مضامین

خطبہ صدارت دہشت گردی مخالف کل ہند کانفرنس دارالعلوم دیوبند

حضرت مولانا مرغوب الرحمان صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند

الحمد للّٰہ ربّ العالمین والصلوٰۃ والسلام علی سیّدنا محمد وآلہ و اصحابہٖ اجمعین، اما بعد:
اللہ ربّ العزب کا بے پایاں احسان و کرم ہے کہ اس نے ہم سب کو اپنے سچے دین کا پیروکار بنایا اور خاتم النّبیین رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل فرمایا کہ ہم پر اپنی نعمت کی تکمیل فرمادی، نیز صراطِ مستقیم پر گامزن، سلف صالحین کے کاروانِ رشدو ہدایت میں شمولیت کی توفیق سے بہرہ ور فرمایا، مزید یہ کہ ہمیں اسلامی مدارس کی خدمت کے لیے منتخب فرمایا جو دین مبین کی صحیح و بے غبار تعلیم و تشریح کے حامل، خیر و فلاح کی دعوت کے امین و امن و سلامتی کے پاسبان ہیں، بلاشبہ یہ سب حق تعالیٰ کے الطاف و عنایات ہیں جن کے لیے ہم اس کی بارگاہِ عزت و کرم میں سجدہئ شکرہ بجا لاتے ہیں اور دعاء کرتے ہیں کہ وہ ہمیں حیات مستعار کے ہر لمحہ میں خیر کی توفیق سے نواز کر حسن خاتمہ کی دولت سے مالامال فرمائے، آمین!
مہمانانِ عالی وقار!بارگاہِ الٰہی میں ہدیہئ شکر و سپاس پیش کرنے کے بعد میرا خوشگوار اخلاقی فریضہ ہے کہ میں آپ حضرات کی خدمت میں اپنی اور تمام خدام دارالعلوم دیوبند کی جانب سے نذرانہئ تشکر پیش کروں کہ آپ نے اپنی اہم اور قیمتی مصروفیات سے صرفِ نظر فرماکر ہماری حقیر دعوت کو شرفِ قبولیت سے نوازا اور زحمت سفر برداشت کی۔ اسی کے ساتھ میں دل کی گہرائیوں سے معذرت خواہ بھی ہوں کہ ہم آپ جیسے موقر مہمانوں کے شایانِ شان ضیافت کا اہتمام نہ کرسکے، ہمیں امید ہے کہ جس جذبہئ خلوص اور احساسِ ذمہ داری نے آپ کوآمادہئ سفر کیا ہے وہی آپ کے لیے حسن جزاء کا ضامن بھی ہوگا، خدارا آپ حق ضیافت میں ہماری کوتاہی کو معاف فرمائیں اور دعاء فرمائیں کہ رب کریم اس کانفرنس کو حسن قبول کی دولت اور مقصد میں کامیابی سے ہمکنار فرمائے، آمین!
حضرات گرامی! جہاں تک اس عظیم الشان دہشت گردی مخالف کل ہند کانفرنس کے مقصد کا تعلق ہے وہ اجمالی طور پر دعوت نامہ سے آپ کے علم میں آچکا ہے، دعوت نامہ میں نہایت اختصار کے ساتھ جس صورتِ حال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کی سنگینی آپ جیسے اربابِ بصیرت سے مخفی نہیں ہوسکتی۔ دہشت گردی اور اس کے تعلق سے پیدا ہونے والے حالات آج عمومی طور پر امن پسند انسان کے لیے تشویش کا باعث ہیں، لیکن مدارس اسلامیہ اور دینی فکر سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ ایک خطرناک چیلنج کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں، ایک طرف دہشت گردوں کی سرگرمیاں اور تخریبی کارروائیاں ہیں جن سے امن پسند عوام کا سکون غارت ہوتا رہتا ہے اور بے گناہوں کی جانیں قربان ہوجاتی ہیں دوسری طرف قانون و انتظام کے رکھوالوں کا غیر ذمہ دارانہ کردار ہے جو ہر دہشت گردانہ واقعہ کے بعد بغیر سوچے سمجھے شک کی سوئی مسلمانوں کی طرف پھیر دیتے ہیں اور حقیقی مجرموں تک رسائی کی سنجیدہ کوشش کیے بغیر کچھ بے قصوروں کو موردِ الزام قرار دے کر فرض منصبی کی ادائیگی میں اپنی کوتاہی کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ ان حالات نے مدارس اسلامیہ کی ذمہ داریوں کو دو چند کردیا ہے اس لیے کہ آج بھی امت مسلمہ صحیح رہنمائی کے لیے انہی مدارس کی طرف دیکھتی ہے اور انہی کا موقف خاص طور پر ہندستان جیسے ممالک میں امت مسلمہ کے نمائندہ موقف کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے وقت کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے مدارسِ اسلامیہ کو اس محاذ پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کے بارے میں اپنے متوازن نظریہ کا واضح اعلان و اظہار کر کے دشمنانِ دین و ایمان کا منہ بند کرنا ہوگا، ساتھ ہی مسلمانوں اور مدارس سے وابستہ افراد کے خلاف مسلسل جاری ناروا طرزِ عمل کے مقابلہ کے لیے لائحہئ عمل تیار کرنا ہوگا۔
دانشورانِ قوم! اس سلسلے میں سب سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے بارے میں مدارسِ اسلامیہ کے اس طے شدہ متفقہ موقف کا واضح اعلان کردیا جائے کہ ہمارا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں، ہم ہر قسم کی دہشت گردی کو مسترد کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی تفریق کو قطعاً روا نہیں رکھتے۔ دہشت گردی کلی طور پر ایک غلط اور عاقبت نااندیشانہ عمل ہے خواہ اس کا مرتکب کسی بھی مذہب و ملت سے وابستہ ہو اور معاشرہ کے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو، دہشت گردی، اسلامی تعلیمات کے بھی سراسر منافی ہے، اسلام دین رحمت ہے، دین امن ہے اس لیے دہشت گردی کی ہر ایسی کارروائی جس کا نشانہ بے قصور افراد بنتے ہوں اسلام کے تصور امن سے متصادم ہے۔
اس بارے میں اسلامی تعلیمات اس قدر واضح اور قطعی ہیں کہ ان کی روشنی میں بلاخوف تردد یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ آج اگر دُنیا کے پاس امن و سلامتی اور صلح و آشتی کا کوئی جامع، بامقصد اور ہمہ گیر تصور موجود ہے تو وہ فقط اسلام کا عطیہ ہے۔ اسلام نے ایک بے قصور انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے:
مَنْ قَ تَلَ نَفْساً بِغَیْر نَفْس او فسَادً فی الارض فَکَأنَّمَا قَتَل الناس جمیعا(سورہئ مائدہ، آیت۲۳)
جس نے کسی انسان کو بغیر جان کے عوض یا زمین میں فساد کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا۔
اسلام نے صراحت کے ساتھ مسلمانوں کو ہدایت دی کہ اگر دیگر اقوام کی جانب سے تمھارے جان و مال اور امن و امان کے لیے کوئی خطرہ نہ ہو تو ان کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک کا معاملہ کرو، ارشاد ہے:
لاینہاکم اللّٰہ عن الذین لم یقاتلو کم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروہم و تقسطو الیہم، ان اللّٰہ یحب المقسطین (الممتحنہ:۸)
اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی کرو جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اسلام نے عہد کی پابندی کو لازم کیا:
وَاُوفوا بالعہد ان العہد کان مسؤلا (بنی اسرائیل، یت ۴۳)
اور عہد کو پورا کرو، بیشک عہد کے بارے میں بازپرس ہوگی۔
اسلام نے صلح کو بہتر قرار دیا: والصلح خیر (نساء، آیت۸۲۱) اور صلح بہترین چیز ہے۔
اسلام نے تمام انسانوں کی برابری کا اعلان کیا، قرآن کریم میں ارشاد ہے:
یَا ایّہا الناس انا خلقنٰ کم من ذکر وانتی و جعلنٰ کم شعوبا و قبائل لتعارفوا (حجرات، آیت۳۱)
اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھیں مختلف گروہوں اور قبیلوں میں کردیا تاکہ آپس میں پہچان سکو۔
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوقِ انسانی کے اوّلین اور جامع ترین عالمی منشور (خطبہ حجتہ الوداع) میں ارشاد فرمایا:
لافضل لعربی علی عجمی و لا عجمی علی عربی ولا لأحمر علی أسود و لا لأسود علی أحمر کلم بنوآدم و آدم من تراب، ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقٰ کم۔
کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر، کسی کالے کو کسی گورے پر فضیلت نہیں ہے۔ تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی اللہ کے نزدیک تم میں سب سے معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔
اسلام نے بدلہ لینے میں بھی برابری کی تلقین کی، زیادتی کی اجازت نہیں دی، ارشاد ہے:
وَاِنْ عَاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ۔ (النحل، آیت۶۲۱) اگر بدلہ لو تو اسی قدر بدلہ لو جتنی تم کو تکلیف پہنچائی گئی ہو۔
اسلام نے دوستی یا دشمنی دونوں صورتوں میں عدل و انصاف پر کاربند رہنے کی تلقین کی:
یَا ایہا الذین آمنوا کونوا قوّامین بالقسط شہداء للّٰہ ولو علی انفسکم او الوالدین والاقربین۔ (نساء، آیت ۵۳۱)
اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہنے والے اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہنے والے اور اللہ کی مرضی کے مطابق گواہی دینے والے بنو خواہ اس میں تمھارا یا ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہو۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
ولا یجرمنکم شنئآن قوم علی الا تعدلوا۔ (مائدہ، آیت:۸)
اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں انصاف سے ہٹانے کا باعث نہ بن جائے۔
اسلام نے تمام انسانوں پر رحمت و شفقت کی تلقین کی، ارشادِ نبویؐ ہے:
الراحمون یرحمہم الرحمن ارحموا من فی الارض یرحکم من فی المساء۔ رحم کرنے والوں پر اللہ رحم کرتا ہے تم زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔
اسلام نے تمام مخلوق کو اللہ کا کنبہ قرار دیا، ارشادِ نبویؐ ہے:
الخلق عیال اللہ فاحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ۔
اسی مضمون کو حالی مرحوم نے ان الفاظ میں ادا کیا ہے:
یہ پہلا سبق ہے کتابِ ہدیٰ کا
کہ مخلوق ہے ساری کنبہ خدا کا
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے ہر حال میں امن و انصاف اور رحمت و شفقت کی تلقین اور فرد و جماعت کو حدود کا پابند بنایا۔ اسلام کسی بھی حال میں فتنہ و فساد کو روا نہیں رکھتا۔ اس لیے دہشت گردی کی کسی بھی صورت کا تعلق اسلام سے نہیں ہوسکتا، لہٰذا مدارسِ اسلامیہ جو اسلامی تعلیمات کے حقیقی علمبردار ہیں، کسی تحفظ کے بغیر دہشت گردی سے بیزاری کا واضح الفاظ میں اعلان کرتے ہیں۔
پاسبانِ ملّت! دہشت گردی کے بارے میں اپنے ان واضح موقف کے اظہار کے بعد دوسری قابل غور چیز وہ صورتحال ہے جو اس حوالے سے خاص طور پر ہمارے ملک میں پیدا کردی گئی ہے جس کا نشانہ عمومی طور پر تمام ہی مسلمان ہیں اور خاص طور پر دین دار مسلمان یا مدارسِ اسلامیہ کے علماء و فضلاء اور ان سے وابستہ طبقہ کہ ان میں سے کسی کو بھی کسی دہشت گردانہ کارروائی کے سلسلے میں ملزم یا کم از کم مشتبہ قرار دینے کے لیے نہ تو کسی غور و فکر کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے نہ کسی احتیاط کو کام میں لایا جاتا ہے اور نہ قرائن و شواہد جمع کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جاتی ہے بلکہ ان کے سر الزام ڈالنے کے لیے اتنا کافی سمجھا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں یا ان کا تعلق مدارس یا کسی دینی جماعت سے ہے۔ اور اب تو صورتحال اس حد تک سنگین ہوگئی ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں تمام دہشت گردوں کا تعلق مدارسِ اسلامیہ سے منسلک کر رہی ہیں، بلکہ بعض دریدہ دہن لوگوں نے تو مذہبی تعلیم ہی کو دہشت گردی کی اساس اور منبع قرار دے دیا ہے، جیسا کہ اخباری اطلاعات کے مطابق حال ہی میں ”اسلامک مدرسے بے نقاب“ نامی کتاب میں کہا گیا ہے جس میں دینی مدارس اور دین اسلام کے متعلق بہت سی بے بنیاد، اشتعال انگیز باتیں اور بھی مذکور ہیں۔
