اہم خبریں

عہد حاضر میں گاندھی اور مارکس ہی کی ضرورت ہے

سکاڑ مراٹھی ترجمہ و تلخیص: ایڈوکیٹ محمد بہاء الدین، ناندیڑ(مہاراشٹرا)

ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے نظریات افکار اور اُن کی حکمت عملی کو مہاتما گاندھی او رکارل مارکس کے ساتھ جوڑتے ہوئے اُن کے بارے میں مہاراشٹر ساہتیہ پریشد کے صدر پروفیسر ڈاکٹر راؤ صاحب کسبے کا 12 نومبر کو 75 ویں سالگرہ ہے۔ اس ضمن میں ان سے دستور، راشٹریہ واد، قومیت جیسے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی اور سیر حاصل مضامین لکھنے کے بعد اور ان کے تحریری سفر سے متعلق اب وہ گاندھی جی کے موضوع پر بنیادی طور پر غور وفکر پر پہنچ گئے ہیں۔ اس ضمن میں ان سے لیا گیا انٹرویو درج ذیل ہے۔
شری منت مانے
سوال: دنیا کی موجودہ سماجی، سیاسی حیثیت اور آپ کی تحریروں میں امبیڈکر، گاندھی، مارکس کے نظریات کا موجودہ عہد و ماحول پر کیونکر موضوع ہے، اس کے بارے میں آپ اظہار خیال فرمائیں؟
ڈاکٹر کسبے: ایک جانب عالمی سطح پر معاشی ترقی ہورہی ہے لیکن پھر بھی عملی طور پر انسان بے چین ہی ہے۔ اس طرح ایک طریقہ کی خلیج پیدا ہوچکی ہے۔ جس سے بھرنے کی صلاحیت عیسائی مذہب کے ساتھ ساتھ کسی بھی مذہب میں نہیں ہے۔ اب تشدد کرنے والے لوگ خود کو مذہبی سمجھتے ہیں۔ جو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ تشدد کے بغیر مذہب کا تحفظ ہی نہیں ہوسکتا۔ ہندو مذہب میں یہ تشدد اب ناگزیر سمجھا گیا ہے۔ ریاست کے لیے کوئی نزاع ہو یا اپنوں کی جان لینا یہ اصول بن گیا ہے۔ یہ بھگوت گیتا کا پیغام ہے۔ دوسری جانب مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے دس بارہ سال کی عمر کے معصوم بچوں پر گولیاں داغی جاتی ہیں۔ جس کے ذریعہ سے وہ یہ سمجھتے ہیں یہ حرکت انہیں جنت میں پہنچانے کا راستہ ہے۔ اس پس منظر میں مجھے گاندھی جی کی طرف راغب ہوتا ہوں۔ وہ خود کو سناتنی ہندو مانتے تھے لیکن اُن کے ہندوتوا میں سبھی لوگ شامل تھے۔ انسانی زندگی کے مسائل ذات پات کے کسی مسئلے کا حل اہنسا سے ہوسکتا ہے۔ ایسا کہنے والے گاندھی جی دُنیا کے لیے مثال بن گئے۔ معاشی سرمایہ داری نے کتنے ہی روپ بدل لیے۔ جیسے کہ عام لوگوں کی فلاح و بہبودی کا دعویٰ لایا گیا۔ لیکن غریب پھر بھی غریب ہی رہے۔ یہ خلیج کی تکمیل کے لیے سماج واد کا نظام لانے کی بات جو کارل مارکس نے کہا تھا وہ آج کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ مارکس اب ختم ہوچکے ہیں لیکن جو آج بھی ہمارے کام کے ہیں اُسے ہمیں لینا چاہیے۔ نئے متبادل کی تلاش کرنا چاہیے۔ پہلا راستہ جمہوریت کا اور سماج وادی نظام کی تشکیل کا ہے۔ جس کے لیے عالمی سطح پر عوامی رائے بنانی چاہیے۔ دوسرا ذریعہ انقلاب کا ہے۔ دُنیا میں اب انقلابی لوگ نہیں رہے ہیں۔ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر سوچ و فکر ایک بازو تو گاندھی جی دوسرے بازو، مارکس سے متصادم نظر آتے ہیں۔ امبیڈکر نے اپنی تمام زندگی اور طاقت چھوت چھات کے مسئلہ پر اور ذات پات کے امتیاز کے خلاف ہی خرچ کرڈالی۔ دُنیا کے سوشل آرڈر پرغوروفکر کا مطالعہ ہندوستانی سوچ و فکر کو عالمی سوچ و فکر، بات چیت کے ذریعہ رابطہ بنانا چاہیے۔ ایسا وہ کہتے ہیں کہ مفکرین جس طرح سے گاندھی کی تصویر کو کلر دیتے ہیں ویسے وہ اختلافی نہیں ہیں۔ ”جنتا اور سمتا“رسالوں کے ذریعہ اپنے خط میں امبیڈکر نے انہیں گاندھیکوگوتم بدھ کے بعد بڑا انقلابی کہا ہے۔ اختلاف صرف اتنا ہی تھا کہ ذات پات کے خلاف گاندھی جی پروگرام اُتنی قوت سے نہیں اُٹھاتے تھے، لیکن گاندھی جی کو چھوت چھات کے خلاف اور اس کے خاتمہ کے لیے لوگوں کے ذہن کے ذریعہ کرانا چاہتے تھے۔ جہاں سیاسی گاندھی کی ہار ہوتی ہے تو وہیں ”مہاتما گاندھی“کامیاب ہوتے ہیں۔ پونے معاہدہ کے وقت انہوں نے کتنا بڑا چکمہ دیا دیکھو۔ گاندھی جی کی جان بچانے کے خاطر ملک بھر کے مندر، پنگھٹ یہ نچلے طبقہ کے لیے کھلے کیے گئے۔ بالکل نہرو کی اصل بنیاد ہی یہی ہے کہ انہوں نے چھوت چھات والی عورتوں کا بنایا ہوا کھانا نہ صرف بنوایابلکہ ان کے ساتھ کھانا بھی کھایا۔
سوال: امبیڈکر، گاندھی اور مارکس کے تناظر میں سناتنی ہندو، چار ذاتوں کا نظام، چھوت چھات کے خاتمہ کے بارے میں گفتگو کرنے کے لیے راشٹریہ سیوئم سنگھ کا ذکر کس طرح کرتے ہیں؟
ڈاکٹر کسبے: گاندھی اور امبیڈکر کے آزادی کی لڑائی کے زمانہ میں ان کا جو طریقہ کار رہا ہے اُس زمانہ میں انگریزوں کا جو رویہ تھا اُس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ملک یا پھر نئی حکومت سماج واد کی بنیاد پر سیکولرازم کے اصولوں پر بننے جارہی تھی۔ تاریخ میں یہ ملک ایک ہندو راشٹریہ تھا جو باوقار تھا۔ ایسا ذکر کرتے ہوئے راشٹریہ سوئم سنگھ کا کہنا ہے کہ اُسی ملک کی بازیافت کرنے کا خیال آر ایس ایس کے سامنے آیا ہے۔ یہ صحیح ہے، لیکن وہ اندرونی اختلافات پر مشتمل تھا۔ بنیادی طور پر ہندو توا کا نظریہ ہی مبہم تھا۔ ساورکر یا گولکر کو ہندو کی تعریف ہی کرنے نہیں آئی۔ بنیادی طور پر جسے ہم آپ قوم سمجھتے ہیں اُس طریقہ کا یہ ملک کبھی راشٹریہ نہیں تھا۔ 9/ویں صدی عیسوی تک ملک میں بودھ مذہب کا دور دورہ تھا۔ تیرھویں صدی عیسوی کے بعد مسلمانوں کی شاہی قائم ہوئی۔ اس کے بعد برٹش آئے۔ پھر کہاں تھا ہندو راشٹریہ؟ اب بھی نریندر مودی کی کامیابی کے بعد ہندو راشٹریہ کی صدا بلند اگر کی جارہی ہے تو وہ صحیح نہیں ہے۔ بنیادی طور پر سیاست کی بنیاد کبھی بھی مذہبی نہیں رہی ہے۔ آج ہی ذات پات کی سیاست چل رہی ہے۔ اگر مذہبی بنیاد ہوتی تو گاندھی جی کی تائید میں 95 فیصد ہندو اور سنگھ کے نظریات کی تائید میں پانچ فیصدی لوگ نہیں رہے ہوتے۔ مودی کی سیاسی کامیابی او بی سی اور چھوٹے ذات پات کی بنیاد پر ہے۔ وہ ہندوتوا کی بنیاد پر نہیں۔ یہ چھوٹی ذاتیں او بی سی مستقبل میں کبھی بھی ہندو راشٹریہ کے تصور کو ماننے والے نہیں ہیں۔
سوال: ”جھوت“ کی اشاعت کے بعد آپ کی سوچ و فکر کا سفر 1978ء سے لیکر آج تک جس درجہ پر پہنچا ہے اُس میں کہیں کوئی تبدیلی وغیرہ تو نہیں ہوئی؟
ڈاکٹر کسبے: ویسے دیکھا جائے تو اس میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں ہے، لیکن جیسے جیسے زمانہ آگے جاتا ہے ویسے سمجھ بوجھ و فہم میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ چار دہوں کی سوچ و فکر تھوڑی بہت تبدیل ہوئی ہے یہ صحیح ہے لیکن وہ اپنے اصل منبع و مرکز سے دوٗر نہیں ہوئی۔ کئی برسوں کے بعد ”جھوت“ پھر سے شائع ہوئی۔جس میں بنیادی تحریریں جوں کی توں رکھتے ہوئے صرف میں نے تفصیلی طور پر نیا دیپاچہ ہی لکھا ہے۔ 1925ء میں لکھی گئی مارکس اور امبیڈکر کی کتاب کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے۔ اُس کا بھی ترمیم شدہ ایڈیشن میں بنیادی تحریری جوں کی توں قائم رکھتے ہوئے دیپاچہ کے ذریعہ میں نے اپنے نئے خیالات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کے دوران مجھے مہاتما گاندھی کی پہنچان ہوئی ہے۔
سوال: سمجھئے آپ کی تحریروں کا آغاز امبیڈکر کے بجائے گاندھی سے ہوئی ہوتی تو؟
ڈاکٹر کسبے:آپ کی طرح سوال مجھے بھی محسوس ہوا۔ بہوجن سماج کے بانی کاشی رام میرے قریبی دوست تھے۔ ”جھوت“ کی تحریر کے دوران امبیڈکر اور مارکس پر لکھی گئی کتاب پر انہوں نے دلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک سیمینار رکھا تھا۔ جس میں کاشی رام، رام ولاس پاسوان اور میں مقرر تھے۔ اُس وقت تقریروں کے دوران پانچ گالیاں گاندھی جی کو، پانچ مارکس کو، اُتنے برہمنوں کو دی ہیں۔ جس پر تالیاں بجیں۔ تقریر کے بعد ایک نامانوس ضعیف آدمی میرے قریب آیا۔ اُس نے تقریر کو پسند کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ ذات پات اور چھوت چھات کے خاتمہ کے لیے گاندھی کا سب سے بڑا شاگرد کوئی ہے کیا؟ گاندھی کو پڑھو پھر تمہیں معلوم ہوگا۔ دوسرا معاملہ یوں ہے کہ کسی مہاتما کے بارے میں لکھنا اگر ہو تب تو اس کی اندرونی کیفیت درونِ دل میں گھسنا ہوگا اور مہاتما گاندھی کے تقریباً ساٹھ سوانح حیات پڑھنے کے بعد معلوم ہوگا کہ گاندھی جی کی کیسی شخصیت ہے کہ وہ تمہیں اپنے اندر گھسنے ہی نہیں دیتے۔ پھر بھی آپ اُن کے درونِ دل میں داخل ہوکر ویسے اُن کی اندرونی کیفیت سے متعلق”لوئی فشر“ اور”پائی“ کی تحریروں کو چھوڑ کر بقیہ تحریریں سرسری طور پر ہی ہیں۔ اندرونی کیفیت میں گھسنے کے لیے تمہیں گاندھی جی کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنی پڑے گی۔ میں نے وہ کھیلا ہے۔ اس لیے میری آخری تحریری گاندھی پر ہوگی۔ ایک طریقہ سے گاندھی جی مجھے بہت دیر سے ملے۔ یہ بہت اچھا ہوا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close