مضامین

حضرت مولانامحمدسجادؒ کےجلیل القدراساتذہ ومشائخ

مفتی اخترامام عادل قاسمی مہتمم جامعہ ربانی منورواشریف ،سمستی پور

شاگرداستاذکے کمالات کاآئینہ ہوتاہے
یہاں رک کرایک نظرآپ کےجلیل القدراساتذۂ کرام پرایک نظرڈال لیں ،اس لئےکہ ہرشخص کی تعمیروترقی اوراس کی کامیابیوں میں فضل الٰہی کے ساتھ اس کےاساتذہ کی تعلیم و تربیت کادخل ہوتاہے،استاذاپنے خون جگر سےطالب علم کی کشت حیات کوسیراب کرتاہے،ایک غیرمرتب ڈھانچہ کوتراش خراش کرایک خوبصورت سانچہ میں ڈھالتاہے،محض گوشت پوست کےانسان کوعلم وفن کےپیکرمیں تبدیل کردیتاہے،اور ایک معمولی فرد کو غیرمعمولی مقامات تک پہونچاتاہے ،انسان کی بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ اسے اچھے اساتذہ میسرآجائیں ،حضرت مولانامحمدسجاد صاحب بھی انہی خوش نصیب افراد میں تھےجن کوتربیت کاہنرجاننے والے اورلالہ زارحیات کے لئے خون جگرصرف کرنے کاسلیقہ رکھنےوالےاساتذہ کی سرپرستی حاصل ہوئی ،گذشتہ صفحات میں ان کےتعلیمی رودادسفرمیں کئی اساتذہ ومشائخ کاذکرآیاہے،ان کی قدرشناشی کاتقاضایہ ہےکہ ان کےمختصراحوال سےاس کتاب کےصفحات کوبرکت و زینت بخشی جائے،ممکن ہے کہ ان کے اور بھی کچھ اساتذہ ہوں جن تک ہماری رسائی نہ ہوسکی ،لیکن جن اساتذہ کا ہمیں علم ہوسکاہے ، تعلیمی ادوار کی ترتیب پران کامختصرتذکرہ پیش کیاجاتاہے:
حضرت مولاناسیدوحیدالحق استھانویؒ
صوبۂ بہار کے انتہائی بزرگ ،قانع ،متقی ،داعی الی اللہ اوربافیض علماء میں تھے،عربی زبان وادب کےرمزشناس اوراوراس دیارکےاستاذالکل تھے۔

"استھانواں”ایک علمی اورتاریخی بستی
آپ کاوطن مالوف”استھاواں”ہے،جوشرفاء وسادات کی قدیم بستی ہے،بہار شریف سے تین کوس کےفاصلہ پرواقع ہے،بڑے بڑے اہل علم اوراصحاب کمال ہستیاں اس چھوٹےسےگاؤں میں پیداہوئیں،تذکرۂ غوثیہ کےمطابق عارف باللہ حضرت شاہ غوث علی صاحب ؒیہیں کےرہنےوالےتھے،جن کامزارپرانوارپانی پت میں ہے،بستی کےاترجانب کسی اوربزرگ کابھی مزارواقع ہے۔
اسی طرح مولاناابوالحسن صاحب عرف مولوی دلاورعلی صاحب مرحوم شاگرد رشیدحضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ بھی یہیں کےباشندےتھے،جن کےعلمی تبحر اورجامعیت کاایک زمانہ نےلوہاتسلیم کیا،رامپورکےایک بڑےعالم مفتی شرف الدین صاحب جب بہارتشریف لائے،اورآپ سےملاقات ہوئی توآپ کی جامعیت واستعدادسےبےحد متأثرہوئے،آپ کےایک ہم وطن عالم دین نےاپناتأثرظاہرکرتے ہوئےکہاکہ ہم جیسےلوگوں کو فراغت کےبعدبھی کچھ دنوں آپ کی صحبت وتربیت میں رہناچاہئے۔
ان کےعلاوہ اوربھی کئی اہم نام ملتے ہیں ،مثلاً:
٭مولاناحکیم غلام جیلانی صاحبؒ شاگردمولانامفتی سعداللہ صاحب ومولانا تراب علی صاحب لکھنویؒ٭مولانامجتبیٰ صاحب ؒ شاگردمفتی سعداللہ صاحب لکھنویؒ٭اور مولانا عبدالوہاب صاحب استھانویؒ وغیرہ ۔لیکن پھرآہستہ آہستہ دیگربستیوں کی طرح یہ بستی بھی اصحاب فضل وکمال سےخالی ہوتی گئی ۔
حضرت مولاناسیدوحیدالحق استھانویؒ کو حضرت مولانالطف علی راج گیریؒ سے شرف تلمذحاصل ہے،جواس علاقہ کے ایک مشہور عالم تھےاورحضرت مولانا سجاد ؒکے وطن کے قریب ہی قریہ "دھنچوہی” متصل راجگیر کے رہنے والے تھے، جنہوں نے حضرت شاہ عبدالغنی دہلویؒ سے تعلیم حاصل کی تھی ۔
آپ کےاساتذہ میں دوسرا اہم نام مشہور معقولی عالم مولانا ہدایت اللہ خاں جونپوری ؒ کا ملتا ہے،جن سے بظاہر انہوں نے جونپور میں استفادہ کیا ہوگا۔
باطنی تعلیم حضرت قاری احمدشاہجہاں پوری ؒسے حاصل کی۔
آپ کوتعلیم وتربیت کا خاص ملکہ حاصل تھا،اسلامی ہندکے سقوط کے بعدجن بزرگوں نےبہارمیں تعلیمی انقلاب کاصورپھونکا،اس کی صف اول میں آپ کی شخصیت بھی تھی، بقول علامہ سیدسلیمان ندوی ؒ :
"تیرھویں صدی کے شروع میں صوبۂ بہار میں مولاناوحیدالحق صاحب
استھانوی ؒبہاری کے دم قدم سے علم کو نئی رونق حاصل ہوئی ”
کئی گمنام چہرےآپ کےفیض تربیت سےآفاق عالم پر چمکے،آپ کاآبائی وطن "استھانواں”ضلع نالندہ ہے،پوری زندگی درس وتدریس میں گذری ،فراغت کے بعد آپ نے اپنے شاگر د مولانا عبدالغنی وارثی کی اطلاع کےمطابق پٹنہ میں ایک امیر کے یہاں ملازمت اختیار کی ،پھر نگرنہسہ اور اس کے علاوہ مختلف مقامات پر کئی سال گذار کر آرہ پہنچے ،جہاں کے باشندوں نے آپ کوتدریسی خدمت کے لئے بلایا تھا ،چنانچہ آپ نےوہاں مدرسہ فخرالمدارس قائم فرمایا اوراسی میں درس دیتے رہے یہاں تک کہ زمانہ نے کروٹ لی اور مدرسہ ختم ہوگیا ،تو بہارشریف تشریف لاکریہاں”مدرسہ اسلامیہ”قائم فرمایا،جو اس خطہ کا سب سےبافیض اورمرکزی ادارہ ثابت ہوا،اس کی سن تاسیس کی خبرنہیں ہےلیکن کہتے ہیں کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤسےقبل بہارمیں عربی زبان وادب کایہ مرکزی ادارہ تصورکیاجاتاتھا،جہاں عربی زبان وادب کی تعلیم کےلئےدوردرازسے طلبہ حاضرہوتےتھے۔۔۔مدرسہ اسلامیہ میں ایک بڑاکتب خانہ بھی آپ نےجمع فرمایاتھا،جس میں مختلف علوم وفنون کی نادرکتابیں موجودتھیں، افسوس اب وہ کتب خانہ ضائع ہوچکاہے۔
مشرکانہ رسوم وعقائدکی اصلاح میں بھی آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
حضرت مولانااستھانوی ؒ کواردو ،فارسی اور عربی تینوں زبانوں پرکامل عبور حاصل تھا ،آپ کےتلامذہ میں حضرت مولاناابوالمحاسن محمدسجادؒ،مولاناعبدالغنی وارثی ؒ،اور مولانا مبارک کریم ؒ کوبڑی شہرت حاصل ہوئی،مولانامحمدسجاد صاحبؒ نے۱۳۱۰؁ھ مطابق ۱۸۹۳؁ء میں آپ سے مدرسہ اسلامیہ بہارشریف میں کسب فیض کیا۔
اپنے نامورتلامذہ کے علاوہ کئی کتابیں یادگار چھوڑیں:
٭ کتاب الترادف –جوابوعلی الرمانی کی "الالفاظ المترادفۃ”کےطرز کی ہے
٭عربی زبان کے قواعد پر”مغنی الصبیان "٭اردورسالہ "نصیحۃ الاخوان”تعزیہ داری کے رد میں ۔
آپ کی وفات ۱۳۱۵؁ھ مطابق ۱۸۹۸؁ء میں ہوئی،مدفن کاعلم نہیں ہے ۔
شمس العلماءحضرت مولاناعبدالوہاب فاضل بہاریؒ
اپنے زمانہ کےمشاہیرعلماء میں تھے،آپ کے علم وفضل کی ہلچل مشرق سےمغرب اورشمال سےجنوب تک محسوس کی گئی ،اسم گرامی عبدالوہاب، والدگرامی کانام احسان علی ،اور کنیت ابوالخیر تھی ،”سربہدہ(یاسریندہ)” ضلع شیخ پورہ (بہارشریف سےقریب)کے رہنے والے تھے ، ابتدائی تعلیم اپنے اطراف کےعلماء-مولانابشارت کریم دیسنوی ،مولانامحمدسعید بنارسی،اور مولاناحافظ عبداللہ بازیدپوری-سےحاصل کی،اس کے بعد لکھنؤ تشریف لےگئے ،اور حضرت علامۂ زماں،محدث دوراںمولانا عبدالحی فرنگی محلی لکھنوی ؒ سے تمام علوم وفنون کی تکمیل کی ،سند حدیث مولاناسیدنذیرحسین محدث بہاری ثم دہلوی ؒ سے حاصل کی ،فراغت کے بعد ایک عرصہ تک مدرسۃ العلوم کانپورمیں خدمت تدریس انجام دی ،اس دوران ندوہ تحریک میں پیش پیش رہے،۔۔۔۔پھرمدرسہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں مدرس ہوئے،اورحیدرآباددکن کواپنے علوم سے فیضیاب کیا،حیدرآباد کے بعدکچھ عرصہ گیامیں قیام فرمایااور اسی دوران مدرسہ انوارالعلوم گیا کی بنیاد ڈالی ،یہ مدرسہ آپ کے جانے کے بعد ختم ہوگیاتھا،حضرت مولانامحمدسجاد صاحبؒ نےاس کودوبارہ زندہ فرمایا،یعنی اسی نام سےمولاناسجادؒنےایک نئےمدرسہ کی بنیاد ڈالی ،تاکہ یہ حضرت الاستاذؒ کی خدمات کی یادگاررہے۔
گیاکےبعد۱۹۰۹؁ء میں مدرسہ عالیہ کلکتہ تشریف لےگئے،اورتقریباًآٹھ(۸)برس
وہاں تدریسی خدمات انجام دیں،پرنسپل کےعہدہ پرفائزرہے،۱۹۱۳؁ء میں شمس العلماء کاخطاب ملا،بڑے عالم فاضل ،منطقی فلسفی اور بافیض مدرس تھے،”فاضل بہاری”اور”فخربہار ” کےنام سےمشہور تھے،آپ کےتذکرہ نگارمولانافضل حسین مظفرپوری کابیان ہےکہ مولاناؒ کارجحان ابتداءً مسلک اہل حدیث کی طرف تھا،لیکن مدرسہ عالیہ کلکتہ کی ملازمت کےبعدپختہ حنفی ہوگئے ۔
ممتازتلامذہ
آپ کی درسگاہ سے بڑے بڑے علماء واعیان تیارہوئے،آپ کےتلامذہ میں شمس العلماء مولانامحمدیحیٰ سہسرامیؒ ،مفتی محمدسہول بھاگلپوریؒ،مولاناابوالفتح حسین احمدؒ،مولاناحکیم الٰہی بخش مبارکپوریؒ اورحضرت مولانامحمدسجادصاحبؒ بہت ممتازہوئے،حضرت مولانامحمدسجادؒ نےاپنے علاقہ ہی میں(۱۳۱۰؁ھ مطابق ۱۸۹۳؁ء کے آس پاس ) آپ سے استفادہ کیا۔
تصنیفات وتالیفات
آپ صاحب تصنیف بھی تھے ،فلسفہ اورفقہ پرکئی وقیع کتابیں یادگار چھوڑیں :
٭الصحیفۃالملکوتیۃ (حاشیہ رسالہ میرزاہد )اسی کےنتیجہ میں مناظرۂ رامپورکامشہور واقعہ رونماہوا۔اس کتاب میں فاضل مؤلف نےمولاناعبدالحق خیرآبادیؒ پرکئی مقامات پرسخت اعتراضات کئےہیں،جوعلماء خیرآبادکےلئےناقابل برداشت بات تھی،چنانچہ خیرآبادی سلسلۂ علم وفن کےلوگوں سےآپ کامناظرہ ہوا،جس میں آپ کےمدمقابل مشہورمنطقی عالم مولانا حکیم برکات احمدصاحب ٹونکیؒ(اصلاًبہارکےرہنےوالےتھے)بھی تھے،لیکن افسوس عین دوران مناظرہ مولاناعبدالوہاب بہاریؒ کااچانک انتقال ہوگیا،اناللہ واناالیہ راجعون،شایدیہ بر
صغیرکےعلماء معقولات کی تاریخ کاآخری مناظرہ تھا۔
٭وقایۃ العصمۃبشرح ہدایت الحکمۃ:علامہ اثیرالدین الابہری (م ۶۶۳؁ھ)کی مشہور
کتاب "ہدایۃ الحکمۃ "کی شرح ہے،اس میں بھی علامہ عبدالحق خیرآبادی کاتعاقب کیاگیاہے ، مطبع خلیلی آرہ سے ۱۳۰۰؁ھ میں شائع ہوئی، ۔
٭الردعلیٰ ابن ابی شیبۃ :امام ابن ابی شیبۃ نےمصنف میں ایک باب الردعلیٰ ابی حنیفۃ لکھاہے ،یہ کتاب اسی باب کےرد میں لکھی گئی ہے،اس کاذکرمفتی عمیم الاحسان مجددی نےاپنی کتاب "تاریخ علم حدیث "میں کیاہے۔
٭الاحقاق فی مسئلۃ الطلاق ،طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر انتہائی قیمتی کتاب ہے،مولاناعبداللہ پنجابی گیلانی نے”تحقیق المغاث فی مسئلۃ الطلاق”لکھی تھی،جس میں ایک مجلس کی تین طلاق کوایک ثابت کیاگیاتھا،اس کاردمولاناابوالنصرگیلانی نے”الغیاث من المغاث”کےنام سے لکھااورحنفی نقطۂ نظرکوثابت کیا،اس کاجواب مولاناعلی حسن مدھوپوری نےمقدمۃ المغاث کےنام سےتحریرکیا،مولاناگیلانیؒ کی الغیاث کی تائیدمیں مولاناعبدالوہاب بہاری نے”الاحقاق فی مسئلۃ الطلاق”لکھی،الاحقاق کاجواب مولاناعلی حسن مدھوپوری نے”اظہارالشقاق لمؤلف الاحقاق "کےنام سےاورمولاناابوتراب عبدالرحمن گیلانی نے”تردیدالعموم "کےنام سے لکھا۔