اور یہ ساری افترا پردازی اس حال میں ہورہی ہے کہ مسلمانوں کا امن پسندانہ کردار، وطن عزیز سے ان کی بے غبار وفاداری اور تحریک آزادی میں تمام مسلمانوں اور خاص طور پر مدارس کے علماء کی بے مثال قربانیاں تاریخ ہند کی ایسی روشن حقیقت کی حیثیت رکھتی ہیں جس پر ایوان عدالت سے زندان عقوبت تک اس سرزمین کا ذرّہ ذرّہ گواہ ہے۔ کیا کوئی انصاف پسند شخص یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ مدارسِ اسلامیہ اور ان کے بوریہ نشین علماء کی جدوجہد کے بغیر برطانوی استعمار کے شکنجہ سے وطن کی آزادی کا خواب شرمندہئ تعبیر ہوسکتا تھا؟ ان بزرگوں نے پسینہ کی جگہ خون بہایا اور وطن عزیز کی عزت و سربلندی کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی اور پھر یہ حقیقت بھی تاریخ میں آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے کہ یہ ساری قربانیاں ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے سے بے نیاز ہوکر پیش کی گئیں اسی لیے حصولِ آزادی کے بعد یہی علمائے مدارس جو دارو رسن کی ہر آزمائش میں سب سے آگے تھے، ہر انعام و جزاء سے دست کش ہوکر یکسوئی کے ساتھ تعمیر انسانیت کے کاموں میں مشغول ہوگئے۔
یہی کام ان مدارسِ اسلامیہ کا نصب العین ہے جن کو آج دہشت گردی کا مرکز یا ملک دشمن سرگرمیوں کی آماجگاہ بتایا جارہا ہے۔ جبکہ حقیقت صرف اور صرف یہ ہے کہ یہ مدارس ملک و ملت اور انسانیت کے لیے خیروفلاح کے سرچشمے ہیں، یہ ملک کو امن پسند، ایمان دار اور فرض شناس شہری فراہم کرتے ہیں، یہ انسان دوستی اور صلح و آشتی کا درس دیتے ہیں، یہاں نفرت نہیں محبت سکھائی جاتی ہے، یہاں پڑھنے والے کا فکری خمیر، امن و سلامتی، دردمندی، خیرخواہی، غریب پروری، وطن دوستی اور احترامِ انسانیت کے جذبات سے تیار ہوتا ہے۔ اور یہ وطن دوستانہ، امن پسندانہ کردار صرف دارالعلوم دیوبند یا چند بڑے مدارس کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے تمام مدارس اسی طرز فکر کے حامل ہیں اس لیے کہ دارالعلوم دیوبند اور دیگر مرکزی مدارس سے جو رجال کار تیار ہوئے انھوں نے اپنے اکابر کی اسی فکر کو اپنایا اور پورے ملک میں چراغ سے چراغ جلانے کا کام کیا اور اپنی مثبت سوچ اور اعلیٰ ترین کردار سے چپے چپے کو منور کردیا اور اپنے بزرگوں کے پیغامِ امن و انسانیت کو گاؤں گاؤں پھیلا دیا اس لیے اگر یہ کہا جائے تو قطعاً مبالغہ نہ ہوگا کہ مدارسِ اسلامیہ دہشت گردی کی راہ میں سدسکندری کی حیثیت رکھتے ہیں جس کا ایک قوی ترین شاہد یہ تاریخی حقیقت ہے کہ یہ مدارس صدیوں سے اپنے اسی دینی نصاب و نظام کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں، لیکن کبھی بھی ان کے کردار پر حرف نہیں آیا، بلکہ ان سے جمہوریت پسند، محبت وطن، امن پرور اور ملک و قوم کے وفادار علمائے دین تیار ہوتے رہے ہیں جن کی وطن دوستی ہر شک و شبہ سے بالاتر رہی اور وہ اپنے بلند کردار اور اعلیٰ تعلیمات کے ذریعہ ہر قسم کی تفریق پسندانہ ذہنیت کے مقابلہ میں سینہ سپر رہے۔ ان کے اسی کردار نے ہمارے وزیر اعظم کو اس کا موقع فراہم کیا کہ وہ اقوامِ متحدہ میں فخر کے ساتھ کہہ سکیں کہ ہندستانی مسلمان دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مدارس کا کردار بالکل آئینہ کی طرح صاف ہے، یہاں کے نظام میں کوئی چیز راز نہیں ہے، سب کچھ کھلا ہوا ہے۔ ایسے شفاف کردار پر جب کیچڑ اچھالی جاتی ہے تو قلب و دماغ ایک حیرتناک اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت
درد سے بھر نہ آئے کیوں
علماء ذی وقار! اس تاریخی موقع پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے نازک مسئلہ پر اپنی حکومت، برادرانِ وطن اور اربابِ مدارس کی خدمت میں کچھ صاف صاف باتیں عرض کردی جائیں۔
جہاں تک حکومت اور اس کے انتظامی اداروں کا تعلق ہے تو ان سے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ:
(۱) امن و استحکام کے قیام اور بدامنی کے خاتمہ کے لیے عدل وانصاف پر مبنی مساویانہ سلوک کی ضرورت کو آپ سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے؟ اگر آپ دہشت گردی کی لعنت کا مقابلہ کرنے میں سنجیدہ ہیں تو نہایت پختگی اور مضبوطی کے ساتھ انصاف کا دامن تھام کر کام کیجئے اور عقیدہ و مذہب کی بنیاد پر کسی بھی تفریق سے کلی اجتناب کیجئے، حقیقی مجرموں کو تلاش کر کے کیفر کردار تک پہنچائیے اور بے قصوروں کی آہوں سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کیجئے تاکہ ملک کی وحدت و سالمیت برقرار رہے اور وہ تیزی کے ساتھ ترقی کی راہ پر آگے بڑھتا رہے۔
(۲) دہشت گردی کی حقیقت اور اس کے پس منظر کو سمجھئے، واقعہ یہ ہے کہ دہشت گردی، بنیادی طور پر ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ یہ ان عالمی طاقتوں کی تقسیم کردہ لعنت ہے جن کے نظریات کی بنیاد صیہونیت پر ہے، جن کا واحد ایجنڈا صیہونی عزائم کی تکمیل ہے اور وہ فساد فی الارض کے علمبردار ہیں، ورنہ کیا وجہ ہے کہ اربوں ڈالر اور لاکھوں فوجی دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے جھونک دینے کے باوجود آج تک کامیابی کے آثار نظر نہیں آتے بلکہ ان کی ناکامی کی انتہا تو یہ ہے کہ آج تک وہ دہشت گردی کا مفہوم ہی طے نہیں کرپائے۔ ان کے طرزِ عمل سے تو فقط یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مذموم توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں حائل ہونے یا ہوسکنے والا ہر شخص دہشت گرد ہے، جبکہ زمانہ واقف ہے کہ آج دنیا میں دہشت گردی کی لعنت صیہونی طاقتوں کے ہی دَم سے زندہ ہے، اسی لیے ان کے طریقہئ کار پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں پیش آنے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کی جانچ بہت گہرائی سے کیا جانا ضروری ہے کیونکہ بعض واقعات میں طریقہئ کار کی مماثلت محسوس ہوتی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری ادھوری یا غلط رُخ پر ہونے والی تحقیقات اصل مجرموں کی پردہ پوشی اور بے قصوروں کو مجرم قرار دینے کی نانصافی کا ذریعہ بنتی رہیں۔
(۳) حکومت کو دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے میں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ تاریخ میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ حکومتوں کے مجرم قوموں کے ہیرو کہلائے ہیں، خاص طور پر وہ جن کے شدت پسندانہ رویہ کا سبب حکومت کی ناانصافی اور ظلم ہو۔ اس تاریخی حقیقت پر نظر رکھتے ہوئے کوشش ہونی چاہیے کہ ہر ایسا عمل ترک کردیا جائے جس کا ردّعمل دہشت گردی کی شکل میں سامنے آسکتا ہے۔
(۴) کسی ایک فرد یا چند افراد کے طرزِ عمل کے لیے پوری قوم کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا، ورنہ دنیا کے تمام بڑے مذاہب اور تمام معزز قوموں کو دہشت گرد قرار دینا پڑے گا، جو یقینا ایک غلط بات ہوگی۔ یہی بات مسلمانوں پر بھی منطبق کیجئے، مسلمان اس ملک کی تاریخ و ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہیں، ان کو غیرمطمئن کردینا ملک و قوم کے حق میں کسی بھی طرح مفید نہیں ہوسکتا۔
(۵) اس پر بھی غور کیا جائے کہ مسلمان آج ہی کس طرح دہشت گرد بن جائیں گے جبکہ آزادی کے بعد سے اب تک ہر قسم کے مشکلات و مصائب جھیلنے اور امتیازی سلوک کا نشانہ بننے کے باوجود انھوں نے اپنے وطن کے دوستانہ کردار کو برقرار رکھا، اپنے حقوق کے مطالبہ کے لیے ہمیشہ جمہوری اور آئینی طرزِعمل اختیار کیا، شدت پسندانہ رویہ سے احتراز کیا، کبھی کسی طرح کی ملک دشمن سرگرمی میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی ملک کے مختلف علاقوں میں سرگرم شدت پسند تنظیموں سے کوئی رابطہ رکھا، آخر وہ اپنے اس ملک کو کیوں نقصان پہنچائیں گے جس کی آزادی کے لیے انھوں نے اپنی ہر عزیز متاع کو داؤ پر لگایا خاص طور پر جبکہ کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کا نقصان دوسروں سے پہلے خود انھیں کو پہنچنا یقینی ہے۔ ان نکات پر غور کر کے ہر صاحب عقل سمجھ سکتا ہے کہ مسلمانوں کا دہشت گرد ہونا خلافِ واقعہ بھی ہے اور ناممکن بھی۔
دوسری بات ہمیں برادرانِ وطن سے کہنی ہے کہ ہم اور آپ بھائی بھائی ہیں اور صدیوں سے اس ملک میں اچھے پڑوسیوں کی طرح رہتے آئے ہیں۔ ہماری مشترکہ قربانیوں سے وہ تہذیب وجود میں آئی ہے جسے گنگاجمنی تہذیب کہا جاتا ہے، ہم نے ملک کی ہر لڑائی شانہ بشانہ لڑی ہے، اگر آپ نے فرقہ پرست طاقتوں کے گمراہ کن پروپیگنڈے کو حقیقت سمجھ لیا اور مسلمانوں کی تابناک تاریخ کو نظرانداز کردیا تو یہ ہماری ہی آپ کی اور اس ملک کی بھی بدقسمتی ہوگی، اس لیے آپ ہمارے قریب آکر ہمیں دیکھئے اور ملک کے امن و امان اور وحدت و سالمیت کی حفاظت میں مشترکہ جدوجہد جاری رکھئے۔
اکابر ملک و ملّت! بندے کا یہ مقام ہرگز نہیں ہے کہ وہ آپ سے بات کرتے ہوئے ناصحانہ طرزِ کلام اختیار کرے اور نہ ہی آپ اس کے محتاج ہیں، لیکن وقت کے تقاضے کے تحت ایک بھائی کی حیثیت سے چند ضروری باتیں عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ مدارسِ اسلامیہ ہمارے ہاتھ میں ہمارے اسلاف اور ملت اسلامیہ کی نہایت قیمتی امانت کی حیثیت رکھتے ہیں، اس امانت کی ہر پہلو سے حفاظت اور اس کا حق ادا کرنا ہمارا سب سے اہم فریضہ ہے۔
اس فریضہ کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر وقت مدارس کے نصب العین کو سامنے رکھیں، ہمارے اکابر رحمہم اللہ نے شریعت اسلامی کے علمی ورثہ کو اس کے مخصوص مزاج اور متوارث منہاج کے مطابق اس کی صحیح شکل میں محفوظ رکھنے کے لیے یہ مدارس قائم کیے تھے، ان کے پیش نظر ایسے رجال کار تیار کرنا تھا جو اسلامی علوم و فنون کے ماہر اور اعلیٰ اسلامی اخلاق و کردار کے حامل ہوں، جو اپنی علمی مہارت، فکری گہرائی و گیرائی اور کردار کی پختگی سے ملت اسلامیہ کی باشعور نمائندگی اور ہوش مندانہ قیادت کا فریضہ انجام دے سکیں۔
ایسے افراد کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے طلبہ کو ہر قسم کے مضر خارجی اثرات سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کریں، ان کو مادّیت کی لہر اور مغربی تہذیب کی لعنت سے بچائیں، ان کی ٹھوس ذہنی تربیت کا اہتمام کریں جس کے نتیجے میں وہ نہ تو کسی اسلام دشمن تحریک کی زد میں آسکیں اور نہ ہی ان کو اسلام کے نام پر کسی غیرقانونی سرگرمی کے لیے آلہئ کار بنایا جاسکے۔
دوسری نہایت ضروری بات یہ ہے کہ مدارس کے حالات، امن پسندانہ کردار اور تعلیمی سرگرمیوں سے اپنے ماحول کو واقف کرایا جائے، بہت سی غلط فہمیوں کی بنیاد پر ناواقفیت ہوتی ہے اگر ہمارا رابطہ اپنے ماحول سے مسلسل رہے گا اور ہماری سرگرمیاں حکومت اور اس کے نمائندوں کے سامنے آتی رہیں گی تو فرقہ پرستوں کے پروپیگنڈے کا ایک مؤثر جواب ہوجائے گا۔ ہمیں کسی کو خواہ مخواہ اپنا دشمن بنانے یا سمجھنے کی ضرورت نہیں، بلکہ اپنے پیغامِ محبت کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
اور آخر میں نہایت دردمندی کے ساتھ ایک گزارش ملت کے تمام ہی مکاتب فکر کے اکابر کی خدمت میں کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ آج کے پرآشوب حالات میں امت مسلمہ کا اتحاد، گزشتہ ہر دَور سے زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنے فروعی اختلافات کو اپنے گھر تک محدود رکھیں اور دشمنوں کے مقابلے میں ایک متحد امت کا کردار پیش کریں؟ کیا ہمارے لیے صحابی رسولؐ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل بہترین اسوہ نہیں کہ انھوں نے عین اس زمانہ میں جب وہ سیّدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے برسرپیکار تھے روم کے بادشاہ کی جانب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کی دعوت کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا اور ملت میں تفریق کے اُس داعی کو یا کلب الروم کے الفاظ سے مخاطب کر کے ٹھوس لفظوں میں بتادیا کہ اگر اُس نے حضرت علیؓ کے زیر حکومت علاقوں کی طرف نظر اُٹھا کر بھی دیکھا تو حضرت علیؓ کے لشکر کے سب سے پہلے سپاہی کا نام معاویہ ہوگا۔ آج اس کردار کو زندہ کرنا وقت کی آواز ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اس آواز کو سنیں اور اسی کے مطابق اپنا لائحہئ عمل تیار کریں۔
اسی کے ساتھ اپنے داخلی نظام کو بہتر بنانا ازبس ضروری ہے، ہمارا مالیاتی نظام آئینہ کی طرح شفاف ہونا چاہیے، اسی طرح ہمارے مدارس کے ماحول کو ایک بہترین معیاری اسلامی ماحول کا نمونہ ہونا چاہیے، جس میں حسن اخلاق، دیانت و امانت، ادائے حقوق، اتباعِ سنت اور خوفِ خدا کی حکمرانی ہو، اگر ہم اپنے معاشرہ کو ان خطوط پر ڈھالنے میں کامیاب ہوگئے تو انشاء اللہ خطرات کے تمام بادل چھٹ جائیں گے اور مدارس کے خلاف ہونے والی سازشیں اپنی موت آپ مرجائیں گی۔
آخر میں ایک بار پھر صمیم قلب سے آپ سبھی حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور حق ضیافت میں کوتاہی پر معذرت پیش کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ اس کانفرنس کو تمام مدارس اور ملت اسلامیہ کے لیے مثمر خیرات و برکات فرمائے اور ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ
ربّ العالمین
مرغوب الرحمن عفی عنہ
مہتمم دارالعلوم دیوبند

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close