصوبہ بنایا (جو بعد میں آثارا لسنن کے نام سے منظر عام پر آئی )تو اس کے لئے ہندوستان سے علم حدیث ،اصول حدیث اور علم اسماء الرجال کی کتابیں منگوائیں ،اور ایک نادر ذخیرہ جمع کیا جو ان کے وطن میں موجود تھا۔
ایک جگہ اپنی کتاب اوشحۃ الجید فی اثبات التقلید میں معرفۃ السنن والآثار کے ضمن میں حاشیہ میں لکھتے ہیں ،‘‘یہ کتاب جو ہندوستان کیا عرب میں بھی کمیاب تھی ،جس کے دیکھنے کو لوگوں کی آنکھیں ترستی ہیں ،مؤلف کےکتب خانہ میں موجودہے،فالحمد للہ علی ذلک ’’۔
اپنی سوانح میں آثار السنن کے ذکر میں لکھتے ہیں :
‘‘آج کل بطور مشکاۃ شریف حدیث میں آثار السنن نام ایک کتاب کی بنائے تالیف ڈالی ہے ،جس کے لئے بلاد مختلفہ خصوصاً مصر وروم وحرمین شریفین کا سفر درکار ہے ،السعی منی والاتمام من اللہ ،۔۔۔۔۔۔حضرت واہب العطایا کا مجھ پر یہ بہت بڑااحسان ہے کہ فن حدیث میں جس کا شوق مجھ کو زیادہ ہے چند قلمی کتابیں ایسی ہاتھ آگئی ہیں جو ہندوستان کیا عرب میں بھی کمیاب ہیں ’’۔
ان کا کتب خانہ ان کے وطن نیمی (ضلع پٹنہ حال نالندہ)میں ہی تھا ،اور وہ وہیں بیٹھ کر اثارالسنن کی تالیف کاکام کررہے تھے ،اس وقت شہر عظیم آباد سے بھی ان کا تعلق تھا ،ممکن ہے کچھ کتابیں یہاں بھی ہوں ،جو ان کی وفات کے بعد وطن واپس چلی گئی ہوں ،بہر حال وہاں یہ سرمایہ موجود تھا جوبہار کے ۱۹۴۶کے فساد میں ضائع ہوگیا ۔
مولانا مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں :‘‘مرحوم کا نایاب کتب خانہ ۴۶ تک محفوظ تھا، نومبر ۴۶ ء کےکشت وخون میں یہ انمول موتی بھی لٹ گئے ’’۔
اب دیہات کے ان تین کتب خانوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو اپنی ندرت میں بے نظیر تھے ،اور اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں ،یہ تین دیہاتوں میں تین نامور محدثین کے جمع کردہ کتب خانے تھے۔
ان میں سب سے زیادہ اہم کتب خانہ ایک معروف عالم اور ہندستان کے اسانید حدیث کی ایک مشہور کتاب الیانع الجنی فی اسانید الشیخ عبدالغنی کے مصنف جواں مرگ عالم ومحدث شیخ محسن بن یحییٰ ترہٹی مونگیری کا ہے جو انہوں نے مکمل حجاز سے لاکر اپنے وطن میں آراستہ کیا تھا ،افسوس کہ مولانا کی جواں مرگی نے اسے گمنام کردیا ،اس کا کسی قدر تفصیلی تعارف مولانا سید منت اللہ رحمانی کے قلم سے ملتا ہے جوعلامہ سید سلیمان ندوی ؒ کے نام مولانا سید مناظر احسن گیلانی کے ایک مکتوب کے حاشیہ میں ہے ،مولانا نے سید صاحب کو لکھا تھا،‘‘سن کربڑی تکلیف ہوتی ہے کہ خضرچک اور شکراواں کا کتب خانہ دونوں تباہی کے قریب آلگا ہے ،نالائق وارثوں کا عجیب حال ہے،نہ خود ان کتابوں کی خدمت کرتے ہیں اور جہاں ان کی خدمت ہوسکتی ہے وہاں منتقل بھی نہیں کرتے’’۔ اس پر مولانا رحمانی کا نوٹ حسب ذیل ہے:
