جشنِ آزادی اور ”سازِ وطن“کا اجرا

جشنِ آزادی اور ”سازِ وطن“کا اجرا
آج بروز اتوار ۵۱/اگست ۱۲۰۲ء حسب روایت گلشن زبیدہ میں آزادی کے پچہترویں سال گرہ کا یاد گار جشن منایاگیا۔ اس یادگار جشن کی صدارت کے فرائض بچوں کے کل وقتی شاعر و ادیب حافظؔ کرناٹکی نے ادا کیے۔ جبکہ پرچم کشائی شہر کے معزز ڈی ایس پی شوانندمدرکھنڈی کے ہاتھوں ہوئی، اس موقع سے گلشن زبیدہ کے سبھی تعلیمی اداروں پرائمری اسکولوں، ہائی اسکولوں، جونیر کالجوں اور ڈگری کالجوں کے پرنسپل حضرات، اساتذہ کرام، طلبا اور سارے اسٹاف نے شرکت کی۔ شہر کے معززین اور عمائدین نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی، پرچم کشائی کے بعد گلشن زبیدہ کے باذوق اور ادب نواز بچوں کی جماعت نے حافظؔ کرناٹکی کی حب الوطنی کی مشہور و مقبول کتاب ”ساز وطن“ کے ہندی ایڈیشن مطبوعہ فریدبک ڈپو دہلی ۱۲۰۲ءکا اجرا کیا اور اپنی حافظؔ نوازی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اجرائی تقریب کے دوران ”ساز وطن“ کی کچھ نظموں کو اپنی خوب صورت آواز میں ذوق و شوق سے گایا۔
اس موقع سے اپنے خطاب میں ڈی ایس پی شوانند مدرکھنڈی نے کہا کہ مجھے آج دہری خوشی کا احساس ہورہا ہے۔ اوّل یہ کہ گلشن زبیدہ کے جشن آزادی نے سچ مچ ہندوستان کے جمہوری کردار اور حب الوطنی کا زندہ جاوید نمونہ پیش کیا جس سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ ہندوستان کی یکجہتی کو دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہونچاسکتی۔ وطن سے ایسی محبت کی مثالیں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ دوسری بڑی خوشی یہ ہوئی کہ شکاری پور کے مایہ ناز بال ساہتیہ کار ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کی دیس پریم میں ڈوبی نظموں کے مجموعے کے اجرا میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ شکاری پور ہی نہیں ریاست کرناٹک کے لیے فخر کی بات ہے کہ انہیں راشٹریہ بال ساہتیہ پرسکار کے لیے نام زد کیا گیاہے۔ میں انہیں دلی مبارکباد پیش کرتا ہو ں کہ انہوں نے راشٹربھاشا ہندی میں اپنی نظموں کا مجموعہ پیش کر کے پورے ملک کو دیس پریم کا پیغام دیا ہے۔ جو ہر طرح قابل ستائش ہے۔
ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ سب سے پہلے تو میں تمام اہل وطن کو آزادی کی پچہترویں سال گرہ کی مبارکباد دیتا ہوں۔ امن و امان کے ساتھ ملک کی ترقی کی دلی دعائیں کرتا ہوں۔ انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج میری حب الوطنی کی نظموں کی جس کتاب کا اجرا ہوا ہے
اس کا ہندی ایڈیشن میں نے اس لیے شائع کروایا ہے کہ وطن کی محبت کے جذبے کو ان دلوں میں بھی روشن کردوں جو اردو نہیں جانتے ہیں اور اپنی بات ان لوگوں تک پہونچادوں جو راشٹربھاشا کا احترام کرتے ہیں۔ ان نظموں کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہوجائے گاکہ۔ اس کتاب کو میں نے آزادی کی پچہترویں سال گرہ کے موقع پر ایک پیغام اور ایک تحفے کے طور پر پیش کی ہے اور اسے صدر ہند، وزیراعظم، اور تمام وزراء کے علاوہ وزرائے اعلیٰ، اراکین پارلیامنٹ اور حکومت کے تمام شعبوں کے سربراہوں تک بطور تحفہ بھیج کر حب الوطنی کے جذبے کی تجدید کی کوشش کی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ کئی اہم ہستیوں نے اس کتاب کی رسید کے طور پر فون پر مبارکباد دی ہے۔ اور میرے حب الوطنی کے جذبے کو سراہا ہے۔ میں اپنے تمام قارئین کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں آج یہ بات بھی صاف کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس ملک کی آزادی اور اس ملک کی تعمیر میں علماء کرام اور تمام مسلمانوں نے بنیادی رول ادا کیا ہے۔ اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اپنی تاریخ سے آگاہ کرائیں۔ ان کے اندر حب الوطنی کا جذبہ پیدا کریں۔وہ بھی اس اعتماد کے ساتھ کہ یہ دیش ہمارا ہے۔ اور ہمیں ہی اس کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینا ہے۔
امام و خطیب، شاعر و ادیب مہتمم مدرسہ مدینۃ العلوم مولانا و مفتی محمد اظہر الدّین ازہر ندوی صاحب نے اس موقع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس ملک کی آزادی میں علماء کرام نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ان کے کاموں اور کارناموں سے ہندوستان کی تاریخ کا ہر باب روشن ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ اس ملک میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم رکھی جائے اور وطن کی سا لمیت کویقینی بنایا جائے۔ انہوں نے حافظؔ کرناٹکی کی حب الوطنی کی حامل نظموں کے مجموعے ”سازِ وطن“ کی ہندی اشاعت پر انہیں مبارکباد دی اور کہا کہ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی سچ مچ ادب اطفال کے لیجنڈہیں
جناب ہچرایپّا ضلعی صدر صحافت تنظیم نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں پچھلے تیس برسوں سے گلشن زبیدہ کے جشن آزادی اور جشن جمہوریہ میں شرکت کرتا آرہاہوں۔ جو میری خوش نصیبی ہے۔ میں دیکھتا رہاہوں کہ گلشن زبیدہ کاہر جشن آزادی بہت ہی انوکھا اور نرالا ہوتا ہے۔ ان جشنوں میں دیش پریم کی ایسی گنگا بہتی ہے کہ دو ی کا احساس مٹ جاتا ہے۔ یہ جو مٹھی بھر لوگ نفرت کی باتیں کرتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے اور نہ ہم انہیں کامیاب ہونے دیں گے۔ ڈاکٹر حافظ کرناٹکی نے اپنے اکثر پروگراموں میں مجاہدین آزادی کو زبیدہ ایوارڈس سے نوازاہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اب ایسے بزرگ ہمارے درمیان نہیں رہ گئے ہیں۔ مگر ان کی یادیں ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ زبیدہ ایجوکیشنل سوسائیٹی مختلف شعبوں میں نمایاں کام کرنے والے لوگوں کو بھی اعزازات سے نوازتی رہی ہے۔ سچ پوچھیے تو دیس پریم کا جیسا ثبوت اکیلے حافظ کرناٹکی پیش کرتے رہے ہیں، اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔ ”ساز وطن“ اس کی زندہ جاوید مثال ہے۔ میں ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان کی حب الوطنی کو سلام کرتا ہوں۔