مضامین

ــــکرتا رہے گا یاد زمانہ تمام عمرــــامیرالاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمٰن ثانی لدھیانویؒ

تحریر:عثمان وا‌ۤرد سہارنپوری

غالباً سن(2009) کی بات ہے،مجھے حصولِ علم کی خاطر سرزمینِ پنجاب کا رخ کرنا پڑا،وہاں پہنچتے ہی میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں منہمک ہوگیا،اس وقت میری عمر کوئی سات سال کے قریب رہی ہوگی،میرا شعور بھی اس وقت بیدار نہیں ہوا تھا،لیکن آہستہ آہستہ وقت گزرتا رہا اور عقل و شعور بھی اسی تناسب سے پختگی کی منزلیں طے کرتا رہا۔

پنجاب کے جنوب میں واقع ایک دینی درس گاہ مدرسہ دارالعلوم قادریہ جہاں ہم زیر تعلیم تھے،تو اس وقت پنجاب کی جن اہم اور ممتاز شخصیات کا ہم طلبہ کے درمیان تذکرہ رہتا،ان میں قائدِملت حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ کی سحر انگیز شخصیت کا نام نمایاں رہتا۔
یہ نام سنتے سنتے میں بڑا ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ میرا فکری شعور بھی بالیدہ ہوتا گیا،مولانا کی صالح اور متحرک شخصیت اور ان کے عظیم الشان کارناموں کے بارے میں میں اتنا زیادہ سن چکا تھا کہ مولانا کی جلالی شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا اشتیاق زور پکڑنے لگا اور میں کوشش میں لگ گیا کہ مولانا کو کسی طرح قریب سے دیکھ سکوں،آخر وہ دن آ پہنچا،جس کا مجھے بڑی بے صبری سے انتظار تھا،معلوم ہوا کہ ۳/ اگست ۲۰۱۵/ کو مادر علمی میں عید ملن کا پروگرام مولانا حبیب الرحمن صاحب ثانی لدھیانویؒ کی صدارت میں منعقد ہونے جا رہا ہے،یہ سنتے ہی نگاہوں کا تعاقب شروع ہو گیا اور ہاں اس اجلاس میں مہمان خصوصی کے طور پر اسلام کے مشہور داعی مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب بھی حاضر ہو رہے تھے،یہ نام بھی میرے لیے اجنبی تھا،بعد میں معلوم ہوا کہ داعیِ اسلام کے کارناموں سے ہندوستان ہی نہیں،بلکہ ایک جہاں واقف ہے۔

بہر کیف:مولانا کلیم صدیقی صاحب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے،مولانا کی داستان تو دراز ہے!

کبھی فرصت سے سن لینا
بڑی ہے داستان میری…

اس وقت جو نام بار بار سامعہ نواز ہوا،وہ نام مولانا ثانی کا تھا،جس کی آج مادر علمی میں آمد ہو رہی ہے،یہ سنتے ہی میرا چہرہ بشاش ہوگیا اور کچھ ہی دیر بعد مولانا حبیب الرحمن ثانیؒ رونقِ اسٹیج ہوے اور میری نگاہیں مولانا ثانیؒ کی شخصیت کو ایسے تکنے لگیں،جیسے لوگ عید کے چاند کو ٹکر ٹکر کر دیکھتے ہیں،یہ میرا پہلا اتفاق تھا،جب میں نے مولانا حبیب الرحمٰن ثانیؒ اور مولانا کلیم صدیقی صاحب کو اول اول قریب سے دیکھا،اس وقت کی کوئی بات میرے ذہن میں نہیں ہے،مگر مولانا حبیبؒ کا عکس اور سراپا اسی وقت سے ذہن و دل میں برابر محفوظ ہے،جسمانی ڈھانچہ انتہائی زبردست،چہرے سے معصومیت اور شرافت نمایاں ہوتی دکھائی پڑتی،غرض خداوند قدوس نے اپنے اُس بندے میں عزم و ہمت،حوصلہ و جرأت اور قوتِ ارادی کی ایک ایسی شمع جلا رکھی تھی،جس کی روشنی تاریکی کو ایک کوچے میں سمٹنے پر مجبور کرتی،خوداعتمادی و ولولہ خیزی کا ایسا فولاد میری نظروں نے اب سے پہلے کبھی نہیں دیکھا،لباس نہایت صاف و شفاف،جس پر کسی نکتہ چیں اور دوربیں کو کوئی دھبہ یا شکن تک نظر نہ آئے،سر پر رکھا سفید عمامہ آپ کی خوب صورتی میں مزید اضافہ کرتا،آنکھیں روشن اور متحرک اور اتنا ہی نہیں،بلکہ ان سے حیا بھی ٹپک رہی ہوتی اور دیکھنے والا دیر تک دیکھتے ہی رہتا،بڑے ہی خوش اخلاق اور خوش اطوار انسان تھے۔خدا نے ان کے لہجے میں جادو بھر دیا تھا،جب گویا ہوتے،تو سننے والے پر لرزہ طاری ہوجاتا،کبھی حکومت کو للکارتے،تو کبھی فتنئہ قادنیت کی قبا چاک کرتے۔کبھی بے کسوں کی آواز بنتے اور ان کے سوزِ دروں کو سنتے اور ان کے قلبِ حزیں کو تسکین دیتے۔

مولانا کے خلوص و للہیت،ان کے افکار کی بلندی اور ان کے نظریات کی پاکیزگی کا معترف ایک زمانہ ہے۔

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے

مولانا حبیب الرحمٰن ثانی لدھیانویؒ جس جماعت کے امیر تھے،اس جماعت کے کارناموں اور اس کی سیاسی و سماجی اور ملی سرگرمیوں کے تفصیلی ذکر کے لیے مستقل ایک کتاب کی ضرورت ہے۔

مولانا مرحوم جہاں ایک طرف سیاسی و ملی خدمات کی انجام دہی کے حوالے سے ملکی و بین الاقوامی شہرت رکھتے تھے،وہیں ان کے بارے میں یہ بھی ایک متفقہ تاثر ہے کہ وہ مثبت فکر کے حامل ایک ایسے انسان تھے،جن کی ادا ادا سے تواضع و انکساری مترشح ہوتی تھی اور ان کی ذات "من تواضع للہ رفعہ اللہ” اور "اذا رؤوا ذکر اللہ” کا مجسم نمونہ تھی۔

مولانا جلالی طبیعت کے زاہد و عابد انسان تھے،مولانا نے ایک مدت تک بلا تفریقِ مذہب و ملت باشندگانِ پنجاب کو اخوت و محبت کا درس دیا اور پنجاب میں ویرانی کی شکل اپنا چکی مساجدوں کو دوبارہ اللہ اکبر کی صداؤں سے آباد کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

. اقبال کا یہ شعر آپ کی شخصیت کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے کہ:

مری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی !

مولانا مرحوم ہندو مسلم یکجہتی کی بہترین مثال تھے،جس کی نظیر بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔مولانا مرحوم اپنی زندگی میں کئی تحریکوں کا حصہ رہے۔ان تحریکوں میں تحریک ختم نبوت سب سے اہم اور نمایاں ہے۔مولانا نے تحفظ ختم نبوت کا جو بیڑا اپنے سر اٹھایا تھا اور جس انداز اور منظم طریقے سے اس ذمہ داری کو انجام دیا،اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اور ہر مکتبۂ فکر اور ہر شعبۂ حیات کے عوام و خواص ہمیشہ آپ کے اس عظیم کارنامے کے قائل و معترف رہیں گے۔

وہ آپ کر گئے ہیں جو کوئی نہ کرسکا
کرتا رہے گا یاد زمانہ تمام عمر !

مولانا کا یہی وہ کردار تھا،جس کی بنیاد پر آپ ملک بھر میں چھائے ہوے تھے اور مدتوں آپ کی شخصیت کو یاد کیا جاتا رہے گا۔اب آپ کے بعد امت کو آپ کے فرزند ارجمند،نوجوان عالم دین،میرے پسندیدہ خطیب مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی شاہی امام پنجاب سے توقعات وابستہ ہیں اور جو ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ہے،ان شاء اللہ وہ اس ذمہ داری کو بہ حسن و خوبی انجام دیں گے،ملک و ملت کو ان سے گوناگوں فوائد حاصل ہوں گے اور وہ اپنے شہرۂ آفاق آباء و اجداد کے نام و کام کے بقائے دوام کا ذریعہ بنیں گے۔

مولانا مرحوم کی شخصیت کے بعض پہلو تو بہت موثر ہیں،جن کو بیان کرنا مجھ جیسے طالب علم کے لیے مشکل ہے،میرے ناقص علم کے مطابق اگر یہ کہا جائے کہ مولانا کی وفات کسی عام انسان کی وفات نہیں،بلکہ یہ علم و ادب اور فکر و نظر کا سانحۂ ارتحال ہے،تو اس میں کچھ مبالغہ نہ ہوگا۔

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی

مولانا اپنی عمر کے 63 سال اس دنیا میں گزار کر بتاریخ 10؍ستمبر 2021؍ عیسوی بمطابق 2؍صفر المظفر 1443ہجری اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

اللہ تعالی امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور مولانا مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔۔۔ !

روش دہر کا ہر نقش پکارے گا مجھے۔۔! یہ نہ سمجھو کہ مجھی تک میراافسانہ ہے۔۔!

مرثیہ کلام

دل دار غم گسار دلاور چلا گیا
افسوس ہے کہ مردقلندر چلا گیا

رونق تھی جن کے دم سے زمانے میں ہرطرف
وہ آج ملک وقوم کا رہبر چلا گیا

باطل کی طاقتوں سے جو ڈرتا نہ تھا کبھی
ہرسو چراغ حق کا جلا کر چلا گیا

انسانیت کادرس جو دیتا رہا سدا
وہ شخص آج ہم سے بچھڑکر چلا گیا

بھارت کی سرزمین پہ امت کے واسطے
احرار کاشجر وہ لگاکر چلا گیا

امید آپ ہی سے ہے وابستہ اس لیے
مسند وہ اپنی ،، آپ کو دےکر چلا گیا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close