فکرِمساجد بھی منزل پار ہے صاحب ۔۔۔ _________________________
مفتی نظرالاسلام قاسمی الظہیری۔۔خادم مدرسہ نورالعلوم موریٹھا ۔دربھنگہ ۔۔9608720882
____
====================
حدیث پاک میں جناب نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کل قیامت کے دن میدان محشر میں سارے کے سارے لوگ حیران و پریشان ہونگے نفسا نفسی کا عالم ہوگا اپنی ذات کو لیکر عام اور خاص دونوں حتی کہ انبیاء کرام بھی فکر مند ہونگے سایہ سایہ کی آواز ہونگی اور اس دن خدائے پاک کے سایہ کے علاوہ کسی اور کا سایہ بھی نہیں ہوگا اس ہولناکی کے عالم میں بھی سایہ پانے کے لئے رسولؐ کی ایک حدیث شریف مروی ہے جو کہ امت مسلمہ کے ضمیر کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے ارشاد فرمایا کل قیامت کے دن سوائے اللہ کے سائے کے کسی کا سایہ نہ ہوگا اس ماحول میں سات طرح کے لوگ ایسے بھی ہونگے جن کو اللہ بلا کر سایہ دیگا مضمون کا جو عنوان ہے اس وقت اور زیادہ اظہر من الشمس ہوگا جبکہ میدان محشر کو بھی سامنے لایا جائے اور تحریری شکل میں کچھ نقشہ کھینچا جائے ۔قیامت کی ابتداء نفخ صور سے ہوگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جناب اسرافیل علیہ السّلام صور اپنی منھ میں دبائے ہوئے اور سر کو جھکائے ہوئے منتظر ہیں جیسے ہی ندائے الہی گونجے گی وہ صور پھونکنا شروع کردیں گے کتب احادیث کے مطابق یہ جمعہ کا دن ہوگا لوگوں کے صبح وشام کے معمولات جنکے جو چلے آرہے ہیں وہ چلتے ہی رہینگے لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہونگے اچانک چاروں سمت ایک آواز کو سنیں گے جو آہستہ آہستہ بڑھ تی ہی جائے گی آواز کی سختی اور ہولناکی سے جو جہاں ہونگے وہیں گڑ پڑینگے نظام کائنات درھم برھم ہوجائے گا آسمان پھٹ جائے گا سورج چاند ستارے بے نور ہوجائنگے دریاؤں سمندروں میں آگ بھڑک نے لگیں گے اونچے اونچے پہاڑ غبار بن کر اڑنے لگیں گے مخلوقوں کی بستی میں چوں چرا کی بھی آواز نہیں ہونگی فرشتے بھی فنا ہوجائنگے ۔میدان محشر کا عالم یہ ہوگا کہ ننگے پاؤں ننگے بدن ہونگے جسم پگھل رہے ہونگے پسینے پسینے سے لوگ شرابور ہونگے پسینے کا عالم یہ ہوگا کہ کسی کو ٹخنوں تک تو کسی کو پنڈلی تک کسی کو گھٹنوں تک تو کوئی زانؤں تک اور کسی کو ادھا دھر اور کسی کا تو سارا کا سارا جسم ہی لبا لب ہوگا آج سورج کا جو ہماری زمین سے فاصلہ ہے وہ 9/ کروڑ 30 / لاکھ میل ہے اس کے باوجود گرمی کے زمانے میں ننگے پاؤں اور بدن رہنا ایک منٹ بھی بھاری پڑتا ہے اور آج کے مقابلہ میں درجہ حرارت 9/ کروڑ درجہ زیادہ ہوگا ایسے ماحول میں اگر کسی کو سکون مل سکتا ہے اور سایہ نصیب ہوسکتا ہے تو وہ وہ لوگ ہونگے کہ فرمایا رسولؐ نے جس نے اپنے دل مسجد سے معلق کر رکھا ہوگا جس کے دل ودماغ میں دنیاوی فکروں کے ساتھ فکر مساجد بھی پلتے ہونگے ۔۔۔لیکن آج نظام مساجد کو لیکر اتنی بے راہ روی اور ذمداران مساجد کی طرف سے اس قدر لاپرواہی برتی جارہی ہے جو پوری امت کو شرمسار کر دینے کے لئے کافی ہے مسجدوں کے اندرونی معاملات کو لیکر جو کمیٹی تجویز کئے جاتے ہیں وہ تو انانیت کی چادریں اوڑھ کر سوتے ہیں ۔اور متولی کی طرف سے عموماً یہ منظر کم و بیش ہر جگہ نظر آتا ہے کہ کافی آمدنی ہوتے ہوئے بھی مسجد کا نظم خراب سے خراب تر ہورہا ہے نہ مسجد میں صفائی ہے نہ روشنی کا درست انتظام ہے فرش ٹوٹ رہا ہے دیواروں کی خستہ حالت وضو خانہ میں پانی ناپید ہے اور امام و مؤذن وقت کی پابندی سے کام نہیں کرتے مزید یہ اور غضب ہے کہ وقف نامہ کی صراحت کے باوجود امام کا انتخاب مشاہرہ کی وجہ سے نامعقول ہے ایسا امام جو خود مسائل ضروریہ سے واقفیت نہیں رکھتا ہو دوسروں کی رہنمائی کیا کرےگا متولی کو اس بات پر کامل یقین رکھنا چاہئے کہ کل اس کو مرنا ہے افسوسناک بات تو یہ کہ وقف کی آمدنی کا نہ کوئی حساب کتاب ہے نہ اخراجات کے اصول و ضوابط پیسے کو بیجا استعمال کرنے کو فخر سمجھتے ہیں اس لئے متولی حضرات کو اپنے کا ر کو حسن وخوبی کے ساتھ انجام دینا چاہئے یا پھر اس سے علیحدہ ہونا چاہئے آج اس وقت نظام مساجد کو بھی درست کرنے کی ضرورت ہے اور لوگوں کے ذہن میں مساجد کی جو فضیلت و اہمیت ہونی چاہیئے وہ کچھ کی ہی حد تک محدود ہے مساجد تو امت مسلمہ کا مرکز ہے اور مسجدوں ہی کے نظام درھم برھم ہوجائنگے تو پھر امت کا کیا ہوگا بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں دو دو تین تین مسجدیں ہیں اور جن مسجد میں جمعہ کی نماز نہیں ادا کی جاتی جگہ نہ ہونے کی بناء پر ان مسجدوں کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ امام و مؤذن بھی نہیں مساجد سے نکلنے والی آوازیں اور تحریریں امت کے لئے آب حیات کے مانند ہونا چاہئے تھا لیکن بڑا افسوس ہوتا ہے ایسے لوگوں پر جو ان سب چیزوں سے ناآشنا ہوتے ہیں کچھ روز قبل بذریعہ ٹیلفون ایک مخلص دوست سے باتیں ہورہی تھی دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ چند روز قبل گھر آنا ہوا تھا چھٹی گذار کر جس جگہ امامت کے فرائض کو انجام دے رہاتھا جب وہاں جانا ہوا تو کمیٹی کے لوگوں نے کہا کہ آپ اخباروں میں آتے ہیں اور موجود دہ دور کو لیکر خیالات کا اظہار کرتے ہیں آپ کو صحافت چھوڑ نی ہوگی ہم کمیٹی کے لوگوں پر خطرہ ہے انکار کی صورت میں آئندہ نہ رکھنے کا فیصلہ کرلیا افسوس ان کمیٹیوں پر جو اپنے اندر ایسی ذہنیت کو پلنے دیے تے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ذمداران مساجد اس طرح کی ذہنیت کو ختم کریں اور امت کے رہبر و رہنما اپنی تقاریروں میں فضائل مساجد کو بھی شامل کریں ۔۔