مضامین

اویسی کواترپردیش میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرناہوگا

جاوید جمال الدین

اویسی کواترپردیش میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرناہوگا
جاوید جمال الدین
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم)ایک عرصہ سے سیاسی طور پر سرگرم ہے،حیدرآباد اور اس کے نواح کے ساتھ ساتھ ریاست تلنگانہ میں اثرورسوخ رکھتی ہے۔گزشتہ پانچ چھ سال سے ایم آئی ایم نے اپنے سیاسی مقاصد کے تحت دوسری ریاستوں میں بھی قسمت آزمانے کا منصوبہ بنایا اور سب سے پہلے پڑوسی ریاست مہاراشٹرمیں 2014 کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں کود پڑی اور یہاں اسے کامیابی بھی حاصل ہوئی،جبکہ کئی بلدیاتی انتخابات میں بھی اسے کامیابی ہاتھ لگی تھی۔ ممبئی اور اورنگ آباد سے دوامیدوار امتیاز جلیل اور ایڈوکیٹ وارث پٹھان کامیاب ہوئے ،اور اسمبلی۔میں پہنچ گئے،اس کے بعد پھر امتیاز جلیل 2019 میں لوک سبھا پہنچ گئے اور اسمبلی انتخابات میں ایم آئی ایم اورنگ آباد اور ممبئی کے بائیکلہ سے الیکشن ہارگئی ،لیکن مالیگاوں اور ودربھ سے دو امیدوار کامیاب ہوکر ایوان میں پہنچے ہیں۔
مہاراشٹرمیں کامیابی ملنے کے بعدبیرسٹر اسد الدین اویسی نے بہار اور پھر مغربی بنگال ریاستی اسمبلی انتخابات میں کودنے کافیصلہ کیا،بہار میں معمولی سی کامیابی ضرور ملی تھی ،لیکن حیرت انگیز طور پر بنگال میں ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتابنرجی جیسی بے باک اور اقلیت نواز لیڈر کے سامنے ان کی ایک نہ چلی اور وہ کھاتا بھی نہیں کھول پائے،البتہ وہ آسام کے انتخابی میدان سے دور رہے۔مگر اسداویسی اترپردیش اسمبلی الیکشن کے لیے انتخابی بگل بجا چکے ہیں۔جوکہ آئندہ پانچ چھ مہینے میں ہونے والے ہیں اور ایم آئی ایم اترپردیش ریاستی اسمبلی انتخابات میں تقریباً سونشستوں پرامیدوار اتارنے کے اعلان کر کی ہے،جس کے نتیجے میں ایک بار پھر چہ مہ گوئیاں شروع ہوچکی ہیں اور طرح طرح کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں،جن میں سے ایک میں ایم آئی ایم کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ‘بی’ ٹیم بھی بتایاجاتا رہاہے اور یہ سلسلہ پانچ سال سے جاری ہے۔جس پر بعد میں بات کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کے تحت کسی بھی سیاسی پارٹی کو کسی بھی فرقہ اور طبقہ کی نمائندگی کرنے کی اجازت ہے،ملک کا آئین اسے اس کا حق دیتا ہے۔انتخابی دوڑ میں کسی کافائدہ اور نقصان بھی ہوسکتا ہے،لیکن کسی بھی پارٹی کو انتخابی عمل سے روکا نہیں جاسکتا ہے اور یہ کہہ کر اس کی مخالفت بھی نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک مخصوص فرقے یاسب سے بڑی اقلیت کے مسائل اور مفادات کی بات کرتی ہے۔ان کے مخالفین کو علم ہونا چاہئیے کہ جمہوری نظام میں ایم آئی ایم کو بھی پورا پورا موقعہ حاصل ہے کہ وہ دبی کچلی اقلیت کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے۔یہ الگ بات ہے کہ انہیں کتنا فائدہ ہوگا اور دوسری سیاسی پارٹیاں کس حد تک فائدہ اٹھائیں گی۔لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ ایک پارٹی اقلیتی فرقے کی آواز بن کر ابھر رہی ہے،کیونکہ حال کے دنوں میں موب لانچنگ جیسے واقعات میں اضافہ پر نام نہاد سیکولر پارٹیاں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں،ایک دو پارٹیاں ہی معمولی سی مذمت ہی کرتی ہیں۔اس موقعہ پر ایم آئی ایم ہی واحد پارٹی ہے جوکھل کا اظہار کرتی رہی ہے۔
