زبان و ادب

ترجمہ : تعریف، تقسیم اور طریقے

محمد یاسین جہازی

کسی تحریر اور خیال کو ایک زبان سے بعینہٖ دوسری زبان میں منتقل کرنے کا نام ’ترجمہ‘ ہے۔ ’ترجمہ‘ ایک مستقل اور قدیم فن ہے۔ اسی کے ذریعے ایک زبان کے علوم وفنون کو دوسری زبان میں منتقل کیا جاتاہے، جس سے زبانیں پھلتی پھولتی اور فروغ پاتی ہیں۔ ویسے تو ہر دور میں ’ترجمہ نگاری‘ کی اہمیت مسلم رہی ہے؛ لیکن عصر حاضر میں ترسیل و ابلاغ کے تمام ذرائع کا اسی پر دار ومدار ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت وافادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
ہر زبان کی کچھ نہ کچھ ایسی امتیازات وخصوصیات ہوتی ہیں،جو دوسری زبانوں میں نہیں ہوتیں۔ اسی طرح ہر زبان کا مزاج اور اسلوب بھی دوسری زبان سے مختلف ہوتاہے، بایں وجہ ترجمہ کا فن قدیم ہونے کے باوجود اس کے کوئی مقررہ اصول وضع نہیں کیے جا سکے ہیں۔ تاہم چند ایسے گُر ہیں جن کا اگر ترجمہ کرتے وقت خیال رکھا جائے؛ تو ترجمہ کرنا آسان ہوسکتا ہے اور وہ درج ذیل ہیں:
(۱)جس زبان سے ترجمہ کیا جائے، پہلے اس زبان کا ادب، ادبی روایات اور روز مرہ استعمال ہونے والے امثال ومحاورات سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرلی جائے۔
(۲)جس موضوع اور فن کا ترجمہ کیا جائے، اس موضوع کے حوالے سے مکمل معلومات اور اس فن میں اچھی خاصی مہارت پیدا کرلی جائے۔
(۳)ترجمے میں اپنی زبان کی نزاکت اور مزاج کو قائم رکھنا بھی ضروری ہوتاہے، اس لیے مترادفات اور محاورات میں سے وہ الفاظ اور محاورے استعمال کیے جائیں،جو مضمون کے مناسب اور موقع استعمال پر مکمل طور پر فٹ ہوجائیں۔
(۴)محاورات واصطلاحات کے ترجمے کے وقت اگردوسری زبان میں ان کا متبادل موجود ہو؛ تو فبہا، ورنہ ان کے لیے ایسے الفاظ کا انتخاب کیا جائے جو سہل اور عام فہم ہوں۔
(۵)ترجمہ کرتے وقت سب سے پہلے جملے کی ساخت پر خوب غور وخوض کیا جائے، اور اس کے اجزائے ترکیبی کو مکمل گرفت میں لے لیا جائے۔ چوں کہ ہر زبان کے جملوں کی بناوٹ مختلف ہوتی ہے، اس لیے اس زبان کے اجزائے کلام کی ترتیب کے مطابق ترجمہ کیا جائے، مثلاً: اردو کے جملوں میں اجزائے ترکیبی اس طرح ہوتے ہیں: (۱)فاعل (۲)مفعول (متعلقات فعل)(۳)فعل (۴)فعل امدادی،جیسے:
عارف
ایک خط
گھر
بھیج
دے گا
فاعل
مفعول
متعلقات فعل
فعل
فعل امدادی
جب کہ عربی میں سب سے پہلے فعل، پھر فاعل، اس کے بعد مفعول اور متعلقات فعل ہوا کرتے ہیں، جیسے:
یقرأ
حامدٌ
کتاباً
منذ یوم الجمعۃ
فعل
فاعل
مفعول
متعلقات فعل
اسی طرح اردو اور عربی دونوں کے بر خلاف انگریزی میں اجزائے کلام کی ترتیب اس طرح ہوتی ہے: (۱)فاعل (۲)امدادی فعل (۳)فعل (۴)مفعول۔ جیسے:
ABOOK
READING
IS
KHALID
مفعول
فعل(حال)
امدادی فعل
فاعل
لہذا عربی اور انگریزی کے مذکورہ بالا دونوں جملے کا اردو میں ترجمہ، ان دونوں کے اجزائے کلام کی ترتیب کے مطابق اس طرح نہیں کیا جائے گا کہ پڑھ رہاہے حامد ایک کتاب جمعہ کے دن سے۔ (عربی کا) اور خالد ہے پڑھ رہا ایک کتاب۔ (انگریزی کا)؛ بلکہ ان دونوں جملوں کا اردو کے اجزائے کلام کی ترتیب کے موافق اس طرح ترجمہ کیا جائے گا: حامدجمعے کے دن سے ایک کتاب پڑھ رہا ہے۔ اور خالد ایک کتاب پڑھ رہا ہے۔ اسی طرح اردو کا دوسری زبان میں ترجمہ کرتے وقت اس زبان کے اجزائے کلام کی ترتیب کا لحاظ رکھا جائے گا۔