ستارۂ ہندپریس کلکتہ سے ۱۳۲۷؁ھ مطابق ۱۹۰۹؁ء میں شائع ہوئی ،تعدادصفحات چودہ بائی بیس کےسائزمیں اکسٹھ(۶۱)ہے،زبان وبیان سلیس اوررواں ہے ۔
٭نظامیہ :فن معقولات کےبعض اشکالات کےحل میں ہے،مطبع عزیزدکن سے طبع ہوئی،تعدادصفحات ۱۷ہے۔
٭پردۂ عصمت ملقبہ یادگاربمبئی "اس میں مولاناؒنےپردے کی اہمیت اجاگرکی ہے،اورخواتین اسلام کوعمدہ نصیحتیں کی ہیں ،مطبع باقری بمبئی سے ۱۳۲۱؁ھ میں شائع ہوئی۔
۲۸/ربیع الثانی ۱۳۳۵؁ھ مطابق ۲۱ /فروری ۱۹۱۷؁ء کووصال ہوا ۔
حضرت مولانامبارک کریم صاحب ؒ
یہ بہار کےمشہور اور ممتازعالم دین تھے ،پورا نام ابونعیم محمد مبارک کریم "تھا ، آبائی وطن شیخ پورہ تھا، ان کے والد مولوی حکیم عبدالکریم صاحب وہاں کا مکان ضائع ہونے کے بعد اپنی سسرال بہارشریف میں آکرآباد ہوگئے تھے،یہیں انہوں نے حضرت مولانا سید وحیدالحق استھانوی کے قائم کردہ مدرسہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کی اورآپ سےخصوصی استفادہ کیا۔
کہتےہیں کہ مولانا مبارک کریم صاحب ایک غریب گھرانے کے آدمی تھے اور بچپن میں شادی بیاہ وغیرہ تقریبات میں باجہ بجاتے تھے،کسی بارات میں یہ ڈھول باجہ کے ساتھ استھانواں پہنچے،صبح میں ان کی ملاقات غالباًحضرت مولاناوحیدالحق صاحب سے ہوئی ،حضرت نے ان کودیکھاتوپوچھا، بچے کیا تم پڑھوگے ؟تمہاری پیشانی سے علم جھلک رہا ہے،انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے والد اجازت دیں تو ضرور پڑھوں گا ،چنانچہ والد نے اجازت دےدی ،اوروہ حضرت مولانا سید وحید الحق صاحب کےحلقۂ تلمذمیں داخل ہوئے،اورآپ نےان کو خود سے تعلیم دی ، اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ مولاناکتنے بڑے عالم ہوئے ۔
پھر جونپور جاکرمولانا ہدایت اللہ خاں رامپوری سے بھی پڑھا ، وہاں سے کانپور حاضرہوئےاورحضرت مولانا احمد حسن کانپوری ؒکےحلقۂ تلمذمیں داخل ہوئے،اورحضرت مولانااحمدحسن کانپوریؒ کےعلاوہ مولانا ابوالانوار نور محمد صدر المدرسین مدرسہ احسن المدارس کانپور سےبھی تمام کتابیں بالخصوص صحاح ستہ مکمل پڑھیں،فراغت کے بعد پہلے ایک اسکول میں ہیڈ مولوی مقرر ہوئے ،پھرمدرسہ اسلامیہ بہارشریف کے بعض ذمہ داروں کے اصرار پر اسکول سے استعفیٰ دے کر مدرسہ اسلامیہ بہارشریف میں مدرس اول کے عہدہ پر بحال ہوئے ،آپ کے عہدمیں مدرسہ نے تعلیمی اعتبار سے بہت ترقی کی،بہارشریف میں مدرسہ عزیزیہ کے قیام کے بعد اس کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے،پھر گوررنمنٹ ایڈیڈ سینئر مدرسہ دارالعلوم ڈھاکہ کے پرنسپل ہوئے،۱۹۷۱ء؁ میں گورنمنٹ مدرسہ عالیہ کلکتہ کے ٹائیٹل کلاس کےلئے منتخب ہوئے، ۱۹۲۲؁ءمیں جب اسلامی تعلیم کی نگرانی (سپرنٹنڈنٹ آف اسلامک اسٹڈیز)کا عہدہ قائم کیا گیا تو اس منصب پر آپ کاتقرر عمل میں آیا ،اس دوران مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے خصوصی نگراں بھی رہے، ۱۹۴۰ ؁ میں اس عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے ۔ انگریزی حکومت کی طرف سے آپ کو”خان بہادر "کا خطاب ملا ۔
