زبان و ادب

تبصرہ نام کتاب:سرحدپارکی تواناآوازیں

مرتب:اسلم چشتی
دوسری اشاعت؛جنوری2020
صفحات:198
قیمت:350 روپئے
ملنے کاپتہ:فلیٹ نمبر4، شان ریوااپارٹمینٹ، ریواسوسائٹی،
45/2وانوڑی، نزد جامبھولکر گارڈن،پونے (ایم ایس)
مبصر:ڈاکٹرراحت مظاہری، دہلی
چیف ایڈیٹر سہ ماہی ’دعوت وتبلیغ، دہلی
9891562005
میرے ہم دست کتاب [سرحدپارکی توناآوازیں]کے مرتب] ادیب وشاعرجناب اسلم چشتی ہمارے ملک کے مشہور ادیبوں،قلم کاروںمیں ہیں، نہایت فعال اورکثیرالتصانیف ہیں،آپ متعدد علمی تحریکوں اورتنظیموںسے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ ایک عمدہ تاجرمہاراشٹرکے مشہور شہرپونے میں مقیم ہیں جبکہ یہ تاریخی ، وصنعتی شہر اردوکے دونوںاسکولوں دہلی اورلکھنؤ سے ہزاروں میل کے فاصلہ پر واقع ہیں ،مگرچونکہ اسلم چشتی کے ادبیذوق کواردوشعروادب کے فائق ترین استاذمحترم عنوان چشتی علیہ الرحمۃ والرضوان کی جلاکاشرف اوررفیق محترم جناب شمس رمزی کی شعری صحبت سے وافرحصہ ملاہے، وہ اپنے ہم نشینوںکے ساتھ کسی وقت اپنی ادبی تگ ودواوردجہد سے اگرپونے کواردوکاتیسراسکول بنادیں تومیرایہ خیال بعید ازقیاس نہیں، جہاںاردوکے مسیحامحترم منورپیربھائی، ان کی بیگم، ممتازپیربھائی، اورنذیرفتحپوری وغیرہ جیسے اردو کے شیدائی آبادہوں، وہاں میرا یہ واہمہ کسی بھی وقت اپنیحقیقی صورت اختیارکرسکتاہے،۔
بعدازاں،نئی نئی تخلیقات کی ترتیب کی طرف اسلم چشتی کاذوق عجیب طرح سے رہنمائی کرتاہے کہ جب واٹس ایپ سے قبل ’فیس بک، کا نیانیاشہرہ تھا، موصوف نے ’فیس بک پر اکثر ادبی خدمت گذارشعراکاکلام جمع کرکے ایک نئی تخلیق’ فیس بک کے شعرا، کے عنوا ن سے ترتیب دے کے اردوادب میں ایک نئی صنف تحریرکااضافہ کردیا۔
اگرسردست سو شل میڈیا کی بات کریں توحیرانی ہو تی ہے کہ در اصل آج کے عہد میںواٹس ایپ اردو کے فروغ میں جس زور،شورسے صرف قومی سطح ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر تقویت بخشی ہے۔
آج فیس بک اور وہاٹس ایپ پر ہزاروں صفحات، گروپ، ادارے، رسالے، اخبارات، آڈیو خبر نامے اور ویڈیو چینلس کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے۔
جشن اردو،جشن اردو افسانہ، عالمی اردو افسانہ میلہ، غزل مقابلہ، طرحی مشا عرہ وغیرہ بے شمار ایسے سلسلے ہیں جن کی موجودگی سے اردو ہر طرف نظر آرہی ہے۔
سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا، مو بائل وغیرہ پر اردو رسم الخط کا استعمال بڑھا ہے،اس طرح وہاٹس ایپ، فیس بک اورانسٹاگرام وغیرہ پر مسلسل ہردن ادب کی اہم معلو مات عوام تک پہنچتی رہتی ہیں،جبکہ ہمارے جنوبی ہند کی کچھ ریاستوں اور کشمیر، بہار، بنگال اوربہاراشٹر سے قطع نظر، اردو میں پرا ئمری کی تعلیم کی صورتِ حال بہت خراب ہے۔ اترپردیش، ہریانہ، پنجاب، اترا کھنڈ، را جستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، اڑیشہ وغیرہ ریاستوں میں پرائمری سطح پر اردو کا نظم بہت ہی ناقص ہے۔ زیادہ تر ریاستوں میں اس سطح پر اُردو ہے ہی نہیں۔ اسی وجہ سے پروفیسر نارنگ، رتن سنگھ، گلزاردہلوی، گلزار(مرحومین)، کے ایل نارنگ ساقی، چندر شیکھر، بلراج بخشی، رینو بہل اور دیپک بدکی نام اب صرف بطورتبرک کے طور پر ہیں۔ان کے بعد بردران وطن میں اردوشناس کو ئی نسل اب سامنے نہیں ہے۔
اب میرے ہم دست ان کی ایک تازہتخلیق’’سرحدپار کی تواناآوازیں،،(کتابوںکی روشنی میں)تجزیئے اورتبصروں پر مشتمل موجود ہے۔
کتاب ہذامیں مرتب نے پورے چالیس ادیبوںکے مجموعے اوران کی نظم ونثرکامطالعہ کیا،اوراسکے بعد ان سے جو لب لباب اسلم نے اخذکیااس سے اپنے قاری کوبھی پورے طورپرروشناس کرانے کابیڑااٹھایاہے۔
[سرحدپارکی توناآوازوں میں] مرتب نےمضامین کاآغاز عرب نژاداردوشاعرڈاکٹرزبیرفاروق کی شعری کلیات’سردموسم، سے کیاہے،شایدفاروق صاحب کوشروع میں لینے کی بنیاد کسی نیک شگونی اورتحصیل برکت کاحصہ بھی ہوسکتی ہے، کہ ان کا تعلق مہبط وحی’ اقرأ، سے ہے۔جوکہ یقیناََاہل علم اوربطورخاص ایک عاشق مصطفی کے جذبہ صادق کی غمازی ہے،اس پرگفتگوکرتے ہوئے اسلم نے ایک رسمی بحث چھیڑی ہے کہ زبیرفاروق نے اپنے مافی الضمیرکے لئے اردوکوکیون چنا؟
اس سوال کے جواب کو مرتب نے خودصاحب کلام کے ایک اقتباس سے حل کرنے کی کوشش کی ہے ’’اردوزبان کی جڑیں زرخیز عربی زمیں میں بہت زیادہ گہری ہیں، اس کے علاوہ فاروق کامانناہے کہ ’’مجھے (اردوزبان میں)اپنائیت کے علاوہ ایک خوشگوار حیرت کالطف بھی آتاہے،،
زبیرفاروق کے کلام سے انتخاب میں انھوں نے یہ باورکرانے کوششکی ہے کہ شاعر کے کلاسیکل اشعارکے ساتھ جدت کارنگ بھی بدرجۂ اتم موجودہے، اسی کے ساتھمترنم بحروں اور آسان قوافی کاانتخاب ان کی شاعری کودلچسپ بنادیتاہے،
دشمن سہی ، وہ لاکھ۔مگرغیرتونہیں/مجھ سے مقابلہ میرااپنی اناکاہے۔
متاع فکر: مجموعہ ٔہٰذا ہندنژادمحترمہمیمونہ علی چوگلے(مقیم کویت) کے اکیس تنقیدی مضامین پر مشتمل مصنفہ کی تیسری کتاب ہے،جس میں بطورخاص ہندستانی ادیبوں میں پروفیسر آل احمدسرورؔ، علی سردارجعفری،عصمت چغتائی، امریاپریتم،مجتبیٰ حسین،اورپاکستان،کینیڈا، کویت وغیرہ میں مقیم اردو کی آبیاری کرنے والوںسے متعلق تحقیقی وتنقیدی مضامین ہیں۔
کتاب کے مطالعہ سے ان کی تحریروں میںدلچسپی کے عناصر کے ساتھ تہذیبی قدارشناسی،اورمختلف علوم وفنون پر دسترسی کاایساانکشاف ہوتاہے،جوکہ ہرہماشماکامقدر نہیں۔
مشتے نمونہ ازخروارے کے طورپر پرفیسرسرورکے تعلق سے ایک اقتباس پیش ہے
’’سرورصاحب کی زبان بڑی دلکش اورمرصع ہوتی ہے، اس میں رنگینی اورادبی حسن ومسرت کاوہ خاص خیال رکھتے ہیں،،۔
سخن ہواکاتازہ جھونکا: محترمہ اسلام عظمیٰ ، جن کا وطنی تعلق مملکت خداداد سے ہے، محترمہ ایک ہمہ جہت ادیبہ ہیں یعنی ان کو شعروسخن کے ہمراہ سکرپٹ رائٹنگ،تصنیف وتالیف سے خاص شغف ہے،چاک، ان کاتیسرامجموعہ ٔ کلام ہے۔سخن کی اعلیٰ ذوقی ان کی شناخت ہے،ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
اک میں نہیں، لگاہے یہاں شہر داؤپر/ہونے لگے ہیںفیصلے سکأّہ اچھال کر۔
قیس وفرہاد کودورتھا جوبیت چکا/اب محبت سے محبت نہیں ملنے والی۔
گل زیبؔ: مضمون ہٰذا کسی شعری دیوان پر مشتمل نہیں بلکہ ان کی چندمنتخب غزلوںپر ہے جومبصرکو دستیاب ہوسکیں، اسی لئےا س بات کی وضاحت کی ضرورت پیش آئی[گلزیب کی شاعری پر میری یہ تحریران کی شعری کائنات کوپانے کی ایک کوشش ہے ، ان کے شعری پیکرتک رسائی کادعویٰ میں اس لئے نہیں کرسکتا کہ میں نے محترمہ کے ان ہ اشعاپراظہارخیال کیاہے جو دستیاب ہوسکے،،
شاعرہ کے تعارف میں یہ انکشاف بھی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ لندن میٹروپولیٹن یونیورسٹی(پوسٹ آف کراچی)کی تعلیم یافتہ ،ذہین نیزاردوکی نئی بستیوں میں روشن اورنمایاں نام ہے،ان کی کئی حوالوں سے پہچان یعنی مشاعرے، ادبی نشستیں،کلچرل پروگرام، ریڈیو، ٹی وی انٹرنیٹ، اورفیس بک تمام ہی ذرائع ابلاغ پر پیش پیش ہیں۔۔۔جن کےشعری پیکرتصور میںزندگی کے مختلف مسائل، تبدیلیٔ حالات اوروقت کے تقاضوں پر ان کی گہری نظر کے شواہد ملتے ہیں۔

خوداپنادیکھ کر چہرہ حیاسے جھک گئیں پلکیں/نہ ہوتاآئینہ گھرمیں، توشرمانے کہاں جاتے؟۔
ہم انساں ہیں کیاگذرتی ہے دل پر/پرندے بھی روتے ہیں ہجرت سے پہلے۔
سلسلہ دلداری کا(عباس تابشؔ)۔۔۔ایک مطالعہ، کے تحت ان کے فکروفن پرگفتگومیںان کی غزلیہ شاعری کی ارتقائی منزلوںمیںفکرمعاشیات، سیاست، سماجیات اورطرزفکرکواجاگرکرنے کی کوشش کی ہے، ان کایک شعرملاحظہ ہو۔
ہم کودل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا/دھوپ میںدورسے ہرشخص شجرلگتاہے۔
سیماغزل، سے اسلم چشتی کی گفتگومیں محترمہ کابیک ادبی گراؤنڈ، ان کی ادبی خدمات، اورادب اطفال کے میدان میں ان کی تخلیقات اورافکارکاخاکہ ہے،۔
اسی طرح مجموعہ ہٰذامیں فرانس میںاردوکی مشعل لئے محترمہ سمن شاہ کےمجموعہ کلام[ہمیشہ تم کو چاہیںگے کاتعارف،[فصل تازہ]اردوکی نئی بستیوں میں ہندنژادکویت میں مقیم اردوکے علمبردار جناب افروزعالم
کے کلام سے ایک شعری اقتباس سے ایک شعربطورخاص ملاحظہ ہو۔
گھرکے صحراکوگلستاںمیں بدلنے کے لئے/ہم خزاؤںمیں پنپنے کاہنررکھتے ہیں۔
اسی طرح محترمہ فوزیہ مغل کےمجموعہ کلام[بھرم ] پر بصیرت افروزبحث،انگلینڈمیں مقیم پاکستانی ادیب جناب خالد سجادکے [مجھ میں دریابہتاہے] ، ایم زیڈکنول کے[کائنات مٹھی] میں کااجمالی جائزہ،وغیرہ سبھی پر تفصیلی مضامین شامل ہیںجن کا تعلق پڑھنے سے ہے۔ان کے علاوہ اس کی ترتیب میں جن حضرات کو ملحوظ خطررکھاگیاہے ، ان میںجناب شاہین بھٹی، مہتاب قدر، سیمانقوی،عبدالواہاب سخن، صفیہ سلطانہ،ندیم ماہر،شاہجہاںجعفری،اعجازحفیظ، ثمینہ گل، عیسی بلوچ،شگفتہ بلوچ، باقی احمدپوری،ثمینہ رحمت، ولی شاذیہ اکبر، پرویزمظفر،فیاض دروگ،سعیدنظر، احمداشفاق،مسعودحناس،صابرگالسولکر،رانامحمدافضل،صفدرعلی صفدر، کاشف کمال،بدرسیماب اورعمران رشید ہرایک کے مجموعہ اوران کے کلام بلاغت نظام کے تعلق سے علمی گفتگو،یوں کہاجاسکتاہے کہ مرتب نے ان حضرات کے کلام کوبہت قریب اورہرزاویہ سے پرکھا اوردیکھا، تبھی جاکے ان پر قلم اٹھایاہے،اورا س طرح دیارغیرمیں مقیم ان اردومسیحاؤںکو ہمارے روبروکردیاہے،جس سے ان کے فن کو ایک قسم کی تجسیم کاعطیہ ملااوران حضرات کے پاکیزہ خیالات شائستہ تشبیہات،اورحلم ومتانت کی خوش رنگ قوس قزح سے ہمارے قلب ودماغ کوایک نئی جلااورسمت ملی،
، اسی کے ساتھ کتاب کاخوشنماٹائٹل، دیدہ زیب، ڈیزائننگ،مناسب فاؤنٹ،ہرشے میں ایک خاص حسن وتناسب کومدنظررکھاگیاہے، ان سب خوبیوںکے ساتھ کہیں کہیںکتابت کی غلطیاںداڑھ کے نیچے دال میں کٹکامحسوس ہوتی ہیں۔
بعض لوگوں کے اشعار کی بےنظیر تشریح یقیناََاپنے آپ میں خودایک لازوال کارنامہ ہے، جوصرف اسلم چشتی کاہی حق ہے ہرہماشماکادل گردہ اوریہ حوصلہ نہیں،جس کے لئے ان کوتہ دل سے مبارکباد پیش ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close
%d