اکثر ہم لوگ اہل علم کی زبان سے سنتے رہتے ہیں ۔کہ دنیا کے تمام علوم وفنون کاسرچشمہ قران حکیم ہے ۔ اورہماراایمان بھی ہے اورقران کی عظمت اوربرتری کاتقاضابھی ہے کہ یہ کہاجاٸے ۔ اوریہی کہابھی جاناچاہیے ۔اور یقین جازم کے ساتھ یہی اعتقاد بھی ہوناچاہیے۔۔دوسرے یہ کہ قران یہ کوٸی ساٸنسی تھیوری پر مبنی کتاب نہیں ہے کہ اس میں ساٸنسی انداز سے غوروفکر کیاجاٸے۔بلکہ یہ کتاب ہدایت اورآخری دستور حیات ہے۔ اورقران کایہ حق ہے کہ اسے اسی طرح قبول کیاجاٸے ۔۔اس تمہید کے بعد میں یہ عرض کرناچاہتاہوں کہ جب قران سرچشمہ علم وعرفان ہے۔اورآج انسانوں نے کاٸنات کے اسرارورموز کی جوواقفیت حاصل کی ہے۔اورپھر تحقیقات وانکشافات کی جس منزل تک پہونچاہے۔ وہ قرانی اشارات ورہنماٸی ہی کی دین ہے۔ اگر قران نہ ہوتاتو شایددنیا عقل ودانش کی اس منزل تک رساٸی حاصل نہ کرپاتی۔ ۔مگرمدبرین قران اورمسلم دانشوروں سے یہ سوال ہےکہ آخر انھوں نے قران کے ان کاٸناتی اشارات تک اپنی ساٸنسی اورعلمی تحقیقات کےذریعہ رساٸی حاصل کیوں نہیں کی؟۔قران نے اس سے توکبھی نہیں روکا ۔یادین کے بنیادی اصول توتحقیقات وتدبرسے متصادم نہیں رہے۔تو پھر قران کی مددسے ہم نے کاٸنات کوسمجھنے اوردنیاکوسمجھانے کی کوشش کیوں نہیں۔ اورہمارے اندراس ضرورت کا احساس کیوں پیدانہیں ہوا؟ ۔جب ہم تفہیم قران کی بات کرتے ہیں تو محض قران پر اعتراض کرنے والوں کے چنداعتراضات کے جوبات دینے تک خود کومحدودکرلیتےہیں ۔اورہماری سوچ کادوٸرہ اس سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ ہمیں غورکرناہوگاکہ غوروفکرکے لحاظ سے کیاہم قران کاحق اداکرپارہےہیں یانہیں ۔ہم کیوں نہیں سوچتے کہ آخر قران نے ہمیں مخاطب کرکے ”فاعتبروایااولی الالباب“ کیوں کہا؟ اوراس کامقصد کیاہے۔ ۔قران نے ہمیں یہ کیوں کہا”افلایتدبرون القران۔“ اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں ۔جو موجودہ دنیا کی ساٸنسی ترقیات کے پس منظر میں ابھرکرہمارے سامنے آتے ہیں ۔ قران حکیم میں غوروفکرکے بہت سے زاوییے ہیں۔ ١۔ قرانی آیات کاوہ حصہ جو آیات احکام پر مبنی ہے ۔اس کی تفہیم وتحقیق۔میں ہم سلف صالحین کی توضیحات کے تابع ہیں ۔اوررہنابھی چاہیے۔ ورنہ احکام کی وہ معنویت جو سلف۔ اٸمہ مجتہدین اورقرون مشہود لھاسے منقول چلی آرہی ہے اورامت کا اس پرتعامل ہے۔ اس سے توکسی قیمت پر انحراف روانہیں ہے ۔اگراس میں بھی اجتہاد اورغوروفکر کادروازکھل جاٸے توہرشخص اپنی راٸے سے تشریح کرنا شروع کردےگا اوراحکا م دین کھلونابن کررہ جاٸیں گے ۔ ٢۔اسی طرح قران کا وہ حصہ جو اقوام وملل کے حقاٸق وواقعات پرمبنی ہے۔وہ بھی جدیدتحقیقات کامحتاج نہیں ہے۔ وہ جیسا ہے اورسلف سے ان سے متعلق آیات کے مفاہیم اورمصداق متعین چلے آرہے ہیں ۔ان میں بھی ہم انھیں کے تابع ہیں ۔چونکہ وہ احادیث مبارکہ اورسلف سے منقول ہیں اسے ”تذکیر بایام اللہ“ کے زمرے میں رکھاگیاہے۔۔ ٣۔قران کاوہ حصہ جو سماج اورانسانی روش پر مبنی ہے اوراس کی روشنی میں سماجی زندگی کو وحی ربانی کے تابع رکھنے میں مدد لی جاتی ہے ۔اس کی تطبیق ہردورمیں سماجیزندگی پر ہوتی رہے گی۔ تاکہ قیامت انسان اپنی زندگی کے نفع وضررکے اصول اسی سے طے کرتا اوراسی سے رہنماٸی حاصل کرتارہے۔ یہ قران کی ابدیت کاتقاضاہے۔ ٣۔قران کا وہ حصہ جس کا تعلق تفہیم کاٸنات ۔ اورشاہ ولی اللہ کے بقول ”تذکیر بآلا ٕ اللہ“ سے ہے۔اس میں غوروفکر۔اور تدبروتفکر کے دروازے کھلے ہوٸے ہیں۔اورہمیشہ کھلے رہیں گے جو ساٸنس کاموضوع ہے۔۔آج کی دنیا جس تیزرفتاری سے ساٸنسی تحقیقات کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہے۔ حاملین قران کی ذمہ داری بڑھتی جارہی ہے کہ وہ قران کی رہنماٸی میں اپنی ساٸنسی تھیوریز متعین کریں اوردنیا پر اس کی حقانیت کوواضح کریں۔ عباسی دور میں جس طرح قران حکیم پر غوروفکر کے ساتھ دوسرے موضوعات پر تحقیق وجستجو کاکام بڑے پیمانے پر ۔”بیت الحکمت“ کے تحت انجام پایا آج بھی اسی نہج پر کام کی ضرورت ہے۔جو وقت نادانی میں گزرکیا وہ اب ماضی کا حصہ ہوگیا ۔مسلم دنیانے تیل کی دولت گذشتہ ساٹھ سالوں میں برباد کی ہے اگر اسےبجاٸے سڑکوں اوراونچی اونچی لایعنی عمارتوں کے امت کے استحکام اور تعلیم پر خرچ کرتی اور زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق تحقیقاتی معاہد اورجامعات قاٸم کرتی تو آج عربوں کو اعلی تعلیم کے لٸے اپنے بچوں اوربچیوں کو یورپ۔امریکہ اورفرانس بھیج کر ان کی بربادی کا رونانہ روناپڑتا ۔بلکہ امت تعلیمی۔اقتصادی۔سیاسی اوراخلاقی ہرلحاظ سے طاقتورہوتی۔اورآج اپنے پاس تعلیم یافتہ افراد نہ ہونے کی وجہ سے امریکہ اوریورپ جس ڈھٹاٸی کے ساتھ ڈول بھربھرکے فری میں تیل لے جارہاہے۔نہ لےجاتا۔اورآج جس طرح ایک بندوق خریدنے کےلٸے بھی عرب دنیا فرانس۔امریکہ۔اوریورپ کی محتاج ہے۔ نہ ہوتی۔اس سے بڑی بدقسمتی اورکیاہوگی کہ عرب دنیا اپنی ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کے لٸے امریکہ کی محتاج ہے۔کبھی تنہاٸی میں احتساب تو کرتے۔اوراس پربھی طرفہ یہ ہےکہ وہ روش چھوڑنے کے بجاٸے مزید اس میں نازاں اورفرحاں غرق ہوتے جارہے ہیں ۔ امت بے حیثیت ہوچکی ہے اور خوش فہمی میں جی رہے ہیں کہ ہماری کرنسیاں بڑی بڑی ہیں۔ جب نوبت یہاں تک آن پہونچے کہ ترقی کےلٸے یورپ کی برہنہ تہذیب کاسہارالیاجانے لگے توپھر حمیت دینی اورغیرت ملی کے جنازے پر یہی پڑھاجاٸے گا۔ ”حمیت نام ہے جس کا گٸی تیمور کے گھرسے“۔ اللہ تعالی امت کودیدہ بیناکی دولت سے سرفرازفرماٸے آمین ۔طالب احمدنادرالقاسمی۔۔(١٦ سپتمبر ٢٠٢٣)
Related Articles
چیف جسٹس کی فکر مندی ___
ستمبر 3, 2022
موجودہ حالات اور ہماری ذمہ داریاں
فروری 26, 2021
غنیمت سمجھ زندگی کی بہار
جنوری 2, 2023
یہ بھی پڑھیں
Close