عام طور پریہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک کی کوئی بھی سیاسی پارٹی ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں صرف ایک فرقے اور سماج کے ووٹوں کی بنیاد پر نہیں ٹک سکتی ہے، جہاں تک کانگریس کی مثال دی جاتی ہے کہ گزشتہ نصف صدی تک وہ مسلم ووٹوں کے نتیجے میں اقتدار پر قابض رہی،لیکن یہ بھی سچ نہیں ہے کیونکہ اس کے اقتدار میں رہنے کاایک ٹھوس سبب ذات پات کی بنیاد پر سیاست کرنے کابھی تھااور اس کی وجہ سے اسے اقتدار ملتا رہا، گزشتہ تین دہائیوں سے بی جے پی نے اقلیت کی منہ بھرائی کا راگ الاپتے ہوئے بڑی ہوشیاری سے اقتدار حاصل کیا ہے،اس درمیان اکثریت کی ایک بڑی آبادی کو قائل کیا گیا کہ مسلمانوں کو زائد حقوق دیئے جارہے ہیں اور ان کا حق مارا جارہا ہے۔اس مہم میں میڈیانے ان کا بھر پور ساتھ دیاہے،اس طرح کی غلط فہمیاں پیدا کی گئیں اور ہندو ووٹوں کو حکمت عملی سے متحد کرنے کا کام کیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ فسادکاسہارا بھی لیا گیا اور، مسلمانوں کے خلاف ملک کی فضاء میں نفرت کا زہر پھیلایاگیا، لیکن بی جے پی کو پتہ ہونا چاہئیے کہ نفرت کی بنیاد پر حاصل کئے گئے،اقتدار پرزیادہ دیر تک قابض نہیں رہاجاسکتا ہے۔
ایم آئی ایم سربراہ اسدالدین اویسی کو اس موقع پر سیاسی شعور کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔ اگر وہ اترپردیش میں سونشستوں پر انتخابات لڑنے کا من بناچکے ہیں تو انہیں اپنے سیاسی شعور کااستعمال کرتے ہوئے ، ایک جامع حکمت عملی کی بنیاد پر اتر پردیش میں 25 سے 30 سیٹوں پر جیت کا ٹارگیٹ مخصوص کرنا ہوگا۔کیونکہ حال میں ملک بھرمیں ایک سیاسی پارٹی جس انداز میں نفرت پھیلانے کاکام کررہی ہے اور ذرائع ابلاغ بھی مددگار ہے ،ایم آئی ایم نے جوقدم اٹھایا ہے،اور جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے، مستقبل میں ملک بھر میں خطرناک ثابت ہوسکتاہے ۔اس لیے ایم آئی ایم کو سیکولر سیاسی پارٹیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انتخابات لڑنے کی کوشش کرنا چاہئیے۔اترپردیش میں متعددعلاقائی سیاسی پارٹیاں ہیں ،جن کاتعلق پسماندہ طبقات سے ہے۔ویسے بھی موجودہ حالات میں ہندوستان میں مضبوط اپوزیشن کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ماحول تیار کر نے کی کوشش ہونی چاہئے۔حقیقت یہ بھی ہے کہ موجودہ حالات میں کسی مسلم امیدوار کا غیر مسلم ووٹوں کے بغیر جیتنا مشکل ہے۔اس لیے ایک بہتر ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔
بیرسٹر اسدالدین اویسی نے جب سے تلنگانہ یا حیدرآباد سے نکل کر شمالی ہند کی ریاستوں میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے،ان پر بی جے پی کی مدد کابلاجھجھک الزام عائد کیا جاتارہاہے،حالانکہ لوک سبھا کا ایوان ،ٹی وی نیوز چینل کی بحث یا انتخابی مہم،انہیں بی جے پی بری طرح سے انہیں نشانہ بناتی ہے اور ان پر فرقہ پرستی پھیلانے کا بھی الزام لگایاجاتاہے۔حال میں اویسی نے اترپردیش اسمبلی انتخابات کیلئے انتخابی مہم کاآغاز کیا ہے اوراس کے بعد ان کی پارٹی ایم آئی ایم پر سبھی پارٹیاں کود پڑی ہیں اور ان پر بی جے پی کی مدد کرنے کے لیے انتخابات میں اترنے کابھی الزام لگایا جارہاہے۔
ہمیں بلکہ کسی کو بھی ان کے اس جمہوری حق پر انگلی اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے ،لیکن ہمیشہ یہ محسوس کیاگیا ہے کہ وہ ان الزامات کا جن کا پہلے ذکر کیا جاچکا ہے،سنجیدگی سے جواب نہیں دیتے ہیں اور الٹا الزام عائد کرنے والوں پر سوالات کی بوچھارکردیتے ہیں،وہ دوسری ریاستوں میں جہاں بی جے پی پریشان حال رہتی ہے ،الیکشن لڑنے کا اعلان کرتے ہیں،بس یہیں سے شک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں،اب ضرورت اس بات کی ہے کہ "بیرسٹر اسدالدین ویسی کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پر عائد الزامات کامفصل اور مدلل جواب دینا چاہیئے،ورنہ اگراترپردیش میں توازن بگڑ گیااور بھگوان پارٹی کامیاب ہوجاتی ہے، تو ان کی حالت یہ ہوگی کہ
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close