مضامین

ایم۔پی۔ کے اجین میں مسلم نوجوان کے ساتھ ہندوتنظیموں کی مارپیٹ اور پولیس کی دوغلہ پالیسی

تحریر: محمد شعیب رضا نظامی فیضی چیف ایڈیٹر: ہماری آواز، گولا بازار گورکھ پور

ایم۔پی۔ کے اجین میں ٹرین سے سفر کررہے ایک لڑکے اور لڑکی کو ہندو تنظیم(بجرنگ دل) کے کچھ لوگوں نے پیٹتے ہوئے ٹرین سے اتار دیا، لڑکا باربار پوچھتا رہا کہ معاملہ کیا ہے؟ مگر اس کی کسی نے نہیں سنی۔ ’’لوجہاد‘‘ نامی پرپیگنڈہ جو ہندو تنظیموں کی مسلم دشمنی کا ایک کامیاب عنصر اور کارگر ہتھیار ہے اسی ’’لوجہاد‘‘ کو بنیاد بنا کر ’’بجرنگ دل‘‘ کے ہندتواوادی، کٹرپنتھی،فتین و بدمعاش لوگوں نے اس مسلم نوجوان کی پیٹائی کردی اور اسے ذلیل و رسوا کرتے ہوئے پولیس کے حوالے کردیا اور دعویٰ یہ کیا لڑکی ہندو ہے جسے بہلا،پھسلا کر مسلم نوجوان فرار ہونا چاہتا تھا۔ معاملہ کی جب تفتیش کی گئی تو پتہ چلا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں (ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے اپنے مذہب کے لڑکی اور لڑکے سے) شادی شدہ ہیں اور دونوں کے گھریلو تعلقات ہے جس کی وجہ سے دونوں ایک ساتھ سفر کررہے تھے اور لڑکی کے گھر والوں نے ہی لڑکی کو اس مسلم نوجوان کے ساتھ سفر پر کہیں(غالباً اجمیر) بھیجا تھا۔ خیر معاملہ واضح ہونے کے بعد پولیس نے دونوں کو چھوڑ دیا۔ یہ پولیس کا ایک اچھا قدم تھا کہ اس نے بروقت معاملہ کی سنجیدگی کو بھانپتے ہوئے معاملہ کی تفتیش کی اور لڑکے کو ایک بڑی سازش سے بچا لیا۔ مگر۔۔۔۔ ابھی تک جن لوگوں نے مسلم نوجوان کی پٹائی کی تھی ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک میں جب جہاں چاہے کسی مسلم نوجوان کو پیٹ دیا جائے؟ اس کی عزت نفس کا مذاق بنا دیا جائے؟ اسے ذلیل و رسوا کردیا جائے؟ ان ہندو تنظیموں کو کسی کو بھی مارنے پیٹنے کا اختیار کس نے دیا؟ ان کے پس پردہ کون سے فرقہ پرست عناصر کارفرما ہیں کہ ان کی شہ زوری آئے دن بڑھتی جارہی ہے؟
معاملہ تو یہ ہونا چاہیئے تھا کہ اگر ان تنظیموں کو اس مسلم نوجوان کے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوئے تھے کہ وہ ہندو لڑکی کو فریب دے کر بھگا رہا ہے تو انھیں صرف اور صرف پولیس اور انتظامیہ کو اطلاع دینی چاہیے تھی، یقینا یہ ایک حساس معاملہ ہے بلاشبہ پولیس فوری کارروائی کرتی، انھیں گرفتار کرتی، تفتیش کرتی اور پورے معاملہ میں قانونی کارروائی عمل میں لاتی؛ اگر لڑکا واقعی قصور وار ہوتا تو اس کے خلاف قانونی دفعات کا استعمال کرتے ہوئے عدالت کے حوالے کیا جاتا اور سزا کا مستحق ہوتا۔۔۔اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر ان تنظیموں کو عدالت عالیہ سے رجوع کرتے ہوئے اپنی بات سامنے لانے کا اور حکومت(جو کہ خود ان کے ہم نوائوں کی ہے) کی توجہ مبذول کرانے کا پورا پورا اختیار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔مگر مگر۔۔۔۔۔ ایسا کرنے پر ان تنظیموں کو اپنا رعب و دبدبہ، دھونس، شہ زوری اور دہشت دکھانے کا سنہرا موقع کہاں ملتا؟؟؟ ہاں انھیں تو نفرت کی کھیتی کرنے کی جو عادت ہے، انھوں نے فرقہ پرستی کی ایسی تخم پاشی کی ہے جو اب ایک تناور درخت بن چکا ہے، انھیں تو دہشت پھیلانے کی عادت پڑ چکی ہے؛ وہ جب جہاں جسے چاہتے ہیں اسے مار دیتے ہیں، کسی کو ’’جے شری رام‘‘ کا ہندو مذہبی نعرہ(جو ایک مسلمان کے عقائد کے منافی اور دستور ہند کے بنیادی دفعات کی سب بڑی توہین ہے) لگانے پر مجبور کردیتے ہیں، کبھی مسلم نوجوان کو شراب جیسی نجس اور مہلک چیز جبراً پلا دیتے ہیں تو کبھی کسی ضعیف و بیمار مسلم بزرگ کو تھوک چٹانے اور پیشاب پلانے جیسی غیراخلاقی،غیر مروتی، غیرقانونی و ناشائستگی حرکت سے باز نہیں آتے اور حد تو اس وقت ہوجاتی جب وہ کسی مسلمان کی بلا وجہ بہیمانہ قتل (موب لنچنگ) کر ڈالنے میں بھی نہیں ہچکچاتے۔ وہیں حکومت، پولیس و انتظامیہ اور سیاسی لیڈران سب کے سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ موب لنچنگ والے معاملات میں گرفتاری نہیں ہوتی مگر صرف گرفتاری سے کیا؟ جس طرح عدالتوں نے گزشتہ ایام میں جنسی درندگی کے معاملات میں راتوں رات پھانسی کی سزائیں سنائی تھیں اسی طرح موب لنچنگ میں سزائوںکے فوری فیصلے کیوں نہیں ہوتے کہ جن سے موب لنچنگ جیسے فتنہ فساد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور ملک میں امن و امان کی فضا قائم ہو۔ اسی طرح حالیہ معاملہ ہندو تنظیم کے لوگوں نے مسلم نوجوان کے ساتھ جو مارپیٹ اور بدسلوکی کی تو پولیس والوں نے جس طرح معاملہ کی تفتیش کرتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کوبری کیا اسی طرح فوری طور سے ان لوگوں پر کارروائی کیوں نہیں کی جن لوگوں نے فتنہ فساد پھیلانے کی کوشش میں ایک بے قصور نوجوان کو بلاوجہ مارا،پیٹا؟ گرچہ تھپڑ-دو تھپڑ ہی سہی مگر مارا کیوں؟ ایسے لوگوں پر اگر پولیس فوری کارروائی کرے تو نفرت کے ان سوداگروں کو سبق حاصل ہوگا اور وہ بلا وجہ کسی کو پریشان کرنے اور فتہ فساد پھیلانے کی جرأت نہ کوسکیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close