۱۹۵۵؁ء سے۱۹۶۰؁ء کےدرمیان کسی سال اعتکاف کی حالت میں اپنےمحلہ "کہنہ سرائےبہارشریف”میں وفات پائی ۔
مولانامحمدسجاد صاحب ؒ نےمدرسہ اسلامیہ بہارشریف میں دوران تعلیم تقریباً
۱۳۱۰؁ھ مطابق ۱۸۹۳؁ء تا ۱۳۱۳؁ھ مطابق ۱۸۹۶؁ء میں آپ سےاستفادہ کیااورپھر آپ ہی کے ہمراہ کانپور برائے حصول تعلیم تشریف لے گئے۔
استاذالکل حضرت مولانااحمدحسن فاضل کانپوریؒ
آپ صدیقی النسل تھے ،شجرۂ نسب مولانا جلال الدین رومیؒ سے ہوتا ہوا حضرت صدیق اکبرؓ سے جا ملتا ہے،آپ کے دادا شیخ عظمت علیؒ مدینہ منورہ سے ہجرت فرما کر پنجاب کے پٹیالا ضلع کے” ڈسکا گاؤں "میں بس گئےتھے۔
بچپن میں پڑھنے کی طرف بالکل رجحان نہیں رکھتے تھے،۲۰/برس کی عمرتک کچھ بھی نہیں پڑھا ،ایک بارآپ کے ایک دوست کا خط آیا تو کسی دوسرے شخص سے پڑھوا نے کے لئے گئے، والد محترم نے دیکھا تو فرمایا مولانا روم کی اولاد میں ہواور اپنا خط بھی خود نہیں پڑھ سکتے،یہ بات ان کے دل میں اتر گئی ،پھر حصول علم کی طرف اس قوت کے ساتھ مائل ہوئے کہ صرف پانچ (۵)سال کی مدت میں تمام علوم وفنون میں مہارت حاصل کرلی۔
پھر علم حدیث کی تکمیل کےلئے اپنا آبائی وطن پٹیالہ چھوڑکر لکھنؤتشریف لائے ،لکھنؤ میں آپ نے حضرت مولانا عبدالحی فرنگی محلی ؒ سے حدیث کی تعلیم حاصل کی ۔
اس کے بعد دیگر علوم وفنون کی تکمیل کے لئے علی گڑھ پہونچے اورحضرت مولانا
مفتی لطف اللہ صاحب علی گڈھیؒ کے حلقۂ تلمذ میں داخل ہوئےاورعرصہ تک آپ کی خدمت
میں رہ کر استفادہ کیا اور فراغت حاصل کی۔
حضرت مولاناشاہ فضل رحمان گنج مرادآبادیؒ سے بھی آپ نے علمی استفادہ کیا ، آپ کو حضرتؒ سےبے حدعقیدت تھی،آپ ہی کے ایما پر آپ مکہ معظمہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور بیعت و خلافت سے سرفراز ہوئے۔
فراغت کےبعدبہت دنوں (قریب بارہ برس)تک مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں مدرس رہے۔
پھرکانپور تشریف لائے اور مشہور زمانہ مدرسہ فیض عام کانپور کے منصب صدارت کو زینت بخشی اور ایک طویل مدت تک اس منصب پر فائز رہے ،متعدد علوم وفنون کی ۱۵ کتابوں کا روزانہ پوری قوت وتوجہ کے ساتھ درس دیتے تھے ،کاشغر ،شام ،موصل ،حلب،بخارا، افغانستان ،سرحدتک کے علماء وفضلاءنے آپ سے درس لیا ،درس وتدریس میں آپ اپنے زمانہ میں ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ نہایت قوی الحفظ اور ذہن رسا کے مالک تھے ،ساٹھ (۶۰)متون آپ کو ازبر یاد تھیں،اسی بناپر آپ کو” ملا متون” بھی کہا جاتا تھا ۔
۱۳۰۰؁ھ کے اواخر میں آپ نے مدرسہ فیض عام سے علٰحدگی اختیار کرلی اورحافظ امیرالدین صاحب وغیرہ کی مددسےنئی سڑک مسجد رنگیان بکرمنڈی میں "دارالعلوم کانپور ” کے نام سے ایک نئے ادارہ کی بنیاد ڈالی ،اور اسی ادارہ کو ان کے آخری تعلیمی وتربیتی مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی ،زندگی کی آخری سانس تک آپ اسی مدرسہ سے وابستہ رہے ۔ ٭تحریک ندوہ کے کئی جلسوں کی آپ نے صدارت بھی فرمائی ۔

تصنیفات وتالیفات
٭آپ کی تحریری خدمات میں قرآن کریم کی تفسیر کا ذکر کیا جاتا ہے ۔
٭شرح ترمذی -یہ بھی غالباً قلمی ہی رہ گئی،طباعت کی نوبت نہیں آسکی۔
٭آپ کے علمی کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ مثنوی مولانا روم ؒپر حواشی کی صورت میں موجود ہے ،اس مثنوی کا ترجمہ تو خود آپ کے پیر طریق حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ نے کیا تھا ،لیکن تحشیہ کا کام حضرت حاجی صاحبؒ کے حکم سے آپ نے کیا ،جسے مطبع نامی نے بڑی آب وتاب اور روایتی حسن کے ساتھ ۱۹۰۰؁ء میں شائع کیا ۔ ٭افادات احمدیہ
٭ حمداللہ کی شرح سلم کا مفصل حاشیہ تحریر فرمایا۔
٭ امکان کذب باری کے متنازع مسئلہ پر ایک مستقل رسالہ”تنزیہ الرحمن ” تحریر فرمایا جس میں دلائل کلامیہ سے امتناع کو ثابت کیا گیاہے۔
آپ کاسانحۂ ارتحال ۳/صفر ۱۳۲۲؁ھ م ۱۸/اپریل ۱۹۰۴؁ء کو کان پور میں پیش آیا ،وصیت کے مطابق رئیس الاتقیا حضرت مولانا شاہ محمد عادل کانپوری قدس سرہ نے نماز جنازہ کی امامت کی ،آپ کی قبرانورتکیہ بساطیان (قبرستان) کانپور میں ہے ۔ حضرت مولانامحمدسجاد ؒ کو۱۳۱۴؁ھ مطابق ۱۸۹۷؁ء تا۱۳۱۷؁ھ مطابق ۱۹۰۰؁ء کانپورکے زمانۂ تعلیم میں آپ سےاستفادہ کاشرف حاصل ہوا،گوکہ براہ راست استفادہ کےمواقع کم ہی میسر آئےلیکن کانپورمیں جوکچھ بھی حاصل ہواوہ بالواسطہ یابلاواسطہ حضرت ہی کافیض تھا۔
حضرت مولاناسیدعبدالشکورآہ ؔ مظفرپوری ؒ
آپ اپنےوقت کےممتازعالم ربانی،صاحب نسبت بزرگ اورقادرالکلام شاعرو ادیب تھے،شاعرانہ تخلص آہ ؔ رکھتے تھے،مجموعۂ کلام "کلیات آہ ؔ "کے نام سے شائع شدہ ہے جس سےان کی بےپناہ ادبی اورشعری صلاحیت کااندازہ ہوتا ہے ۔
ولادت شہر مظفرپور میں ۱۲۹۹؁ھ مطابق ۱۸۸۱؁ء میں ہوئی،ابتدائی سےلیکر متوسطات(مشکوٰۃ شریف)تک کی بیشتر کتابیں اپنےوالدماجدحضرت مولاناسید نصیرالدین احمد نصر ؔنقشبندیؒ سےپڑھیں،جواپنےوقت کےجیدالاستعداد عالم دین ،عظیم مربی اوراستاذالکل تھے،کچھ کتابیں اپنےماموں جان حضرت مولاناسید امیرالحسن قادریؒ سے بھی پڑھیں،کچھ عرصہ مدرسہ خادم العلوم (موجودہ مدرسہ جامع العلوم )مظفرپور میں بھی تعلیم حاصل کی۔۔۔
پھراعلیٰ تعلیم کے لئے والد ماجدکےحکم سے۱۳۱۴؁ھ مطابق ۱۸۹۷؁ء میں کانپور تشریف لےگئے،اوردارالعلوم کانپور (مسجدرنگیان) میں دوسال امام المعقول والمنقول علامۂ زمن حضرت مولانااحمدحسن کانپوری ؒ اور دیگر اساتذہ ٔ کرام سے استفادہ کیا ، منطق وفلسفہ اور حدیث وفقہ کی جملہ کتب متدوالہ کی تکمیل کی ، اور ۱۳۱۵؁ھ مطابق ۱۸۹۸؁ء میں دارالعلوم کانپور سےسندفضیلت حاصل کی ۔
اس کےبعددینیات بالخصوص حدیث شریف میں مزید رسوخ حاصل کرنے کے لئےشوال المکرم ۱۳۱۶؁ھ مطابق فروری ۱۸۹۹؁ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور استاذالاساتذہ حضرت شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی ؒ کےسامنے زانوئےتلمذتہ کیا، دیوبند میں تقریباًایک سال قیام رہا ،شعبان المعظم ۱۳۱۷؁ھ مطابق دسمبر ۱۸۹۹؁ء میں آپ دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے ۔
فراغت کےبعدتدریسی زندگی کاآغازمدرسہ جامع العلوم مظفر پور سے کیااور تقریباً۱۳۳۸؁ھ مطابق ۱۹۲۰؁ء تک آپ مدرسہ کے صدرالمدرسین رہے،۱۹۲۰؁ء میں آپ بحیثیت مدرس اول دارالعلوم مئو تشریف لے گئے ،لیکن صرف دوسال کے بعد ہی ۱۳۴۰؁ھ مطابق ۱۹۲۲؁ء میں آپ نےمدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کی ملازمت قبول کرلی ،اور مسلسل تئیس (۲۳)سال تک تدریسی خدمات انجام دینے کےبعد۱۳۶۴؁ھ مطابق ۱۹۴۵؁ء میں آپ یہاں سے ریٹائرڈ ہوئے ۔۔۔ریٹائرڈ ہونے کے بعد وطن مالوف مظفرپور واپس تشریف لے آئے ، مدرسہ جامع العلوم مظفر پور کے ارباب انتظام کی خواہش پر کچھ عرصہ اعزازی طور پر دوبارہ مدرسہ میں درس دیا ،یہاں تک کہ وقت موعود آپہونچا ،۱۷/رجب المرجب ۱۳۶۵؁ھ مطابق ۱۷/جون ۱۹۴۶؁ء کو سانحۂ ارتحال پیش آیا،مظفرپور کے رام باغ قبرستان (مولوی محمد عیسیٰ کے باغ میں)آپ مدفون ہیں،اناللہ واناالیہ راجعون ۔
مولانامحمدسجادؒنےآپ سےکانپورکےزمانۂ قیام(۱۳۱۴؁ھ مطابق ۱۸۹۷؁ء تا۱۳۱۶؁ھ مطابق ۱۸۹۹؁ء)میں استفادہ کیا،جب کہ مولاناعبدالشکورصاحبؒ خودبھی وہاں منتہی درجات کےطالب علم تھے،اوردارالعلوم دیوبند بھی مولانامحمدسجادصاحب ؒ آپ ہی کےہمراہ تشریف لےگئے اورزیر سرپرستی بھی رہے۔
حضرت مولاناخیرالدین گیاوی (کامل پوریؒ)
حضرت مولانا خیرالدین گیاویؒ کی پیدائش حضرو ضلع کامل پور اٹک میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم اپنے ماموں جان مولانا راغب اللہ صاحب سے حاصل کی،پھر مہینوں کا پیدل سفر طے کرکے دیوبند پہونچے ،ہدایہ اخیرین حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ کے پاس پڑھی ،دورۂ حدیث حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ سے پڑھا ،یہیں مولانا شاہ ولایت حسین دیوروی گیاوی ؒ اور مولانا صدیق احمد برادر اکبر حضرت شیخ الاسلام مدنی ؒ ان کےرفیق درس ہوئے ۔
ان کے حالات میں قاری فخرالدین صاحب ؒنے کوئی سن وغیرہ کی تعیین نہیں کی ہے،قاری صاحب نے لکھا ہے کہ دیوبند سے فارغ ہوکر کانپور تشریف لائے ،اور مولانا احمد حسن کانپوری ؒ سے معقولات کی تکمیل کی ،اور کانپور میں ان کے ساتھی مولانا غلام حسین کانپوری ؒ تھے (مولانا غلام حسین کانپوری ؒ نزھۃ الخواطر کے مطابق ۱۳۰۸؁ھ میں کانپور سے فارغ ہوئے ہیں ،اس کا مطلب ہے کہ ۱۳۰۸؁ کی ابتدا میں مولانا خیرالدین صاحب دیوبند پہونچے اور اس کے بعد اسی سال کانپور میں معقولات کے درس میں شامل ہوئے)
مولانا خیرالدینؒ کی شادی حضرت مولانا عبدالغفار صاحب سرحدی ؒ (متوفیٰ ۱۳۳۴؁ھ مطابق ۱۹۱۶؁ء )خلیفۂ ارشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ بانی مدرسہ اسلامیہ قاسمیہ گیا بہار کی صاحبزادی سے ہوئی ،قاری فخرالدین صاحبؒ آپ کے نامور فرزند اور خلف الرشید ہوئے ،انتقال پر ملال ۱۳۶۷؁ھ مطابق ۱۹۴۸؁ء میں ہوا ،کریم گنج گیا کے قبرستان میں مدفون ہیں ،اناللہ وانا الیہ راجعون ۔
حضرت علامہ عبدالکافی ناروی الہ آبادیؒ
اپنے زمانہ کی نادرۂ روزگارشخصیتوں میں تھے،اسم گرامی”عبدالکافی "اور والد کا نام
مولانا عبد الرحمٰن تھا،کسی دو شنبہ کو ربیع الاول ۱۲۷۵؁ھ مطابق اکتوبر ۱۸۵۸؁ء میں اپنے وطن قصبہ نارہ ضلع الہ آباد میں پیدا ہوئے، پانچ(۵) برس کی عمر میں تعلیم کی ابتدا کرائی گئی، ۱۲۸۵؁ھ مطابق ۱۸۶۸؁ء میں اپنے چچاحضرت مولانا محمد عبد السبحان ناروی ؒکے پاس قصبہ کڑا ضلع الہ آباد چلے گئے، وہاں قرآن کریم حفظ کیا، ۱۲۹۱؁ھ مطابق ۱۸۷۴؁ء میں چچا کے ہمراہ الہ آباد پہونچے، اورتمام علوم وفنون کی درسی کتابیں چچاہی سےپڑھیں، ۱۳۰۰؁ھ مطابق ۱۸۸۳؁ء میں سند فراغ حاصل کی۔