‘‘شمالی مونگیر کا ایک گاؤں خضر چک ہے ،یہ کتب خانہ وہیں واقع ہے،کتب خانہ کے بانی مولانا سید محمد محسن محدث ہیں۔ آپ کے والد منشی غلام یحییٰ موضع مظفرہ متصل بیگوسرائے ضلع مونگیر کے رہنے والے تھے اور انگریزی حکومت میں ناظر کے منصب پر سرفراز تھے، ملازمت کے سلسلہ میں ایک عرصہ تک پورنیہ میں بھی رہے ، ملازمت کے علاوہ بڑی جائیداد کے مالک تھے، جوانی ہی میں مظفرہ سے خضر چک آکر مقیم ہو گئے تھے، اس وقت خضر چک کا علاقہ سرکار ترہٹ میں تھا، اپنے صاحبزادے مولانا محسن کی تعلیم پر دل کھول کر خرچ کیا ،مولانا علیہ الرحمۃ نے ابتدائی تعلیم کلکتہ میں اور انتہائی تعلیم دلی میں حاصل کی اور حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلوی کے ارشد تلامذہ میں تھے ،آپ ہی نے الیانع الجنی فی اسانید الشیخ عبد الغنی لکھی، ہندوستان سے مروجہ تعلیم کی فراغت کے بعد مکہ معظمہ چلے گئے اور وہاں کے شیوخ سے استفادہ کیا اور مسلسل سات سال مکہ مکرمہ میں مقیم رہے اور مسجد حرام میں درس دیتے رہے، وہیں سے کتابیں جمع کرنا شروع کیں،حجاز کے کتب خانوں میں جو نایاب کتابیں تھیں ان کی نقلیں کرائیں ،اور مطبوعہ کتابیں بازار سے لیں ، اور ہندوستان واپس آئے تو ایک قیمتی کتب خانہ بھی ساتھ لائے جسے اپنے مکان واقع خضر چک ضلع مونگیر میں مرتب کیا اور سجایا، ایک روایت کے مطابق کتب خانہ میں کتابوں کی تعداد تقریباً بیس ہزار تھی، تعداد جو بھی ہو، کتب خانہ وسیع اور قیمتی تھا ، خصوصاً فن حدیث کا بہترین متداول اور نایاب ذخیرہ یہاں موجود تھا، ۱۹۰۰ء میں ہندوؤں نے بعض اختلافات کی بنا پر گاؤں پر حملہ کیا ، باغوں کے درخت تک کاٹ ڈالے اور کتابوں کو دریا میں ڈال دیا اور پھاڑ دیا، پھر بھی پانچ ہزار کتابیں رہ گئی تھیں ، حیدرآباد سے شائع شدہ مستدرک حاکم کی جن نسخوں کو سامنے رکھ کر تصحیح کی گئی ان میں سے ایک نسخہ حضر چک کے کتب خانہ سے بھی گیا تھا ، مولانا سید ہاشم ندوی نے مستدرک حاکم مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد میں خاتمہ الکتاب میں لکھا،’’اناجمعنا نسخاًعدیدۃ لمستدرک الحاکم من مکاتیب بمبئی۔۔۔منھا نسخہ ۔۔۔۔ ناقصہ من مکتبہ امیر الدین اشرف الکیلانی‘‘۔یہ امیر الدین اشرف امیر موصوف کے بھانجے تھے ، ان کے مکتبہ سے مراد کتب خانۂ خضر چک ہی ہے ۔افسوس کہ ہندؤوں کے حملہ سے بچی ہوئی کتابیں بھی اب بالکل ضائع ہوگئیں ،راقم الحروف نے آج سے تین سال پہلے اس کی فہرست تیار کرائی تھی ،اب کل ۲۴۷ کتابیں ہیں ،وہ بھی اکثر ناقص جن میں نایاب قابل ذکر ایک بھی نہیں’’۔
شاید اخیر میں کچھ کتابیں بچی تھیں جو خدا بخش لائبریری کو دے دی گئیں ۔
کتب خانہ شکراواں جس کا ذکر مولانا کے مکتوب میں گذرا مولانا رحمانی نے اس کا بھی تعارف کرایا ہے ، مشرقی مگدھ(حال ضلع نالندہ)کا یہ دوسرا اہم کتب خانہ تھا ،جس کے بانی ایک معروف عالم ومحدث مولانا رفیع الدین شکرانوی تھے، مولانا رحمانی سے قبل اس کا اور عظیم آباد کے قریب کے ایک دوسرے دیہات ڈیاواں میں موجود مشہور محدث علامہ شمس الحق عظیم آبادی کے کتب خانہ دونوں کا تعارف مولانا ابوسلمہ شفیع بہاری نے ماہنامہ برہان دہلی کے دو شماروں میں کرایا تھا ،اور نوادرات کی کسی قدر تفصیل بھی ذکر کی تھی ۔
ذیل میں انہیں دونوں مضامین کو پیش نظر رکھ ان دونوں کتب خانوں اجمالی کا تعارف پیش کیا جاتا ہے ۔پہلا مضمون ‘‘کتب خانہ ڈیاواں ’’جنوری ۱۹۵۷ میں اور دوسرا‘‘کتب خانہ ڈیاواں’’ اس سے چند سال قبل جولائی ۱۹۵۰ میں شائع ہوا ہے۔دونوں میں بانی کتب خانہ کے حالات اور نوادر کا تعارف کرایا گیا ہے، لیکن مولانا رفیع الدین شکرانوی کے کتب خانہ کا ذکر اس اعتبار سے اہم ہے کہ وہ بہت نادر اور نایاب کتابوں کے وسیع سرمایہ پر مشتمل تھا ،اور یہاں ایک پریس قائم کرکے فن حدیث کی کئی اہم کتابوں کی اشاعت بھی ہوئی تھی۔
مولانا صدیقی النسب تھے ، اوربڑے صاحب ثروت بھی ،جس کو انہوں نے علوم دینیہ خصوصا علم حدیث کی مبارک خدمت میں صرف کیا ،انہوں نے معقولات کی تعلیم اپنے علاقہ کے مشہور معقولی عالم مولانا محمد احسن گیلانی (جد بزرگوار مولانا سیدمناظر احسن گیلانی)سے گیلانی میں اور منقولا ت کی تعلیم مولانا سید نذیر حسین دہلوی سے دہلی میں حاصل کی ،اس کے بعد امرتسر جاکر مولانا عبداللہ غزنوی سے بیعت بھی ہوئے ،اور ان کی صحبت میں کچھ وقت گذارا ،پھر وہاں سے حج کےلئے تشریف لے گئے ،اور دیڑھ سال کے قیام کے بعد واپس ہوئے ،واپسی میں بمبئی سے ایک پریس بھی لے کر آئے ،اور کتابوں کا وہ نادرذخیرہ بھی جو مکہ مکرمہ کے زمانۂ قیام میں اجرت پر نقل کروایا تھا ،انہوں نےحجاز کے کتب خانوں سے جس طرح کتابیں نقل کروائیں اس کا تذکرہ مولانا ابوسلمہ شفیع کی زبانی سنئے
‘‘حجا ز کے کتب خانوں نے ایک نیااثر ڈالا ،اب مولانا ہمہ تن قلمی کتابوں کی طرف متوجہ ہوگئے ،جو کچھ روپیہ جاتا تھا سب کو کتابوں ہی پر بے دریغ خرچ کرنے لگے ،اور خود عسرت کی زندگی وہاں بسر کرنا قبول کیا ،چنانچہ تفسیر ابن کثیر پر گیارہ سو اور تفسیر طبری پر ۲۳ سو روپے خرچ ہوئے ،مولانا کا قیام مکہ معظمہ ہی میں رہتا تھا لیکن کتابیں مدینہ منورہ میں بھی نقل ہوتی تھیں ،اوسطاً دیڑھ سو وراق روزانہ کام پر مامور تھے، حجاز پر اس وقت ترکوں کا پرچم لہرارہا تھا ،شکایت پہنچائی گئی کہ کتب خانوں میں ہلڑ مچا ہوا ہے ،تفتیش ہوئی اور ناظم کتب خانہ سے جواب طلب کیا گیا ،جواب دیا کہ اب تک سبعہ معلقہ اور حماسہ اور اس کے شروح وحواشی کے دلدادہ ہی زیادہ تر اس کتب خانہ سے استفادہ کیا کرتے تھے لیکن اس ہندی نوجوان جیسا صاحب ذوق اور ستھرا مذاق کا اب تک میری نظامت میں کوئی نہیں آیا ہے ،تفسیر وحدیث سے والہانہ عقیدت ہے،ا ور اس پر جان ومال دنوں نچھاور کرتا ہے، اور انہیں کی وہ نقل لیتا ہے، سلطان اس سے بہت متاثر ہوئے اور ہر طرح کی آسانیاں بہم پہنچانے کا حکم صادر کیا ،اور مولانا سے ملنے کی خواہش کی ،مگر مولانا کی افتاد طبع ایسی تھی کہ ٹال گئے اور ملے نہیں ۔تقریبا ً دیڑھ لاکھ روپیہ مولانا نے اپنے کتب خانہ پر صرف کیا ’’۔
مولانا گیلانی نے بھی اپنی کتاب ‘‘مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت ’’ میں جابجا مولانا اور ان کے کتب خانہ کا ذکر کیا ہے ،اور لکھا ہے کہ ابن تیمیہ اور ابن القیم کی کتابوں کا جتنا بڑا ذخیرہ یہاں تھا کہیں اور مشکل سے ہوگا ۔انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اشاعت سے تفسیر طبری کی مکمل تیس جلدوں کے صرف تین نسخے پوری دنیا میں تھے جن میں سے ایک یہاں تھا۔ مولانا نے وطن واپس آکر اور وہاں مستقل قیام کرکے ایک تو حدیث کی بلند پایہ کتابوں کی تصحیح واشاعت کاکام شروع کیا ،دوسرے تدریس کا ،ان کی اسی بستی میں قرب وجوار کے علاوہ بیرون ملک کے لوگ بھی ان سے استفادہ کے لئے آئے،اور سب مولانا کے مہمان ہوتے ،خراسان کے مولوی عبداللہ صاحب مسلسل تین سال تک مقیم رہے ۔سب سے پہلے مولانا نے سنن ابوداود کا ایک صحیح نسخہ اپنے حواشی کے ساتھ شائع کیا۔پھر یہ پریس کسی اور کو دے دیا، ان کی کتابوں میں رحمۃ الودود علی سنن ابی داود ،تعلیقات علی سنن النسائی ،اور کتاب الاذکار کےعلاوہ چند آیات کی تفسیریں ہیں ،وہ قرآن وحدیث دونوں کا درس دیتے تھے ،او ر دونوں پر گہری نظر رکھتے تھے۔
خد ابخش خاں سے مولانا کے بہت گہرے مراسم تھے اور مولانا گیلانی کے بقول کتابوں کی ذخیرہ اندوزی میں خاں صاحب نے مولانا سے بہت استفادہ کیا ہے ،ورنہ علوم اسلامیہ کا اتنا اعلی ذوق کسی عالم کی رفاقت کے بغیر مشکل سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کا ذکر مولانا سے مولانا شکرانوی کے صاحبزادے مولانا عبدالمتین صاحب نے کیا تھا ۔عجب نہیں کہ ایک عرب کو جو وکیل صاحب نے کتابوں کی جمع آوری کے لئے ملازم رکھا تھا اور اس نے عرب میں گھوم گھوم جو نوادر جمع کئے اس میں مولانا کی رہنمائی شامل ہو۔مولانا نے ۱۹۱۹ء میں وفات پائی ۔
