اہم خبریں

حالات پرقبضہ کرنے کا کامیاب فارمولہ

محمد یاسین جہازی

1896ء؁ میں سوئزر لینڈ کے شہر باسیل (Basel) میں ایک صہیونی رہنما تھیوڈور ہزژل کی صدارت میں ایک خفیہ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں مخلتف شعبہ ہائے زندگی کے 300 صہیونی رہنماؤں اور 30 خفیہ اور عوامی یہودی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں انھوں نے تمام دنیا پر اپنی بالادستی مسلط کرنے کے لائحہ عمل پر غور کیا۔ انھوں نے Zionist sages protocols کے نام سے 24/ نکاتی تجاویز منظور کیں۔ یہ تجاویز نہایت خفیہ طریقے سے ترتیب دی گئیں۔ اور کسی کو بھی جو کانفرنس میں شریک نہیں تھا، ان تجاویز کی ہوا نہیں لگنے دی گئی۔ لیکن باسیل کانفرنس کے بعد ایک صہیونی لیڈر کے ساتھ ایک فرانسیسی عورت نے ایک میٹنگ میں رسائی حاصل کرلی۔ اس نے مذکورہ تجاویز کی دستاویز چراکر مشرقی روس کے ایک لیڈر تک پہنچا یا، جس نے اپنے سائننس داں دوست نائلس (Nylus)کو وہ دستاویز فراہم کیں۔ نائلس مشرق و مغرب کو مغلوب کرنے کے یہودیوں کے اس سازشی منصوبہ کو دیکھ کر بہت زیادہ بے چین ہوگیا۔ اس نے اس خفیہ صہیونی منصوبہ کو 1901ء؁ میں روسی زبان میں شائع کیا تو وہاں کی سیاسی دنیا میں بھونچال آگیا۔ (وثائق یہودیت، ص10، 11)
اس اقتباس کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج اگر پوری دنیا کے حالات پر غور کریں، تو معلوم ہوگا کہ مشرق و مغرب میں یہودیوں کے قبضہ کرنے کے جو سازشی منصوبے ہیں، اس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ چوبیس دفعات پر مشتمل اس منصوبے کی تکمیل کے لیے یہودیوں کے بنیادی طریقہ ہائے کار میں میڈیا اورو سائل زر پر قبضہ،پولیٹکل اور لیگل طاقتوں پر خود کا کنٹرول شامل ہے۔ موجودہ عالمی حالات شاہدہیں کہ ان چاروں چیزوں پر یہودی اور یہودی فکر پوری طرح قابض ہوچکی ہے۔
مشرق و مغرب پر قبضہ کرنے کے اس صہیونی منصوبے سے جہاں دیگر مذاہب و ادیان کے دانشوران بے خبر یا مجرمانہ غفلت کے شکار ہیں، وہیں امت مسلمہ کی قیادتیں بھی خاموش اور مہر بہ لب ہیں۔ البتہ کچھ مفکرین ملت اسلامیہ ایسے بھی ہیں، جو ان حالات سے بہت زیادہ فکر مند ہیں اور وہ ایسی راہیں تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں، جن سے پوری دنیا کی ملت مسلمہ کو یہودیوں کے خوف ناک منصوبے سے آگاہ کرکے اسے غلام بننے سے بچایا جاسکے اور اسلام کے مستقبل کو تابناک کرنے کے سلسلہ میں انقلابی کردار ادا کیا جاسکے۔ چنانچہ اس حوالے سے جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب نے12، 13/ فروری 2018ء کو پورے بھارت کے کونے کونے سے منتخب، ذمہ دار اور کریم علمائے کرام کا نئی دہلی میں واقع جمعیۃ علماء ہند کے دفتر میں ایک پروگرام کیا اور لیڈر شپ کے عالمی ٹرینر جناب شیخ مرزا یاور بیگ صاحب کو خطاب کے لیے مدعو کیا۔ یہ پروگرام دو دن تک چلا، جس میں عالمی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا گیا کہ امت مسلمہ اگر ابھی نہیں کھڑی ہوگی، تو امت شاید مزید پچاس سال پیچھے چلی جائے اور انقلاب کی کوئی امید مستقبل قریب میں نظر نہیں آئے گی۔ اس پروگرام میں یہ بھی خلاصہ کیا گیا کہ عالمی حالات بدلنے کے لیے مسلمانوں کو سردست چار کام کرنے پڑیں گے:
(۱) سیاسی قوت حاصل کرنا پڑے گا۔اس کے بغیر ہم دوسروں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر رہ گئے ہیں۔ اگر ہمیں دوسروں کو اپنے ماتحت کرنا ہے، تو اس کے لیے سیاسی قوت حاصل کرنا ضروری ہے؛ البتہ ہندستان جیسے کثیر پارٹیوں کے بیچ مسلمان اپنا مقام کیسے بنائیں، یہ بحث طلب موضوع ہے، جس پر سبھی مذاہب کے رہنماوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگااور پھر کوئی مشترکہ فارمولہ تیار کرنا ہوگا۔
(۲) اپنی معیشت کو مضبوط کرنا پڑے گا۔ اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر صرف بھارتی مسلمان یہ طے کرلیں کہ وہ جتنی رقم فضول رسموں اور غیر ضروری اداروں کو پیش کرتے ہیں، اگر اس کا اجتماعی نظم ہوجائے، تو معیشت کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہ جائے گا۔
(۳) لیگل قوت کے اعتبار سے بھی ہمیں خود کو مضبوط کرنا پڑے گا۔ اور اس کے لیے آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم کچھ نو نہالوں کو بچپن سے ہی ان کی کفالت کرکے وکالت کی تیاری کرائیں اور انھیں امت مسلمہ کے لیے عالمی خادم بنائیں۔
(۴) میڈیا اور پریس پر کنٹرول۔ اگر کنٹرول سردست ممکن نہیں ہے تو کم از کم اپنا میڈیا ہاوس ہی بنالیں، جس سے ہم دنیا کو اپنے خیالات و افکار سے متاثر کریں اور یہودیوں کے خوف ناک منصوبوں سے دنیا والوں آگاہ کرتے ہوئے اس کے متبادل کے طور پر اسلامی نظریہ و فکر کی تبلیغ کریں۔
اسلامی نظریہ کے مطابق اسلام کسی بھی سرحد کی قید سے آزاد ہے۔ پوری دنیا اسلام کی جولان گاہ ہے اور ہرجگہ اپنے وجود و شناخت کے ساتھ زندگی گذارنا یہ انسان اور مسلمان کا فطری حق ہے۔ اور فطری حق کو کوئی چھین نہیں سکتا۔ اس لیے اسلام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ آگے آئیں اور عالمی قیادت کو اپنے ہاتھ میں لیں تاکہ یہ دنیا دوبارہ اسی طرح امن و امان اور صلح و آشتی کا گہوارہ بن سکے، جس طرح شارع اسلام محمد عربی ﷺ نے عملی طور پر کرکے دنیا کے سامنے مثال پیش کردی ہے۔ ؎
نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا
محمدؑ عربی سے ہے عالم عربی
(علامہ اقبال)
اگر بھارتی مسلمان بالخصوص اور بالعموم پوری دنیا کے مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ پوری دنیا ان کی مٹھی میں ہو تو ان چار پہلووں والا فارمولہ پر عمل کرنا ہوگا۔اور کسی عملی منصوبہ کے بغیر محض کھوکھلا دعویٰ کہ ”اسلام غالب آئے گا“صرف دیوانے کا ایک خواب ہوگا، جو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close