مضامین

مولانامحمد اسرار الحق قاسمیؒ اور جمعیۃ علماء ہند

محمد یاسین جہازی

بڑی نسبت کے حامل اگر بڑے کہلائیں، تو یہ خاندانی روایت ہوتی ہے اور یہاں پر اس تبصرہ کی گنجائش رہتی ہے کہ ’’بڑے باپ کا بیٹا تھا، تو بڑا بن گیا‘‘۔ لیکن خاندان کو بڑائی کی روایت بخشنا؛ یہ سب سے اعلیٰ درجے کا کمال ہوتا ہے۔ مولانا محمد اسرارالحق صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ ایک ایسی ہی شخصیت تھی، جنھوں نے اپنی صلاحیت و صالحیت سے خاندان کو عبقریت، ملت اسلامیہ ہند کو ملی قیادت اور تعلیمی شعور عطا کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی۔
جمعیۃ علماء ہند اسلامیان ہند کے لیے حریم و پاسبان کی حیثیت رکھتی ہے ۔ تاریخی شہادت کی روشنی میں یہ کہنا خلاف واقعہ نہیں ہوگا کہ بھارت کا ہر مسلمان پیدائشی طور پر جمعیتی ہے اور جمعیۃ کا ممنون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے ادنیٰ نسبت بھی ایک بھارتی مسلمان کے لیے فخر کی نسبت اور عظمت کا نشان ہوتی ہے؛ لیکن جنھیں اس کی قیادت ؛ اور وہ بھی اعلیٰ قیادت کا شرف مل جائے، تو بالیقین یہ نقارہ خدا ہے، جنھیں بندگان خدا کے غفلت پروردہ دلوں کو متنبہ کرنے کے لیے اور انھیں اپنے فرائض کے تئیں بیدار کرنے کے لیے وہ عہدہ سپرد کیا جاتا ہے۔
حضرت ممدوح مولانا محمد اسرارالحق صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ (۷۔۱۲۔۰۱۸) ایک ایسی ہی شخصیت تھی۔ قاسمی نسبت حاصل کرنے کے بعد بہار کے مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے سے وابستہ ہوئے۔ زبانی روایت کے مطابق غالبا ۱۹۷۵ء میں یہاں ایک پروگرام ہوا، جس میں حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی صاحب نور اللہ مرقدہ شریک ہوئے۔ انھوں نے پہلی نگاہ میں ہی مولانا ممدوح کے اندر چھپی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور مدرسہ کے ذمہ دار سے بات کرکے اپنے ہمراہ دہلی لے آئے اور جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی دفتر سے وابستہ کردیا۔ ابتدائی پانچ سالوں تک حضرت فدائے ملتؒ کے زیر سایہ عاطفت تربیت پاتے رہے ، اور جب کندن بن گئے تو اکابرین جمعیۃ نے اپنی صف میں شامل کرتے ہوئے نظامت عمومی کا ذمہ دار عہدہ سپرد کردیا۔ چنانچہمولانا سید احمد ہاشمی ؒ کے بعد ۲۹؍ جنوری ۱۹۸۰ء سے ۹؍ اگست ۱۹۸۱ء تک عارضی ناظم عمومی رہے۔ پھر ۱۰؍ اگست ۱۹۸۱ء کو مستقل طور پر یہ عہدہ آپ کو سپرد کیا گیا، جس پر ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۹۱ء یعنی استعفیٰ پیش کرنے تک اس عہدہ پر فائز رہے۔
اپنی نظامت کے دور میں جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے انھوں نے جوکارہائے نمایاں انجام دیے،ان سب کی رپورٹ کتابچوں کی شکل میں جمعیۃ کی لائبریری میں موجود ہے، ہم طوالت سے بچتے ہوئے یہاں صرف ان کا نام پیش کر رہے ہیں: (۱) میرٹھ فساد کے دل خراش حقائق۔ (۲) ملی کردار۔ (۳) ایران و عراق جنگ۔ (۴) ملی کاوش۔ (۵) آسام سے جائز شہریوں کا غیر قانونی اخراج۔ (۶) آزادی کی لڑائی میں علما کا امتیازی رول۔ (۷) مسلمانوں کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں امتیازی رول۔ (۸) جمعیۃ علماء ہند کا دس نکاتی پروگرام۔ (۹)ریاست آسام کے سیلاب زدہ علاقوں میں جمعیۃ علماء ہند کی امدادی خدمات۔ (۱۰) ملی زندگی کا اہم موڑ۔ (۱۱) لمحات فکر۔ (۱۲) سانحہ حرم۔ (۱۳) فرقہ پرستی کا کھیل خطرناک موڑ پر۔ (۱۴) عازمین حج کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے جمعیۃ علماء ہند کی تجاویز۔ (۱۵) شریعت اسلامی کی بقا و تحفظ اور جمعیۃ علماء ہند کی چھیاسٹھ سال جدوجہد۔ (۱۶) مرادآباد کے فرقہ وارانہ فسادات میں جمعیۃ ریلیف کمیٹی کی امدادی خدمات۔ (۱۷) بابری مسجد اور مسلم خواتین بل۔ (۱۸) امیر الہند اور نائب امیر الہند کا انتخاب۔ (۱۹) تجاویز کل ہند کنونشن برائے علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی۔ (۲۰) آسام کی تاریخ میں سب سے بھیانک سیلاب۔ (۲۱) ملی سفر۔
اس فہرست سے آپ مولانا کی خدمات اور کارناموں کا اندازہ لگاسکتے ہیں، جو انھوں نے جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے مختلف محاذوں پر انجام دیا۔ مولانا مرحوم جہاں عمل پیہم اور جہد مسلسل کے عنوان تھے، وہیں فکرو قلم کے بھی عظیم سپہ سالار تھے، ایک اندازہ تو درج بالا کتابوں کے نام سے لگاسکتے ہیں، جو سبھی مولانا مرحوم کے قلم کی وجود ہیں، ان کے علاوہ ۱۹۸۴ء میں جب جمعیۃ علماء ہند کا ترجمان روزنامہ الجمعیۃ بند ہوگیا، تو مساوات کے نام سے ایک ہفت روزہ نکالنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے اول و آخر ایڈیٹر مولانا محمد اسرارالحق قاسمی بنائے گئے۔ یہ اخبار ۲؍ اکتوبر ۱۹۸۷ء سے اگست ۱۹۸۸ء تک نکلتا رہا۔ پھر جب الجمعیۃ کو روزنامہ کے بجائے ہفت روزہ کی شکل میں نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تو،اس کے ایڈیٹر بھی مولانا ہی رہے ۔جمعیۃ علماء ہند کی لائبریری میں موجود ہفت روزہ الجمعیۃ کے مطابق ۱۹؍ اگست ۱۹۸۸ء کا شمارہ آپ کی ادارت میں شائع ہوا۔ آپ مدیر بھی تھے اور طابع و ناشر بھی۔ اور ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۹۱ء تک مدیر رہے۔ ایک ہزار چار سو تریپن شمارے آپ کی ادارت میں نکلے۔
پھر واقعہ یہ ہوا کہ آپ کی جمعیتی زندگی میں ایک انقلابی موڑ آیا، جس نے آپ کو جمعیۃ سے اور جمعیۃ نے آپ کو؛ دونوں نے ایک دوسرے کو، ایک دوسرے سے علاحدہ کردیا۔ حضرت مرحوم کی بعد کی زندگی نے ثابت کردیا کہ جمعیۃ سے استعفیٰ در حقیقت آپ کی ایک نئی زندگی کے آغاز کی تمہید تھی ، چنانچہ آپ نے یہاں سے نکل کرایک نئی تنظیم کی نیو رکھی، جس کا نام آل انڈیا تعلیمی و ملی فاونڈیشن رکھا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، مولانا مرحوم نے ملت کی تعلیم و تربیت کے لیے خود کو وقف کردیا اور تا دم واپسیں اس تحریک کی آبیاری فرماتے رہے، اور بعد از مرگ کے لیے ایسی راہ عمل چھوڑ گئے، جس پر چلنے والے ہر فرد مولانا مرحوم کے لیے صدقہ جاریہ کا سبب بنیں گے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مولانا ؒ کے نقش دم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی مغفرت فرماکر اعلیٰ علیین میں جگہ عنایت کرے، آمین۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close