(۶)صلہ جاتوں کا ترجمہ وہیں کیا جائے گا؛ جہاں زبان ان کا متقاضی ہو، اور جہاں زبان ان کا متقاضی نہ ہو؛ وہاں ان کا ترجمہ نہیں کیا جائے گا، جیسے: عربی میں بولا جاتاہے: ذہبتُ الیٰ المحطۃاس میں ’ذہب‘ فعل کا صلہ’الیٰ‘ہے، جس کے معنی: تک، طرف کے ہیں۔چوں کہ اردوزبان یہاں اس کے ترجمے کا متقاضی نہیں ہے، اس لیے’میں اسٹیشن کی طرف گیا‘ ترجمہ نہیں کیا جائے گا؛ بلکہ یہ کیا جائے گا کہ: ’میں اسٹیشن گیا‘۔
اسی طرح انگریزی کا ایک جملہ ہے:”There was a king“ اس کا اردو زبان کے مزاج سے ہم آہنگ ترجمہ ہوگا: ”ایک بادشاہ تھا“۔ یہ نہیں ہوگا کہ:”یہاں ایک بادشاہ تھا“؛ کیوں کہ انگریزی میں یہاں پر thereکا لفظ جملے کی تکمیل کے لیے مبتدا کی ضرورت کے پیش نظر تھا۔ اردو میں اس کی ضرورت نہیں، اس لیے اردو میں ترجمہ کرتے وقت ”یہاں“ کا لفظ شامل کرنا زائد بھی ہوگا اور بے محل بھی اور کلام کا مفہوم بھی تبدیل ہو جائے گا۔
(۷)ترجمہ کرنے کے دوران مفہوم کی مکمل وضاحت کے لیے بعض جگہ ایک آدھا لفظ کم کرنے یا بڑھا نے کی ضرورت پڑتی ہے؛کیوں کہ ایک زبان کے طرز بیان میں کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں، جن کا استعمال اس میں ناگزیر ہوتا ہے،جب کہ وہ دوسری زبان کے لیے قطعی غیر ضروری؛ اس لیے ایسی صورت میں دونوں زبانوں کے مزاجوں اور جملوں کی ساخت میں مماثلت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے الفاظ کو گھٹانے بڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
(۸)ترجمے میں وہی اسلوب اور طرز بیان اپنانا ضروری ہے جو اصل زبان میں ہے، مثلا: اخبار کے ترجمے میں اخباری زبان واسلوب اور ادبی مضامین کے ترجمے میں ادیبانہ اسلوب اختیار کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اصل زبان میں پائے جانے والے جذبات کی پوری پوری عکاسی کرنا بھی ناگزیر ہے۔
(۹)ترجمے والی زبان میں الفاظ کی ترتیب کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے، کیوں کہ کبھی ایسا ہوتاہے کہ جملے کے ہر ہر جز کا ترجمہ تو صحیح ہوتاہے، لیکن الفاظ کی ترتیب میں الٹ پھیر ہونے کی وجہ سے جملے کا مفہوم ہی بدل جاتاہے، جیسے: ’حامد پڑھ رہاہے‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے؛ تو ترجمہ ہوگا: Hamid is reading. لیکن اس کی ترتیب بدل دی جائے، مثلایوں کردیاجائے کہIs Hamid reading? تو اگرچہ اردو جملے کے ہرہر جز کا ترجمہ ہوگیا، لیکن ترتیب بدل دینے کی وجہ سے سادہ جملہ استفہامیہ جملہ میں تبدیل گیا، اور اس کا مفہوم بدل کر یہ ہوگیا کہ ”کیا حامد پڑھ رہا ہے؟۔
(۰۱)کبھی کبھی ترجمے والی زبان سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے جملہ اسمیہ کا جملہ فعلیہ سے، جملہ فعلیہ کا جملہ اسمیہ سے، فعل لازم کا فعل متعدی سے، فعل متعدی کا فعل لازم سے، معروف کا مجہول سے، مجہول کا معروف سے اور صلہ وموصول کا اسم فاعل سے ترجمہ کیا جاتاہے، جیسے: عربی جملوں کے ترجمے میں:
(۱)انما المرء بأصغریہ: قلبہ ولسانہ:آدمی اپنی دو چھوٹی چیزوں: دل اور زبان سے پہچان لیا جاتاہے۔ (۲)تنقسم الکلمۃ الیٰ ثلاثۃ اقسامٍ:اسم،وفعل، وحرفٍ:کلمے کی تین قسمیں ہیں: اسم، فعل اور حرف۔ (۳)انتقل الرجل الذی کان ہنا امس، الیٰ دلہی:کل یہاں موجود شخص دہلی چلا گیا۔ پہلی مثال میں جملہ اسمیہ کا جملہ فعلیہ سے، دوسری مثال میں جملہ فعلیہ کا جملہ اسمیہ سے اور تیسری مثال میں صلہ موصول کا اسم فاعل سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
