اسلامیات

خلاصہ پارہ نمبر 03

تلخیص: مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی صاحب

خلاصہ پارہ نمبر 03
تلخیص: مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی صاحب۔
تیسرا پاره تلكَ الرُّسُلُ ” سے شروع ہے، اس کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ ہم نے رسولوں میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، ویسے بھی رسول میرے بھیجے ہوئے ہیں اور سب پر ایمان لانا ضروری ہے، مگر ان کی رسالت ان کے زمانہ تک محدود تھی ، اس میں دو بڑی آیتیں بھی ہیں ، ایک آیۃ الکرسی ہے، جس کی فضیلت بہت ہے، اس میں سترہ مرتبہ اللہ کا ذکر آیا ہے، دوسری آیت میں تجارت اور قرض کے احکام بیان کیے گئے ہیں، اس پارہ میں دو نبیوں کا ذکر بھی آیا ہے، ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود سے مباحثہ اور مردوں کے زندہ کرنے کے مشاہدے کا ذکر ہے ، جب کہ دوسرے نبی حضرت عزیر علیہ السلام کا ذکر ہے ، جنھیں اللہ تعالی نے سو سال تک موت دے کر زندہ کیا۔ اس پارہ میں صدقہ اور سود کے فرق کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ صدقہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے کہا کہ صدقہ سے بظاہر مال کم ہوتا ہے اور سود سے مال بڑھتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ صدقہ سے مال بڑھتا ہے، اور سود سے مال گھٹتا ہے۔
اس کے بعد سورہ آل عمران شروع ہوتا ہے، اس سورت کی ابتدامیں سورۂ بقرہ اور سورہ آل عمران کے درمیان مناسبت کا ذکر ہے ، وہ مناسبت یہ ہے کہ دونوں سورتوں میں قرآن کی حقانیت اور اہل کتاب سے خطاب کیا گیا ہے، پھر اللہ کی قدرت و طاقت کا ذکر ہے، اس سلسلہ میں جنگ بدر کا واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس جنگ میں صرف تین سو تیرہ صحابہ تھے اور وہ نہتے تھے اور کفار مکہ کی تعداد ایک ہزار تھی اور وہ ساز و سامان سے لیس تھے، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غلبہ عطا کیا اور کفار مکہ کو شکست دی۔ اس میں دوسرا واقعہ حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کا بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی جانب سے ان کے پاس بے موسم پھل آیا کرتے تھے، پھر ان کے نذر کا بیان ہے کہ انہوں نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ اے میرے رب ! میں نے نذر مانی ہے کہ میرے بطن میں جو ہے وہ اللہ کے راستہ میں وقف رہے گا، تو اس کو قبول فرما، مگر اولاد میں بیٹا نہیں ہوا؛ بلکہ بیٹی ہوئی تو وہ مایوس ہوگئی؛ مگر اللہ تعالی نے جواب دیا کہ بیٹا ہوتا تو اس بیٹی کی طرح نہیں ہوتا ۔ تیسر اواقعہ حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولا د عطا ہونے کا ہے۔ چوتھا واقعہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بغیر باپ کے پیدا ہونے اور بچپن میں بولنے کا ہے، پھر جب نصرانیوں نے ان کو صلیب یعنی سولی پر چڑھانا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ آسمان پر اٹھالیا، اس پارہ میں کفار و مشرکین سے مناظرہ اور مباہلہ کا بھی بیان ہے، پہلے ان سے مناظرہ ہوا، پھر مباہلہ ہوا کہ تم اپنے اہل و عیال کو لے آؤ اور ہم بھی لے آتے ہیں، پھر ہم سب اللہ سے دعا مانگیں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اس پر خدا کی لعنت ہو، مگر وہ تیار نہیں ہوئے ، تو انھیں دعوت دی گئی کہ ہم سب کلمہ لا الہ الا اللہ پر مفاہمت کریں ، اس پارہ میں اس کا بھی ذکر ہے کہ تمام انبیائے سابقین سے عہد لیا گیا کہ جب اللہ کے آخری نبی آئیں تو تم سب ان کی بات مانو گے، ان پر ایمان لاؤ گے ، اور اگر تمہارے بعد آئیں تو تمہاری امت کے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان پر ایمان لائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close