مضامین

حضرت جبرئیلؑ، حضرت عائشہؓ اور مفتی سعیداحمد پالن پوریؒ کا خواب ۔۔۔۔۔۔۔

حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب نور اللہ مرقدہ سابق شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند نے کئی بار ارشاد فرمایا: مجھے کسی کی وفات پر غم نہیں ہوتا، پہلے بہت ہوتا تھا؛ لیکن جب میری بیٹی عائشہ سُعدیٰ کا انتقال ہوا،۲۰اپریل ۱۹۷۳ء کی تاریخ تھی، جمعہ کا دن تھا، ساڑھے نو بج رہے تھے،اسے بخار تھا، ہسپتال میں میری گود میں ہی روح پرواز ہوئی، میں اُسے بہت چاہتا تھا، ساتھ ساتھ رکھتا، جب پڑھانے جاتا تو درس گاہ میں پہلو میں رکھ کر پڑھاتا تھا، وہ 7 جولائی ۱۹۷۱ء بروز چہار شنبہ بعد نماز عشاء پیداہوئی تھی، اس طرح وہ ایک سال نوماہ تیرہ دن (شمسی) کی تھی، تجہیز و تدفین کے بعد میں بہت غمگین تھا، اگلے دن سبق پڑھانے کی میرے اندر سکت نہ تھی، نیند بھی نہیں آرہی تھی، میں اپنے کمرے میں لیٹا تھا، تمہاری اماں دوسرے کمرے میں تھیں، اسی حالت میں آنکھ لگی، خواب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور مجھے تسلّی دے رہے ہیں ، فرمارہے ہیں : ’’اگر تم سے زیادہ محبت کرنے والے کے پاس تمہاری بچی چلی گئی ہے تو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اتنا سنتے ہی میری بے قراری کو قرار آگیا، میری نیند کھل گئی، میں اٹھا اور تمہاری اماں کو جگایا اور خواب بیان کیا تو انھوں نے کہا کہ بالکل اسی طرح میں بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خواب میں دیکھ رہی تھی، انھوں نے بھی انھیں الفاظ سے مجھے تسلّی دی ہے، اب میرا دل پر سکون ہے، حضرت نے فرمایا: اس خواب کے بعد سے مجھے کسی کے مرنے کا غم نہیں ہوتا اور خود اپنے مرنے کا غم بھی نہیں ہے۔ چنانچہ جب جواں سال ۲۹ سالہ بڑے فرزند ارجمند رشید احمدؒ کی شہادت ہوئی تو اس وقت حضرت مفتی صاحب لندن میں تھے، تدفین میں تاخیر سے منع فرمایا، دیوبند تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے محلے کے دیگر شہداء کے اہل خانہ کے پاس گئے اوراُن کی تعزیت کی، یہ 9 شہداء سارے حضرات مظفرنگر سے دیوبند تیزاب کی گاڑی میں بیٹھ کر آرہے تھے کہ کسی وجہ سے بس بند تھی، تیزاب کی ٹنکی پھٹی اور سارے لوگوں پر تیزاب پڑا،ان میں سے نو شہید ہوگئے وہ دن (۵؍شوال ۱۴۱۵ھ مطابق ۷؍مارچ ۱۹۹۵ء) دیوبند والوں کے لیے بڑا ہی کرب ناک تھا، دکانیں بند کردی گئی تھیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو غریق رحمت فرمائیں ! غرض یہ کہ جب تعزیت کرنے والے حضرت کے پاس پہنچے تو حضرت نے فرمایا: ’’آپ لوگوں کو مبارک باد دینی چاہیے کہ ایک بیٹے کو شہادت کا درجہ حاصل ہوا، اب میں شہید کا باپ کہلاؤں گا۔
تحریر: مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی، استاذ دار العلوم دیوبند.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
%d bloggers like this: