مضامین

سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد

محمد ہاشم اعظمی مصباحی نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یو پی 9839171719

مکرمی! سلطنت عثمانیہ کے خاتمے سے جہاں مسلم دنیا ایک مرکزی قیادت سے محروم ہوگئی وہیں مسلم ممالک بھی بین الاقوامی سیاست سے اپنا اثر و رسوخ کھو بیٹھے افسوس کہ عثمانی قیادت و سلطنت کو زوال کی قبر میں اتارنے والا کوئی غیر نہیں بلکہ وہ انگریزوں کا ایجنٹ مصطفٰی کمال پاشا (پیدائش:1881وفات:10نومبر 1938) تھا جس کی پالیسیاں مسلمانوں کے لئے زہرِقاتل تھیں وہ جنگ عظیم اول میں عثمانی دور کا فوجی سالار، جدید ترکی کا بانی وصدرِ اوّل ہے 1934ء میں قوم کی طرف سے اسے اتاترک (بابائے ترک/ ترکوں کا باپ) کا لقب دیا گیا تھا مصطفیٰ کمال پاشا نہ صرف یہ کہ مغرب کا ایجنٹ تھا بلکہ عالم اسلام کی تباہی کا کلنک بھی اس کے ماتھے پر ہے مغربی ممالک کا پٹھو اور آلہ کار بنکر جس نے اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا جب اتا ترک مصطفی کمال پاشا نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا تو آل عثمان كو راتوں رات گھریلو لباس ہی میں اپنے آقاؤں کے دیار یورپ بھیج دیا۔ شاہی خانوادے نے بہت التجا کی کہ یورپ کیوں؟ ہمیں اردن، مصر یا شام کے کسى عرب علاقےميں بھیج دیا جائے لیکن صہیونی آقاؤں کے احکامات بالکل واضح تھے انہیں خاندان عثمان کو ذلیل کرکے اپنی آتش انتقام کو ٹھنڈا کرنامقصود تھا۔چنانچہ کسی کو یونان میں یہودیوں کے مسکن سالونیک اور کسی کو یورپ روانہ کیا گیا، اور آخری عثمانی بادشاہ سلطان وحید الدین اور ان کی اہلیہ کو راتوں رات فرانس بھیج دیا گیا ظلم بالاۓ ظلم یہ کہ ان کی تمام جائیدادیں ضبط کرلی گئیں یہاں تک کہ صرف گھریلو تن کے لباس میں خالی جیب اس حال میں انھیں رخصت کیا گیا کہ وہ پائی پائی کو محتاج تھے.
کہا جاتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے آخری سلطان وحید الدین کے شہزادے منھ چھپا کر پیرس کی گلیوں میں کاسۂ گدائی لیے پھرتے تھے جب سلطان کی وفات ہوئی تو اہلِ کلیسا ان کی میت کو کسی کے حوالے کرنے پر آمادہ نہ ہوۓ کیونکہ دکانداروں کا قرض ان پر چڑھا ہوا تھا- بالآخر مسلمانوں نے چندہ کرکے سلطان کا قرض ادا کیا اور ان کی میت کو شام روانہ کیا اور وہاں وہ سپرد خاک ہوئے۔ بیس سال بعد جنہوں نے سب سے پہلے ان کے بارے میں دریافت کیا اور ان کی خبرگیری کی وہ تركى كے پہلے منتخب وزیر اعظم عدنان مندریس تھے شاہی خاندان کی تلاش کے لیے وہ فرانس گئے اور وہاں جاکر ان کے احوال وکوائف معلوم کیے۔ پیرس کے سفر ميں وہ کہتے تھے کہ مجھے میرے آباء و اجداد کا پتہ بتاؤ مجھے میری ماؤں سے ملاؤ بالآخر وہ پیرس کے ایک چھوٹے سے گاؤں پہنچ کر ایک کارخانے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سلطان عبد الحمید کی زوجہ پچاسی سالہ ملکہ شفیقہ اور ان کی ساٹھ سالہ بیٹی شہزادی عائشہ ایک کارخانے میں نہایت معمولی اجرت پر برتن مانجھ رہی ہیں یہ دیکھ کر مندریس اپنے آنسو روک نہ سکے اور زار وقطار رو پڑے، پھر ان کا ہاتھ چوم کر کہنے لگے مجھے معاف کیجیے! شہزادی عائشہ نے پوچھا آپ کون ہیں؟ کہا میں ترک وزیر اعظم عدنان مندریس ہوں اتنا سننا تھا کہ خوشی کے مارے بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑیں عدنان مندریس جب انقرہ واپس گئے تو انہوں نے کمال اتا ترک کے دوست اور اس وقت کے ترکی کے صدر جلال بیار سے کہا کہ ميں آل عثمان کے لیے معافی نامہ جاری کرنا چاہتا ہوں، اور اپنی ماؤں کو واپس لانا چاہتا ہوں، بیار نے شروع میں تو اعتراض کیا- مگر مندریس کے مسلسل اصرار پر صرف عورتوں کو واپس لانے کی اجازت دی، پھر عدنان مندریس خود فرانس گئے اور ملکہ شفیقہ اور شہزادی عائشہ دونوں کو فرانس سے ترکی لے آئے مگر شہزادوں کے لیے معافی نامہ جاری کرکے ان کو اپنے وطن عزیز ترکی لانے کا سہرا مرحوم اربکان کے سر جاتا ہے جب وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز تھے۔ پھر جب مندریس پر جھوٹا مقدمہ چلا کر ان کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تو جملہ الزامات کے ساتھ دو الزام یہ بھی تھے کہ انہوں نے 30 سال بعد ترکی میں عربی زبان میں اذان دینے کی اجازت دی جسے کمال اتا ترک اور اسکے ساتھیوں نے ترکی میں بند کر دیا تھا۔ انھوں نے حکومت کے خزانے سے چوری کرکے سلطان کی اہلیہ اور بیٹی پر خرچ کیا ہے، اس لیے کہ وہ ہر عید کے موقع پر ملکہ اور شہزادی سے ملاقات کے لیے جاتے، ان کے ہاتھ چومتے، اور اپنی جیب خاص اور اپنے ذاتی صرفے سے ۱۰ ہزار لیرہ سالانہ شہزادی عائشه اور ملکہ شفیقہ کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔
جب 17 ستمبر 1961 کو عدنان مندریس اور ان کے 4 ساتھیوں کو ملٹری کورٹ نے شہید کیا تو دوسرے ہی دن دونوں (ملکہ اور شہزادی) کی بھی بحالت سجود وفات ہوئی۔ یہ سلوک ہے ھمارے نام نہاد سیکولرزم کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ، نہ کوئی مروت نہ شرافت، نہ صلہ رحمی، نہ قرابت داری، نہ اخلاق کا پاس، نہ قدروں کا لحاظ یہ جو قومیت اور وطنیت کا راگ الاپتے رہے اور نعرےلگا لگا کر جن کی زبانیں نہیں تھکتی تھیں ان کا مقصد بجز اس کے اور کیا تھا کہ اسلامی اخوت سے لوگوں کا رشتہ کاٹ دیا جائے اور اس مقدس رشتے کے تانے بانے کو بکھیر کر اس کو ایسے جاہلی رشتوں میں تبدیل کیا جائے جن میں احترام ذات مفقود ہے اور حرمت و شرافت اور انسانی رشتوں کا کوئی پاس ولحاظ نہیں۔
*میرے عزیزو* ! روئے زمین پر موجود شیطان کے چیلوں سے کبھی بے خبر نہ رہنا اور ہاں یہ قصے بچوں کو سلانے کے لئے نہیں بلکہ سوتوں کو جگانے اور جواں مردوں کو کمربستہ کرنے کے لئے ہیں!
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
Hashimazmi78692@gmail.com

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
%d bloggers like this: