مضامین

حضرت مولانا طاہر گیاوی رح فردوس بریں ہوگئے

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی ادارہ تسلیم ورضا سمری دربھنگہ (بہار)

مکتب فکر دیوبند و بریلوی سے تعلق رکھنے والوں میں شاید ہی کوئی پڑھا لکھا ایسا فرد ہوگا جو "مناظر اسلام حضرت مولانا محمد طاہر گیاوی”(رحمہ اللہ) کے نام و کام سے نا آشنا و نابلد ہوگا۔
حضرت مولانا طاہر گیاوی رحمہ اللہ جنہیں آج رحمہ اللہ لکھتے ہوئے انگلیاں تیار نہیں ہورہی ہیں کلیجہ منہ کو آرہا ہے لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی لکھنا پڑ رہا ہے کیونکہ آج (21/ذی الحجہ،1444/ھ،مطابق 10/جولائی،2023/ء)مناظر اسلام ، ماحی شرک و بدعت کے پاسباں اس رنگا رنگ عالم سے دار آخرت ہمیشہ ہمیش کے لئے کوچ کر گئے ۔
انا لله وانا اليه راجعون اللهم اغفر له و ارحمه وأدخله في فسيح جناتك يا ارحم الراحمين.
حضرت مولانا طاہر گیاوی رحمہ اللہ کی شخصیت ان گنت خوبیوں سے لبریز تھی، خلاق عالم نے انہیں بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا ،وہ جہاں ایک طرف مناظر اسلام تھے تو وہیں وہ دوسری طرف بہترین خطیب تھے، وہ ایک باکمال عالم دین تھے تو وہیں وہ ایک کامیاب مصنف تھے ان کے بارے ان کے ہم عصر، عالم اسلام کے نام ور عربی ادیب حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی قدس سرہ (سابق ایڈیٹر عربی ماہ نامہ”الداعی”مادر علمی دارالعلوم دیوبند) نے لکھا ہے:
*ان (طاہر حسین گیاوی) کی اُس موقع (1969ء کی دار العلوم دیوبند کی اسٹرائک) کی بے ساختہ و بے ارادہ ٹریننگ نے، بعد کی عملی زندگی میں دیوبندیت کے ایک زبردست، بے باک، باصلاحیت، تقاضاہاے وقت کے لیے بہت موزوں ترجمان کے طور پر اُنھیں ابھارا اور میدان میں اتارا اور "خدا شرّے برانگیزد ازاں خیرے بروں آید” کا وہ سو فی صد مصداق ثابت ہوے۔ آج وہ مناظرِ اسلام، متکلمِ اسلام، ترجمانِ دیوبندیت، لسانِ حق، خطیبِ دوراں، محبوبِ انام سب کچھ بنے ہوے ہیں۔*(رفتگان نارفتہ)
یہ اس وقت کی تحریر ہے جب دونوں ہی بزرگ بقید حیات تھے،اس تحریر میں بریکٹ میں”اسٹرائیک”کا ذکر ہے اس کی حقیقت جاننے کے لئے مولانا گیاوی رحمہ اللہ کے رفیق درس مشہور عالم دین حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی رحمہ اللہ کی خود نوشت سوانح عمری”حکایت ہستی”نیز مشہور عربی ادیب حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی قدس سرہ کی کتاب”رفتگان نارفتہ” کا مطالعہ کریں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا طاہر گیاوی رحمہ اللہ کو اخاذ ذہن سے نوازا تھا، بلا کے ذہین و فطین تھے، اپنے مکتب فکر میں متصلب تھے،مکتب بریلویت و اہل حدیث کے لئے شمشیر بے نیام تھے،خصوصا بریلوی مکتب فکر کے ساتھ کئی مناظرے کئے، ان مکاتب فکر کی رد میں کتابیں بھی لکھیں ۔
حضرت مولانا رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند میں چند سال کسب فیض بھی حاصل کئے اور پھر ایک قضیہ نامرضیہ کے تحت دارالعلوم دیوبند سے اپنی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی رخصت ہو گئے اس قضیہ میں بقول حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی رحمہ اللہ 35/طلبہ شامل تھے ان میں تین طالب علم نمایاں تھے(1) حضرت مولانا محمد طاہر گیاوی رحمہ اللہ (2) حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی رحمہ اللہ (3) حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب فتح پوری دامت برکاتہم العالیہ (مجاز بیعت حضرت مولانا ابرار الحق رحمہ و مفتی اعظم مہاراشٹر) آخر الذکر ابھی بقید حیات ہیں ،یہ تینوں ہی علم و فضل کے آفتاب و ماہتاب بن کر ابھرے اور ایک عالم ان کے چشمہ فیض سے سیراب ہوئے ،راقم الحروف کو تینوں ہی بزرگوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہے ۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا طاہر گیاوی رحمہ اللہ کی کامل مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
%d bloggers like this: