مذہبی جذبات کو استعمال کرکے اپنی بے راہ روی اور اپنے کرپشن کو چھپانے کی کوشش برہمنیت نے بھی کی اور پاپائیت نے بھی، مگر دونوں کے خلاف عوامی بیداری پیدا ہوئی اور دونوں کا وہ سب کچھ باہر آیا جو مذہب کے نام پر چھپایا جاتا رہا۔ اس سے صرف ان استحصالی نظاموں کے ٹھیکیداروں کا ہی نقصان نہیں ہوا بلکہ مذہب کا نقصان ہوا، لوگوں نے مذہب کے خلاف بغاوت کی اور الحاد کی راہ اختیار کی۔ یورپ آتش الحاد میں جھلس رہا ہے اور بھارت کے پست طبقات بھی جوں جوں باشعور ہو رہے ہیں الحاد کی راہ لے رہے ہیں۔ الحاد اور افکار مغرب کے رد میں کام کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے، آر ایس ایس کے شر میں خیر کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس نے بھارتی سماج کو مذہب سے جوڑے رکھا ہے، اگرچہ اس کے اس جوڑنے کے طریقۂ کار سے دیش تباہ ہو رہا ہے؛ مگر اس سے انکار نہیں کہ آر ایس ایس کی آئیڈیولوجی الحاد کے بجائے مذہب سے وابستگی بڑھاتی ہے، کل کو جب یہ آئیڈیالوجی کمزور ہوگی (اور یقینا ہوگی) تو خواہ برہمن ورچسو کا خاتمہ نہ ہو الحاد ایک بڑا چیلنج بن کر آئے گا، اس وقت برہمنیت اپنا ورچسو کیسے باقی رکھے گی وہ برہمن سوچیں، ہمیں جس پر غور کرنا ہے وہ یہ ہے کہ آر ایس ایس کے خلاف دو طرح کی آئیڈیالوجی نمایاں ہیں، ایک وام پنتھی طبقہ کی اور ایک بہوجن سماج کی، یہ دونوں آئیڈیالوجی الحادی ہیں، وام پنتھ کے گرو کارل ماکس نے تو کہا تھا کہ مذہب ایک افیون ہے، اور بہوجن سماج کے گرو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر گو کہ یہ کہتے تھے کہ میں مذہب کے خلاف نہیں ہوں، مگر ان کا تصور مذہب الحاد سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا، وہ ہر ایسے مذہب کے خلاف تھے جو خدا کے وجود کو تسلیم کرتا ہو، جو مادہ کے علاوہ روح کا بھی قائل ہو، جس کا رشتہ آسمانی کتاب سے جڑا ہوا ہو، جو رسالت یا اوتارواد پر ایمان لانے کا تقاضا کرتا ہو، جو بعث بعد الموت اور أخروی زندگی کا قائل ہو، جو فرشتوں اور شیطانوں کو حقیقت مانتا ہو، جو مذہبی کتابوں میں محض عقل کی بنیاد پر رائے زنی کا حق نہ دیتا ہو، جو اخلاقی تعلیمات کے علاوہ قانونی تعلیمات بھی دیتا ہو، جو انفرادی زندگی کے علاوہ اجتماعی زندگی میں بھی دخل اندازی کرتا ہو، وغیرہ۔۔ ظاہر ہے کہ یہ تصور ِمذہب الحاد کے ہی مترادف ہوگا۔
اگر مسلمانوں نے یہاں کے سماج کو اور آر ایس ایس مخالف طبقات کو خدا اور مذہب سے مانوس نہیں کیا ہوگا تو آر ایس ایس کی آئیڈیولوجی جب کمزور ہوگی تو آئندہ بھارت کا سماج زبردست الحاد کی زد میں ہوگا۔ خدا اور مذہب سے مانوس کرنے کا یہ کام وام پنتھیوں کے ساتھ علمی وتحقیقی بنیادوں پر کرنا ہوگا اور بہوجن سماج کے ساتھ سماجی ومیدانی سطح پر۔بہوجن سماج اور ماکسواد دونوں کی آئیڈیالوجی بنیادی طور پر سوشل جسٹس ہے، دونوں کے یہاں سوشل جسٹس کی تعبیر میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے، بہوجن سماج کی سوشل جسٹس والی آئیڈیالوجی ماکسواد کے برخلاف براہ راست بھارتی سماج سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے ماکسواد کے برخلاف اس کا دائرۂ اثر بڑھ رہا ہے، آر ایس ایس کو اپنے مطالعہ وتحقیق کا خصوصی موضوع بنانے والے دلی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر شمس الاسلام کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کی تشکیل در اصل اسی مساوات اور سوشل جسٹس کی تحریکوں کو دبانے کے لیے ہوئی ہے، اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ آر ایس ایس کے خلاف کام کرنے والی دونوں آئیڈیالوجیز میں سے بہوجن سماج کی سوشل جسٹس والی آئیڈیالوجی امت ختم رسل کی توجہات کی زیادہ مستحق ہے، یہ آئیڈیالوجی زیادہ اہم اس لیے ہے کہ یہ براہ راست اس ملک کے ظالمانہ نظام حیات یعنی برہمنزم پر وار کرتی ہے، جبکہ ماکسواد کی آئیڈیالوجی کیپٹلزم پر وار کرتی ہے، ظاہر ہے کہ برہمنزم اس ملک کا اصل مسئلہ ہے نہ کہ کیپٹلزم، اس ملک میں کیپٹلزم اسی طرح برہمنزم کے تابع ہے جس طرح عالمی سطح پر صہیونیت کے تابع ہے۔ اس لیے ہمیں اس موضوع پر سنجیدگی سے کام کرنے اور آر ایس ایس مخالف آئیڈیالوجی رکھنے والوں کو خاص کر بہوجن سماج کے تحریک کاروں کو خدا سے مانوس کرنے، مذہب سے قریب لانے اور حکمت کے ساتھ اسلامی نظامِ حیات سے متعارف کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ بہوجن سماج یعنی ایس سی، ایس ٹی، او بی سی کو ایشور اور مذہب کے نام پر مذہبی کتابوں کے حوالے سے غلام بنایا گیا، اس لیے انھیں خدا اور مذہب سے مانوس کرنے کے لیے ویدک دھرم کی کتابوں سے حوالہ دینا آگے چل کر انھیں مذہب سے اور دور کرنے کا ذریعہ بنے گا، اس لیے ایسا منہج اختیار کرنا ضروری ہے کہ یہ خدا اور مذہب کے باغی ہونے کے بجائے ان دونوں سے مانوس ہوں۔