روحانی تعلیم حضرت مولانا حکیم سیدفخر الدین الہ آبادی ؒ (جوحکیم بادشاہ کےنام سےمشہورتھے)سےحاصل کی اورخلافت واجازت سےسرفرازہوئے،حکیم صاحب کوآپ پرفخر تھا ۔
فراغت کےبعدمحلہ یا قوت گنج دائرۂ شاہ اجملؒ (الٰہ آباد)میں اپنےرفیق درس مولانا
عبد الحمیدجونپوری ؒ (تلمیذحضرت مولاناعبدالسبحان ناروی ؒ)کےمکان سے درس وتدریس کا آغاز کیا، شروع میں طلبہ کا رجوع زیادہ نہیں ہوا، جس سےتھوڑی کبیدگی اورمایوسی پیداہوئی، اس کاذکرایک بار اپنے مرشد زادہ مولاناحکیم مسیح الدین صاحبؒ سے کیا ،تو انہوں نےآپ کوتسلی دی اور آئندہ کے لیے روشن امکانات کی بشارت دی، کچھ دنوں بعد آپ کےایک مریدحاجی صوبہ دار خاں جو پنجاب کے باشی تھے نے آپ کو جامع مسجد کی امامت وخطابت اوردرس کی پیش کش کی، جوآپ نےقبول فرمائی،چنانچہ ۱۳۱۶؁ھ مطابق ۱۸۹۸؁ءسے جامع مسجد میں با قاعدہ آپ کا درس شروع ہوا، اور آپ کی درس گاہ "مدرسہ سبحانیہ” کے نام سے مشہور ہوئی، اوربہت سےباذوق طلبہ نے آپ کی خدمت میں رہ کر متبحر علماء میں اپنا ممتاز مقام بنایا،۔۔۔۔
کچھ عرصہ کےبعدآپ نےمدرسہ سبحانیہ کی باقاعدہ بنیادرکھی ،اوراس کی تعمیروترقی
میں دل وجان سےلگ گئے،جلد ہی اس مدرسہ کی شناخت قائم ہوگئی ،اورہندوستان کےمعروف اوراہم عربی مدارس میں اس کاشمارہونےلگا،الٰہ آبادکےاطراف اورخاص طورپربہاروبنگال کےطلبہ کارجوع اس مدرسہ کی طرف زیادہ رہا،ہرسال طلبہ کی بڑی تعدادفارغ ہوتی تھی، اورسالانہ دستاربندی کاجلسہ بھی منعقدہوتاتھا،رفتہ رفتہ الٰہ آبادکےاطراف اوردوسرے اضلاع میں اس کی متعدد شاخیں قائم ہوگئیں۔
جامع مسجد کی موجودہ وسیع وعریض اور شاندار عمارت آپ ہی کی توجہ سے۱۳۲۲؁ھ مطابق ۱۹۰۵؁ء میں تیارہوئی۔
معروف شاعر اکبر الہ آبادی جن کو آپ سے بیعت کا تعلق تھا مسجد کے بارے میں ان کا یہ شعر بہت مشہورہوا:
؎ مسجد کافی کی شانِ آسمانی دیکھئے خاکساروں کی بلندی کی نشانی دیکھئے
آپ نے درس و تدریس کے ساتھ بیعت کا سلسلہ بھی قائم کر رکھا تھا ،آپ کےمریدین ومتوسلین کی بڑی تعدادتھی، بکثرت مجرمین اور بد کرادروں نے آپ کےہاتھ پر توبہ کی ،بہت سےغیرمسلم بھی آپ کی محنت وکوشش سےمشرف باسلام ہوئے، مشہور انگریزی ادیب دانشاء پرداز برنا یا ڈشا کے بھتیجے نے۱۳۳۹؁ھ مطابق ۱۹۲۱؁ھ میں آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، جنہوں نے بعدمیں ناظم آباد کراچی میں سکونت اختیاکرلی تھی۔ ۱۳۱۸؁ھ مطابق ۱۹۰۰؁ء کے مشہور جلسۂ اصلاح ندوہ پٹنہ میں آپ نے شرکت فرمائی،۔
آپ کے تلامذہ میں حضرت مولاناابوالمحاسن محمدسجاد صاحبؒ اورمولانا فرخند علی صاحب بانئ مدرسہ خیریہ نظامیہ سہسرام بہت مشہور ہوئے۔۔۔۔
مولانامحمدسجادصاحبؒ نے آپ سے ۱۳۱۷؁ھ تا۱۳۲۲؁ھ مطابق ۱۸۹۹؁ء تا۱۹۰۴؁ء مدرسہ سبحانیہ الٰہ آبادمیں استفادہ کیا۔
حضرت مولاناعبدالکافی صاحبؒ کواپنےان دونوں شاگردوں پراس قدراعتماداور فخرتھاکہ آخری عمرمیں اکثراہم استفتاکاجواب ان دونوں کے مشورہ کےبغیرتحریرنہیں فرماتے تھے ۔
قاری ولی محمدصاحب (متوفی۱۳۸۷؁ھ مطابق ۱۹۶۸؁ھ) اور حکیم ولی احمدصاحب (متوفی ۱۳۷۶؁ھ مطابق ۱۹۵۷؁ھ )آپ کے صاحبزادے تھے۔
۲۰/شعبان المعظم ۱۳۵۰؁ھ مطابق ۳۰/دسمبر۱۹۳۱؁ء میں آپ کاوصال ہوا،مزار مبارک یحییٰ پور(الٰہ آباد) میں ہے ۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
%d bloggers like this: