جس کو ہم تنظیم کہتے ہیں، اس کا شرعی نام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے، وہ جماعت ہے، تنظیم کرنے کی ”جمع“ یا جمع کلمہ“ اور تنظیم ہونے کو اجتماع یا اجتماعِ کلمہ کہا گیا ہے، اس جماعت کے صدر یا رئیس کا نام امام یا امیر اور اس کے ارکان مشورہ کا نام اولوالامر ہے، ڈسپلن کا شرعی نام جس کی تاکید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے، اطاعت ہے، اور آزادی کے اظہار کا نام قولِ حق ہے، اگر ہ مسلمانوں کی تنظیم اور شیرازہ بندی کرنا چاہتے ہیں، اور یقینا مسلمانوں کو زندہ رہنے کے لیے اس تنظیم کی حاجت ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بغیر اس کے ہیئت اسلامیہ کا وجود ہی نہیں ہوسکتا۔ آج ہمارے سینکڑوں کام ہیں، ہر کام کے لیے ایک ایک عالمگیر مجلس یا انجمن ہم نے قائم کی ہے، قوم پر اثر رکھنے کے لیے، تاکہ ان کے کاموں کے لیے ان کو روپیہ ملتا رہے، آج ہر شہر میں ہر اسلامی مجلس اور انجمن دوسری مجلس یا انجمن سے ٹکرا رہی ہے، ہمارے ہر کام کی ابتدا گداگری سے ہوتی ہے اور کم از کم دو تین نسلیں اینٹ چونے کی عمارت اور فراہمی سرمایہ میں کھپ جاتی ہیں، اور کارکنوں کو اصلی کام کا موقع یا ملتا ہی نہیں یا کم ملتا ہے، اور یہ ہماری تباہی کے اسباب ہیں، ان سب کا علاج یہ ہے کہ ہماری ہیئت اجتماعی یا جماعت بندی پوری طرح کی جائے، اس کے بغیر ہم یا صرف منتشر اور بکھرے ہوئے افراد ہیں، جماعت نہیں، اور اس لیے ہم اس حالت میں کسی جماعت اور کسی قوم کا مقابلہ نہیں کرسکتے، یا مختلف مجلسوں اور انجمنوں میں بٹی ہوئی مختلف ٹولیاں ہیں، جو خود باہم ہاتھا پائی میں مصروف ہیں، مختلف خانوادوں اور پیروں کے مرید ہیں جو الگ الگ حصوں میں بٹے ہوئے ہیں، اور آہ! کہ وہ کیفیت ہے جو قرآن پاک نے کبھی نا مسلموں کی بتائی تھی کہ:
تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعاً وَّقُلُوْبُہُمْ شَتّٰی (حشر)
بظاہر تو ان کو ایک سمجھتے ہو حالاں کہ ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوتے ہیں۔
(مولانا سیّد سلیمان ندوی نور اللہ مرقدہ،خطبہ َصدارت ,اجلاس ہفتم ، جمعیت علمائے ہند ،منعقدہ ، 11/ تا14/مارچ 1926ء مطابق25/ تا28/شعبان1344ھ، بمقام کلکتہ