ماہ صفر اور تو ہمّ پر ستی ” اسلامی تعلیمات کے منافی عمل!
✍️:مولانا فیاض احمد صدیقی رحیمی صدر مدرس ؛مدرسہ عربیہ ھدایت الا سلام انعام وہار سبھا پور دھلی این سی آر

Faiyazsiddiqui536@gmail.com
____=====____
محترم قارئین :
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ضلالت و جہالت سے مبرا اور دلائل و براہین سے آراستہ ہے۔ اسلام کے تمام احکام پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔ اور اس دین مبین میں خرافات و بدعات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں: {اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا}(المآئدہ 3) آج کے دن ہم نے تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی۔ اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین پسند فرمایا۔ اب کوئی نام نہاد عالم دین مفتی محدث ایسا نہیں کر سکتا کہ اس دین مبین میں اور صاف و شفاف چشمے میں بدعات و خرافات کا زہر ملائے۔ لیکن افسوس ہے کہ شیطان اور اس کے پیروکاروں نے اس دین صافی کو ضلالت و جہالت سے خلط ملط کرنے اور خرافات سے داغ دار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شیخ علیم الدین سخاوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’المشہور فی اسماء الایام والشہور‘‘ میں لکھتے ہیں: صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً ان کے (اہل عرب) گھر خالی رہتے تھے اور وہ لڑائی بھڑائی قتل و جدال اور سفر پر چل دیتے تھے جب مکان خالی ہو جائے تو عرب کہتے تھے: ’’صفر المکان‘‘ مکان خالی ہو گیا۔ کیونکہ صفر سے پہلے حرمت والے تین ماہ اکٹھے آتے ہیں اس میں وہ قتال و جدال نہیں کیا کرتے تھے بلکہ قتال کرنا ان مہینوں میں حرام ہوتا تھا جب یہ ماہ ختم ہو جاتے تو فوراً اپنے گھروں سے قتال کے لیے نکل پڑتے تھے اور گھروں کو خالی کر دیتے تھے۔ قبل از اسلام دور جاہلیت کے لوگ ماہ صفر کو منحوس خیال کرتے تھے اور اس میں سفر کرنے کو برا گردانتے تھے اسی طرح زمانہ جاہلیت میں ماہ صفر کو خیرو برکت سے عاری گردانا جاتا تھا۔ لیکن آج کے اس پڑھے لکھے دور میں عوام الناس ماہ صفر کے بارے میں جہالت اور دین سے دوری کے سبب ایسے ایسے توہمات کا شکار ہیں جن کا دین اسلام کے ساتھ دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ یہ اس قدیم جاہلیت و جہالت کا نتیجہ ہے کہ متعدد صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی عوام الناس میں وہی زمانہ جاہلیت جیسی بدعات و خرافات موجود ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کا ایک طبقہ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتا ہے اس مہینے میں توہم پرست لوگ شادی کرنے کو نحوست کا باعث قرار دیتے ہیں۔ اس مہینے سے بد شگونی لیتے ہیں اور اسکو خیروبرکت سے خالی سمجھا جاتا ہے۔ 1۔شادی نہ کرنا: اس مہینے میں پہلی بدعت یہ ہے کہ لوگ اس میں شادی نہیں کرتے، کیوں؟؟؟ اس لیے کہ اگر شادی کریں گے تو وہ شادی کامیاب نہیں ہوگی اس جوڑے میں طلاق ہو جائیگی۔ اگر یہ نہ ہوا تو پھر اولاد نہیں ہوگی اگر اولاد بھی ہو گئی تو وہ ناقص ہو گئی یعنی اس کے اعضاء درست نہیں ہونگے۔ یہ لوگوں کا عقیدہ ہے اور یہ بالکل باطل عقیدہ ہے۔ 2۔ کاروبار کا آغاز نہ کرنا: اس مہینے کی دوسری بدعت یہ ہے کہ لوگ اس میں کاروبار کا افتتاح اور آغاز نہیں کرتے، کیوں؟؟؟ اس لیے کہ اگر کاروبار شروع کر دیا تو وہ کاروبار کبھی بھی کامیاب نہیں ہوگا اگر ہو گیا تو اس کاروبار میں فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان ہی نقصان ہو گا۔ یہ عقیدہ بھی بالکل باطل ہے۔ 3۔ خود ساختہ نفلی عبادات: کچھ لوگ ماہ صفر میں خاص تربیت اور خاص مقدار میں تسبیحات پڑھتے ہوئے بعض اپنی نفلی نمازیں ادا کرتے اور اس کا حکم دیتے ہیں جن کا قرآن و حدیث سے کوئی بھی ثبوت نہیں ملتا۔ حوالہ یا دلیل مانگنے پر وہ ’’راحت القلوب‘‘ اور ’’جواہر غیبی‘‘ کتب کا حوالہ دیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں حدیث کی کتابیں نہیں ہیں۔ ۱۔ ماہ صفر کی پہلی رات نماز عشاء کے بعد ہر مسلمان کو چاہیے کہ چار رکعت نماز پڑھے۔ طریقہ کار یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ کافرون پندرہ دفعہ پڑھے اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص پندرہ مرتبہ پڑھے اور سلام کے بعد چند بار ایاک نعبد و ایاک نستعین پڑھے۔ پھر ستر بار درود شریف پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کو بڑا ثواب عطا کرے گا اور اسے ہر بلا سے محفوظ رکھے گا۔ ۲۔ صفر کے آخری بدھ صبح کے بعد غسل کر ے اور چاشت کے وقت دو رکعت نماز نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد کے بعد گیارہ گیارہ دفعہ قل ھو اللہ احد پڑھے اور سلام پھیر کر یہ درود شریف ستر دفعہ پڑھے: اللھم صل علی محمدن النبی الامی وعلی الہ و اصحابہ و بارک وسلم۔ اور اس کے بعد یہ دعا پڑھے: اللھم صرف عنی سوا ھذا الیوم واعصمنی من سوتہ و نجنی عما اصاب فیہ من نحوساتہ وکرباتہ بفضلک یا دافع الشرور ومالک النشور یا ارحم الراحمین وصلی اللہ علی محمد والہ الامجاد وبارک وسلم کسی صحیح حدیث ان نمازوں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا جب احادیث سے صحیح سند کوئی چیز ثابت نہیں ہے یہ نمازیں اور یہ طریقہ غیر شرعی ہو گا۔ ۱۔کئی لوگوں کے خیال میں ماہ صفر کا آخری بدھ منحوس ہے جبکہ امام صاغانی اور ابن الجوزی نے اسے موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے اور اسکی کوئی اصل نہیں۔ ۲۔صفر کے آخری بدھ کی نسبت یہ بات مشہور ہے کہ اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے نجات اور صحت ملی انہوں نے غسل صحت فرمایا اور سیر و سیاحت کے لیے شہر سے باہر تشریف لے گئے تھے۔ اس لیے بعض لوگ اس عمل کو سنت نبوی سمجھتے ہوئے آخری بدھ کو کاروبار بند کر کے خوبصورت کپڑے پہن کر سیر و سیاحت کے لیے نکل جاتے ہیں پارکوں اور کھیتوں میں سیرو سیاحت کے بعد جب گھر لوٹتے ہیں تو شیرینی حلوہ پوری بناتے ہیں یا گندم کو ابال کر بچوں اور غرباء میں تقسیم کرتےہیں یہ سب کام ثواب گردانتے ہوئے کرتے ہیں اور اپنے آپ کو محب رسول کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب کام من گھڑت اور خود ساختہ ہیں قرآن و حدیث کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔۳۔ماہ صفر کے آخری بدھ کے بارے میں حضرت احمد رضا خان بریلوی کا فتویٰ: سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں جو ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ (بدھ) کے متعلق عوام میں مشہور ہے کہ اس روز رسول کریم نے مرض سے صحت پائی تھی بنا بریں اس روز کھانا و شیرینی وغیرہ تقسیم کرنا اور جنگل کی سیر کو جانا کیسا ہے؟ جواب: ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ (بدھ) کی کوئی حقیقت اور اصل نہیں نہ اس میں حضور کے صحت پانے کا کوئی ثبوت ہے بلکہ مرض اقدس جس میں وفات مبارک ہوئی اس کی ابتداء اس دن سے بتائی جاتی ہے اور اسے نحس سمجھ کر مٹی کے برتنوں کو توڑ دینا گناہ اور اضاعت مال ہے بہر حال یہ سب باتیں بالکل بے اصل اور بے معنی ہے۔(احکام شریعت :حصہ دوم صفحہ 193،194) حضرت احمد رضا کے اس فتویٰ سے معلوم ہوا کہ صفر کے آخری بدھ کو سیر و سیاحت کے لیے خاص کر لینا اور اسے ثواب گردان کر درجات کی بلندی حاصل کرنا درست نہیں۔ آپ نے سیرو سیاحت کرنی ہے تو روزانہ کریں اس کے صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں نہ کریں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ ہاں اسے کسی خاص دن ثواب کی نیت سے شریعت سمجھ کر کرنا درست نہیں ہے۔ اسلامی سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: {اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ} (توبہ 36) بلاشبہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے کتاب الٰہی میں بارہ ہی ہے (اور) ان میں سے چار (مہینے) حرمت کے ہیں ۔ ان کو پیدا کرنے والی ذات اللہ رب العزت کی ذات ہے وہی ان کا مالک و خالق ہے اور وہی ذات اس میں تصرف کر سکتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ} (الاعراف 54) (اے لوگو، جان لو کہ) اسی کے لئے (خاص) ہے پیدا کرنا اور حکم دینا۔ ان بارہ مہینوں میں سے ایک صفر کا مہینہ ہے جو اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ اس ماہ کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ جس چیز کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے وہ حکم ہم بجالائیں اور جن سے منع فرمایا ہے ان سے اجتناب کریں۔ جو بدعات اس ماہ میں ہوتی ہیں ان سے بچیں کیونکہ بدعات و خرافات یہ ایسےا عمال ہیں جو دنیا میں بھی ہمارے لیے نقصان کا باعث ہیں اور کل قیامت کے دن بھی خسارے کا سبب ہو گا۔ میرے بھائیو اس ماہ کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ جن کاموں کا حکم ہے وہ کرڈالیں اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے رک جائیں۔ کوئی بھی وقت کوئی بھی دن کوئی بھی ہفتہ کوئی بھی ماہ اور کوئی بھی سال نحوست والا نہیں ہے۔ اگر کسی کا یہ عقیدہ ہے تو یہ عقیدہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور باطل عقیدہ ہے۔ اس بارے میں قرآن وحدیث سے بہت زیادہ دلائل ہمیں ملتے ہیں جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں: {لاَ عَدْوَى ، وَلاَ طِيَرَةَ ، وَلاَ هَامَةَ ، وَلاَ صَفَرَ} (صحیح البخاري (7/ 164) کوئی بیماری متعدی نہیں، نہ بد شگونی ہے نہ مردے کی کھوپڑی سے الو نکلتا ہے نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے ۔اس فرمان رسول سے ہمارا محل استشہاد یہ ہے کہ صفر کی کوئی حقیقت و حیثیت نہیں ہے۔ اور(ولا صفر) کے علماء نے تین مفہوم بیان کئے ہیں۔ پہلا مفہوم یہ ہے کہ صفر کا مہینہ منحوس نہیں۔ جیسا کہ اہل عرب اس کو منحوس گردانتے تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں اب تک بعض لوگ صفر کے مہینے کو نحوست والا سمجھتے ہیں اور خصوصاً پہلے تیرہ دنوں کو تیزی کا نام دیکر نحوست محسوس کرتے ہیں۔ اور حقیقت بات یہ ہے کہ یہ دن ہفتہ سال اور مہینے سب اللہ نے بنائے ہیں ان میں سے کوئی بھی منحوس نہیں ہوتا نفع و نقصان تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس میں کسی مہینے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ (ولاصفر) کا ایک مطلب علماء نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ولا صفر فرما کر اہل عرب کے اس نظریے کی تردید کی ہے جو ان کے درمیان مشہور و معروف تھا کہ پیٹ میں ایک کیڑا ہوتا ہے جس کو عرب صفر کے نام سے پکارا کرتے تھے جس کی وجہ سے انسان کو بھوک لگتی تھی اور جب اندر سے کاٹنا شروع کر دیتا تھا تو انسان مر جاتا تھا۔ اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (ولاصفر) کا ایک مطلب یہ ہے کہ عربوں میں جو (نسیٔ) کا طریقہ تھا آپ نے اس کا رد فرمایا ہے نسیٔ یہ تھی کہ اہل عرب حرمت والے چار مہینوں کو آگے پیچھے کر لیتے تھے۔ یعنی جب ان کو کسی حرمت والے مہینے میں لوٹ مار اور لڑائی کرنی ہوتی تو اس مہینے میں لڑائی اور لوٹ مار کر کے آگے والے مہینے کو حرمت والا بنا لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عقیدہ کا بھی رد کر دیا۔ معزز قارئین کرام یہ سب عقائد باطل ہیں ان کا تعلق قرآن و حدیث سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ کسی چیز کے ذریعہ بد شگونی لینا یہ بنی اسرائیل کا فعل تھا: جیسا کہ اللہ تعالیٰ قوم موسی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: {فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗ ۭاَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَايَعْلَمُوْنَ} (سورۃ الاعراف 131) لیکن جب ان پر خوشحالی آتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارا حق ہے (کہ ہماری کوشش کا نتیجہ ہے) اور اگر انہیں بدحالی پیش آتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو (اپنے لئے) منحوس ٹھہراتے حالانکہ درحقیقت ان کی نحوست تو اللہ کے پاس تھی لیکن ان میں سے اکثر کو (یہ حقیقت) معلوم نہ تھی۔ قارئین کرام! آج بھی اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے گا تو اس کا رد اس حدیث سے کیا جائیگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یعنی حدیث قدسی ہے۔ {قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ} (صحيح البخاري ـ (6/ 166) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آدم کا بیٹا مجھے تکلیف دیتا ہے جب وہ زمانہ (دن، رات، مہینے، ہفتہ، سال) کو گالی دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہوں بادشاہت میرے ہاتھ میں ہے۔ اور میں ہی دن اور رات کو بدلتا ہوں۔ اس حدیث سے معلوم یہ ہوا کہ زمانہ کو گالی دینا اور برا بھلا کہنا یہ کام اللہ کو تکلیف دینے کا باعث ہے۔ اور جس شخص کا ایمان تقدیر پر نہیں ہے اس کاایمان ناقص اور نامکمل ہے۔ کیونکہ تقدیر ایمان کا ایک حصہ ہے۔ اور جو شخص تقدیر کو جھٹلائے اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت بڑی وعید سنائی ہے۔ {سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَكُلُّ نَبِىٍّ كَانَ الزَّائِدُ فِى كِتَابِ اللَّهِ وَالْمُكَذِّبُ بِقَدَرِ اللَّهِ} (سنن الترمذى (8/ 307) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھے آدمی ایسے ہیں جن پر میری لعنت ہے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور سابقہ تمام انبیاء کرام کی بھی لعنت ہے ۔ ان میں سے پہلا: کتاب اللہ میں زیادتی کرنے والا۔ دوسرا: تقدیر کو جھٹلانے والا۔اور یہ نحوست والا کام اس حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں آپ نے فرمایا ستر ہزار آدمی میری امت کے بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جائیں گے۔ان کا ایک کام یہ ہو گا کہ وہ نحوست اور بد شگونی والا عقیدہ نہیں رکھتے ہونگے (صحیح مسلم)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان تمام باتوں پر عمل کر نے کی توفیق دے اور اپنے دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔آمین ثم آمین یا رب العالمین :::