مضامین

دینی خدمت گزار اور ملت کی ذمہ داریاں

شمع فروزاں 16-10-2020 مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

اللہ تعالیٰ نے ہمیں جن نعمتوں سے نوازا ہے، وہ دو طرح کی ہیں: ایک: مادی نعمتیں ، جن میں کھانا، کپڑا، علاج اور مکان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، دوسرے: روحانی نعمت ، اور وہ ہے اسلام ، یہ روحانی نعمت عالم آخرت میں تو ہماری کامیابی اور نجات کا ذریعہ ہے ہی، اس دنیامیں بھی ہماری ضرورت ہے، اور زندگی کے ہر مرحلہ میں ہمیں اس سے روشنی حاصل ہوتی ہے، ہمیں کیا کھانا چاہئے اور کیا نہیں کھانا چاہئے؟ ہمارے لباس میں کن باتوں کی رعایت ہونی چاہئے؟ بال بچوں کے ساتھ ، والدین کے ساتھ، شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ کیا رویہ ہونا چاہئے؟ ہمارے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں؟ معاملات میں ہم کس طرح صفائی اور شفافیت کو برقرار رکھیں اور معاشرہ کو ظلم و ناانصافی سے بچائیں؟ یہ سب ہمیں مذہب ہی سے معلوم ہوتا ہے، غرض کہ شائستہ و مہذب زندگی اور انصاف پر مبنی سماجی تعلقات کے لئے انسان ہر لمحہ اپنے خالق و مالک کی رہنمائی کا محتاج ہے، اور اسلام کے ذریعہ ہمیں یہ رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔
ہماری زیادہ تر جدوجہد کا محور موجودہ زندگی کی راحتوں اور آسائشوں کا حصول ہے، اور اگر یہ کوشش شریعت کی مقرر کی ہوئی حدوں میں ہو تو اس میں حرج نہیں، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہی دنیا کے تمام کاروبار بلا وقفہ جاری و ساری ہیں؛ تاہم ہماری زندگی میں دین کو قائم رکھنے کے بنیادی طور پر دو مراکز ہیں: مسجدیں اور مدرسے، مسجدیں اصل میں تو مسلمانوںکے ہمہ مقصدی مراکز ہیں، عہد نبوی میں مسجدیں تعلیم گاہ بھی تھیں، یہ صلح سینٹر بھی تھے، جس میں مسلمانوں کے باہمی اختلافات طئے کیے جاتے تھے، یہیں عدالتیں قائم ہوتی تھیں اور ہر طرح کے فیصلے ہوتے تھے، امور سلطنت پر مشورے ہوتے تھے، جنگ و امن کے فیصلے کئے جاتے تھے، غرض کہ مسلم سماج اوراسلامی مملکت کے تمام ضروری امور یہیں طئے ہوا کرتے تھے، آہستہ آہستہ مسجدوں کی یہ ہمہ گیر خدمت محدود ہوتی گئی؛ لیکن اب بھی یہ مسلم سماج کا ایک اہم مرکز ہے، اور کم سے کم چار ضروری کام مسجدوں ہی سے انجام پاتے ہیں: اول: نماز اور اعتکاف جیسی عبادت، دوسرے: اصلاح معاشرہ اور مبادیات دین کی دعوت، جمعہ کا تو اس سلسلہ میں ہے ہی بہت اہم رول؛ لیکن اس کے علاوہ درس قرآن، درس حدیث اور فقہی مسائل کی رہنمائی کے لئے بھی مسجدیں ہی سب سے اہم مراکزہیں، تیسرے: مسلمانوںکے باہمی ربط کو باقی رکھنے میں بھی مساجد کا اہم کردار ہے، چوتھے: مکاتب کے ذریعہ بنیادی دینی تعلیم کا انتظام، مسلمان کو دین سے جوڑے رکھنے میں ان کاموں کا اہم حصہ ہے۔
مدارس کا وجود یوں تو ہر جگہ اہم ہے؛ لیکن جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں، وہاں تو ان کی حیثیت شہ رگ کی ہے، ہندوستان میں مدارس کا قیام ہی اس پس منظر میں ہوا کہ مسلمانوں کو فتنئہ ارتداد سے بچایا جائے اور دین پر ثابت قدم رکھا جائے،موجودہ حالات میں مدارس بھی دین کے چار بنیادی کاموں کو انجام دے رہے ہیں اور شب و روز ان مقاصد کے لئے افراد کار تیار کرنے میں مشغول ہیں: اول: دین کی اعلی تعلیم، دوسرے: احکام شریعت کی تحقیق؛ تاکہ لوگ اس بات کو سمجھ سکیں کہ اسلام زندگی سے مربوط نظامِ زندگی ہے، اور ہر عہد میں رہنمائی کی صلاحیت رکھتا ہے، تیسرے: اسلام کا دفاع اور اسلام کے خلاف اٹھائے جانے والے فتنوں کا علم اور دلیل کے ذریعہ رَد، چوتھے: دینی تحریکات کی علمی وفکری مدد اور ان کے لئے افرادی وسائل کی فراہمی، مدارس کے نصابِ تعلیم اور نظامِ تربیت میں قدم قدم پر ان ا مور کا لحاظ رکھا گیا ہے، اور اس میں شبہ نہیں کہ مدارس ان تمام کاموں کو بڑی حد تک خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔
اس لئے یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مساجد اور مدارس مسلمانوں کی دینی زندگی کے لئے بے حد اہم ہیں؛ اگر یہ نہ ہوتے تو ہندوستان اور اس جیسے ممالک میں مسلمانوں کو ایمان پر باقی رکھنا بے حد دشوار ہوتا اور اتداد و الحاد کا طوفان نئی نسل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔
دین کے یہ دونوں مراکز دینی خدمت گزاروں کے ذریعہ قائم ہیں، یوں تو ملک میں مدارس کی تعداد ہزاروں میں ہے، ہر سال فارغ ہونے والے علماء اور حفاظ بھی بعید نہیں کہ پچاس ہزار تک پہنچتے ہوں؛ لیکن ان کی ایک بہت ہی مختصر تعداد دینی خدمت کی لائن میں آتی ہے، ان ہی کے ذریعہ مساجدو مدارس کا نظام قائم ہے، یہ چیز بھی علماء کے حصہ میں اپنے بزرگوں کی میراث کے طور پر چلی آ رہی ہے کہ وہ بہت ہی معمولی معاوضہ پر دینی خدمت انجام دیتے ہیں، یہ اتنا کم ہوتا ہے کہ اسے معاوضہ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، جب کہ ان کی خدمت کے اوقات بمقابلہ دوسرے لوگوں کے کافی زیادہ ہوتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ بعض دفعہ عصری تعلیمی اداروں میں انگریزی ،حساب اور دیگر عصری مضامین پڑھانے والے ساتھیوں کے مقابلہ ان کی تنخواہ کم رکھی جاتی ہے؛ لیکن پھر بھی وہ حفاظت دین کے جذبہ کے تحت اس پر قناعت کرتے ہیں؛ اگر دین کے یہ خدمت گزار نہ رہیں تو اگلے بیس پچیس سالوں میں مسلمانوں کے لئے اپنی نسلوں کے ایمان کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔
مدارس و مساجد کے نظام کو فعال اور خودمختار رکھنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیاکہ ان کا حق الخدمۃ عام مسلمانوں کے تعاون سے ادا ہو، حالانکہ بعض جگہ حکومت چاہتی ہے کہ مساجد کے ائمہ اور مدارس کے اساتذہ کی تنخواہیں وہ ادا کرے، کئی ریاستوں میں اس کے لئے مدارس کے بورڈ بھی بنائے گئے ہیں، کئی ریاستوں میں وقف بورڈ نے ائمہ کی تنخواہوں کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے، اور افسوس کہ بعض جگہ مساجد و مدارس کے منتظمین اورائمہ ومدرسین نے اسے قبول بھی کرلیا ہے؛ لیکن در حقیقت یہ ایک میٹھا زہر ہے، آج اس کی مٹھاس اپنی طرف کھینچ رہی ہے؛ لیکن یہ چیز آہستہ آہستہ ان مقاصد کے لئے جان لیوا ثابت ہو گی، جن کے لیے یہ دینی مراکز قائم ہوئے تھے، پھر مساجد میں خطباء تو ہوں گے؛ لیکن ان کے منہ میں حکومت کی زبان ہوگی، مدارس میں علماء تو ہوں گے؛ لیکن ان کو حکومت کے چشم و ابرو کے اشاروں پر چلنا پڑے گا، دینی تعلیم سے آراستہ مصنفین تو ہوں گے؛لیکن ان سے اسلام کی حمایت کے بجائے اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کا م لیا جائے گا؛ اس لئے اگر ہمیں ان مراکز کو اپنے اصل مقاصد پر قائم رکھنا ہے تو صحیح طریقہ یہی ہے کہ مسلمان خود ان کی ضروریات پوری کریں۔
اس پس منظر میں عرض ہے کہ گزشتہ سات مہینوں سے یوں تو پورا ملک معاشی مشکلات سے گزر رہا ہے؛ لیکن سب سے زیادہ جو طبقہ دشواری سے دوچار ہو اہے ، وہ دینی خدمت گزاروں کا ہے، گورنمنٹ ملازمین کی تنخواہیں اس معیار کی ہوتی ہیں کہ اگر ان کو نصف تنخواہ بھی مل جائے تو روزمرہ کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں، پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین کی صورتحال بھی یا تو یہی ہے یا اس سے بہتر ہے، پھر یہ کہ ان حضرات کے پاس پس انداز کی ہوئی رقم بھی ہوتی ہے،کرونا کی اس وبا کے دوران اس جمع شدہ رقم سے بھی لوگوں نے اپنی ضرورتیں پوری کیں؛ لیکن غیر منظم اور کم یافت کے حامل ملازمین یا یومیہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدوروںکے پاس کوئی رقم پس انداز نہیں ہوتی، پھر بھی مزدورں کے لیے یہ آسانی ہے کہ وہ کوئی بھی ذریعہ معاش اختیار کر سکتے ہیں، اور ان کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں بھی عار نہیں ہوتی، دینی خدمت گزاروں کی صورت حال یہ ہے کہ نہ ان کے پاس کوئی پس انداز کی ہوئی دولت ہے، نہ وہ محنت مزدوری کر سکتے ہیں، اور نہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا سکتے ہیں، بعض لوگ ان کی اس پریشانی کے لیے صرف اداروں کی انتظامیہ کو قصوروار قرار دیتے ہیں؛ لیکن یہ درست نہیں ہے؛ کیونکہ مدارس کا نظام عوامی تعاون سے چلتا ہے اور عام طور پر یہ تعاون رمضان المبارک میں حاصل ہوتا ہے، اور اس سال اسی ماہ میں لاک ڈاؤن نافذ ہونے کی وجہ سے مدارس کی آمدنی کہیں معمولی پیمانہ پر ہوئی اور کہیں وہ بھی نہ ہوسکی؛ اگر مدرسے میں پیسے ہوں اور خدامِ مدرسہ کی خدمت نہ کی جائے، تو یہ بات قابل شکایت ہوسکتی ہے؛ لیکن اگر مدرسے میں پیسے ہی نہ ہوں تو انتظامیہ بھی کیا کر سکتی ہے!
مگر سوال یہ ہے کہ اس سلسلہ میں عام مسلمانوں کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں یانہیں؟حقیقت یہ ہے کہ مدارس کے اساتذہ و عملہ اور مساجد کے ائمہ و مؤذنین پوری قوم کی خدمت کر رہے ہیں؛ اس لئے قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ بہتر اور باعزت طریقے پر ان کی کفالت کریں، اس کفالت کی ایک صورت تو یہ ہے کہ مدارس و مساجد کی انتظامیہ کو تعاون پیش کیا جائے، اور موجودہ حالات کے پس منظر میں ہنگامی مدد کی جائے، دوسرے: دینی خدمت گزاروں کی انفرادی طور پر کفالت قبول کی جائے؛ اگر ہر شہر میں دس اصحاب خیر مل کر اپنا گروپ بنائیں اور یہ گروپ خدام دین میں سے ایک فرد یاایک سے زائد افراد کی بنیادی ضروریات– راشن، علاج اور بچوں کی تعلیمی فیس– کا آئندہ چھ ماہ کے لیے ذمہ لے لیں اور خاموشی کے ساتھ اپنی اعانت ان تک پہنچا دیں، توان پر کچھ زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا، اورکتنے ہی خدام دین کی کفالت ہو جائے گی، ہر شہر میں ایسے ہزاروں گروپ بن سکتے ہیں اور بہ سہولت مدارس اور مساجد کے خدمت گزاروں کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے، یہ دس افراد کے گروپ کی بات تو بطور سہولت کہی گئی ہے؛ ورنہ ملت میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو تنہا خدمتِ دین میں مشغول کئی خاندان کی کفالت کر سکتے ہیں، اس طبقہ پر خرچ کرنے میں دوہرا اجر ہے، ایک تو صدقہ کا، دوسرے :بالواسطہ دینی خدمت میں تعاون کا؛ چنانچہ مشہور محدث امام عبداللہ بن مبارکؒ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی اعانتیں علماء پر ہی خرچ کرتے تھے، اور فرماتے تھے کہ مقام نبوت کے بعد علماء سے بڑھ کر کوئی بلند مرتبہ نہیں، (الاتحاف:۴/۴۱۷) مشہور فقیہ علامہ علاء الدین حصکفیؒ فرماتے ہیں: التصدق علی العالم الفقیر أفضل و الی الزھاد (درمختار:۳/۳۰۴) ’’ محتاج عالم یا عابد و زاہد لوگوں پر صدقہ کرنا افضل ہے‘‘۔
خود قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
صدقہ میں اصل حق ان حاجتمندوں کا ہے، جو اللہ کی راہ میں گھِر گئے ہیں، ملک میں کہیں چل پھِر نہیں سکتے، دست سوال نہ پھیلانے کی وجہ سے نا واقف ان کو مالدار سمجھتے ہیں، تم ان کو ان کے چہرہ سے پہچان سکتے ہو، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے اور تم مال میں سے جو کچھ خرچ کروگے، اللہ تعالیٰ اس سے خوب واقف ہیں۔ (بقرہ:۲۷۳)
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ جو محتاج اور ضرورت مند حضرات دین کے کام کی وجہ سے کسب معاش میں مستقل طور پر لگنے کے موقف میں نہ ہوں، وہ اعانتوں کے زیادہ مستحق ہیں؛ اسی لیے اکابر مفسرین کا رجحان یہی ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی، اس وقت اس سے اصحاب صفہ یعنی صفہ میں مقیم طالبانِ علوم نبوت کی طرف اشارہ تھا، (دیکھئے: تفسیر کبیر: 3/ 636، تفسیر قرطبی:3/ 349) بلکہ خود رسول اللہ کے زمانہ سے یہ طریقہ مروج تھا کہ اہل ثروت صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے کھجور اصحاب صفہ کے لئے پیش کیا کرتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کو اس کی ہدایت ہوتی تھی؛ اس لئے یوں تو تمام محتاج و ضرورت مند مسلمانوں کی مدد کرنی چاہئے؛ لیکن اس طبقہ کا خصوصی استحقاق قرآن سے بھی ثابت ہے، حدیث سے بھی، سلف صالحین کے عمل سے بھی، اور یہ زیادہ مکمل طریقے پر انفاق کے مقاصد کو پورا کرتا ہے۔
اگرایسے دشوار حالات میں اس طبقہ کا لحاظ نہیں کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ جو مختصر سی تعداد خدمت دین کے میدان میں آتی ہے، وہ بھی آئندہ اس خار زار میں قدم رکھنے سے اجتناب کرنے لگے گی اور امت کو مخلص خدامِ دین کو چراغ لے کر ڈھونڈنا پڑے گا،بعض لوگوں کے ذہن میں ہے کہ چونکہ اس وقت مدارس میں طلبہ ہی نہیں ہیں؛ اس لئے مدارس کو پیسے دینے کی کیا ضرورت ہے؟ تو یہ غلط فہمی پر مبنی ہے، مدارس میں طلباء کے رہائش پذیر نہ ہونے کی وجہ سے صرف مطبخ کے اخراجات میں کمی واقع ہوتی ہے، اساتذہ و عملہ کی تنخواہوں میں کوئی کمی نہیں ہوتی، کیا یہ بات مبنی بر انصاف ہوسکتی ہے کہ جو لوگ ہر سرد و گرم میں ملت کی خدمت کرتے ہیں اور ملت کے کاز کے لئے ہر تکلیف برداشت کرتے ہیں، ان کو اِن حالات میں تنہا چھوڑ دیا جائے، حالات کے بھنور کے حوالہ کردیا جائے؟ مطبخ کے علاوہ مدارس میں اور بھی ڈھیر سارے اخراجات ہوتے ہیں، جیسے: لائٹ، پانی، عمارتوں کی دیکھ ریکھ، اس کی حفاظت اور مرمت وغیرہ، یہ سارے اخراجات تو اب بھی قریب قریب حسب معمول قائم ہیں؛ اس لئے یہ سمجھنا درست نہیں کہ مدارس بند ہیں؛ لہذا انہیں پیسوں کی ضرورت نہیں ہے، میرا خیال ہے کہ طلبہ کے نہ ہونے کی وجہ سے مدارس کے معمول کے اخراجات میں پچیس تیس فیصد ہی کی کمی ہوتی ہے؛ اس لئے ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ دین متین کے ان محافظین کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھائیں اور اپنے عمل سے ان کو بتائیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں، پوری امت ان کی پشت پر ہے!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close