تصوف اور صوفیانہ مشن کا فروغ وقت کی اہم ضرورت: سیف الدین اصدق

جمشید پور :
ملک میں بڑھتی نفرت و تشدد، گنگا جمنی تہذیب کی مٹتی قدروں سے اس ملک کو آزادی دلانے کے لیے صوفی سنتوں کی تعلیمات کا فروغ اور ان کی تشہیر ضروری ہے۔ اسی کے پیش نظر غیر منقسم بھارت کے معروف ترین صوفی بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے سالانہ عرس کی نسبت سے تحریک پیغام اسلام اور انجمن خدام اصدق جمشید پور نے بعنوان "صوفی سنتوں کا پیغام محبان وطن کے نام” بعد مغرب تا 10 بجے شب ایک سمپوزیم کا انعقاد کرایا۔ جس میں متعدد اسلامی اسکالرز اور دانش وران نے متعینہ موضوعات پر اپنے زریں خیالات اور مقالات پیش کیے۔
تلاوت کلام پاک اور حمد و نعت کے بعد با ضابطہ سمپوزیم کا آغاز ہوا۔ پہلا مقالہ معروف کالم نویس حافظ ہاشم قادری صاحب نے بعنوان "بھارت میں اسلام کی آمد رحمت یا زحمت؟ ” پیش کیا۔ آپ نے کہا کہ :
آزادی کے بعد اور خصوصاً چند سالوں سے فرقہ پرست قوتوں نے بھارت سے اسلام اوراس کے پیروکار کی بیخ کرنے میں یہودونصاریٰ کی پوری پوری نیابت اختیار کررکھی ہے۔اس سے جب اسلام دشمن کی تشنہ نگاہ سیراب نہ ہوسکی تو اس نے ہماری تاریخ کو مسخ کرنا شروع کردی، اور یہ آج ہی سے نہیں؛ بلکہ بہت پہلے ہی سے اس کی داغ بیل ڈالی جاچکی ہے؛ لیکن ماضی قریب سے اس میں روز بروز شدت بڑھتی ہی جارہی ہے، اور مسلم حکمرانوں کی جانب سے لوگوں میں اس قدر پروپیگنڈہ کیاگیا کہ غیر تو غیر اپنے بھی اسی پرفریب سیلاب میں بہہ پڑے، نیز لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی جنم لینے لگا کہ آیا بھارت میں اسلام کا ورود باعث رحمت ہے یا زحمت؟؟؟
مسلم حکمرانوں اور مسلم عوام نے بھارت کو اپنا وطن سمجھا اور اس کو ترقی کی سمت گامزن کرنے میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا نیز اس کو دیدہ زیب، سونے کی چڑیااور پرکشش بنانے میں پوری دلچسپی کا مظاہرہ کیا، انھوں نے اس کو محض تجارت کی منڈی اور حصولِ دولت کا ذریعہ نہیں سمجھا بلکہ اس کو وطن سمجھ کر یہیں رس بس گئے اور مرنے کے بعد بھی اس کی خاک کے پیوند ہوئے اس لیے کہ انھوں نے حکومت و سیاست، علم وفن، صنعت وحرفت، زراعت وتجارت، تہذیب و معاشرت، ہر حیثیت سے اس کو ترقی دے کر صحیح معنوں میں بھارت کو جنت نشاں بنادیا۔“
مولانا ساجد علی مصباحی امام مسجد پیغام اسلام نے فروغ علم و فن میں صوفی سنتوں کے کردار کو پیش کیا انہوں نے کہا کہ: کوئی بھی شخص اس وقت تک صوفی نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ علم شریعت نہ جان لے۔ تمام صوفیہ علم دوست واقع ہوے ہیں۔ امام غزالی، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، محبوب الہی خواجہ نطام الدین اولیا، سلطان المحققین شیخ شرف الدین یحییٰ منیری وغیرہ نہ صرف
عالم، فقیہ، محدث و متکلم گزرے ہیں بلکہ بعض صوفیہ اپنے معاصرین میں امام علم و فن کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے عقیدت مندوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیا، اشاعت علم و فن کے لیے ذہنی طور پر انہیں تیار کیا۔
صوبہ بہار کی معروف علمی خانقاہ بشیریہ اصدقیہ نالندہ کے ترجمان مولانا سید نورالدین اصدق نے بھارت کی گنگا جمنی تہذیب اور چشتی صوفیہ کی تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ : اس بھارت میں صوفیہ کے ورود مسعود سے پہلے چھوا چھوت، ذات پات، اونچ نیچ، سماجی و مذہبی، علاقائی و لسانی عصبیت کی جڑیں بہت مضبوط تھیں، صوفیہ نے ان تمام باتوں سے اوپر اٹھ کر بھارت کی گنگا جمنی تہذیب کی داغ بیل ڈالی، ان کا مشرب و مذہب اپنے خالق سے محبت تھا۔ اور خالق اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔ لہذا صوفیہ نے بھی اپنے خالق کے محبوب سے بلا تفریق مذہب و مشرب محبت کی۔ اونچ نیچ، ذات پات کے جھمیلوں سے آزادی دلائی اور اللہ کے بندوں کا رشتہ خالق و مخلوق سے جوڑنے پر اپنی کوششیں جاری رکھیں!!
