ندوہ کے ممتاز علماء و فضلاء اور وہاں کے اہم اساتذہ میں ایک اہم نام مولانا عبد الماجد ندوی کا بھی ہے، انہوں نے ندوہ کے عربی زبان کے تینوں معروف اساطین مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا محمد ناظم ندوی اور مولانا مسعود عالم ندوی سے اکتساب کیا تھا، اس لئے عربی زبان وادب پر ان کی بہت اچھی نظر تھی۔ ان کا وطن موجودہ ضلع پٹنہ کا ایک گاؤں سی گوڑی (متصل بکرم) تھا، یہ بستی پن پن ندی کے بالکل ساحل پر ہے ،جہاں پچاس گھر کی آبادی ہے ،وہاں کی مسجد مولانا کے اجداد نے بنوائی تھی،مولانا کے خاندان اس بستی کے زمینداروں میں تھا۔ والد کا نام شیخ عبداللطیف اور سنہ پیدائش ۱۹۲۷ ہے۔ سی گوڑی ہی میں ایک حافظ صاحب تھے ان ہی سے قرآن پڑھا،پھر انہوں نے مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ،عظیم آباد میں تعلیم کی تکمیل کے بعد دارالعلوم ندوہ العلماء کا رخ کیا، مولانا مسعود عالم ندوی نے وہاں داخلہ کے لئے پٹنہ ہی میں ان کا امتحان لیا،دارالعلوم میں وہ مولانا محمد ناظم ندوی کے شاگرد خاص اور ناظم ندوہ العلماء حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے رفیق وہم درس رہے، بقول مولانا سید یحیی ندوی مولانا ناظم صاحب ندوی جب خطبات مدراس کی تعریب کررہے تھے تو مولانا عبد الماجد عظیم آبادی اور مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی جو اس وقت طالب تھے ان کا املا تحریر کرتے اور مسودہ کی نقل کرتے تھے۔ ۱۹۴۸ میں ندوہ سے فارغ ہونے کے کچھ دن رامپور میں تدریسی خدمت انجام دی ،پنجاب کے کسی مدرسہ میں بھی رہے ،پھر اپنے استاد مولانا مسعود عالم ندوی کی دعوت پر ان کے قائم کردہ ادارہ دارالعروبہ راولپنڈی چلے گئے ،ملک میں تقسیم کے بعد کو حالات پیدا ہوئے اس سے کچھ ہی قبل وہ وہاں سے واپس آئے تھے ،جس کی تفصیل انہوں مولانا مسعود عالم صاحب پر اپنے مضمون میں لکھی ہے ۔اس کے بعد حضرت مولانا سیدابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی دعوت پر دارالعلوم ندوۃ العلماء میں استاذ مقرر ہوئے،اور تقرقی کرتے ہوئے ادیب دوم کے عہدہ تک پہنچے۔۱۹۵۵ میں استاد زائر کی حیثیت سے ندوہ العلماء کی طرف سے ایک سال کے لئے انہیں جامعہ ازہر بھیجاگیا، جب یہاں آئے تو لوگوں نے یہاں قیام پر اصرار کیا لیکن انہوں نے کہا کہ پھر کہا جائے گا کہ جن کو بھیجا جاتا ہے سب وہیں رہ جاتے ہیں اس لیے واپس ندوہ آگئےاور وہیں تدریسی خدمت انجام دیتے رہے۔
۱۹۷۴ میں مولانا جدہ آکر یہاں کے ریڈیو سے منسلک ہوگئے،اورتا زندگی اسی خدمت میں مشغول رہے،یہاں انہوں نے التفسیر والمفسرون کا مکمل ترجمہ کرکے سعودی ریڈیو سے نشر کیا۔ جدہ کے ریڈیو میں اخبار وصحف، سیرت و اخبار اور دیگر موضوعات پر ان کی تحریریں شائع ہوتی رہیں۔ ہندوستان چھوڑنے کا سبب وہاں کے سخت حالات تھے، جمشید پور کے فسادات نے ان کو دل برداشتہ کردیا تھا، اسی صورت حال نے ان کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔
۱۹؍ اپریل ۱۹۸۵ء(۱۴۰۴ھ)کو مولانا کا جدہ ہی میں انتقال ہوا ،اس کی تفصیل ان کے فرزند کی زبانی یہ ہے کہ شام کو گھر آکر ان کو دل کا دورہ پڑا، مغرب کی نماز کے لیے وضو کیا اور اس کے بعد کپڑا پہن ہی رہے تھے کہ گر گئے،اور اچانک وفات ہوگئی ۔ مکہ میں مغرب کی نماز میں حرم شریف میں نماز جنازہ ہوئی اور جنۃ المعلی میں دفن ہوئے، ۔ ان کی وفات پر بی بی سی لندن، کویت ریڈیو، مجلہ الفیصل ،سعودی گزٹ وغیرہ میں خبر نشر ہوئی ،اور مضامین شائع ہوئے۔ان کے معاصرین میں مولانا عبداللہ عباس ندوی اور مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے ان کو خراج تحسین پیش کیا ،نیز ان کے متعدد شاگردوں نے ان پر مضامین لکھ کر ان کے کمالات واوصاف پر روشنی ڈالی ہے۔
ان کے شاگرد شکیل اعظمی لکھتے ہیں:’اللہ تعالی استاذ گرامی مولانا عبدالماجد رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے اور ان کی لحد پر رحمتوں کی بارش کرے، ندوہ میں میں جب 1972 کے آخر یا 1973 کے شروع میں داخلے کے لئے آیا تو اساتذہ میں سب سے پہلے میری ملاقات مولانا ہی سے ہوئی تھی۔ وہی میرے اصل ممتحن تھے دوسرے ممتحن مرحوم و مغفور بإذن اللہ مولانا برھان الدین صاحب سنبھلی تھے۔میں نے عربی ہفتم کے لئے درخواست دی تھی لیکن داخلہ امتحان کے بعد جب فیصلہ سنانا تھا تو مولانا نے مجھے بلایا اور بڑی شفقت سے سمجھایا کہ عربی ششم میں داخلہ لے لو تمہارے لئے موزوں رہے گا ان کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا پھر فرمایا کہ مولانا (برھان الدین صاحب) تیار نہیں ہو رہے ہیں کہ تم مدرسہ اصلاح سے عربی چہارم پاس کر کے آئے ہو تو عربی ہفتم میں کیسے داخلہ دیا جائے گا۔ بہرحال میں راضی ہو گیا اور داخلہ ہو گیا۔ جس روز میرا داخلہ امتحان ہوا میں اس سے تین چار روز پہلے ندوہ پہنچ گیا تھا۔اس دوران میں روزانہ کتب خانے میں جا کر مطالعہ کرتا۔ الرائد کے فائلیں میز پر پڑی ہوئی تھیں پہلی مرتبہ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا میں نے بہت سارے شمارے پڑھ ڈالے۔ایک مضمون مولانا عبد الماجد رح کا ندوہ پر نظر سے گزرا میں نے بغور پڑھا اور کچھ نئی عربی تعبیرات سیکھنے کو ملیں اس وقت حافظہ تیز تھا تو وہ مضمون اور اس کی زبان یاد ہو گئی۔ انشاء کے حصے میں ندوہ کے بارے میں سوال تھا میں نے اسی مضمون کی مدد سے اپنا مضمون لکھ دیا۔مولانا نے دریافت کیا یہ کہاں سے دیکھ کر لکھا؟ میں نے کہا مولانا میں تو یہیں پر بیٹھ کر آپ کے سامنے لکھ رہا ہوں دیکھنے کا کوئی سوال ہی نہیں البتہ ایک مضمون الرائد میں کل پرسوں پڑھا تھا اچھا لگا اس کا کچھ حصہ ذہن میں محفوظ تھا لکھ دیا مولانا بہت خوش ہوئے لیکن بس دھیمے لہجے میں دائیں بائیں دیکھتے ہوئے گویا ہوئے کہ مولانا تیار نہیں ہو رہے ہیں۔ خیر عربی ششم میں داخلہ ہو گیا مولانا ہی ہمارے انشاء کے استاد ہوئے۔ بہت مشفق اور نرم دل استاد تھے نیک اور شریف تھے، عربی زبان و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ طبیعت کچھ بجھی بجھی سی رہتی تھی۔ زیادہ دن استفادے کا موقع نہ مل سکا، ایک آدھ ماہ پڑھایا ہوگا ان کی جگہ پر استاد گرامی قدر مولانا سعید الرحمن اعظمی صاحب کو انشاء کا پیریڈ دیا گیا‘‘۔
مولانا عربی زبان اور اس کے اصول وقواعد پر بہت ہی اچھی نظر رکھتے تھے،انشانگاری کا معیار بھی بہت بلند تھا ،گرچہ انہوں نے عربی میں بہت کم لکھا۔ ان کی معلم الانشاء کی دوجلدیں آج تک طلباء کے لئے رہنمائی کا کام انجام دے رہی ہیں ،اور اسی طرح انہوں نے تمرین النحو میں جس آسان انداز سے طلبا ء کو سمجھانے کی کوشش کی ہے وہ خود ایک اہم نمونہ ہے ان کی علمی وسعت نظر کا۔(یہ اطلاعات مولانا کے صاحبزادے گرامی مولانا عبدالواحد ندوی استاد الفلاح اسکول سکنڈری اسکول جدہ سعودی عرب سے حاصل ہوئیں)