(۱۱)ترجمہ مکمل کرنے کے بعد ترجمہ اور اصل مضمون دونوں کو باربار پڑھنا چاہیے، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اصل مدعا ادا ہورہاہے یا نہیں۔ اگر نہیں ہورہاہے، تو الفاظ کی تراش خراش کر کے اس خامی کو دور کیا جائے، اور اصل کے مطابق بنایاجائے۔
(۲۱)ترجمہ میں وہی الفاظ لکھے جائیں، جن کے معنی ومفہوم سے اچھی طرح واقفیت ہو۔ اگر کسی لفظ کے معنی ومفہوم میں ذرابھی شک وتردد ہو؛ تو فوراً لغت کا سہارا لیا جائے، سستی وکاہلی کی وجہ سے اس کولغت دیکھے بغیر نہ لکھ دیا جائے۔کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں جو معنی ہے،وہ نہ ہو،اور ترجمہ کچھ کا کچھ ہوجائے۔
ترجمے کی اقسام
یوں تو ترجمے کی کئی قسمیں ہوسکتی ہیں؛ لیکن مجموعی تأثر کے لحاظ سے اس کی تین قسمیں ہیں: لفظی ترجمہ۔ بامحاورہ ترجمہ۔ آزاد ترجمہ۔
لفظی ترجمہ: اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر ہر لفظ کا ترجمہ کیا جائے اور اصل زبان کے الفاظ سے ترجمے کی زبان کے الفاظ کو قریب سے قریب تر رکھا جائے؛ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ جملہ بے ربط اور زبان وبیان کا خون نہ ہونے پائے، بلکہ اس میں دل کشی اور شگفتگی برقرار رہے۔
بامحاورہ ترجمہ:اس سے مراد یہ ہے کہ ایک زبان میں مستعمل محاوروں کا دوسری زبان کے محاوروں سے ترجمہ کیا جائے۔ بہ الفاظ مختصر محاورے کا محاورے سے ترجمہ کیا جائے؛ لیکن شرط یہ ہے کہ محاورے برمحل واقع ہوتے ہوں اور مفہوم میں کسی تبدیلی کے بغیر ترجمہ فصیح اور زبان کا مزاج وانداز دونوں برقرار رہتے ہوں، گویا ایسا معلوم ہوکہ یہ ترجمہ نہیں؛بلکہ خود اسی زبان کامضمون ہے، جیسے: عربی کا ایک محاورہ ہے: ’جعل الحبۃ قبۃً‘ اس کا لفظی ترجمہ تو یہ ہوگا کہ ’اس نے دانے کو گنبد بنادیا‘؛ لیکن اس کا بامحاورہ ترجمہ یہ ہوگا کہ ’اس نے رائی کے دانے کو پہاڑ بنادیا‘۔ اسی طرح انگریزی کا ایک جملہ ہے:: Mend Your Ways اس کا لفظی ترجمہ تو یہ ہوگا کہ ”اپنا راستہ درست کرو“ جب کہ اس کا بامحاورہ ترجمہ یہ ہوگا کہ ”اپنی چال چلن ٹھیک کرو“۔
بامحاورہ ترجمہ کرنے میں کبھی یہ مشکل در پیش ہوتی ہے کہ دوسری زبان میں اس کا متبادل محاورہ نہیں ملتا، کیوں کہ ہر محاورے کا اپنا ایک سماجی، تاریخی اور تہذیبی پس منظرہوتا ہے اور اسی کے مشابہ واقعہ میں استعمال ہوتاہے، ہر جگہ استعمال نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں اصل مفہوم کو اس طرح بیان کیا جاتاہے کہ وہ محاورے کی پوری لطافت اپنے اندر سمیٹ لے۔
آزادترجمہ:اس میں صرف مرکزی خیال اور مفہوم کو منتقل کیا جاتاہے۔ آزاد ترجمہ نگار متن کے الفاظ کے پیچ وخم میں الجھے بغیر صرف مفہوم کو اپنی زبان اور اپنے الفاظ میں بیان کردیتاہے؛ لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مصنف کے انداز واسلوب کو کسی حدتک برقرار رکھا جائے اور اس کے احساسات وجذ بات کی کما حقہ ترجمانی کی جائے۔ اگر ترجمہ نگاری کے وقت ان تینوں قسموں میں سے کسی قسم میں ترجمہ کرنے کے دوران اس کی شرط پوری کی جائے، تو ان شاء اللہ وہ کامیاب ترجمہ ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close