مولانا منظر محسن حسینی نے "صوفیہ کی رواداری اور بدعات و خرافات کی بیخ کنی میں ان کے کردار پر تفصیلی مقالہ نہایت خطیبانہ، ناقدانہ انداز میں پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ : رواداری کا مطلب ہے تحمل و برداشت.
رواداری کی کئی قسمیں ہیں۔ جیسے تہذیبی، سماجی، علاقائی،لسانی اور مذہبی۔ اللہ کے بندوں کے درمیان مختلف اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کرنا، کسی سے لسانی، علاقائی، سماجی و تہذیبی اور مذہبی بنیاد پر عصبیت کا برتاؤ نہیں کرنا رواداری ہے۔ قرآن نے کہا دین میں کوئی زبردستی نہیں، مذہبی رواداری کی ایک اعلیٰ مثال میثاق مدینہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ رواداری اور سیکولرازم کے معنی سمجھنے میں دانستہ یا نادانستہ خطا کے مرتکب ہو رہے ہیں وہ سمجھ رہے ہیں کہ کسی کے مذہبی عقائد رسومات کو ادا کرنا یا کسی کو اپنے مذہبی رسومات کی ادائیگی میں شامل کرنا رواداری اور سیکولرازم ہے یہ سراسر غلط ہے۔ مذہبی رواداری اور سیکولرازم کا مطلب ہے ہر کسی کو اپنے اپنے مذہبی عقائد و رسومات پر قائم رہنے،ان کی تبلیغ، نشر و اشاعت کی مکمل آزادی ہے۔۔۔ انہوں نے کہا کہ صوفیہ نے بدعات و خرافات کے خلاف ہمیشہ جنگ کی ہے۔ وہ دین و شریعت کے پابند ہوتے ہیں۔ اصل تصوف یہی ہے۔ مگر اس دور قحط الرجال میں مختلف میدانوں کی طرح عظیم صوفی شخصیات سے منسوب بعض خانقاہیں بھی زوال پذیری کی راہ پر چل پڑی ہیں۔ جسے دیکھ کر کسی دل جلے نے کہا ہے کہ تصوف حال تھا آج بے حال ہو گیا ہے۔ بعض خانقاہوں میں احتساب کی جگہ اکتساب، تخلق کی جگہ تملق ، استتار کی جگہ اشتہار نے لے لیا ہے۔ اور خانقاہیت سے ناواقف افراد نے ایسے درگاہی نظام کو دیکھ کر خانقاہیت ہی کو غلط سمجھ لیا ہے۔ اور انہیں چاہیے کہ حقیقی صوفیہ اور تصوف کا مطالعہ کریں،جنہیں اصل خانقاہیت اور تصوف سے واقفیت ہے وہ تصوف و خانقاہیت سے متفق ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل تصوف کا مخالف شاید کوئی نہ ہو۔ کہ تصوف تو روح اسلام ہے اور حسن ایمان ہے۔ جن خانقاہوں نے اپنے اکابر و اسلاف کی تعلیمات کو فراموش کر دیا ہے انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اسلاف کی روایتوں کے امین، خدا و مصطفیٰ کے دین و شریعت کے محافظ و عامل بننے کی کوشش کریں کہ آپ کو امت ہی نہیں پورے انسانی سماج کی فلاح و خیر کے لیے کام کرنا ہے۔
اخیر میں سرپرست و صدر سمپوزیم مولانا سید سیف الدین اصدق صاحب نے صدارتی خطبہ میں اولاً تمام مقالہ نگاروں کے مقالوں پر مختصر تبصرہ کیا، پھر انہوں نے کہا کہ اسلامی صوفیہ نے جن اخلاقی تعلیمات کے ذریعے دلوں پر حکمرانی کی ہے۔ ہمیں برادران وطن کے ساتھ انہیں تعلیمات کا مظاہرہ کرنا چاہیے، مختلف مذاہب کے پیشواؤں کی اخلاقی تعلیمات میں اسلام اور ان ہی صوفی بزرگوں کی تعلیمات کی جھلک نظر آتی ہے میرے اس دعوے کی تائید ہر وہ انسان کرے گا جس نے کبیر داس، گرو نانک، وویکانند ، اور گرو روی داس وغیرہ کی تعلیمات کو پڑھا یا سنا ہے۔ اس لیے ملک کے موجودہ حالات میں ہر ایک کمیونٹی، اور مذہب کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اپنی اخلاقی تعلیمات پر کم از کم خود عمل کرنے والے بن جائیں تا کہ یہ ملک پھر ایک بار امن و شانتی کا گہوارہ بن جائے۔ خطبہ صدارت کے آخر میں انہوں نے سبھی سامعین و حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور ملک ملت کی فلاح و بہبود، ملک میں امن و شانتی کے لیے دعا کرایا۔ مولانا محمد وقار مظاہری نے نعت و منقبت سے سامعین محفل کو محظوظ کیا۔ مرکزی دارالقرات کے استاذ مولانا احسان الحق مصباحی اصدقی کی خوب صورت نظامت نے اس محفل کو دوآتشہ بنادیا۔
سمپوزیم میں شریک تمام حاضرین کی لنگر کے کھانے سے ضیافت کی گئی۔ اس سمپوزیم میں شہر کے مختلف حصوں سے سماجی ذمہ داران، نوجوان طلبہ، بزرگ شہریوں اور مختلف مسالک کے لوگوں کے ساتھ کچھ غیر مسلم حضرات نے بھی شرکت کی اور پروگرام سے خوب محظوظ ہوئے.