اسلامیات

عقیدہ نمبر18۔اہل بیت سے محبت کرنا ایمان کا جز ہے

مولانا ثمیر الدین قاسمی، مانچیسٹر، انگلینڈ

اس عقیدے کے بارے میں 7 آیتیں اور43 حدیثیں ہیں، آپ ہر ایک کی تفصیل دیکھیں
حضور ؐ کی تمام بیویاں ؓ، اور حضرت فاطمہؓ، حضرت علی ؓ، اور حضرت حسنؓ، اور حضرت حسین ؓ یہ سب اہل بیت میں داخل ہیں، اور ہمیشہ ہمیش اہل بیت میں رہیں گے
یہ بھی ضروری ہے کہ اہل بیت کی محبت میں کسی صحابی کو برا بھلا کہنا بالکل ٹھیک نہیں ہے
خاص طور پر، حضرت عائشہ ؓ، اور حضرت ابو بکر ؓ، حضرت عمر ؓ اورحضرت عثمانؓ کوبرا بھلا کہنا بالکل صحیح نہیں ہے۔
اور جو ان میں اختلاف ہوا ہے وہ اجتہادی غلطی ہے، اللہ ان کومعاف کرے۔
حضرت علی ؓ، اور حضرت حسین ؓ کے اتنے فضائل کے باوجود، وہ مشکل کشا، یا کار ساز نہیں ہیں، اس لئے ان سے مدد مانگنا جائز نہیں ہے، کیونکہ حضور ؐ اسی کی تعلیم دینے تشریف لائے تھے
حضور ؐ کی تمنا یہ تھی کہ میں خلیفہ متعین کر کے نہ جاؤں بلکہ جمہوریت باقی رہے، اور امت ہی اپنا خلیفہ منتخب کرے، البتہ آپ کی تمنا یہ تھی کہ حضرت ابو بکر ؓ پہلے خلیفہ بنے ،
ان سب کی تفصیل آگے آرہی ہے
اہل بیت میں کون کون حضرات داخل ہیں
حضور ؐ کی تمام بیویاں اہل بیت میں داخل ہیں، کیونکہ بیوی ہی کو گھر والی کہتے ہیں،اس میں سب سے زیادہ حقدار حضرت خدیجہ ؓ ہیں جو حضرت فاطمہ ؓ کی ماں ہیں، انکے ساتھ ہی حضرت عائشہ ؓ،حضرت حفصہ ؓ، اور تمام بیویاں اہل بیت میں داخل ہیں، اور ان تمام کے لئے آیت کے مصداق میں پاکیز گی کی فضیلت حاصل ہیں
بعد میں حضور ؐ نے حضرت فاطمہؓ، حضرت علی ؓ، حضرت حسن ؓ، اور حضرت حسین ؓ کو اہل بیت میں داخل کیا، اس لئے بعد میں ان کے لئے بھی، یطہر کم تطہیرا، کی فضیلت حاصل ہو گی
کچھ لوگوں نے یہ زیادتی کی ہے کہ ازواج مطہرات، خاص طور پر حضرت عائشہ ؓ اورحضرت حفصہ ؓ کو اہل بیت سے نکال دیا ہے اور مزید ظلم یہ کیاہے کہ ان کو برا بھلاکہتے ہیں، اور حضرت علی کو اہل بیت میں داخل کرتے ہیں، اور ان حضرات کو اتنا بڑھاتے ہیں کہ نبیوں سے بھی ان کا درجہ اوپر کر دیتے ہیں، یہ ٹھیک نہیں ہیں
بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ تمام ازواج مطہرت اور حضرت فاطمہؓ، حضرت علی ؓ، حضرت حسن ؓ، اور حضرت حسین ؓ اہل بیت میں داخل ہیں، اور اہل بیت ہونے کے اعتبار سے یہ سب برابر ہیں
اہل بیت میں بیویاں داخل ہیں اس کے لئے یہ آیتیں دیکھیں
1۔ یا نساء النبی لستن کاحد من النساء ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض و قلن قولا معروفا، و قرن فی بیوتکن و لا تبرجن تبرج الجاہلیۃ الاولی و اقمن الصلوۃ و آتین الزکوۃ و أطعن اللہ و رسولہ، انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس أھل البیت و یطہرکم تطہیرا، و اذکرن ما یتلی فی بیوتکن من آیات اللہ و الحکمۃ ان اللہ کان لطیفا خبیرا (آیت ۱۳۔ ۴۳، سورت الاحزاب ۳۳)۔
ترجمہ۔ اے نبی کی بیویو!اگر تم تقوی اختیار کرو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اس لئے تم نزاکت کے ساتھ بات مت کیاکرو، کبھی کوئی ایسا شخص بیجا لالچ کرنے لگے جس کے دل میں روگ ہوتا ہے، اور بات وہ کہو جو بھلائی والی ہو، اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہو، اور غیر مردوں کو بناؤ سنگار نہ دکھاتی پھرو، جیسا کہ پہلی جاہلیت میں دکھایا جاتا تھا، اور نماز قائم کرو، اور زکوۃ ادا کرو، اور اللہ اور اس کی رسول کی فرماں برداری کرو، اے نبی کے اہل بیت (گھر والوا) اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور رکھے، اور تمہیں ایسی پاکیزگی عطا کرے جو ہر طرح مکمل ہو، اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو، یقین جانو اللہ بہت باریک بیں اور ہر بات سے با خبر ہے۔
اس آیت میں آپ کی تمام بیویوں کو پہلے، یا نساء النبی لستن کاحد من النساء۔ کہہ کر مخاطب کیا، پھر، کن، جمع مونث حاضر کے ذریعہ سے خطاب کیا ہے، اور یہ بھی کہا کہ اے اہل بیت اللہ تمکو پاک کرناچاہتے ہیں، اس لئے بیویوں کو اہل بیت میں اللہ نے داخل کیا ہے۔
اس پوری آیت کو دیکھیں کہ، انما یرید اللہ، سے پہلے بھی کن، جمع مونث حاضر کے صیغے سے حضور ؐ کی بیویوں کو مخاطب کیا ہے، اور یطہرکم تطہرا، کے بعد بھی کن جمع مونث حاضر کے صیغے سے حضور ؐ کی بیویوں کو مخاطب کیا ہے، اس لئے درمیان میں،انما یرید آلخ سے بھی حضور ؐ کی بیویاں ہی مراد ہیں، اور وہ اہل بیت میں داخل ہیں۔ اور بعد میں حضرت فاطمہ ؓ،اور حضرت علی ؓ کو حضور ؐ نے اہل بیت میں داخل کیا ہے، اس لئے اہل بیت میں حضرت خدیجہ ؓ، حضرت عائشہؓ،حضرت حفصہ ؓ وغیرھا تمام بیویاں داخل ہیں
نکتہ۔۔ آیت کے درمیان میں، لیذہب عنکم الرجس أھل البیت و یطہرکم تطہیرا، میں،عنکم، اور، یطہر کم، میں جمع مذکر حاضر کا صیغہ لایا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ، اہل بیت میں حضور بھی داخل ہیں، اس لئے انکی عظمت کے لئے،کم، جمع مذکر حاضر کا صیغہ لائے ہیں اور اس میں تمام بیویاں داخل ہیں
اس حدیث میں ہے کہ آپ کی بیویاں اہل بیت میں پہلے سے داخل ہیں
1۔عن ام سلمۃ قالت انزلت ھذہ الآیۃ (انما یرید الخ ] آیت ۳۳، سورت الاحزاب ۳۳[۔۔۔ قلت و انا معکم یا رسول اللہ؟ قال و انت معنا۔ (طبرانی کبیر، مسند ام حبیبۃ بنت کیسان عن ام سلمۃ، ج ۳۲، ص ۷۵۳، نمبر ۹۳۸)
ترجمہ۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے فرمایا کہ جب آیت انما یرید الخ نازل ہوئی۔۔۔ تو میں نے پوچھا کہ ہم بیویاں بھی آپ کے ساتھ اہل بیت میں داخل ہیں؟ تو حضور ؐ نے فرمایا کہ تم لوگ بھی ہمارے ساتھ اہل بیت میں داخل ہو
اس حدیث میں صراحت کے ساتھ ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ نے حضور ؐ سے پوچھا کہ، ہم بیویاں بھی اہل بیت اور اایت تطہیر میں داخل ہیں تو، حضور ؐ نے جواب دیا کہ تم لوگ بھی اہل بیت میں داخل ہو
2۔عن انس ؓ قال بنی علی النبی ﷺ بزینب بنت جحش بخبز و لحم۔۔۔فخرج النبی ﷺ فانطلق الی حجرۃ عائشۃ فقال السلام علیکم اھل البیت و رحمۃ اللہ) فقالت وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ،،کیف وجدت اہلک؟ بارک اللہ لک فتقری حجر نساۂ کلھن یقول لھن کما یقول لعائشۃ و یقلن لہ کما قالت عائشۃ۔(بخاری شریف، کتاب التفسیر، باب لا تدخلوا بیوت النبی الا ان یؤذن لکم الی طعام ]آیت ۳۵، سورت [ ص ۳۴۸، نمبر ۳۹۷۴)
۔ترجمہ۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ جب حضور ؐ نے روٹی اور گوشت سے زینب بنت جحش کا ولیمہ کیا۔۔۔حضور حضرت عائشہ ؓ کے کمرے کی طرف گئے اور فرمایا، السلام علیکم اھل البیت و رحمۃ اللہ،تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا، وعلیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، پھر انہوں نے پوچھا، کہ آپ نے اپنے اہل، یعنی اپنی نئی بیوی زینب کو کیسے پایا، اللہ آپ کو برکت دے، حضور ؐ تمام بیویوں کے کمروں میں تشریف لے گئے، اور ہر ایک بیوی کو ایسے ہی کہتے جیسے حضرت عائشہ ؓ کو کہا تھا، اور سب بیویاں ویسے ہی کہتیں جیسے حضرت عائشہ ؓ نے کہا تھا
اس حدیث میں تمام بیویوں کو اہل بیت کہا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ بیوی اہل بیت ہوتی ہے، اور حضرت عائشہ، اور حضرت حفصہ ؓ حضور ؓکے اہل بیت میں داخل ہیں
3۔انطلقت انا و حصین الی زید بن ارقم….قام رسول اللہ ﷺ یوما فینا خطیبا بماء یدعی خما بین مکۃ و المدینۃ ثم قال و اہل بیتی اذکرکم اللہ فی اہل بیتی،اذکرکم اللہ فی اہل بیتی۔اذکرکم اللہ فی اہل بیتی، فقال لہ حصین و من اہل بیتہ؟ یا زید الیس نساۂ من اہل بیتہ؟ قال نساۂ من اہل بیتہ و لکن اہل بیتہ من حرم الصدقۃ بعدہ۔ (مسلم شریف، باب فضل علی بن طالب، ص ۱۶۰۱، نمبر ۸۰۴۲/ ۵۲۲۶)
ترجمہ۔ میں اور حصین زید بن ارقم کے پاس گئے۔۔۔مکہ اور مدینہ کے درمیان پانی کی ایک جگہ ہے جس کا نام خم ہے، وہاں ایک دن ہمارے سامنے خظبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے، پھر آپ نے فرمایا،میرے گھر والے،میں اپنے گھر والوں کے بارے میں، تم کو اللہ یاد دلاتا ہوں،میں اپنے گھر والوں کے بارے میں، تم کو اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے گھر والوں کے بارے میں، تم کو اللہ یاد دلاتا ہوں،حضرت زیدؓ سے حصین ؒ نے پوچھا، حضور ؐ کے اہل بیت کون ہیں، حضرت زید! انکی بیویاں اہل بیت نہیں ہیں؟ تو حضرت زید نے فرمایا، حضور ؐ کی بیویاں اہل بیت میں ہیں، لیکن جن لوگوں کو زکوۃ لینا حرام ہے وہ بھی بیویوں کے علاوہ، اہل بیت میں داخل ہیں
ان احادیث میں حضور ؐ کی تمام بیویوں کو اہل بیت کہا ہے، اس لئے حضور ؐ کی تمام بیویاں اہل بیت میں داخل ہیں اور ان کے لئے تطہیر کی فضیلت حاصل ہے
اس آیت میں اہل سے مراد حضرت موسی ؑ کی بیوی ہیں
2۔ اذ راٰ نارا فقال لاہلہ امکثوا انی آنستُ نارا۔ (آیت ۰۱، سورت طہ ۰۲)
ترجمہ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کو ] موسی ؑ[ کو ایک آگ نظر آئی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا تم یہیں ٹھہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔
اس آیت میں اہل سے حضرت موسی علیہ السلام کی بیوی صفورۃ ؓمراد ہیں، اس لئے اہل بیت میں تمام بیویاں داخل ہیں
بعد میں حضور ؐ نے حضرت علی ؓ، فاطمہؓ، حسنؓ، اور حسینؓ کو
اہل بیت میں داخل کیا
آیت کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں پہلے سے داخل تھیں، بعد میں حضور ؐ نے حضرت علی ؓ، فاطمہؓ، حسنؓ، اور حسینؓ کواہل بیت میں داخل کیا ہے اور اب وہ ہمیشہ کے لئے اہل بیت میں داخل ہو گئے
اس کی دلیل یہ حدیث ہے
4۔ قالت عائشہ خرج النبی ﷺ غداۃ و علیہ مرط مرحل من شعر اسود فجاء الحسن بن علی فأدخلہ ثم جاء الحسین فدخل معہ، ثم جائت فاطمہ فأدخلہا ثم جاء علی فادخلہ ثم قال، انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہر کم تطہیرا۔ (آیت ۳۳، سورت الاحزاب۳۳)۔مسلم شریف، باب فضائل اہل بیت النبی ﷺ، ص ۷۶۰۱، نمبر ۴۲۴۲/ ۱۶۲۶/ ترمذی شریف، کتاب المناقب، باب مناقب اہل البیت، ص ۹۵۸، نمبر ۷۸۷۳)
ترجمہ۔ حضور ؐ ایک صبح کو نکلے آپ پر کالے بال کی نقشین چادر تھی، حضرت حسن بن علیؓ آئے آپ نے انکو چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین آئے، انکو بھی حضرت حسن کے ساتھ داخل کر لیا، پھر حضرت فاطمہ آئی، آپ نے ان کو بھی داخل کر لیا، پھر حضرت علی ؓ، آپ نے انکو بھی چادر میں داخل کر لیا، پھر یہ آیت پڑھی انما یرید اللہ، الخ، ترجمہ۔اے نبی کے گھر والو]اہل بیت[اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور رکھے، اور تمہیں ایسی پاکیزگی عطا کرے جو ہر طرح مکمل ہو۔
عام طور پر اہل بیت، یعنی گھر والے، سے لوگ گھر میں رہنے والی بیویوں کو ہی گھر والے سمجھتے ہیں، شادی شدہ بیٹی، داماد، اور نواسوں کو گھر والے، نہیں کہتے ہیں، اور اگر یہ حضرات دوسرے گھر میں رہتے ہوں، تو اور بھی انکو گھر والے نہیں کہتے ہیں، اس لئے حضور ؐ نے باضابطہ ا ن حضرات کو چادر میں داخل کیا، اوربیویوں کے ساتھ حضرت علیؓ، فاطمہؓ، حسن ؓ، اور حسین ؓ کو اہل بیت میں داخل کیا اور یہ ہمیشہ کے لئے اہل بیت میں داخل ہیں، اور جس طرح ازواج مطہرات کے لئے آیت تطہیر ہے اسی طرح ان حضرات کے لئے بھی اتنی ہی تطہیر ہے، اس سے کم کرنا بھی اچھا نہیں ہے اور بڑھانا بھی اچھا نہیں ہے
اس کی ایک مثال یہ ہے
مدینہ طیبہ حرم نہیں تھا، لیکن حضور ؐ نے اس کو اللہ کے حکم سے حرم بنایا، اسی طرح حضرت فاطمہ، علی، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم اہل بیت میں داخل نہیں تھے لیکن حضور ؐ نے اللہ کے حکم سے انکو اہل بیت میں داخل فرمایا، اور آیت تطہیر میں داخل فرمایا
مدینہ طیبہ کو حضور ؐ نے حرم بنایا اس کے لئے حدیث یہ ہے
۔عن ابی ھریرہ ؓ ان النبی ﷺ قال حرم ما بین لابتی المدینۃ علی لسانی۔ (بخاری شریف، کتاب فضائل المدینۃ، باب حرم المدینۃ، ص ۱۰۳، نمبر ۹۶۸۱/ ابو داود شریف،کتاب المناسک، باب فی تحریم المدینۃ، ص ۵۹۲، نمبر ۷۳۰۲)
ترجمہ۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ مدینہ کے دونوں کے دونوں کنارے میری زبان پر حرم قرار دے دئے گئے۔
اس حدیث میں ہے کہ حضور نے مدینہ کو حرم قرار دیا، اسی طرح حضور ؐ نے حضرت فاطمہ، علی، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم اہل بیت میں داخل فرمایا۔
پہلے یہ حضرات اہل بیت میں داخل نہیں تھے، اور یہ بھی طے ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے حضور ؐ نے کیا
اہل بیت سے محبت کرنا ایمان کاجز ہے
اہل بیت کا مقام کتنا اہم ہے کہ دن میں کم سے کم پانچ مرتبہ فرض نماز پڑھی جاتی ہے، اور پانچوں مرتبہ حضور ؐ پر درود پڑھا جاتا ہے، اور حضور ؐ پر درود کے ساتھ ان کی آل پر بھی درود پڑھنا لازمی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ حضور ؐ کے اہل بیت اور آپ کی آل کا مقام بہت اونچا ہے، اور ایمان کا جز ہے، اور اس کے علاوہ جب بھی درود شریف پڑھا جائے گا تو حضور کی اولاد اور گھر والوں کے لئے دعا ہو گی، اور قیامت تک ہوتی رہے گی
درود ابرہمی یہ ہے۔ اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد۔الخ۔
ترجمہ۔ اے اللہ محمد ؐ پر درود عطا فرما، اور محمد ؐ کے آل پر درود عطا فرما۔
اللھم بارک علی محمد و علی آل محمد۔الخ۔
ترجمہ۔ اے اللہ محمد ؐ پر برکت عطا فرما، اور محمد ؐ کے آل پر برکت عطا فرما۔
غدیر خم کے موقع پرحضور ؐ نے تین مرتبہ لوگوں سے فرمایا کہ میرے اہل بیت کے بارے میں بچتے رہنا اور تمام اہل بیت کا پورا احترام کرنا۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ خوارج نے اہل بیت میں سے حضرت علی ؓ کو برا بھلا کہا، شامیوں نے اہل بیت میں سے حضرت حسین ؓ کو شہید کیا،اور کچھ نے اہل بیت میں سے حضرت عائشہ ؓ اورحضرت حفصہ ؓ کو برا بھلا کہا، چونکہ حضور ؐ کو ان تینوں زیادتیوں کی اطلاع دے دی گئی تھی، اس لئے آپ نے تین مرتبہ اہل بیت اور گھر والوں کے بارے میں احترام کرنے کی ترغیب دی
حدیث یہ ہے ۔
5۔انطلقت انا و حصینبن سبرۃ الی زید بن ارقم….قام رسول اللہ ﷺ یوما فینا خطیبا بماء یدعی خما بین مکۃ و المدینۃ فحمد اللہ و اثنی علیہ و وعظ و ذکر ثم قال اما بعد الا ایہا الناس فانما انا بشر یوشک ان یأتی رسول ربی فأجیب، و انا تارک فیکم ثقلین، اولہما کتاب اللہ فیہ الھدی و النور فخذوا بکتاب اللہ و استمسکوا بہ فحث علی کتاب اللہ و رغب فیہ ثم قال و اہل بیتی اذکرکم اللہ فی اہل بیتی،اذکرکم اللہ فی اہل بیتی۔اذکرکم اللہ فی اہل بیتی، فقال لہ حصین و من اہل بیتہ؟ یا زید الیس نساۂ من اہل بیتہ؟ قال نساۂ من اہل بیتہ۔ (مسلم شریف، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب من فضائل علی بن طالب ؓ، ص ۱۶۰۱، نمبر ۸۰۴۲/ ۵۲۲۶)
ترجمہ۔ میں اور حضرت حصین زیدبن ارقم کے پاس گئے ۔۔۔مکہ اور مدینہ کے درمیان پانی کی ایک جگہ ہے جس کا نام خم ہے، وہاں حضور ؐ ایک دن ہمارے سامنے خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے، آپؓ نے اللہ کی حمد و ثنا کی، وعظ کیا اور یاد دلایا، پھر کہا اما بعد، لوگو سنو!، میں انسان ہوں، ہو سکتا ہے کہ میرے رب کا قاصد آجائے، اور میں انکی بات قبول کرکے دنیا سے چلا جاؤں، میں دو اہم چیزیں تمہارے درمیان چھوڑ جاتا ہوں، پہلی چیز اللہ کی کتاب ہے، جس میں ھدایت اور نور ہے، اس کومضبوطی سے پکڑو، قرآن کو پکڑنے کے لئے بہت ترغیب دی، پھر آپ ؓنے فرمایا،میرے گھر والے،میں اپنے گھر والوں کے بارے میں، تم کو اللہ کا عہد یاد دلاتا ہوں،میں اپنے گھر والوں کے بارے میں، تم کو اللہ کا عہد یاد دلاتا ہوں، میں اپنے گھر والوں کے بارے میں، تم کو اللہ کا عہد یاد دلاتا ہوں،حضرت زیدؓ سے حصین ؒ نے پوچھا، حضور ؐ کے اہل بیت کون ہیں حضرت زید؟ انکی بیویاں اہل بیت میں نہیں ہیں؟ تو حضرت زید ؓنے فرمایا، حضور ؐ کی بیویاں اہل بیت میں ہیں،
اس حدیث میں تین مرتبہ حضورؓ نے بڑے درد کے ساتھ لوگوں سے کہا کہ میرے گھر والوں کے ساتھ احترام اور محبت کا معاملہ کرنا۔
6۔عن جابر بن عبد اللہ قال رأیت رسول اللہ ﷺ فی حجتہ یوم عرفۃ و ھو علی ناقتہ القصواء یخطب فسمعتہ یقول، یا ایھا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اخذتم بہ لن تضلوا، کتاب اللہ، وعترتی اہل بیتی ۔ (ترمذی شریف، کتاب المناقب، باب مناقب اھل البیت، ص ۹۵۸، نمبر ۶۸۷۳ / مسند احمد،حدیث زید بن ثابت، ج ۶، ص ۲۳۲، نمبر ۸۶۰۱۲)
ترجمہ۔ جابر بن عبد اللہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن دیکھا، آپ قصوا اونٹنی پر سوار تھے، اور خطبہ دے رہے تھے، میں نے آپ کو کہتے ہوئے سنا، اے لوگوں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں، اگر تم اس کو پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے، ایک اللہ کی کتاب قرآن، اور دوسری میرا کنبہ،میرے گھر والے
یعنی قرآن اور اہل بیت کو پکڑو گے تو گمراہ نہیں ہو گے
7۔ عن ابن عباس قال قال رسول اللہ ﷺ أحبوا اللہ لما یغذو کم من نعمہ، و أحبونی بحب اللہ و أحبوا أھل بیتی بحبی۔ (ترمذی شریف، کتاب المناقب، باب مناقب اھل البیت، ص ۹۵۸، نمبر۹۸۷۳)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ اللہ سے محبت کرو، کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے غذا دیتا ہے، اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے بھی محبت کرو، اور میری محبت کی وجہ سے میرے گھر والوں سے بھی محبت کیا کرو۔
ان سب احادیث میں تمام اہل بیت سے محبت کرنے کی تاکید ہے
سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی فضیلت
حضرت فاطمہ ؓ حضور ؐ کی چہیتی بیٹی ہیں، اور جگر کا ٹکڑا ہیں جنت کی سردار ہیں، اہل سنت و الجماعت ان سے دل سے محبت کرتے ہیں، یہ ہمارے سر کے تاج ہیں ، اور ان کا احترام کرنا ایمان کا جز سمجھتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ حد سے زیادہ نہیں بڑھتے۔ ان سب کی مختصر فضیلت بیان کی جا رہی ہے
اس کے لئے احادیث یہ ہیں۔
8۔عن مسور بن مخرمۃ ان رسول اللہ ﷺ قال فاطمۃ بضعۃ منی فمن أغضبہا أغضبنی۔ (بخاری شریف، باب منقبۃ فاطمۃ علیہ السلام، ص ۶۲۶، نمبر ۴۱۷۳)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا فاطمہ میرے دل کا ٹکڑا ہے، جس نے انکو غصہ د لایا، اس نے مجھ کو غصہ دلایا
9۔عن عائشہ قالت کنا ازواج النبی ﷺ عندہ لم یغادر منہن واحدۃ…..فقال یا فاطمۃ اما ترضی ان تکونی سیدۃ نساء المومنین او سیدۃ نساء ہذہ الامۃ؟ قالت فضحکت ضحکی الذی رأیت۔ (مسلم شریف، باب فضائل فاطمۃ ؓ، ص ۸۷۰۱، نمبر ۰۵۴۲/ ۳۱۳۶)۔ترجمہ۔ ہم حضور ؐ کی بیویاں حضور ؐ کے پاس تھیں، ہم میں سے کسی نے حضور ؐ کو چھوڑا نہیں تھا۔۔۔حضور ؐ نے فرمایا: فاطمہ کیا اس بات سے راضی نہیں ہو کہ، تم مومنین کی عورتوں کی سردار بنے، یا یوں فرمایا کہ، اس امت کی عورتوں کی سردار بنے؟ حضرت فاطمہ ؓ نے فرمایا کہ تم لوگ جو مجھے ہنستے ہوئے دیکھی وہ اسی وجہ سے ہنس رہی تھی۔
ان احادیث میں ہے کہ حضرت فاطمہ مومن عورتوں کی سردار ہیں، اور حضور ؐ کے دل کا ٹکڑا ہیں
سیدہحضرت فاطمہ ؓ کو وراثت کیوں نہیں دی گئی
حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ کو وراثت نہیں دی اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی کی وراثت تقسیم نہیں ہو تی، خود حضرت علی ؓ نے اس کی تصدیق کی ہے کہ ہاں نبی کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی، ورنہ حضرت عائشہؓ، اور حضرت حفصہ ؓکو بھی بیوی ہونے کی وجہ سے آٹھواں حصہ ملتا، اس لئے اب کسی کو حضرت ابو بکر ؓ پر الزام لگانے کی گنجائش نہیں ہے،
احادیث یہ ہیں
10۔ عن عائشۃ ان فاطمۃ علیہا السلام أرسلت الی ابی بکر تسألہ میراثہا من النبی ﷺ مما افاء اللہ علی رسولہ ﷺ تطلب صدقۃ النبی ﷺ التی بالمدینۃ و فدک و ما بقی من خمس خیبر فقال ابو بکر ان رسول اللہ ﷺ قال لا نورث ما ترکنا فہو صدقۃ، انما یأکل آل محمد من ہذا المال یعنی مال اللہ لیس لہم ان یزیدوا علی الماکل و انی و اللہ لا أغیر شیئا من صدقات رسول اللہ ﷺ التی کانت علیہا فی عہد النبی ﷺ و لاعملن فیہا بما عمل فیہا رسول اللہ ﷺ، فتشہد علی ؓ ثم قال انا قد عرفنا یا ابا بکر فضیلتک و ذکر قرابتہم من رسول اللہ و حقہم فتکلم ابو بکر فقال و الذی نفسی بیدہ لقرابۃ رسول اللہ احب الی ان اصل من قرابتی۔ (بخاری شریف، باب مناقب قرابۃ رسول اللہ ﷺ و منقبۃ فاطمۃ علیہا السلام، ص ۶۲۶، نمبر ۱۱۷۳)
ترجمہ۔ حضرت فاطمہ علیھا السلام نے حضرت ابو بکر کو خبر بھیجی کہ اللہ نے جو کچھ مال غنیمت دیا ہے اس میں وراثت دیں، حضور ؐ کو مدینہ میں ملا تھا، فدک میں ملا تھا اور جو خیبر کا خمس ملا تھا ان سب میں وراثت دیں، تو حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ،حضور ؐ نے فرمایا تھا کہ نبی کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ امت پر صدقہ ہوتا ہے،ہاں اس مال میں محمد ؐ کے اہل و عیال بھی کھائیں گے، کھانے سے زیادہ ان کو نہیں ملے گا،اور حضور ؐ کے زمانے میں جیسا تھا میں ان صدقات میں کوئی تبدیل نہیں کر سکتا، اور جیسا حضور ؐ نے عمل کیا تھا میں ایسا ہی عمل کروں گا،اس پر حضرت علی نے گواہی دی ] کہ ہاں یہی بات ہے جو آپ کہہ رہے ہیں [ پھر حضرت علی نے یہ بھی فرمایا کہ، اے ابو بکر ؓمیں آپ کی فضیلت جانتا ہوں،پھر حضور ؐ سے کیا رشتہ داری ہے اور ان کا کیا حق ہے اس کا ذکر کیا، پھر ابو بکر ؓ نے بات کی اور کہا جس خدا کے قبضے میں میری جان ہے اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں، کہ رسول اللہ کی قرابت مجھے زیادہ محبوب ہے اس بات سے کہ میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کروں
اس حدیث میں ہے کہ حضور کے مال میں وراثت نہیں ہوتی، اور حضرت علی ؓ نے اس کی تصدیق کی، پھر یہ بھی دیکھیں وراثت لینے میں صرف حضرت فاطمہ نہیں ہیں، بلکہ بیوی ہونے کی حیثیت سے حضرت عائشہ وغیرہ کو بھی آٹھواں حصہ ملے گا، لیکن حضرت ابو بکر نے اپنی بیٹی کو بھی حضور ؐ کی وراثت تقسیم کر کے نہیں دی۔
لوگ صرف حضرت فاطمہ ؓ کی بات کرتے ہیں حضرت عائشہ، اور حضرت حفصہؓ کی وراثت کی بات نہیں کرتے
11۔عن ابی ہریرۃ ان رسول اللہ ﷺ قال لا تقسم ورثتی دینار و لا درہما، ما ترکت بعد نفقۃ نسائی و مؤنۃ عاملی فہو صدقۃ۔ (بخاری شریف، کتاب الوصایۃ، باب نفقۃ القیم للوقف، ص ۹۵۴، نمبر ۶۷۷۲/ مسلم شریف، کتاب الوصیۃ، باب ترک الوصیۃ لمن لیس لہ شیء یوصی فیہ، ص ۷۱۷، نمبر ۴۳۶۱/۷۲۲۴)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا: میرے وارث دینار اور درہم تقسیم نہیں کریں گے میری بیویوں کے نفقے، اور کام کرنے والوں کی مزدوری کے بعد جو کچھ چھوڑوں گا وہ امت پر صدقہ ہے۔
اس حدیث میں ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ میری وراثت تقسیم نہیں ہو گی، میں جو کچھ چھوڑوں گا وہ امت کے لئے صدقہ ہے، اس لئے اس معاملے کو بڑھا کر حضرت فاطمہ ؓ پر ظلم کہنا بہت بڑی غلطی ہے
12۔عن قیس بن کثیر۔۔۔ان الانبیاء لم یورثوا دینار ا و لا درھما انما ورثوا العلم۔ (ترمذی شریف، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ص۹۰۶، نمبر ۲۸۶۲/ ابن ماجۃ شریف، مقدمۃ، باب فضل العلماء و الحث علی طلب العلم، ص۴۳، نمبر ۳۲۲)
ترجمہ۔ انبیاء دینار اور درھم کے وارث نہیں بناتے ، وہ صرف علم کے وارث بناتے ہیں
اس حدیث میں موجود ہے کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی، اس لئے حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ کو وراثت نہیں دی تو اس بات کو بہت بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے
حضرت ابو بکر ؓ نے عہد کیا کہ اہل بیت کو جی بھر کرکر دیں گے
حضرت ابو بکر ؓ نے وعدہ کیا کہ میں وراثت تو نہیں دوں گا، کیونکہ وہ جائز نہیں ہے، لیکن اپنے اہل و عیال سے زیادہ حضور کے اہل و عیال، اور اہل بیت کو دوں گا، اور ان کی پوری خبر گیری کروں گا
اس کے لئے حضرت ابو بکر ؓ کا قول یہ ہے
13۔ عن ابی بکر ؓ قال ارقبوا محمدا ﷺ فی اہل بیتہ۔ (بخاری شریف، باب مناقب قرابۃ رسول اللہ ﷺ و منقبۃ فاطمۃ علیہا السلام، ص ۶۲۶، نمبر۳۱۷۳)
ترجمہ۔ حضرت ابو بکر ؓ سے یہ روایت ہے کہ حضور ؐ کے اہل بیت کے بارے میں پورا خیال رکھا کرو۔
اس حضرت ابو بکر ؓ کے قول میں ہے کہ میں خود بھی اہل بیت کا پورا خیال رکھا کروں گا ، اور لوگو! تم بھی اہل بیت کا پورا خیال رکھا کرو
حضرت علیؓ حضرت ابو بکر ؓکے گلے ملے
حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت علی ؓ کے اختلاف کو لوگ بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں، اور ابھی بھی مسلمانوں میں دشمنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ کے ہاتھ پر بیعت بھی کی اور گلے بھی ملے، جس پر تمام مسلمان خوش ہوئے
حدیث یہ ہے
14۔عن عائشۃ۔۔۔استنکر علیؓ وجوہ الناس فالتمس مصالحۃ ابی بکر و مبایعتہ و لم یکن یبایع تلک الاشہر۔۔۔فقال علیؓ لابی بکرؓ موعدک العشیۃ للبیعۃ فلما صلی ابو بکرؓ الظھر رقی المنبر فتشھد و ذکر شان علیؓ و تخلفہ عن البیعۃ و عذرہ بالذی اعتذر الیہ ثم استغفر، و تشھد علیؓ فعظم حق ابی بکرؓ و حدث انہ لم یحملہ علی الذی صنع نفاسۃ علی ابی بکر ؓو لا انکارا للذی فضلہ اللہ بہ و لکنا نری لنا فی ھذ الامر نصیبافاستبد علینا فوجدنا فی انفسنا فسر بذالک ا لمسلمون و قالوا اصبت، و کان المسلمون الی علیؓ قریبا حین راجع الامر المعروف ( بخاری شریف، کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر، ص ۹۱۷، نمبر ۰۴۲۴)۔
ترجمہ ۔حضرت علی ؓ کو ایسا محسوس ہوا کہ لوگ میری طرف توجہ کم دے رہے ہیں، اس لئے حضرت ابو بکر ؓ سے صلح کی اور ان سے بیعت کرنے کی درخواست کی، انہوں نے ان چھ مہینوں میں بیعت نہیں کی تھی۔۔۔ حضرت علی نے فرمایا بیعت کے لئے شام کا وقت ٹھیک ہے، جب حضرت ابو بکر ؓ نے ظہر کی نماز پڑھی تو منبر پر بیٹھے، اور کلمہ شہادت پڑھا، اور حضرت علی ؓ کی شان بیان کی، اور اب تک بیعت سے پیچھے رہے اس کی وجہ بیان کی، اور حضرت علی ؓ نے جو عذر پیش کی اس کا بھی ذکر کیا پھر استغفار کیا۔اورحضرت علی ؓ نے کلمہ شہادت پڑھا، اور حضرت بو بکر کے حق کی عظمت بیان کی، اور یہ بھی کہا کہ میں نے جو کیا ہے وہ حضرت ابو بکر پر فوقیت کی وجہ سے نہیں کی ہے، اور اللہ نے حضرت ابو بکر ؓ کو فضیلت دی ہے مجھے اس کا انکار بھی نہیں ہے، لیکن میرا خیال تھا کہ اس معاملے] وراثت میں، یا خلافت میں [ میرا بھی کچھ حصہ ہے، لیکن مجھے وہ نہیں ملا جس کی وجہ سے میرا دل اچاٹ ہوا ] اور اب میں خوشی سے بیعت کے لئے آگیا ہوں [، اس سے مسلمان بہت خوش ہوئے، اور سب نے کہا کہ آپ نے بہت اچھا کیا، اور جب حضرت علی ؓ نے امر معروف کی طرف رجوع کیا تو لوگ حضرت علی ؓ کے بہت قریب آگئے۔
اس حدیث میں حضرت علی ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ کی عظمت کی، اورانکی فضیلت بیان کی اور حضرت ابو بکرؓ سے بیعت بھی کی ہے، جس سے اس وقت کے تمام مسلمان بہت خوش ہوئے۔
لیکن افسوس ہے کہ حضرت علی ؓ نے حضرت ابو بکر ؓسے بیعت کرکے جو اتفاق پیدا کیا تھابعد کے لوگوں نے اس کو ہوا بنایا، اور مسلمانوں کو دو ٹکڑے کر دئے،
تمام مسالک والوں کی کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اس بیعت کے بعد حضرت علی ؓ نے تینوں خلفاء کے زمانے تک کبھی بھی خلافت نہیں مانگی، اور نہ اس کی تمنا کی، بلکہ تمام خلفاء کا دل سے تعاون کرتے رہے، اور مشورے دیتے رہے تاکہ امت میں انتشار نہ ہو
حضرت علی ؓ کے طریقے پر چلتے ہوئے ہم بھی امت کو جوڑنے کے لئے ایک بنے رہتے تو کتنا اچھا ہوتا، لیکن افسوس ہے کہ ہم کتنے ٹکڑوں میں بٹ گئے، اور قوم کا شیرازہ بکھر گیا۔
امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت
حضرت امیر المومنین علی بن طالب رضی اللہ عنہ، امت کے چوتھے خلیفہ ہیں، یہ اہل بیت میں شامل ہیں، اور بہت سے فضائل کے مالک ہیں، یہ بہت نیک دل اور بہادر صحابی تھے، وہ جبال العلم تھے،انہوں نے، سفر، حضر میں حضور ؐ کا ساتھ دیا، ان کے ساتھ خوارج نے اچھا نہیں کیا، اور بہت تنگ کیا، اور آخر انکو ایک خارجی نے شہید کر دیا، جس کی وجہ سے آج تک ہمارا دل رو رہا ہے
ان کی فضیلتیں بہت ہیں، ان میں سے کچھ فضائل کی حدیثیں یہ ہیں
15۔قال النبی ﷺ لعلی ؓ انت منی و انا منک۔ (بخاری شریف، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب مناقب علی بن طالب ؓ، ص ۴۲۶، نمبر ۱۰۷۳)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا:تم میرے ہو، اور میں تمہارا ہوں۔
16۔سمعت ابراہیم بن سعد عن ابیہ قال قال النبی ﷺ اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسی۔۔ (بخاری شریف، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب مناقب علی بن طالب ؓ، ص۵۲۶، نمبر۶۰۷۳)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا علی کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو، کہ جس طرح ہارون ؑ حضرت موسی ؑ کے لئے تھے، اسی طرح تم میرے لئے ہو۔
17۔عن ابن عباس قال قال رسول اللہ ﷺ انامدینۃ العلم و علی بابھا، فمن اراد العلم فلیأت الباب۔ (مستدرک للحاکم،، باب و اما قصۃ اعتزال محمد بن مسلمۃ،ج ۳، ص ۷۳۱، نمبر ۷۳۶۴/ طبرانی کبیر، باب مجاھد عن ابن عباس، ج ۱۱، ص ۵۶، نمبر ۱۶۰۱۱)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی ؓ اس کا دروازہ ہے، جس کو علم حاصل کرنا ہو وہ دروازے کے پاس آئے ] یعنی علی ؓ کے پاس آئے [
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت علی ؓ علم کے اعلی مقام پر فائز تھے، اور واقعی ایسے ہی تھے۔ حضرت کی نہج البلاغہ اس کی واضح مثال ہے
حضرت علی ؓ کو حد سے زیادہ بڑھانا بھی ہلاکت ہے
، اور ان سے نفرت کرنا بھی بھی ہلاکت ہے
حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ میرے بارے میں دو قسم کے آدمی ہلاک ہوں گے ایک جو میری محبت میں حد سے زیادہ بڑھیں گے، کہ نبی سے بھی زیادہ بڑھا یں گے، اور دوسر ے وہ جو میرے بغض اور دشمنی میں حد سے زیادہ بڑھیں گے، جیسے خوارج نے کیا
حضرت علی ؓ کا ارشاد یہ ہے
18۔عن ابی حبوۃ قال سمعت علیا ؓ یقول: یھلک فی رجلان: مفرط فی حبی، و مفرط فی بغضی۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، ج ۶،کتاب فضائل، باب فضائل علی بن ابی طالب، ؓ ص۷۷۳، نمبر ۵۲۱۲۳ /۴۳۱۲۳)
ترجمہ۔ حضرت علی ؓ سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بارے میں دو قسم کے آدمی ہلاک ہوں گے، ایک وہ جو میری محبت میں حد سے زیادہ بڑھا ہو، اور دوسرا جو میری دشمنی میں حد سے زیادہ بڑھا ہو
19۔عن ابی سوار العدوی قال قال علی ؓ لیحبنی قوم حتی یدخل النار فی حبی، و لیبغضنی قوم حتی یدخلوا النار فی بغضی۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، ج ۶،کتاب فضائل، باب فضائل علی بن ابی طالب، ؓ ص۷۷۳، نمبر ۴۲۱۲۳ / ۳۳۱۲۳)
ترجمہ۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ مجھ سے کچھ لو گ] حد سے زیادہ [ محبت کریں گے جس کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوں گے، اور کچھ لوگ مجھ سے حد سے زیادہ بغض رکھیں گے جس کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔
یہ بالکل واقعہ ہے، کہ کچھ لوگ حضرت علی ؓکی محبت میں حد سے گزر گئے ہیں، اور کچھ حضرت علی ؓکی نفرت میں حد سے زیادہ گزر گئے ہیں
اہل سنت و الجماعت بالکل حق پر ہیں کہ وہ حضرت علی ؓ سے دل سے محبت کرتے ہیں لیکن اس میں غلو نہیں کرتے، کہ نبیوں سے بھی آگے بڑھا دیا جائے، اور ان سے نفرت تو کرتے ہی نہیں، بلکہ بے پناہ محبت کرتے ہیں، اور اپنے سر کا تاج سمجھتے ہیں ۔
حضرت علی ؐ تمام مومنین کے ولی ہیں، یعنی دوست ہیں
بعض حضرات نے اس حدیث سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت علیؓ مدد گار ہیں اور مشکل کشا، اور حاجت روا ہیں، لیکن حدیث کا ٹکڑا، اللہم عاد من عاداہ،
ترجمہ۔کہ جو حضرت علی ؓسے دشمنی رکھے اے اللہ تو اس کا دشمن بن جا،کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں مولی کا ترجمہ دوست کے ہیں، مدد گار اور مشکل کشا کے نہیں ہے
اس بارے میں اسی کتاب میں، اللہ کے علاوہ سے مدد مانگنا، والا عنوان دیکھیں
کچھ حضرات نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت علی ؓ کو حضور ؐ نے خلیفہ اول بنایا ہے، کیونکہ حضرت علی کو ہر مومن کا ولی بنایا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ولی کا معنی دوست کے ہیں، کہ حضرت علی ؓ ہر مومن کے دوست ہیں، المنجد میں، ولی کا معنی قریب، اور محبوب، لکھا ہے
دوست والی حدیث یہ ہے
20۔عن البراء بن عاذب قال اقبلنا مع رسول اللہ ﷺ فی حجتہ التی حج فنزل فی بعض الطریق فأمر الصلوۃ جامعۃ فأخذ بید علی فقال ألست اولی بالمومنین من انفسہم؟ قالوا بلی،قال الست اولی بکل مومن من نفسہ؟ قالوا بلی قال فہذا ولی من انا مولاہ، اللہم وال من والاہ اللہم عاد من عاداہ ۔ (ابن ماجۃ شریف، فضل علی بن طالب ؓ، ص ۹۱، نمبر ۶۱۱)
ترجمہ۔ حضرت برا ء بن عاذب فرماتے ہیں کہ ایک حج کے موقع پر ہم حضور ؐ کے ساتھ واپس آرہے تھے، راستے میں ہم نیچے اترے، حضور ؐ نے فرمایا کہ نماز کی جماعت کے لئے تیار ہو جاؤ، پھر حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑا، اور فرمایا کہ کیا میں مومنین کو اس کی ذات سے زیادہ محبوب نہیں ہوں؟، لوگوں نے کہا ہاں! پھر فرمایا کہ ہر مومن کی ذات سے زیادہ محبوب نہیں ہوں؟ لوگوں نے پھر کہا ہاں! تو آپ نے فرمایا کہ، جس کا میں محبوب ہوں اس کا یہ محبوب ہے، اے اللہ جو حضرت علی ؓ سے محبت کرے تو اس کا محبوب بن جا، اور جو ان سے دشمنی کرے تو اس کا دشمن بن جا۔
اس حدیث میں فرمایا کہ جس کا میں ولی حضرت علی اس کے ولی، پھر فرمایا کہ حضرت علی سے جو دوستی رکھے، اے اللہ تو اس کا دوست بن جا، اور جو اس سے دشمنی رکھے، اے اللہ تو اس کا دشمن بن جا۔
نوٹ: ولی کے معنی مدد گار کا بھی آتا ہے، لیکن یہاں ولی کا معنی دوست ہے، ولی کا معنی خلیفہ اول کے یا مدد گار کے نہیں ہے۔ آپ دعا کے الفاظ پر غور کریں
اس آیت میں مولی، دوست کے معنی میں استعمال ہوا ہے
3۔یوم لا یغنی مولی عن مولی شیئا و لا ہم ینصرون۔ (آیت ۱۴، سورت الدخان ۴۴)
ترجمہ۔ جس دن کوئی دوست کسی دوست کو کوئی کام نہیں آئے گا، اور نہ اس کی مدد ہو گی
اس آیت کو سامنے رکھتے ہوئے ولی کا معنی دوست کرنا بالکل صحیح ہے
امیر المومنین حضرت حسن ؓاور حضرت حسین ؓکی فضیلتیں
حضرت حسن ؓ اور حسین ؓ اہل بیت میں سے ہیں ، جنت کے سردار ہیں اور امیر المومنین بھی ہیں ، لیکن شامیوں نے انکو شہید کر دیا، اور آ ج تک یہ جھگڑا مسلمانوں کے درمیان جھگڑے کا باعث بنا ہواہے، کاش کہ دونوں صلح کرکے آپس میں اتفاق کر لیتے اور عرب کے ملکوں کو اختلاف سے بچا لیتے، فیا آسفا۔
یہ یاد رہے کہ اہل سنت و الجماعت اہل مدینہ کے حمایتی ہیں۔ وہ نہ حضرت حسین ؓ کو شہید کرنے میں شریک ہیں، اور نہ وہ کربلا میں موجود تھے، اور نہ حضرت علی ؓکو شہید کرنے میں شریک ہیں، اور نہ اس سے خوش ہیں، بلکہ آج تک اس ظلم پر افسوس کر رہے ہیں اس لئے اہل سنت کو ملزم ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہے۔
انکے فضائل کے بہت احادیث ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں
21۔عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ من أحب الحسن و الحسین فقد احبنی و من ابغضھما فقد ابغضنی۔(ابن ماجۃ شریف، باب فضل الحسن و الحسین ابنی علی بن ابی طالب ؓ، ص ۲۲، نمبر ۳۴۱)
ترجمہ حضور ؐ نے فرمایا، جو لوگ حسن اور حسین ؓ سے محبت کرتے ہیں تو گویا کہ وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں، اور جو ان سے دشمنی کرتے ہیں تو گویا کہ مجھ سے دشمنی کرتے ہیں
22۔عن اسامۃ بن زید عن النبی ﷺ انہ کان یاخذہ و الحسن و یقول اللھم انی احبہما فاحبہما۔ (بخاری شریف، باب مناقب الحسن و الحسین ؓ، ص ۱۳۶، نمبر ۷۴۷۳ / مسلم شریف، باب من فضائل الحسن و الحسین ؓ، ص ۷۰۱، نمبر ۱۲۴۲/ ۶۵۲۶)
ترجمہ۔ حضور ؐ حضرت حسین اور حضرت حسن کو گود میں لیتے اور فرماتے، اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، آپ بھی ان سے محبت کیجئے
23۔عن ابی موسی…..رأیت رسول اللہ ﷺ علی المنبر و الحسن بن علی ؓ الی جنبہ و ہو یقبل علی الناس مرۃ و علیہ اخری و یقول ان ابنی ہذا سید و لعل اللہ ان یصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین۔ (بخاری شریف، کتاب الصلح، باب قول النبی ﷺ للحسن بن علی ؓ، ص ۲۴۴، نمبر ۴۰۷۲)
ترجمہ۔ حضرت ابو موسی ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ؐ کو منبر پر دیکھا، کہ حضرت حسن ؓ آپ کے پہلو میں تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف توجہ فرماتے، اور کبھی حسن کی طرف دیکھتے، اور یوں کہتے، میرا یہ بیٹا سردار ہے، اور ہو سکتا ہے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا
اور ایسے ہی ہوا کہ آپ نے دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائی
24۔عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ﷺ الحسن و الحسین سیدا شباب اہل الجنۃ و ابو ہما خیر من ہما۔ (ابن ماجۃ شریف، باب فضل علی بن طالب، ص ۹۱۔ نمبر ۸۱۱)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا،حضرت حسن اورحضرت حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں، اور ان کے والد، حضرت علی ان دونوں سے بہتر ہیں
25۔عن زید بن الارقم قال قال رسول اللہ ﷺ لعلی و فاطمۃ و الحسن و الحسین، انا سلم من سالمتم و حرب لمن حاربتم۔ (ابن ماجۃ شریف، باب فضل الحسن والحسین ابنی علی بن ابی طالب، ص ۲۲، نمبر ۵۴۱)
ترجمہ ۔ حضورؐ نے علیؓ، فاطمۃؓ، حسنؓ اور حسین ؓسے فرمایا، جن سے آپ لوگ صلح کریں گے میں بھی ان سے صلح کروں گا، اور جن سے تمہاری جنگ ہے، میری بھی جنگ ہے
یہ خیال رہے کہ اہل سنت و الجماعت نے حضرت علیؓ، فاطمۃؓ، حسنؓ اور حسین ؓ سے کبھی دشمنی نہیں رکھی ہے، بلکہ ہمیشہ ان سے محبت رکھی ہے، اور ان کا احترام کیا ہے، اس لئے ان پر دشمنی کا الزام رکھنا غلط ہے، البتہ شریعت کے حدود سے زیادہ نہیں بڑھے۔
ام المؤمنین حضرت خدیجۃ ؓکی فضیلت
اگر حضرت خدیجہ ؓحیات ہوتیں تو یہ بھی اہل بیت میں شامل ہوتیں ، اور آیت تطہیر کے مصداق ہوتیں، کیونکہ یہ بھی حضور ؐ کے گھر والی ہیں، یہ اور بات ہے کہ ان کی وفات کے بعد،، انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہر کم تطہیرا۔ (آیت ۳۳، سورت الاحزاب۳۳) آیت نازل ہوئی آیت تطہیر نازل ہوتے وقت یہ زندہ ہوتیں تو یہ بھی آیت تطہیر میں داخل ہوتیں ، یہ بھی تمام مومنین کی ماں ہیں
ان کی فضیلت کے لئے حدیث یہ ہے
26۔سمعت علی بن طالب یقول سمعت رسول اللہ ﷺ یقول خیر نسائھا خدیجۃ بنت خویلد، و خیر نسائھا مریم بنت عمران۔ (ترمذی شریف، کتاب المناقب، باب فضل خدیجۃ ؓ، ص ۵۷۸، نمبر ۷۷۸۳)
ترجمہ۔ میں نے حضور سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ تمام عورتوں میں بہتر خدیجہ بن خویلد ہیں ، اور بنی اسرائیل کی تمام عورتوں سے افضل مریم بنت عمران ہیں
واقعی حضرت خدیجہ بہت افضل ہیں، انہوں نے بے بسی کے عالم میں حضور ؐ کا بہت ساتھ دیا، اور بہت تسلی دی، اللہ انکو اس کابہترین بدلہ دے،آمین یا رب العالمین
ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت
حضرت عا ئشہ ؓ اہل بیت میں سے ہیں، اور ان کا بھی اتنا ہی احترام ہے جتنا دوسرے اہل بیت کا ہے
پھر بڑی بات یہ ہے کہ یہ حضور ﷺ کی چہیتی بیوی ہیں، اور پوری امت کی ماں ہیں اس لئے ان کی ادنی توہین بھی جائز نہیں ہے
کیا کوئی بھی آدمی اپنی بیوی کی توہین برداشت کرے گا، یہ کیا ظلم ہے کہ بیٹی اور داماد کی محبت میں انکی بیوی کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، ذرا سوچیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں، حضور ؐ زندہ ہوتے تو کیا یہ برداشت کرتے؟
اگر حضرت عائشہ ؓ نے حضرت علیؓ کے بارے میں کوئی غلطی کی ہے تو اس کو اجتہادی غلطی سمجھیں اور امت کو جوڑنے کے لئے اس کو معاف کر دیں، اور غیروں کے مقابلے پر اب مل کر بیٹھیں،
آپ دیکھتے نہیں کہ غیر مسلم آپ پر کتنا یلغار کر رہے ہیں، اور آپ کے ملکوں کو برباد کر رہے ہیں
حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں یہ آیت ہے
4۔ان الذین جاؤ بالافک عصبۃ منکم]آیت ۱۱/ سورت النور۴۲[۔۔۔ان الذین یرمون المحصنات الغافلات المومنات لعنوا فی الدنیا و الآخرۃ و لہم عذاب عظیم۔۔۔۔ و الطیبات للطیبین و الطیبون للطیبات اولاٰئک مبرؤن مما یقولون لہم مغفرۃ و رزق کریم۔ (آیت۱۱۔ ۶۲، سورت النور ۴۲)
ترجمہ۔ یقین جانو کہ جو لوگ یہ جھوٹی تہمت گھڑ کر لائے ہیں وہ تمہارے اندر ہی کا ایک ٹولہ ہے۔۔۔
یاد رکھو کہ جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی مسلمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں، ن پر دنیا اور آخرت میں پھٹکار پڑ چکی ہے، اور ان کو اس دن زبردست عذاب ہو گا۔۔۔ گندی عورتیں گندے مردوں کے لائق ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق ہیں، اور پاکباز عورتیں پاکباز مردوں کے لائق ہیں، اور پاکباز مرد پاکباز عورتوں کے لائق ہیں یہ پاکباز مرد اور عورتیں ان باتوں سے بالکل مبرا ہیں جو یہ لوگ بنا رہے ہیں،ا ن پاکباز وں کے حصے میں تو مغفرت ہے اور با عزت رزق ہے
غزوۃ بنو المصطلق میں حضرت عائشہ قافلے سے پیچھے رہ گئی تھیں، اور بعد میں حضرت صفوان بن معطل ؓ کے ساتھ قافلے میں آئیں، جس کی وجہ سے عبد اللہ بن ابی بن سلول نے حضرت عائشہ ؓ پر زنا کی تہمت لگائی، ایک مہینے کے بعد اوپر کی آیتیں نازل ہوئیں، جس میں حضرت عائشہ ؓ کی پاکدامنی بیان کی گئی ہے، اس لئے اس پر زنا کی تہمت لگانا سراسر ظلم ہے۔ کیا کوئی اپنی ماں پر زنا کی تہمت لگاتا ہے یا انکو برا بھلا کہتا ہے، یہ کیسی بے حیائی ہے
27۔عن عائشۃ ؓ ان رسول اللہ کان یسأل فی مرضہ الذی مات فیہ یقول این انا غدا؟ این انا غدا؟۔ یرید یوم عائشۃ۔ فأذن لہ ازواجہ یکون حیث شاء فکان فی بیت عائشۃ حتی مات عندھا،قالت عائشۃ فمات فی یوم الذی کان یدور علی فیہ فی بیتی فقبضہ اللہ و ان رأسہ لبین نحری و سحری و خالط ریقہ ریقی۔ (بخاری شریف، کتاب المغازی، باب مرض النبی و وفاتہ، ص ۶۵۷، نمبر ۰۵۴۴)
ترجمہ۔ جس مرض میں حضور کی وفات ہوئی اس میں پوچھا کرتے تھے کہ کل کس کے یہاں باری ہے؟، کل کس کے یہاں باری ہے؟ حضور ؐ یہ چاہتے تھے کہ حضرت عائشہ ؓ کی باری آجائے، اس لئے باقی بیویوں نے اس کی اجازت دے دی کہ حضور جس کے یہاں چاہیں رات گزاریں، اس لئے وفات تک حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں رہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ، جس دن میری باری تھی اسی دن آپ کی وفات ہوئی، حضور میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، اس وقت اللہ نے اپنے پاس بلایا، اور اس آخری وقت میں ان کا تھوک میرے تھوک کے ساتھ ملا۔
حضرت عائشہ ؓ حضور ؐ کی کتنی چہیتی بیوی تھی کہ انکی باری کا انتظار کرتے رہے، اور انہیں کی گود میں آخری وقت گزارا، اور انہیں کی گود میں وفات پائی۔ پھر بھی انکو برا کہنا بہت بری بات ہے
28۔انہ سمع انس بن مالک یقول سمعت رسول اللہ ﷺ یقول فضل عائشۃ علی النساء کفضل لثرید علی سائر الطعام۔ (بخاری شریف، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب فضل عائشۃ ؓ، ص ۳۳۶، نمبر ۰۷۷۳)
ترجمہ۔ میں نے حضور ؐ کو کہتے سنا ہے کہ عورتوں پر حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت ایسی ہی ہے، جیسے تمام کھانے پر ثرید کی فضیلت ہے
ان احادیث میں حضرت عائشہ ؓ کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
امیر المومنین حضرت ابو بکر ؓ کے فضائل
حضرت ابو بکر ؓ حضور ؓ کے ساتھ رہے، اور ہر حال میں ساتھ دیا اور وہ خدمات انجام دی جو کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔
، انکے تدبر، حکمت عملی، رعب اور دبدبہ، اور جوان مردی سے امت دو ٹکڑے ہونے سے بچ گئی، ورنہ جو حال حضرت علی ؓ کے آخری زمانے میں ہوا وہی حال حضور ؐ کی وفات کے بعد ہو جاتی۔
اس کے لئے انسانوں کی فطرت پر غور کریں اور اس زمانے کے حالات کا مطالعہ کرکے فیصلہ کریں
انکے فضائل کی آیتیں یہ ہیں
5۔اذ اخرجہ الذین کفروا ثانی الاثنین اذ ہما فی الغار، اذ یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا (آیت ۰۴، سورت التوبۃ ۹)
ترجمہ۔ اللہ اس کی مدد اس وقت کر چکا ہے، جب انکو کافروں نے ایسے وقت مکہ سے نکالا تھا جب وہ دو آدمیوں میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ، غم نہ کر و اللہ ہمارے ساتھ ہے
یہ آیت بھی حضرت ابو بکرؓ کی شان میں نازل ہوئی، کیونکہ حضور ؐ کے ساتھ صرف وہی غار ثور میں تھے
اس کے لئے حدیث یہ ہے
29۔ عن البراء قال اشتری ابو بکر من عازب رحلا…..ھذ الطلب قد لحقنا یا رسول اللہ فقال لا تحزن ان اللہ معنا۔ (بخاری شریف، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب مناقب المہاجرین و فضلہم، ص ۳۱۶، نمبر ۲۵۶۳/ ۳۵۶۳)
ترجمہ۔ حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عازب سے ایک اونٹ خریدا۔۔۔یہ ہمیں تلاش کرنے والے ہیں جو ہمارے قریب آگئے ہیں یا رسول اللہ، تو حضور ؐ نے فرمایا، ابو بکر غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے
حضرت ابو بکر ؓ کتنے مدبر اور حضور ؐ کے قابل اعتماد تھے کہ ہجرت جیسے خطرناک سفر کے لئے حضرت ابو بکر ؓ کو چنا، اور انہوں نے بڑی حکمت عملی سے اس کو انجام دیا ، اور مدینہ تک حضور ؐ کو پہونچایا۔
6۔و لا یأتل اولو الفضل منکم و السعۃ ان یوتوآاولی القربی و المساکین و المہاجرین فی سبیل اللہ و لیعفوا و لیصفحوا الا تحبون ان غفر اللہ لکم و اللہ غفور رحیم۔ (آیت ۲۲، سورت النور ۴۲)
ترجمہ۔ اور تم میں سے جو لوگ اہل خیر ہیں، اور مالی وسعت رکھتے ہیں وہ ایسی قسم نہ کھائیں کہ وہ رشتہ داروں مسکینوں اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دیں گے، اور انہیں چاہئے کہ معافی اور در گزر سے کام لیں، کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہاری خطائیں بخش دے، اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
حضرت مسطح بن اثاثۃ ؓ حضرت ابو بکر کے رشتہ دار تھے، حضرت ابو بکر حضرت مسطح کی مالی مدد کرتے تھے، یہ بھی حضرت عائشۃ ؓ کی تہمت میں بھول سے شریک ہو گئے، اس لئے حضرت ابو بکر نے قسم کھائی کہ اس کی مدد نہیں کروں گا، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئی، اس کے بعد حضرت ابو بکر ؓ نے مسطح کی مدد بحال کر دی تھی
حضرت ابو بکر ؓ کی کتنی بڑی شان ہے کہ انکی شان میں یہ آیتیں نازل ہوئیں
30۔عن ابن عباس ؓ عن النبی ﷺ قال لو کنت متخذا خلیلا لاتخذت ابا بکر و لکن اخی و صاحبی۔ (بخاری شریف، باب قول النبی ﷺ لو کنت متخذا خلیلا، ص۴۱۶، نمبر ۶۵۶۳)
ترجمہ۔ حضور ؐ سے روایت ہے کہ اگر میں خلیل بناتا، تو ابو بکر کو خلیل بناتا، لیکن یہ میرے بھائی ہیں، میرے ساتھ رہنے والے ہیں ] اور خلیل صرف اللہ ہے [
31۔عن حذیفۃ قال قال رسول اللہ ﷺ اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر و عمر۔ (ترمذی شریف، کتاب المناقب، باب اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر و عمر، ص ۴۳۸، نمبر ۲۶۶۳)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا، میرے بعد ابو بکر، اور عمر کی اقتداء کرو
32۔عن محمد بن الحنفیۃ قال قلت لابی ] علی ؓ[ای الناس خیر بعد رسول اللہ ﷺ قال ابو بکر، قلت ثم من؟ قال ثم عمر و خشیت ان یقول: عثمان، قلت ثم انت؟ قال ما انا الا رجل من المسلمین۔ (بخاری شریف، فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب، ص ۶۱۶، نمبر ۱۷۶۳/ ابو داود شریف، باب التفضیل، ص ۴۵۶، نمبر۹۲۶۴)
ترجمہ۔ محمد بن حنفیہ نے کہا کہ میں نے اپنے والد علی ؓ سے پوچھا کہ حضور ؐ کے بعد سب سے بہتر آدمی کون ہیں، تو حضرت علی ؓ نے فرمایا، ابو بکر، میں نے پوچھا اس کے بعد کون ہیں؟ تو کہا عمر ہے، مجھے ڈر ہوا کہ اس کے بعد حضرت عثمان کا نام نہ لے لیں، اس لئے میں نے پوچھا کہ آپ کس نمبر پر ہیں؟ تو حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ میں تو عام مسلمان کا ایک آدمی ہوں۔
اس قول صحابی میں خود حضرت علی ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ کی فضیلت کا اقرار کیا ہے، تو دوسرے حضرات انکی فضیلت کا انکار کیوں کرتے ہیں۔
33۔عن ابن عمر قال کنا نخیر بین الناس فی زمان رسول اللہ ﷺ فنخیر ابا بکر، ثم عمر، ثم عثمان رضی اللہ عنہم۔ (بخاری شریف، فضل ابی بکر بعد النبی ﷺ، ص ۴۱۶، نمبر ۵۵۶۳)
ترجمہ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی حیات میں لوگوں میں سب سے بہتر ابو بکر ؓ کو قرار دیتے تھے، پھر حضرت عمر ؓ کو پھر حضرت عثمان ؓ کو
34۔عن ابن عمر قال کنا فی زمن النبی ﷺ لا نعدل بابی بکر احدا، ثم عمر، ثم عثمان ثم نترک اصحاب النبی ﷺ لا نفاضل بینہم۔ (بخاری شریف، باب مناقب عثمان بن عفان ابی عمر القرشی ؓ، ص ۲۲۶، نمبر ۸۹۶۳/ ابو داود شریف، باب التفضیل، ص ۴۵۶، نمبر ۸۲۶۴ )
ترجمہ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں، حضور ؓ کے زمانے میں حضرت ابو بکر ؓ کی طرح کسی اور قرار نہیں دیتے تھے، پھر حضرت عمر ؓ کو، پھر حضرت عثمان ؓ کو پھر حضور ؐ کے صحابیوں میں سے کسی کو کسی پرفوقیت نہیں دیتے تھے
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے حضرت ابو بکر، پھر حضرت عمر، پھر حضرت عثمان، پھر حضرت علی ؓ افضل سمجھے جاتے تھے۔ اور امت نے اسی ترتیب سے ان حضرات کو خلیفہ بنایا۔ اس بارے میں کوئی غلطی نہیں کی اور نہ کسی کا حق دبایا۔
حضرت ابو بکر ؓ ان صحابہ میں سے افضل تھے
35۔فحمد اللہ ابو بکر و اثنی علیہ……فقال عمر بل نبیعک انت سیدنا و خیرنا و احبنا الی رسول اللہ ﷺ، فاخذ عمر بیدہ فبایعہ و بایعہ الناس۔ (بخاری شریف، کتاب فضائل الصحابۃ باب، ص ۶۱۶، نمبر ۸۶۶۳)
ترجمہ۔ حضرت ابو بکر ؓ نے حمد و ثنا کی۔۔۔حضرت عمر ؓ نے کہا کہ ہم آپ سے بیعت کرتے ہیں، آپ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے اچھے ہیں، اور رسول اللہ ﷺ کے سب سے زیادہ محبوب ہیں، حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا ہاتھ پکڑا اور ان سے بیعت کی، اور لوگوں نے بھی ان سے بیعت کی۔
اس قول صحابی میں حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر ؓ ہم میں سے سب سے بہتر بھی تھے، اور حضور ؐ کے سب سے زیادہ قریب بھی تھے اسی لئے سب نے مل کر ان کو خلیفہ بنایا تھا
حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ کی نماز جنازہ پڑھائی
اکثر روایت میں یہی ہے کہ حضرت ابو بکر ؓنے حضرت فاطمہ ؓ کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی ہے، لیکن اس ضعیف روایت میں ہے کہ حضرت علی ؓ نے حضرت ابو بکر ؓسے حضرت فاطمہ ؓ کی نماز جنازہ پڑھوائی
حضرت ابو بکر ؓ کے لئے یہ کیاکم فضیلت ہے کہ حضرت علی ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ سے حضرت فاطمہ ؓ کا جنازہ پڑھوایا۔اس کے لئے عبارت یہ ہے
36۔ عن الشعبی ان فاطمۃ ؓ لما ماتت دفنہا علی ؓ لیلا و اخذ بضبعی ابی بکر الصدیق فقدمہ یعنی فی الصلاۃ علیھا۔ (بیہقی،کتاب الجنائز، باب من قال الوالی احق بالصلاۃ علی المیت من الوالی، ج ۴، ص ۶۴، نمبر ۶۹۸۶)
ترجمہ۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ ؓ کا انتقال ہوا تو حضرت علی نے ان کو رات کے وقت دفن کیا۔اور حضرت ابو بکر ؓ کے باہوں کو پکڑ کر آگے بڑھایا، یعنی حضرت فاطمہ پر نماز جنازہ پڑھائیں
حضرت ابو بکر ؓ، اور حضرت عمر ؓ حضور ؐ کے خسر ہیں
یہ بہت بڑی فضیلت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ حضور ؐ کے خسر ہیں، ان دونوں نے اپنی اپنی بیٹیاں حضور ؐ کو دی ہیں، اس لئے انکو برا بھلا نہیں کہنا چاہئے، یہ کون برداشت کرے گا کہ کوئی ان کے خسر کو برا بھلا کہے
ان دونوں حضرات کی حکمت عملی سے مسلمانوں میں انتشار نہیں ہوا، اگر ان دونوں کا رعب، دبدبہ، اور حکمت عملی نہ ہوتی تو جو انتشار اور اختلاف حضرت علی ؓ کے آخری زمانے میں ہوا، وہی انتشار اور اختلاف حضرت ابو بکر ؓ کے زمانے میں ہو جاتا۔۔ اس وقت کے حالات پر غور کرکے فیصلہ کریں
امیر المومنین حضرت عمر ؓ کے فضائل
37۔عن ابی ہریرۃ قال قال النبی ﷺ لقد کان فیما قبلکم من الامم محدثون فان یکن فی امتی احد فانہ عمر۔
عن ابی ہریرۃ قال قال النبی ﷺ لقد کان فیما فیمن کان قبلکم من بنی اسرائیل رجال یُکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء فان یکن فی امتی منھم أحد فعمر۔(بخاری شریف، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب مناقب عمر بن الخطاب، ص ۰۲۶، نمبر ۹۸۶۳)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ: تم سے پہلے امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے، اگر میری امت میں کوئی محدث ہوتا تو وہ عمر ہوتے َِ
ابو ہریرۃ نے فرمایا کہ حضور ؐ نے فرمایا تم سے پہلے بنی اسرائیل میں کچھ لوگ ہوتے تھے جو نبی تو نہیں ہوتے، لیکن فرشتہ ان سے بات کرتے تھے، اگر امت میں یہ ہوتے تو حضرت عمر ؓ ہوتے
اس حدیث میں ہے کہ حضرت عمر ؓ میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ محدث بنتے، لیکن اس امت میں محدث کا درجہ نہیں ہے اس لئے وہ محدث نہیں بن سکے،
باقی فضیلتیں، حضرت ابو بکر ؓ کے عنوان میں گزر چکی ہیں
حضرت عمر ؓحضرت علی ؓ کے داماد ہیں
ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت علیؓ، اور حضرت فاطمہ ؓ کی بیٹی حضرت ام کلثوم ؓ سے ۷۱ ؁ ھ میں نکاح کیا، اور حضرت علی ؓ کے داماد بنے، اس لئے ان کو برا بھلا کہنے کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ حضرت علی ؓ نے انکو اپنا داماد بنایا ہے۔
اس کے لئے احادیث یہ ہیں
38۔ ان عمر بن الخطاب قسم مروطا بین نساء من نساء المدینۃ فبقی مرط جید فقال لہ بعض من عندہ یا امیر المومنین اعط ھذا ابنۃ رسول اللہ التی عندک یرید ام کلثوم بنت علی فقال عمر ام سلیط احق۔ (بخاری شرف، کتاب الجہاد و السیر، باب حمل النساء القرب الی الناس فی الغزو، ص ۶۷۴، نمبر ۱۸۸۲)
ترجمہ۔ حضرت عمر ؓ نے مدینہ کی عورتوں میں چادر تقسیم کی، ایک اچھی چادر باقی رہ گئی، تو جو ان کے پاس تھے ان میں سے کسی نے کہا، امیر المومنین یہ چادر رسول کی اس بیٹی کو دیجئے جو آپ کے پاس ہے، یعنی ام کلثوم بنت علی ؓ کو دیجئے، تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ ام سلیط اس کا زیادہ حقدار ہے۔
اس حدیث میں ہے کہ ام کلثوم حضرت عمر ؓ کی بیوی تھیں۔
39۔سمعت نافعا۔۔۔ و وضعت جنازۃ ام کلثوم بنت علی امرأۃ عمر بن الخطاب و ابن لھا یقال لہ زید وضعا جمیعا و الامام یومئذ سعید بن بن العاص۔ (نسائی شریف، کتاب الجنائز، باب اجتماع جنائز الرجال و النساء، ص ۸۷۲، نمبر ۰۸۹۱)
ترجمہ۔ نافع ؒ سے سنا ہے کہ۔۔۔ام کلثوم بنت علی ؓ جو حضرت عمرؓ کی بیوی تھیں ان کا جنازہ، اور ان کے بیٹے زید کا جنازہ ایک ساتھ رکھا گیا، اور ان دونوں کی امامت سعید بن عاص ؓنے کی
اس قول صحابی میں ہے کہ ام کلثوم بن علی ؓ، حضرت عمر ؓکی بیوی تھیں، ان کی شادی سن ھجری ۷۱ ؁ ھ میں حضرت عمر سے ہوئی تھی۔
جب حضرت علی ؓ نے حضرت عمر ؓ کو داماد بنایا، اور اتنی محبت کی تو اب ہم لوگوں کو چیخنے کی ضرورت کیا ہے، اور کیوں اس کی وجہ سے ہم اپنے میں لڑائی کریں، اور مسلمانوں کے دو ٹکڑے کریں۔
یہ بہت سمجھنے کی چیز ہے
امیر المومنین حضرت عثمان ؓ کے فضائل
40۔ان عائشۃ قالت کان رسول اللہ مضطجعا فی بیتی کاشفا عن فخذہ….ثم دخل عثمان فجلست و سویت ثیابک، فقال الا استحیی من رجل تستحیی منہ الملائکۃ۔ (مسلم شریف، کتاب فضائل الصحابۃ، ص ۶۵۰۱، نمبر ۱۰۴۲/ ۹۰۲۶)
ترجمہ۔حضرت عائشۃ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور ؐ میرے گھر میں پنڈلی کھولے لیٹے ہوئے تھے۔۔۔پھر حضرت عثمان آئے تو آپ ؓ بیٹھ گئے اور کپڑا ٹھیک کر لیا، تو حضور ؐ نے فرمایا کہ جن سے فرشتے شرم کرتے ہوں تو کیا میں ان سے شرم نہ کروں؟
41۔عن ابی ہریرۃ ان رسول اللہ ﷺقال: لکل نبی رفیق فی الجنۃ و رفیقی فیھا عثمان۔ ۔ (ابن ماجۃ شریف، کتاب المقدمۃ، باب فضل عثمان ؓ، ص ۷۱، نمبر۹۰۱)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ، جنت میں ہر نبی کا ایک رفیق ہو گا، اور میرے رفیق عثمان ؓ ہوں گے
42۔عن ابی ہریرۃ ان النبی ﷺ لقی عثمان عند باب المسجد فقال یا عثمان ھٰذا جبریل اخبرنی ان اللہ قد زوجک ام کلثوم بمثل صداق رقیۃ، علی مثل صحبتھا۔ (ابن ماجۃ شریف، کتاب المقدمۃ، باب فضل عثمان ؓ، ص ۸۱، نمبر ۰۱۱)
ترجمہ۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ،مسجد کے دروازے کے پاس حضور ؐ کی ملاقات حضرت عثمان سے ہوئی، تو آپؐ نے فرمایا، اے عثمان یہ جبریل ؑ ہیں جو مجھے یہ خبر دے رہے ہیں کہ رقیہ کا جتنا مہر تھا اسی کے بدلے میں تمہارا نکاح ام کلثوم سے کرایا، اور جس طرح آپ نے ان کی خدمت کی تھی، اسی انداز کی خدمت میں نکاح کرایا۔۔
حضرت عثمان ؓ حضور کے اتنے پیارے تھے کہ
حضور ؐ نے دوسری بیٹی بھی انکے نکاح میں دیا
43۔عن ابی ہریرہ قال وقف رسول اللہ ﷺ علی قبر ابنتہ الثانیۃ التی کانت عند عثمان فقال الا ابا ایم، الا اخا ایم تزوجھا عثمان، فلو کن عشرا لزوجتھن عثمان و ما زوجتھا الا بوحی من السماء، و ان رسول اللہ ﷺ لقی عثمان عند باب المسجد فقال یا عثمان ھذا جبریل یخبرنی ان اللہ عز و جل قد زوجک ام کلثوم علی مثل صداق رقیۃ و علی مثل صحبتھا۔ (طبرانی کبیر، مسند ام کلثوم بنت رسول اللہ، ج ۲۲، ص ۶۳۴،نمبر ۳۶۰۱)
ترجمہ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ، حضور ؐ اپنی دوسری بیٹی کی قبر پر کھڑے تھے جو حضرت عثمان ؓ کے نکاح میں تھی، تو آپ ؐ نے فرمایا،اے بیوہ کے باپ، اے بیوہ کے بھائی تم سنو، میں نے عثمان سے اس کی شادی کرائی تھی، اگر میرے پاس دس بیٹیاں بھی ہوتیں، تو میں ان سب کی عثمان سے نکاح کراتا، میں نے ان کا نکاح آسمان کی وحی کی وجہ سے کرایا ہے، اور یہ بات بھی ہے کہ، مسجد کے دروازے پر حضور ؐ سے حضرت عثمان کی ملاقات ہوئی تو آپ ؓ نے فرمایا، اے عثمان یہ جبریل ؑ ہیں، یہ خبر دے رہے ہیں کہ اللہ نے تمہارا نکاح ام کلثوم سے کرایا، رقیہ کا جتنا مہر تھا اسی کے بدلے میں، اور جس طرح آپ نے ان کی خدمت کی تھی، اسی انداز کی خدمت میں۔
اس حدیث میں تین باتیں ہیں
]۱[ حضرت ام کلثوم کا نکاح اللہ نے کرایا تھا
] ۲[ حضرت عثمان ؓ کتنے اچھے تھے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ میرے پاس اگر دس بیٹیاں ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے دسوں کا نکاح حضرت عثمان ؓ سے کرا دیتا
]۳[ اورتیسری بات یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے حضرت رقیہ بنت رسول ؓ کی خدمت کتنی کی ہو گی کہ، حضور ؐ نے فرمایا کہ جس اندازمیں آپ نے حضرت رقیہ ؓ کی خدمت کی ہے اسی انداز میں حضرت ام کلثوم ؓ کی بھی خدمنت کرنے کی امید میں اس کا نکاح تم سے کرا رہا ہوں
اس کا ذکر میں اس لئے بھی کر رہاہوں کہ بعض حضرات نے یہ الزام لگایا ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے حضور ؐ کی دونوں بیٹیوں کو ستایا ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک، اگر ایسا ہوتا تو حضور ؐ دوسری بیٹی کا نکاح حضرت عثمان ؓ سے کیوں کراتے،اور یوں کیوں فرماتے کہ اگر میرے پاس دس بیٹیاں ہوتیں تو یکے بعد دیگرے دسوں کا نکاح حضرت ثمان سے کرا دیتا۔۔یہ سب صحابہ پر بلا وجہ الزام ہے۔ہمیں اس سے بچنا چاہئے۔
حضور ؐ کے تمام رشتہ داروں سے محبت کرنے کی تاکید کی ہے
آپ ؐکے جو رشتہ دار ایمان کے ساتھ انتقال فرمائے ہیں اللہ نے ان سے دل سے محبت کرنے کی تاکید کی ہے،چونکہ آیت میں اس کی تاکید ہے اس لئے یہ جزو ایمان ہے، ان میں سے کسی ایک کو نکالنا،صحیح نہیں ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد یہ ہے
7۔، قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی، و من یقترف حسنۃ نزدلہ فیھا حسنا۔ (آیت ۳۲، سورت الشوری ۲۴)
ترجمہ۔ اے پیغمبر کافروں سے کہہ دو، کہ میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے رشتہ داری کے محبت کے، اور جو شخص کوئی بھلائی کرے گا ہم اس کی خاطر اس بھلائی میں مزیدخوبی کا اضافہ کر دیں گے
کچھ حضرات نے کہا کہ اس سے صرف اہل بیت والے رشتہ دار مراد ہیں، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ قربی کا لفظ عام ہے اس لئے حضورؐ کے تمام رشتہ دار مراد ہیں جو ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے ہیں
خاص طور پر یہ حضرات بہت قریب کے رشتہ دار ہیں ان سے دل سے محبت کریں
حضور ؐ کی تمام بیویوں۔خدیجۃ، عائشۃ، حفصہ ؓ، وغیرہ،سے محبت کریں، اس لئے کہ وہ آپ کی بیویاں ہیں
حضور ؐ کی تمام بیٹیوں۔ فاطمہ، زینب،، رقیہ، ام کلثومؓ سے محبت کریں، اس لئے کہ وہ آپ کی بیٹیاں ہیں
حضور ؐ کے تمام بیٹوں۔ابراہیم، عبد اللہ،قاسم، سے بھی محبت کریں، اس لئے کہ وہ آپ کے بیٹے ہیں
حضور ؐ کے دونوں داماد ۔ علی ؓ، عثمان ؓسے محبت کریں۔ اس لئے کہ وہ آپ کے دماد ہیں
حضور ؐ کے نواسے۔ حسن اور حسین ؓسے محبت کریں۔ اس لئے کہ وہ آپ کے نواسے ہیں
حضور ؐ کے دونوں خسر۔ ابو بکر، عمر ؓ۔سے محبت کریں۔ اس لئے کہ وہ آپ کے خسر ہیں
کیوں کہ یہ سب ذوی القربی ] رشتہ دار [ میں داخل ہیں ۔
آیت پر غور کریں
یہ مطلب اس وقت ہے جب قربی میں حضور کے رشتہ داروں کو شامل کریں، جیسا کہ کچھ مفسرین نے کیا ہے۔ ورنہ دوسرا مطلب یہ ہے کہ حضور ؐ سے یہ کہلوا رہے ہیں کہ آئے اہل مکہ تمہارے ساتھ میری رشتہ داری ہے، اس کی رعایت کرتے ہوئے تم مجھے نہ ستاؤ ] بلکہ بہتر یہ ہے کہ تم مجھ پر ایمان لے آؤ[
اس عقیدے کے بارے میں 7 آیتیں اور43 حدیثیں ہیں، آپ ہر ایک کی تفصیل دیکھیں
میرے اساتذہ نے کتنا احترام سکھایا!
نا چیز کو آج بڑی خوشی ہے کہ میرے اساتذہ کرام نے یہ سکھلایا کہ
تمام نبیوں کا احترام کرو ۔اور دل سے محبت کرو۔
تمام رسولوں کا احترام کرو۔اور دل سے محبت کرو۔
تمام صحابہ کا احترام کرو۔اور دل سے محبت کرو۔
تمام اماموں کا احترام کرو۔اور دل سے محبت کرو۔
تمام ولیوں کا احترام کرو۔اور دل سے محبت کرو۔
تمام آسمانی کتابوں کا احترام کرو۔اور دل سے محبت کرو۔
بلکہ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ہندو مذہب کے مقتداء کو بھی برا نہ کہوں، بہت ممکن ہے کہ وہ اپنے زمانے کے ولی اور بزرگ ہوں، اور بہت بعد میں لوگوں نے انکو کچھ اور بنا دیا ہو….. واہ رے احترام
میں نے اپنے مادر علمی] دار العلوم [ میں کبھی بھی کسی مذہب والوں کے بارے میں نا زیبا جملے استعمال کرتے نہیں سنا۔
آج دنیا کی حالت دیکھتا ہوں تو اپنے اساتذہ کی اس نصیحت پر دل سے دعائیں نکلتی ہیں ۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
%d bloggers like this: