خدا کے نیک بندوں کو ادا کاری نہیں آتی
زین العابدین ندوی دارالعلوم امام ربانی۔ نیرل ۔ مہاراشٹر

نسبت اور پاکیزہ تعلقات کے سبب ہر شئی کی قیمت دوبالا ہو جایا کرتی ہے ، حضرت انسان کا معاملہ بھی یہی ہے خدا سے نسبت وتقرب کی بدولت وہ خلیفۃ اللہ فی الارض کے مقام پر سرفراز کیا جاتا ہے اور غفلت ولا تعلقی کے سبب اولیک کالانعام بل ھم اضل کا مصداق بھی ہوجاتا ہے ، ایک انسان کا اس کے خالق ومالک سے رشتہ کی مضبوطی کی دلیل بس یہ ہے کہ وہ اپنی مرضیات وخواہشات کو اپنے اللہ کے احکام وفرامین کے تابع کر دے ، اپنی زندگی کی باگ ڈور اور تمام اختیارات اللہ کے ہاتھوں دے کر عملا یہ ثابت کر دے "ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین ” یہی ایک مومن کی معراج ہے ۔
یہ کام مشکل بھی ہے اور انتہائی آسان بھی ، مشکل ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنی نیتوں کو خالص کئے بغیر حب خدا اور محبت رسول کے دعویدار بن بیٹھے ، اور دین کو محض ایک رسم سمجھتے ہوئے مادیت کے دیوانہ ہوگئے ، بالفاظ دیگر مادی ترقی کو سب کچھ سمجھتے ہوئے آخرت کی فکر سے غافل ہو گئے اور دنیا طلبی کی خاطر اخروی زندگی کو بھی داو پر لگا دیا ، زبان پر ایمان واسلام اور قرآن کا تذکرہ تو رہا مگر اس پر عمل در آمدی میں غفلت کے شکار ہوگئے ، جس کے نتیجہ میں ہر گناہ کرنا ان کے لئے آسان ہوتا گیا اور وہ ابدی سعادت سے بھی دور ہوتے گئے ، اور یہ خدائی غلامی ان لوگوں کے لئے انتہائی آسان ہے جن کے دل ودماغ میں یہ بات رچ بس گئی ہے کہ ہمارا وجود عارضی اور قیام دو روزہ ہے اور یہ سب اس مالک کی امانت ہے جس سے ہم نے اپنے وجود کا سودا کر لیا ہے ” ان اللہ اشتری من المومنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ ” اسی فکر اور سوچ کا ہی نتیجہ ہے کہ اللہ والے اپنی ذات کے سلسلہ میں ہر سختی کو بخوشی برداشت کرتے ہیں مگر شریعت کی حفاظت میں اپنی زندگیاں قربان کر دیا کرتے ہیں ، انہیں کسی شئی کا نشہ اور غرور نہیں ہوتا بلکہ وہ سراپا تواضع ہوا کرتے ہیں ، ان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ جس شریعت وقرآن کی روشنی میں وہ لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں خود بھی اسی کے مطابق اپنے معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں ” ممن خلقنا امۃ یھدون بالحق وبہ یعدلون” کی عملی تصویر پیش کرتے ہیں ، وہ وصف تقوی سے مالا مال ہوتے ہیں جس کے عوض اللہ انہیں شان امتیازی عطا فرماتا ہے "ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقانا ” ۔
ہم چونکہ خود کوخیر امت کہتے ہیں اور دلائل فراہم کرنے میں بھی کافی مہارت رکھتے ہیں ، ہمیں اپنے اس دعوی پر غور کرنا چاہئے کہ کیا واقعی ہم اپنے کردار کی روشنی میں خیر امت کہے جانے کے مستحق ہیں ؟ یا محض دعوی ہی دعوی ہے ، یہ ایسا سوال اور تکلیف دہ مذاکرہ ہے جس کے بعد ہمت جواب دینے لگتی ہے اور دل اپنی بد اعمالیوں اور بلند وبانگ دعوے کے سبب تنگ ہونے لگتا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں جن اوصاف کی بدولت یہ اعزاز عطا کیا گیا تھا اس میں تین باتوں کا تذکرہ ہے ۱۔ امر بالمعروف ۲۔ نہی عن المنکر ۳ ۔ ایمان باللہ والکتاب ، جس میں سے ہم نے صرف امر بالمعروف کو سب کچھ سمجھ لیا اور نہی عن المنکر کے بجائے منکرات کے عادی ہوگئے جو ایمان باللہ والکتاب کی کمزوری کی دلیل ہے ، آپ کو تعجب نہ ہونا چاہئے اس مرض کا شکار وہ طبقہ ہے جس نے دینداری کا لبادہ اوڑھ رکھا اور دنیا انہیں فرشتہ صفت جماعت سمجھ رہی ہے ۔
میں نے یہ سطریں اس لئے لکھنے کی ضرورت محسوس کی کہ جب خواص کا یہ عالم ہے تو عوام پر اس کا غیر شعوری طور پر کیا اثر مرتب ہوگا ، اور یہ قوم اوصاف سے فارغ رہتے ہوئے کب تک خود کو خیر امت سمجھتی رہے گی ، خدا کے حضور نیک بندے کہے جانے کے مستحق صرف وہی ہوں گے جو اداکاری کے بجائے وفاشعاری اور حلم وبردباری کے عملی پیکر ہوں ورنہ اچھے باتیں تو دیواروں پر بھی لکھی ہوتی ہیں ، اللہ ہمیں عمل کی توفیق بخشے ۔ آمین یارب