مضامین

آزمائش خداوندی اور ہمارا عمل

زین العابدین ندوی دارالعلوم امام ربانی ، نیرل ۔ مہاراشٹر

خدا ئے پاک نے انسانیت کی کامیابی وکامرانی کے لئے جو رہنما کتاب نازل فرمائی اس میں غور وفکر سے جہاں ایک طرف قلبی اطمینان میسر ہوتا ہے ، وہیں دوسری جانب نظام تکوینی کو سمجھنے میں بھی بھر پور مدد ملتی ہے ، اس کتاب کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی میں پیش آنے والے تمام مراحل کے لئے مستحکم اور جامع رہنمائی رکھتی ہے ، یہ اور بات ہے کہ بعض کوتاہ بینوں کی کم فہمی کے سبب اسے صرف دعا اور تعویذ کی کتاب تک محدو د سمجھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ، جس کے برے نتائج ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ رہے ہیں اور اگر یہی روش رہی تو آخرت میں بھی ہمیں اس کی سزا بھگتنی ہوگی جس دم نبی یہ کہہ رہے ہوں گے ” یا رب ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مہجورا ” علامہ اقبال نے جس کو بیان کرتے ہوئے کہا "خوار از مہجوریٔ قرآں شدی "۔
قرآن کریم کی وہ آیات پر جس میں اللہ نے ان قوموں کا تذکرہ کیا جس پر اس کا عذاب نازل ہوا ، یا نزول عذاب سے قبل کچھ ابتلاء وآزمائش کی گھڑیوں کا بیان کیا ، اس کی ایک وجہ جو عمومی طور پر تمام مقامات پر مشترک نظرآتی ہے وہ ہے کہ شاید میرے بندے اب توبہ کرلیں اور اپنی غلطیوں سے اب باز آجائیں ، انداز بیان سے خدا کی رحمت اور اس کی بے پایاں شفقت کا اظہار ہوتا ہے اور وہ خدائے وحدہ لاشریک اپنے بندوں کو آزمائش کے ذریعہ راہ راست پر لانے کی کوشش کرتا ہے ، پچاسوں آیتیں جس میں اللہ نے آزمائش کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا ،” لعلکم تذکرون ، لعلکم تتقون ، لعلکم تہتدون ” اور اسی معانی کو ادا کرنے والی درجنوں آیتیں ہیں ، بندوں کے ساتھ اللہ کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ فرعون جیسے باغیو ں پر بھی بغرض ہدایت آزمائش سے دوچار کرتا رہا ، مگر انہیں اپنے وسائل واسباب پر اس قدر بھروسہ تھا کہ وہ کسی غیبی نظام وطاقت کو ماننے کو تیار نہ تھے ، پھر ان کا کیا انجام ہوا وہ دنیا جانتی ہے ، یہی معاملہ تقریبا اقوا م کے ساتھ ہوا ، آزمائشوں کا سلسلہ چلتا رہا اور بالآخر ان کے مسلسل تمرد کے نتیجہ میں انہیں ہلاک کر دیا گیا ، قرآن پاک میں قصص اور واقعات نعوذ باللہ کوئی افسانہ نہیں جن کو سنا سنایا جائے اور نسیا منسیا کر دیا جائے ، بلکہ وہ سامان عبرت ونصیحت ہیں جن کی روشنی میں خود کو اس عذاب اور تکلیف سے بچانا مقصود ہے ۔
ایک طبقہ ایساہر زمانہ میں موجود رہا ہے جس نے پیش آنے والے تمام مسائل کو طبعیات کے تابع بنا دیا اور یہ کہنے لگے کہ یہ زمانہ کی الٹ پھیر ہے اور ہر زمانہ میں ایسا ہوتا رہا ہے ، یقینا ہوتا رہا ہے لیکن اسی کے ذریعہ خدا بندوں کو آزماتا ہے اور ان کی اصلاح کی راہیں ہموار کرتا ہے ، جس سے بعض راہ یاب ہوتے ہیں اور اکثر مزید سرکش ہوجاتے ہیں ، کرونا وائرس کی شکل میں موجودہ آزمائش اسی کی ایک کڑی ہے ، قرآن کی روشنی میں ہمیں اس کا حل تلاش کرنا چاہئے ، اس کا حل اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہر کوئی اپنے گناہوں سے توبہ کرے ، اللہ سے استغفار کرے اور یہ کوشش کرے کہ اس کی ذات سے شریعت کی بے حرمتی ن ہونے پائے ، اللہ تعالی ایک ہی چیز سے کسی کو عزت بخشتا ہے اور بعینہ اسی چیز سے کسی دوسرے کو ذلیل کرتا ہے ، مادی جو بھی تدابیر ہوں اسکو اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ تو نہیں بلکہ ضروری ہے ، لیکن یہ کسی بھی پل نہ بھولنا چاہئے کہ خدا اگر برباد کرنے پر آئے تو دنیا کی کوئی طاقت آباد نہیں کر سکتی ، اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ اعتراف گناہ اور تضرع وانابت کے بعد آیا ہوا عذاب بھی واپس ہو سکتا ہے قوم یونس علیہ السلام کا واقعہ جس کی مثال ہے ، اور انانیت وتمرد کے نتیجہ میں امید افزاں وسائل بھی سامان تباہی بن سکتے ہیں ، اس لئے ہمیں اس آزمائش کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنی تمام خطاوں سے توبہ کرنے کی ضرورت ہے ، اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close