
اس عقیدے کے بارے میں 38 آیتیں اور 4 حدیثیں ہیں، آپ ہر ایک کی تفصیل دیکھیں
مدد مانگنے کی دو صورتیں ہیں
]۱[۔۔۔کوئی سامنے موجود ہو تو اس سے مدد مانگ سکتے ہیں، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، یہ جائز ہے، جیسے حضور ؐ سے دعا کرنے کے لئے کہا، یا صحابہ نے آپ سے کئی چیزیں مانگی، یاجیسے قیامت میں حضور انسانوں کے سامنے ہوں گے تو حضور ؐ سے سفارش کی درخواست کریں گے، یاجیسے ڈاکٹر سے کہے کہ آپ میرا علاج کردیں،یا ماں سے کہے کہ مجھے کھانا دے دیں۔
وہ دعا یا وہ مدد جو حضور ؐ سے انکی زندگی میں مانگی ہیں، اور قرآن اور احادیث میں ان کا ذکر ہے، ان عبارات سے بعض حضرات نے یہ استدلال کیا ہے کہ موت کے بعد بھی ان سے مدد مانگنا جائز ہے ، حالانکہ موت کے بعد کا معاملہ بالکل الگ ہے، موت کے بعد مدد مانگنے کے لئے با ضابطہ آیت یا حدیث ہونی چاہئے
]۲[۔۔۔ دوسری صورت یہ ہے کہ، ایک آدمی مرا ہو ہے، وہ سامنے موجود نہیں ہے اب اس کے بارے میں یہ یقین کرنا کہ وہ ہماری بات کو سنتا ہے، اور میں جو کچھ مانگوں گا وہ دے دے گا یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ ایسی مدد صرف اللہ ہی کر سکتاہے
کسی میت سے مانگنے سے پہلے 4سوال حل کریں
]۱[ پہلا سوال یہ ہے کہ ہم جس میت سے مانگ رہے ہیں وہ ہماری بات سنتے بھی ہیں یا نہیں
سماع موتی کی بحث میں آرہا ہے کہ مردے ہماری بات سنتے بھی ہیں یا نہیں اس بارے میں زبردست اختلاف ہے، ایک جماعت کی رائے ہے کہ مردے نہیں سنتے، کیونکہ قرآن نے اعلان کر کے کہا،
و ما یستوی الاحیاء و لا الاموات ان اللہ یسمع من یشاء و ما انت بمسمع من فی القبور۔ ( آیت ۲۲، سورت فاطر ۵۳)۔ترجمہ۔ مردہ اور زندہ برابر نہیں ہیں، اور اللہ تو جس کو چاہتا ہے بات سنا دیتا ہے، اور تم ان کو بات سنا نہیں سکتے جو قبروں میں پڑے ہیں
اس آیت میں ہے کہ،اے حضور ؐ آپ مردے کو نہیں سناسکتے
اور دوسری جماعت کی رائے ہے کہ ہم تو نہیں سنا سکتے، ہاں اللہ چاہے تو کسی بات کو مردے کو سنا سکتے ہیں، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ حضور ؐ نے ابو جہل اور ابو لہب کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ کیا تم کو وہ چیز مل گئی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا
حدیث یہ ہے۔ان ابن عمر اخبرہ قال اطلع النبی ﷺ علی اہل القلیب فقال: وجدتم ما وعد ربکم حقا؟ فقیل لہ أتدعون أمواتا، فقال ما انتم باسمع منہم و لکن لا یجیبون۔ (بخاری شریف، باب ما جاء فی عذاب القبر، ص ۰۲۲، نمبر ۰۷۳۱)
ترجمہ۔ حضور بدر کے کنویں کے مردے کے پاس کھڑے ہوئے، اور کہا، اللہ نے جو تم سے وعدہ کیا تھا، تم نے اس کو سچ پا لیا؟ لوگوں نے حضور ؐ سے کہا کہ آپ مردوں کو پکار رہے ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ، تم بھی اتنا نہیں سنتے جتنا وہ سن رہے ہیں، لیکن وہ جواب نہیں دے سکتے
اس حدیث میں ہے کہ مردے سنتے ہیں۔
اب چونکہ مردے کے سننے میں ہی اختلاف ہے اس لئے ہم مردے سے سوال کیسے کریں!
]۲[ دوسرا سوال ہے کہ ہم سوال کر لیں، تو کیا مردے ہماری مدد کر سکتے ہیں، جبکہ حدیث میں ہے۔ اذا مات الانسان انقطع عملہ۔ ترمذی شریف، نمبر۶۷۳۱)
ترجمہ۔ انسان جب مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے
، اب وہ دنیوی کوئی کام نہیں کر سکتا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کو ہماری مدد کرنے کا اختیار نہیں ہے
]۳[ اورتیسرا سوال ہے کہ کیا اللہ نے یا رسول ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم مردوں سے مانگیں؟
یا ایسے سوال کرنے سے منع کیا ہے
اس تیسرے سوال کے متعلق 30 آیتیں اور 3 حدیثیں آرہی ہیں کہ اللہ کے علاوہ کسی اور سے مت مانگو۔
آپ خود بھی ان آیتوں پر غور کریں۔
]۴[ اور چوتھا سوال یہ ہے کہ ہندو بھی ایک خدا کو مانتا ہے جسکو وہ،کرشن بھگوان، کہتا ہے لیکن دوسری دیوی اور دیوتا سے بھی اپنی مدد مانگتا ہے
، تو آپ بھی جب خدا کے علاوہ، نبیوں سے، ولیوں سے اور دوسرے لوگوں سے مدد مانگتے ہیں، تو ہندؤوں اور آپ کے اعتقاد میں کیا فرق رہا؟۔
دعا صرف اللہ سے مانگنی چاہئے
غائب سے مدد مانگنا ہو تو صرف اللہ سے مدد مانگے۔
اس کے لئے یہ آیتیں ہیں
1۔ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ (آیت ۴، سورہ فاتحۃ ۱)
ترجمہ۔ اے اللہ! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
اس آیت میں حصر کے ساتھ بتایا کہ صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور صرف اللہ ہی سے مدد مانگتے ہیں،
دن رات میں فرض نماز سترہ رکعتیں ہیں، اور کم سے کم سترہ مرتبہ ایک مومن سے کہلوایا جاتا ہے کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور صرف اللہ ہی سے مانگتے ہیں، اس لئے کسی اور کی عبادت بھی جائز نہیں اور کسی اور سے مدد مانگنا بھی جائز نہیں ہے۔
2۔أغیر اللہ تدعون ان کنتم صادقین، بل ایاہ تدعون۔ (آیت ۰۴۔۱۴، سورۃ الانعام ۶)
ترجمہ۔ تو کیا اللہ کے علاوہ کسی اور کو پکارو گے اگر تم سچے ہو، بلکہ اسی کو پکارو گے۔
3۔ان المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ احدا۔ (آیت ۸۱، سورۃ الجن ۲۷)
ترجمہ۔ سجدہ صرف اللہ کے لئے ہے، اس لئے اللہ کے علاوہ کسی اور کو مت پکارو
4۔ان الذین تدعون من دون اللہ عباد امثالکم۔(آیت۴۹۱، سورۃ الاعراف۷)
ترجمہ۔ اللہ کے علاوہ جس کو پکارتے ہو وہ تمہاری طرح اللہ کے بندے ہیں
5۔و الذین تدعون من دونہ ما یملکون من قطمیر۔ (آیت۳۱، سورۃفاطر۵۳)
ترجمہ۔ اللہ کے علاوہ جس کو بھی پکارتے ہو وہ گٹھلی کے چھلکے کا بھی مالک نہیں ہے ] تو تمہاری مدد کیا کریں گے [
6۔قل انما أدعوا ربی و لا اشرک بہ احدا۔ (آیت ۰۲، سورۃ الجن ۲۷)
ترجمہ۔ آپ فرما دیجئے کہ میں صرف اللہ ہی کو پکارتا ہوں، اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں کرتا
7۔ان المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ احدا۔ (۸۱، سورت الجن۲۷)
ترجمہ۔ اور یقینا تمام سجدے اللہ ہی کے لئے ہیں اس لئے اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو
اس آیت میں ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کو مت پکارو، تو دوسرے سے دعا مانگنا کیسے جائز ہو گا
8۔و ان یمسسک اللہ بضر فلا کاشف لہ الا ہوا۔ (آیت ۷۱، سورت الانعام ۶)
ترجمہ۔ اگر اللہ تم کوئی تکلیف پہنچائے تو اللہ کے علاوہ کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے
9۔ و ان یمسسک اللہ بضر فلا کاشف لہ الا ہوا۔ (آیت ۷۰۱، سورت یونس ۰۱)
ترجمہ۔ اگر اللہ تم کوئی تکلیف پہنچائے تو اللہ کے علاوہ کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے
ان 9 آیتوں میں حصر اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ صرف اللہ ہی کو پکارو، اور اسی سے مدد مانگو تو اللہ کے علاوہ سے کیسے مانگنا جائز ہو گا۔
آپ خود بھی ان آیتوں پر غور کریں
ان آیتوں میں تاکید اور حصر کے ساتھ کہا گیا ہے
کہ صرف اللہ ہی سے مدد ہو سکتی ہے
10۔و ما النصر الا من عند اللہ العزیز الحکیم۔ (آیت ۶۲۱، سورت آل عمران ۳)
11۔و ما النصر الا من عند اللہ ان اللہ عزیز حکیم۔ (آیت۰۱، سورت الانفال۸)
ترجمہ۔ مدد تو صرف اللہ ہی کے پاس سے آتی ہے، جو مکمل اقتدار کا مالک ہے، حکمت والا ہے
12۔و ما لکم من دون اللہ من ولی و لا نصیر۔ (آیت ۷۰۱، سورت البقرۃ ۲)
13۔و ما لکم من دون اللہ من ولی و لا نصیر۔ (آیت۲۲، سورت العنکبوت ۹۲)
14۔و ما لکم من دون اللہ من ولی و لا نصیر۔ (آیت ۱۳، سورت الشوری ۲۴)
ترجمہ۔ اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی رکھوالا ہے اور نہ مدد گار ہے
15۔ما لک من اللہ من ولی و لا نصیر۔ (آیت ۷۰۱، سورت البقرۃ ۲)
ترجمہ۔ اور اللہ کے علاوہ تمہارا نہ کوئی رکھوالا ہے اور نہ کوئی مدد گار
ان 6 آیتوں میں حصر کے ساتھ بتایاکہ اللہ کے علاوہ کوئی مدد گار نہیں ہے، اور نہ کوئی رکھوالا ہے
اس لئے اللہ کے علاوہ کسی سے مدد نہیں مانگنی چاہئے
آپ ان آیتوں کو خود بھی غور سے پڑھیں۔
حضور ؐ سے اعلان کروایا گیا کہ
میں بھی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں
ان آیتوں میں حضورؐ سے اعلان کروایا کہ کہو کہ میں اپنے لئے بھی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں تاکہ لوگ حضور ؐ سے نہ مانگیں، اور جب حضور سے مانگنے سے منع کر دیا گیا تو کسی اور سے مانگنے کی اجازت کیسے دی جائے گی
16۔قل لا املک لنفسی ضرا و لا نفعا الا ماشاء اللہ۔(آیت۸۸۱، سورۃ الاعراف۷)
17۔قل لا املک لنفسی ضرا و لا نفعا الا ماشاء اللہ۔(آیت۹۴، سورۃ یونس۰۱) ترجمہ۔ آپ کہہ دیجئے کہ میں خود بھی اپنے آپ کو نفع اور نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، مگر جو اللہ چاہے
18۔قل انی لا املک لکم ضرا و لا رشدا ۔(آیت۱۲، سورۃ الجن۲۷)
ترجمہ۔ آپ کہہ دیجئے نہ تمہارا کوئی نقصان میرے اختیار میں ہے، اور نہ کوئی بھلائی
ان 3آیتوں میں حضور ؐ سے اعلان کروایا گیا کہ، یہ کہہ دو کہ میں کسی کے لئے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں،
اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندؤوں نے اللہ کے علاوہ دیوی اور دیوتا کو نفع اور نقصان کا مالک جانا اس لئے وہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر دیوی اور دیوتا کی پوجا کرنے لگے اور شرک میں مبتلاء ہو گئے۔
ان تین آیتوں میں بھی فرمایا کہ آپ کو اختیار نہیں ہے
9 1۔لیس لک من الامر شیء او یتوب علیہم او یعذبہم۔ (آیت ۸۲۱، آل عمران ۳)
ترجمہ۔ اے رسول آپ کو اس فیصلے کا کوئی اختیار نہیں ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے یا انکو عذاب دے
20۔و لا تقولن لشیء انی فاعل ذالک غدا الا ان یشاء اللہ۔ ( آیت ۳۲، سورت الکہف ۸۱)
۔ترجمہ ۔ اے پیغمبر کسی بھی کام کے بارے میں کبھی بھی یہ کہئے کہ میں یہ کام کر لوں گا، ہاں یہ کہئے ہ اللہ چاہے گا تو کر لوں گا
21۔انک لا تہدی من احببت، و لکن اللہ یہدی من یشاء و ھوا علم بالمہتدین۔ (آیت ۶۵، سورہ القصص۸۲)
۔ترجمہ۔ اے پیغمبر! آپ جسکو چاہیں ہدایت تک نہیں پہنچا سکتے، بلکہ جس کو چاہتا ہے ہدایت تک پہنچا دیتا ہے
اس آیت میں ہے کہ آپ کسی کو ہدایت دینا چاہیں تو نہیں دے سکتے، جب تک کہ اللہ نہ چاہے، آپ ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے ہیں، تو جب آپ ھدایت بھی نہیں دے سکتے، تو دوسری چیزیں کیسے دے سکتے ہیں، اور ہم کیسے آ پ سے مانگ سکتے ہیں؟ اس پر غور فرمائیں
ان آیتوں میں فرمایا کہ اللہ کے علاوہ جنکو بھی پکارتے ہو
وہ اپنی مدد بھی نہیں کر سکتا تو تمہاری مدد کیا کرے گا!
آیتیں یہ ہیں
22۔و الذین تدعون من دونہ لا یستطیون نصر کم و لا انفسہم ینصرون۔ (آیت ۷۹۱، سورت الاعراف ۷) ترجمہ۔ اور تم اللہ کو چھوڑ کر جن جن کو پکارتے ہو، وہ نہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں، اور نہ اپنی مدد کر سکتے ہیں
23۔لا یستطیون لھم نصرا و لا انفسہم ینصرون۔ (آیت ۲۹۱، سورت الاعراف۷)
،ترجمہ۔ وہ نہ انکی مدد کر سکتے ہیں، اور نہ اپنی مدد کر سکتے ہیں
24۔و الذین یدعون من دونہ لا یستجیبون لہم بشیء۔ (آیت ۴۱، سورت الرعد ۳۱)
ترجمہ۔ اللہ کو چھوڑ کر جنکو یہ پکارتے ہیں وہ انکی دعاؤوں کا کوئی جواب نہیں دیتے۔
25۔و ان ما یدعون من دونہ ھوالباطل و ان اللہ ہو العلی الکبیر۔(آیت ۲۶، سورت الحج ۲۲)۔ترجمہ۔ اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جس کو پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں، اور اللہ ہی کی شان اونچی ہے اور بڑا رتبہ والا ہے
26۔قل فمن یملک لکم من اللہ شیئا ان اراد بکم ضرا اواراد بکم نفعا بل کان اللہ بما تعملون خبیرا۔ (آیت ۱۱، سورت الفتح ۸۴)۔ترجمہ۔آپ کہہ دیجئے اگر اللہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے، یا فائدہ پہنچانا چاہے تو کون ہے جو اللہ کے مقابلے میں تمہارے معاملے میں کچھ بھی کرنے کی طاقت رکھتا ہو، بلکہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کو پوری طرح جانتا ہے۔
27۔فلا یملکون کشف الضر عنکم و لا تحویلا۔ (آیت ۶۵، سورت الاسراء ۷۱)
ترجمہ۔جن کو تم نے اللہ کے سوا معبود سمجھ رکھا ہے، وہ نہ تم سے کوئی تکلیف دور کر سکیں گے اور نہ اسے تبدیل کر سکیں گے
28۔و ما بکم من نعمۃ فمن اللہ ثم اذا مسکم الضر فالیہ تجأرون۔ (آیت ۳۵، سورت النحل ۶۱) ترجمہ۔ اور تم کو جو نعمت بھی حاصل ہوتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، پھر جب تمکو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی سے فریاد کرتے ہو۔
29۔و اذا مس الانسان الضر دعانا لجنبہ او قاعدا او قائما فلما کشفنا عنہ ضرہ مر کان لم یکن یدعنا الی ضر مسہ۔ (آیت ۲۱، سورت یونس ۰۱)
ترجمہ۔ اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے، بیٹھے اور کھڑے ہوئے ہر حال میں ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو اس طرح چل کھڑا ہوتا ہے جیسے کبھی اس کو پہنچنے والی تکلیف میں ہمیں پکارا ہی نہیں تھا۔
30۔و اذا سألک عبادی فانی قریب اجیب دعوۃ الداعی اذا دعانی۔ (آیت ۶۸۱، سورت البقرۃ ۲)
۔ترجمہ۔ اے رسول جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں ] تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ [ میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں،
31۔ولقد خلقنا الانسان و نعلم ما توسوس بہ نفسہ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید۔ (آیت ۶۱، سورت قٓ۰۵)
ترجمہ۔ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ان کے دل میں جو خیالات آتے ہیں انکو ہم خوب جانتے ہیں، اور ہم انکے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں
32۔قال ربکم ادعونی استجب لکم ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جہنم داخرین۔ (آیت ۰۶، سورت غافر۰۴)
۔ترجمہ۔ تمہارے رب نے کہا کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، بیشک جو لوگ تکبر کی بنا پر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔
اس آیت میں تو شدت کے ساتھ یہ کہا ہے کہ جو مجھ سے نہیں مانگے گا اس کو جہنم میں داخل کیا جائے گا
33۔ہو الحی لا الہ الا ہوفادعوہ مخلصین لہ الدین۔ (آیت ۵۶، سورت غافر۰۴)
ترجمہ۔ وہی ہمیشہ زندہ ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اس لئے اللہ کو اس طرح پکارو کہ تمہاری تابعداری خالص اسی کے لئے ہو۔
34۔ان ینصرک اللہ فلا غالب لکم و ان یخذلکم فمن ذا الذی ینصرکم من بعدہ۔ (آیت ۰۶۱، سورت آل عمران۳)
۔ترجمہ۔ اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں ہے، اور اگر وہ تمہیں تنہا چھوڑ دے تو کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے؟
35۔بل اللہ مولاکم و خیر الناصرین۔ (آیت ۰۵۱، سورت آل عمران ۳)
ترجمہ۔ بلکہ اللہ تمہارا حامی اور ناصر ہے، اور وہ بہترین دد گار ہے
ان 35 آیتوں میں تاکید کی گئی ہے کہ صرف اللہ ہی سے مانگو، اس لئے دوسروں سے مانگنا جائز نہیں ہے
آپ خود بھی آیتوں پر غور کرلیں
حدیث میں تعلیم دی گئی ہے کہ صرف اللہ ہی سے مدد مانگے
حدیثیں یہ ہیں
1۔عن انس قال قال رسول اللہ ﷺ لیسأل احدکم ربہ حاجتہ کلھا حتی یسأل شسع نعلہ اذا انقطع۔ (ترمذی شریف، کتاب الدعوات، باب لیسأل ربہ حاجتہ کلہا، ص ۲۲۸، نمبر ۴۰۶۳)۔ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے تمام ہی ضرورت مانگے، یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ ہی سے مانگے
اس حدیث میں ہے کہ تمام ضروریات اللہ ہی سے مانگنا چاہئے۔
2۔عن عائشۃ قالت کان رسول اللہ ﷺ اذا اشتکی من انسان مسحہ بیمینہ ثم قال أذہب الباس رب الناس و اشف انت الشافی لا شفاء الا شفائک شفاء لا یغادر سقما۔ ( مسلم شریف، کتاب السلام، باب استحباب رقیۃ المریض، ص۲۷۹، نمبر۱۹۱۲ /۷۰۷۵)۔
ترجمہ۔ حضور ؐ کی عادت یہ تھی کہ کوئی آدمی بیمار ہوتا تو دائیں ہاتھ سے اس کو چھوتے، پھر یہ دعا پڑھتے، انسان کے رب تکلیف دور کر دیجئے، آپ شفا دینے والے ہیں آپ ہی شفا دیجئے، صرف آپ ہی کی شفا ہے، ایسی شفا جو بیماری کو نہ چھوڑے۔
اس حدیث میں صرف اللہ سے شفا مانگی گئی ہے
قیامت میں بھی حضور ؐ اللہ سے مانگیں گے اور اللہ دیں گے
اس کے لئے حدیث یہ ہے
3۔عن انس قال قال رسول اللہ ﷺ یجمع اللہ الناس یوم القیامۃ فیقولون لو استشفعنا علی ربنا حتی یریحنا من مکاننا…..ثم یقال لی: ارفع رأسک و سل تعطہ، و قل یسمع، و اشفع تشفع فارفع رأسی فأحمد ربی بتحمید یعلمنی، ثم اشفع فیحد لی حدا ثم اخرجہم من النار و ادخلہم الجنۃ ثم اعود فاقع ساجدا مثلہ فی الثالثۃ او الرابعۃ حتی ما یبقی فی النار الا من حبسہ القرآن۔ (بخاری شریف، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ و النار، ص ۶۳۱۱، نمبر ۵۶۵۶ص)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ اللہ لوگوں کو قیامت کے دن جمع کریں گے، لوگ کہیں گے کہ کوئی ہمارے رب کے سامنے سفارش پیش کرے تو قیامت کے اس میدان سے ہمیں عافیت مل جائے۔۔۔پھر مجھ سے اللہ کہیں گے، حضور سر اٹھائے، مانگو، میں دوں گا، آپ کہئے، بات سنی جائے گی، سفارش کیجئے سفارش قبول کی جائے گی، تو میں سر اٹھاؤں گا، اور اس وقت ایسی تعریف کروں گا جو تعریف مجھے اللہ سکھائیں گے، پھر سفارش کروں گا، تو میرے لئے ایک حد متعین کی جائے گی، پھر ان لوگوں کو میں آگ سے نکالوں گا، اور جنت میں داخل کروں گا، پھر پہلے کی طرح دوبارہ سجدے میں جاؤں گا، تیسری مرتبہ، یا چوتھی مرتبہ، یہاں تک کہ قرآن نے جنکو جہنم میں رکھا ہے، صرف وہی جہنم میں رہے گا۔
اس حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ کہیں گے کہ آپ مانگیں، اور میں دوں گا، جس کامطلب یہ ہے کہ قیامت میں بھی آپ کو اختیار نہیں ہو گا، بلکہ آپ مانگیں گے اور اللہ دیں گے، آپ شفاعت مانگیں گے اور اللہ دیں گے۔
صرف اللہ ہی سے مدد مانگنی چاہئے
امام غزالی ؒ کی رائے
امام غزالی ؒ کی کتاب، قواعد العقائد میں یہ عبارت ہے۔
۔فاللہ وحدہ ہو الذی یتقرب الیہ المسلم بعبادتہ و بخضوعہ
۔و من اللہ وحدہ یستمد المسلم العون و یطلب الھدایۃ۔
ہذا ہو المعنی الذی یعینہ، او الذی یجب ان یعنیہ المسلم کلما قرأ قول اللہ تعالی (ایاک نعبد و ایاک نستعین ] آیت ۳، سورت الفاتحۃ ۱) (قواعد العقائد للامام غزالی، باب تقدیم، ص۹)
ترجمہ۔ اللہ ہی ایک ایسی ذات ہے جس کی عبادت کرکے اور اس کے سامنے جھک کرمسلمان اس کی قربت حاصل کرتا ہے
مسلمان،جب بھی،ایاک نعبد، و ایاک نستعین، پڑھے تو یہی مطلب لے، یا مسلمان پر واجب ہے کہ یہی مطلب لے، کہ صرف اللہ ہی کی عبادت کرتا ہوں اور اسی سے مدد مانگتا ہوں
۔اس عبارت اور آیت میں ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرنی چاہئے، اور صرف اللہ ہی سے مدد مانگنی چاہئے۔ یہی توحید ہے۔
ان آیات اور احادیث سے شبہ ہوتا ہے کہ
وفات کے بعد بھی آپ سے مانگنے کی اجازت ہے
پہلی بات یہ ہے کہ 35 آیتوں میں تاکید کے ساتھ گزرا کہ اللہ ہی سے مانگے اس لئے وہی صحیح ہے
اورنیچے کی آیتوں میں جس مدد مانگنے کا ذکر ہے وہ آپ کی حیات میں ہے، اور آپ جب زندہ تھے، آمنے سامنے تھے تو اس وقت آپ سے مانگنے کی ترغیب تھی، یا قیامت میں جب امتی آپ ؐکے سامنے ہوگا تو وہ آپ سے سفارش کرنے کے لئے کہے گا، یا حوض کوثر کا پانی مانگے ا، اور یہ سب کے یہاں جائز ہے
سوال اس وقت ہے کہ کیا آ پ کی وفات کے بعد ہمیں آپ سے مانگنے کی اجازت دی گئی ہے، یا کسی ولی یا صحابی سے مانگنے کی اجازت دی گئی ہے تو اس بارے میں مجھے کوئی آیت، حدیث نہیں ملی، جو آیت یا حدیث ملتی ہے وہ آپ کی حیات کے وقت کی ہے، یا قیامت میں امتی آپ کے سامنے ہوگا، غائب میں مانگنے کی حدیث مجھے نہیں ملی
شبہ کی آیتیں یہ ہیں
1۔و لو انہم اذ ظلموا انفسہم جأوک فاستغفر وا اللہ و استغفر لھم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما۔ (آیت ۴۶، سورت النساء ۴)
ترجمہ۔ اور جب ان لوگوں نے ] منافقین نے[ اپنی جانو پر ظلم کیا تھا ، اگر یہ تمہارے پاس آکر اللہ سے مغفرت مانگتے، اور رسول بھی ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا اور بڑا مہربان پاتے
نوٹ:اس آیت میں ترغیب دی گئی ہے کہ حضور ؐ کے پاس آکر استغفار کرنے کے لئے کہتے، جس سے معلوم ہوا کہ حضور سے مانگ سکتے ہیں۔ لیکن یہ مانگنا آپ کی حیات میں ہے جو ہر ایک کے نزدیک جائز ہے۔
2۔انما ولیکم اللہ و رسولہ و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلوۃ و یوتون الزکوۃ و ھم راکعون۔ (آیت ۵۵، سورت المائدۃ ۵)
ترجمہ۔ مسلمانو! تمہارا یار و مدد گار تو اللہ ہے، اس کے رسول، اور وہ ایمان والے ہیں جو اس طرح نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں کہ کہ وہ دل سے اللہ کے آگے جھکے ہوتے ہیں
اس آیت سے بعض حضرات نے یہ استدلال کیا ہے کہ اس آیت میں کہا کہ رسول مدد گار ہیں، اور نماز پڑھنے والے بھی مدد گار ہیں، اس لئے ہم ان سے مدد مانگ سکتے ہیں
لیکن تفسیر میں یہ وضاحت ہے کہ عبد اللہ بن سلام، اور انکے ساتھی یہودی تھے، جب وہ مسلمان ہوئے تو انکے رشتہ داروں نے منہ موڑ لیا، تو اللہ نے انکو تسلی دی کہ، گھبرانے کی بات نہیں تمہارا مدد گار تو اللہ، رسول، اور مسلمان ہیں، اور یہ حضور ؐ کی زندگی میں تھا، ان کی وفات کے بعد حضور سے مانگے، اس آیت سے ثابت نہیں ہوتا
3۔و المومنون و المومنات بعض اولیاء بعض یأمرون بالمعروفو ینھون عن المنکر ۔ (آیت ۱۷، سورت التوبۃ ۹)
ترجمہ۔ اور مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں، وہ نیکی کی تلقین کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں
نوٹ:اس آیت سے بھی بعض حضرات نے یہ استدلال کیا ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں، اس لئے ان سے موت کے بعد بھی مانگ سکتے ہیں، اور اس سے ثابت ہوا کہ ولی سے بھی مانگ سکتے ہیں
لیکن یہ آیت بھی مرنے کے بعد مانگنے کے سلسلے میں نہیں ہے بلکہ زندہ ہو تو ایک دوسرے سے مانگ سکتے ہیں، اسی لئے اسی آیت میں وضاحت ہے کہ نیکی کی تلقین کرنا اور برائی سے روکنا، یہ مانگتے ہیں، اس لئے مرنے کے بعد ولیوں سے مانگنے کا ثبوت اس سے نہیں ہوتا، اور کیسے ہوگا جبکہ یہ آیت ۵۳ آیتوں کے خلاف ہے۔
4۔سمعت معاویۃ خطیبا یقول سمعت النبی ﷺ یقول من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین و انما انا قاسم و اللہ یعطی۔ (بخاری شریف، کتاب العلم،باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین،ص ۷۱، نمبر ۱۷)
ترجمہ۔ حضور ؐ سے کہتے ہوئے سنا ہے، کہ اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عطا کر دیتے ہیں۔اور میں تو صرف]رسالت[ تقسیم کرنے والا ہوں، ہر چیز کے دینے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔
بعض حضرات نے اس حدیث سے ثابت کی ہے کہ حضور ؐ قاسم ہیں اس لئے ان سے مانگ سکتے ہیں
لیکن پوری حدیث کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ، سمجھ دینا یہ اللہ کا کام ہے، اس لئے اسی سے سمجھ مانگو، البتہ حدیث اور قرآن، اور دین کا علم جو اللہ نے مجھے دیا ہے، یا غنیمت کا مال مجھے دیا ہے میں اس کو بیان کرتا ہوں اور اس کو تقسیم کرتا ہوں۔ اسی لئے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کا باب باندھا، کہ، من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین۔۔ اللہ جسکو چاہتے ہیں اس کو فقہ کی سمجھ دے دیتے ہیں
دوسری بات یہ ہے کہ یہ تقسیم کرنا آپ کی حیات میں تھا، آپ کی وفات کے بعد بھی آپ دنیا والوں پر تقسیم کر رہے ہیں، اس حدیث میں اس کی وضاحت نہیں ہے۔
ہندؤوں کا عقیدہ ہے کہ دیوی اور دیوتا انکی مدد کرتے ہیں
ہندوؤں کا عقیدہ ہے، کہ اس کے رشی منی ] بزرگ[ کا انتقال ہو گیا تو اس کی روح کو اللہ نے طاقت بخشی ہے کہ جہاں چاہیں جائیں، اور جس کی چاہیں اس کی مدد کریں، مدد کرنا ان رشی منی کی روحوں کے کنٹرول میں ہے، اسی لئے وہ لوگ ایک بھگوان کو تو مانتے ہیں،لیکن مدد مانگنے کے لئے بہت سارے دیوی اور دیوتا کو مانتے ہیں ان کی مورتی بناتے ہیں، اور اس کی پوجا کرتے ہیں، اور اس سے مدد مانگتے ہیں
اللہ تعالی نے 35 آیتوں میں فرمایا کہ مدد کرنے کا عہدہ کسی اور کو نہیں دیا ہے، بلکہ مدد براہ راست میں خود کرتا ہوں، اس لئے روزی کے لئے شفا کے اور اولاد کے لئے شادی کے لئے، تجارت کی ترقی کے لئے، اور آخرت کے لئے مجھ ہی سے مدد مانگیں، کسی اور سے مدد مانگنا شرک ہے، اور حضور اسی شرک کو مٹانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے، اس کے لئے ان 30 آیتوں کو غور سے پڑھیں ، طوالت کے لئے بہت سی آیتوں کو میں نے چھوڑ دی ہیں، آپ اس کے لئے مکتبہ شاملہ پر جائیں
اگر کسی نبی یا ولی سے مانگنا جائز ہو تو اس کے لئے صراحت کے ساتھ کوئی آیت ہو یاپکی حدیث ہو کہ عطائی طور پر میں نے یہ دیا ہے کہ فلاں سے ان کی موت کے بعد بھی مدد مانگو، یہ مدد مانگنا مجھ سے مدد مانگنا ہے، جو مجھے المکتبۃ الشاملہ میں بھی تلاش کرنے کے بعد بھی نہیں ملی۔
اس عقیدے کے بارے میں 38 آیتیں اور 4 حدیثیں ہیں، آپ ہر ایک کی تفصیل دیکھیں