مولانا ابوسلمہ نے جس وقت اس کتب خانہ کی تفصیلات قلمبند کی ہیں ،وہ تقسیم ہند کے بعد کا دور تھا ،اور اس وقت تک اس کتب خانہ کا اچھا خاصا سرمایہ ضائع ہوچکا تھا ،مولانا نے تو صاحب کتب خانہ کو نہیں دیکھا تھا لیکن ان کے خسر مولانا اصغیر حسین بہاری (مدرس مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ )مولانا کے شاگرد تھے ،اس لئے ممکن ہے کہ براہ راست ان سے بہت سی باتیں سنی ہوں ،نیز عجب نہیں کہ مولانا گیلانی نے بھی ان کو اس طرف متوجہ کیا ہو ،کیوں کہ وہ مولانا سے بھی بہت قریب تھے۔
انہوں نے علم حدیث کی جن نادر کتابوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے کچھ حسب ذیل ہیں ۔
سنن دارقطنی،بہت قدیم نسخہ،التلخیص الحبیر،شرح الفیۃالحدیث عراقی ،شرح سنن ابن ماجہ حافظ مغلطائی ،موتلف ومختلف دارقطنی،شیخ ولی اللہ فرخ آبادی کی شرح مسلم،الاصابہ فی تمییز الصحابہ،فتح الباری کی مکمل جلدیں ،بخاری شریف کا بڑا خوش خط نسخہ،شرح مشکاۃ المصابیح للزینی،جو بہت ہی نادر ہے، اس کے علاوہ ابن الجوزی کی کتاب الکشف لمشکل الصحیحین۔سیوطی کی شرح الصدور فی احوال الموتی والقبور تو بہت مشہور ہے لیکن محمد بن احمد الانصاری قرطبی کی التذکرۃ فی کشف احوال الموتی وامور الآخرۃ اور ابن رجب حنبلی کی کتاب احوال القبور ومعرفۃ احوال اھلھا الی یوم النشور بہت نادر ہے،گرچہ اب چھپ چکی ہے، ان کے نسخے یہاں موجود تھے۔ ان کے علاوہ تقریبا سیکڑوں کتابوں کے نام ہیں ،فقہ کے بھی معتدبہ ذخیرہ کا ذکر ہے،تصوف پر بھی متعدد کتب کا ذکر ہے ،ابن قیم اور تیمیہ کی بہت سی کتابوں کا ذکر ہے ۔
ان کتابوں کی اب تو کوئی اہمیت نہیں رہی کیوں کہ اب سب چھپ کر عام ہوچکی ہیں ،بلکہ بیک جنبش انگشت ہماری دسترس میں ہیں لیکن جس وقت وہ جمع کی گئی تھیں اس وقت ان کو دیکھ لینا بھی خوش قسمتی تھی ۔
معلوم نہیں بعدمیں اس کتب خانہ کا کیا ہوا ،ضائع ہوا یا کتب خانہ خدا بخش میں کتابیں دے دی گئیں یا کہیں اور۔
علامہ شمس الحق عظیم آبادی کی شخصیت کا تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ،ان کی شخصیت سے علم حدیث کا ادنیٰ طالب علم بھی واقف ہوگا، مولانا بھی گھر کے رئیس تھے اس لئے تکمیل تعلیم کے بعد اپنی نانہال ڈیاواں میں بیٹھ کر علم حدیث کی خدمت کے لئے یکسو ہوگئے ،تصانیف کی شہرت نے تشنگان علم کو ان کی طرف کھینچا ،اور مولانا تصنیف کے ساتھ تدریسی خدمت بھی انجام دینے لگے ،لیکن علم حدیث کی نشر واشاعت ان کے پیش نظر تھی اس لئے اس فن کی نادر کتابیں بہم پہنچائیں ،مولانا ابوسلمہ کے بقول مولانا کے مال کا مصرف ہی علم حدیث کی کتابوں کی خرایداری تھا،بعض کتابیں تو اس مضمون کی تحریر کے وقت بھی نایاب ہی تھیں ،مولانا شکرانوی کی طرح مولانا بھی طلبہ کی مہمان نوازی اور اکرام کاپورا اہتمام فرماتے۔
مولانا ابوسلمہ شفیع کے بقول مولانا کے پاس کتابوں کے حصول کے دو تین اہم ذرائع تھے ،عالم عربی سے جو علماء وطلباء استفادہ کے لئے آتے وہ بعض نادر قلمی کتابیں لاتے اور منھ مانگی قیمت پاتے،کچھ ہدیہ میں بھی آتے ہوں گے ،‘‘دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ ایک عرب مسند ابوعوانہ لائے ،مولانا مطالعہ میں مشغول تھے ،فرط انبساط سے بے خود ہوکر اچھل پڑے ،پوچھا کیا قیمت ہے ،عرب نے جو قیمت بتائی ا س سے زائد ہی دی’’۔
دوسرے مولانا زین العابدین آروی تھے جو حیدرآباد میں رہتے تھے ،اور مولانا کے لئے کتابیں خریدتے تھے ،اور تیسرا نام مجیب بن حبیب اللہ عظیم آبادی کا ہے جو مولانا کے لیے کتابیں فراہم کرتے تھے۔
جن کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں مسند ابوعوانہ ،معالم السنن خطابی، جس کا نسخہ اس وقت تک مصر میں بھی نہیں تھا ،اس نسخہ پر مولانا نے خود سے تحریر فرمایا ہے ،قد من اللہ علیّ باشتراء ھذا الکتاب۔کتاب الشفا قاضی عیاض ،کشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث ،اطراف عبدالغنی النابلسی،جو بہت نادر ہے،معرفۃا لسنن والآثار بیہقی ،یہ بھی اس وقت تک شائع نہیں ہوئی تھی ،صاحب مضمون مولانا ابوسلمہ نے خود کتابت کرکے اسی وقت اپنےو طن میں اپنے مکتبہ علم وحکمت بہارشریف سے شائع کی تھی ۔
اس کےعلاوہ سیکڑوں کتابوں کا ذکر ہے ،مطبوعا ت اس کے علاوہ تھیں ،مولانا کے بقول ‘‘ ان کے علاوہ اس کتب خانہ میں اور بھی بہت سی گراں قمت کتابیں تھیں پرمولانا کے بعد ضائع ہوگئیں ،پھر بھی جو بچ گئی تھیں وہ کم اہم نہ تھیں ،مگر اس کو کیا کیا جائے کہ فلک کج رفتار اسے بھی نہ دیکھ سکا ،اور ۴۶ء کے ہنگامہ کے بعد بچی کھچی کتابیں مشرقی کتب خانہ بانکی پور میں داخل کردی گئیں ،اور اب غالباً مولانا کے مکان میں مسلم پناہ گزیں مقیم ہیں ’’۔
ہمیں مولانا ابوسلمہ شفیع کا ممنون ہونا چاہئے کہ ان کی بدولت یہ کتب خانے نہ سہی ان کی فہرستیں اور تاریخ تو محفوظ ہوگئی ،کاش کتب خانہ خضر چک ،علامہ شوق نیموی ،اور مولانا سعید عظیم آبادی کے کتب خانوں کی تفصیلات بھی قلمبند ہوکر محفوظ رہتیں ۔
اب ایک تاریخی تذکرہ سے ان باتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے،لیکن کاش کہ اسی سے اپنے بزرگوں کے علوم اور اپنے علمی سرمایہ کو محفوظ رکھنے کا جذبہ پیدا ہوسکے ،کتابوں کے ضیاع پر اگرلکھا جائے تو بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
%d