اسلامیات

جان ومال کی حفاظت ایک اسلامی اور انسانی فریضہ

شمع فروزاں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

جان ومال کی حفاظت ایک اسلامی اور انسانی فریضہ
شمع فروزاں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
03.09.2021
انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کا مالک نہیں ہے، امین ہے، جان ہو یا مال اور عزت وآبرو، یہ سب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں اور انسان کو ان کا نگہبان بنایا گیا ہے، اسلام ہمیں یہ بتاتا ہے کہ خدا کی ان نعمتوں کے ساتھ ہمارا کیا سلوک ہونا چاہئے ؟ اس سلسلہ میں تین باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں : ایک یہ کہ ان نعمتوں کو احکام شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے حاصل کیا جائے اور محض اپنی خواہش کو رہنمانہ بنالیا جائے ، دوسرے: ان نعمتوں کو ان کے صحیح مصرف میں خرچ کیا جائے ، ایسی چیزوں میں خرچ کرنے سے بچا جائے جن کو شریعت نے ناپسند کیا ہے ، تیسرے: اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق ان کی حفاظت اور نگہداشت کی جائے ۔
اسی لئے شریعت نے خود کشی کو حرام قرار دیا ؛ کیوں کہ انسان اپنی زندگی کا امین اورمحافظ ہے ، اس کا کام زندگی کی حفاظت ہے نہ کہ ہلاکت ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ناراضگی کے اظہار کے لئے خود کشی کرنے والے شخص پر نماز جنازہ تک نہیں پڑھی ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں یہ کس قدر مذموم اور نا پسندیدہ حرکت ہے ، مالی نعمتوں کے بارے میں بھی اسی احتیاط اور قدر دانی کی تعلیم دی گئی ، اگر کوئی شخص نہر کے کنارے بیٹھا ہو ، تب بھی آپ نے وضو میں اسراف اور فضول خرچی کو منع فرمایا ؛کیوں کہ یہ تقاضۂ امانت کے خلاف ہے ، اسلام امن و آشتی اور صلح و سلامتی کا نقیب ہے ؛ لیکن اس امن کا جو سماج کے تمام افراد و اشخاص اور طبقات کو عافیت فراہم کرتا ہو، نہ کہ ایک طبقہ کی بالادستی اور دوسرے کی مجبوری و لا چاری پر قائم ہو ؛ اسی لئے اگر ایک شخص دوسرے شخص پر اور سماج کا ایک طبقہ دوسرے طبقہ پر زیادتی کرے تو اسے اپنی مدافعت کا پورا پورا حق حاصل ہے ؛ کیوں کہ یہی عدل کا تقاضا ہے، اور حقیقی امن وہی ہے جس کی عمارت عدل و انصاف کی مضبوط بنیادوں پر اٹھائی گئی ہو، اس سلسلہ میں قرآن مجید کی تعلیمات بالکل واضح اور بے غبار ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ تم سے بلا وجہ آمادۂ پیکار ہوں، تم بھی ان سے اسی طرح مقابلہ کرو، ہاں، البتہ ایسے جذباتی مواقع پر بھی انتقام کی رومیں بہہ کر ظلم وزیادتی کا راستہ اختیار نہ کرو؛کیوں کہ اللہ تعالیٰ بہر حال زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔( البقرۃ : ۱۹۰)
اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا : جو تم پر زیادتی کرے ، تم بھی اسی کے بقدر اس کا جواب دو : فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (البقرۃ : ۱۹۴) مدافعت کا، مقابلہ کااور ظالم کے پنجۂ ظلم کو تھامنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ اسی میں امن کا بقاء اور انسانیت کا تحفظ ہے ، قرآن مجید نے قتل کے معاملہ میں قصاص یعنی برابر کے بدلہ کا قانون مقرر کیا ہے ( البقرۃ : ۱۷۸) اور اس کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ہے: وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یَّا اُوْلِی الْاَلْبَاب (البقرۃ : ۱۷۹) کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ قاتل کو قتل کرنے میں ایک کے بعد دوسری جان کا ضیاع ہے ؛ لیکن درحقیقت اس میں انسانی جانوں کی حفاظت اور قتل کے واقعات کا سدباب ہے۔
اگر کسی سماج میں ظلم کے لئے آگے بڑھنے والے ہاتھ ہوں ؛ لیکن ان کو قلم کردینے والی تلواریں نہ ہوں ، لباس حیاء کو تار تار کر دینے والی آنکھیں ہوں ؛ لیکن انھیں پھوڑنے والی انگلیاں نہ ہوں ، بر بریت کا راستہ اختیار کرنے والے قدم ہوں اور ان کے بڑھتے ہوئے قدم کو قید میں لانے والی زنجیریں نہ ہوں ، تو وہ سماج ظلم و بربریت کی آماجگاہ بن جائے گا اور عدل وانصاف کو وہاں سے ہمیشہ کے لئے رخت ِسفر باندھنا ہوگا؛ اس لئے یہ بات ضروری ہے کہ سماج کے اچھے لوگ ایسے انسانیت دشمن عناصر کی سرکوبی کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں، اور جو لوگ مشق ستم بنائے جاتے ہوں ، وہ طاقت بھر اپنی مدافعت کے لئے تیار رہیں ، اس سے صرف ان کی شخصی حفاظت ہی متعلق نہیں ؛ بلکہ انسانیت اور انصاف کا تحفظ متعلق ہے اور اسلامی نقطۂ نظر سے یہ کوئی اختیاری عمل نہیں ہے ؛ بلکہ ایسا کرنا اس پر شرعاً واجب ہے۔
اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان و مال ، دین ، اہل و عیال اور عزت و آبرو کی حفاظت میں مارے جانے والوں کو شہید قرار دیا ہے، حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
من قتل دون مالہ فہو شہید، ومن قتل دون دمہ فہو شہید ، ومن قتل دون دینہ فہو شہید، ومن قتل دون اھلہ فہو شہید ۔ ( ترمذی : ۱۲؍ ۲۶۱ ، باب ما جاء من قتل دون مالہ فہو شہید )
جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے، وہ شہید ہے ، جو اپنی جان کی حفاظت میں مارا جائے، وہ شہید ہے ، جو اپنے دین کی حفاظت میں مارا جائے، وہ شہید ہے، اور جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت میں مارا جائے، وہ شہید ہے ۔
ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کا مال ناحق لینے کی کوشش کی جائے اور وہ اس کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے، وہ بھی شہید ہے : ’’من أرید مالہ بغیر حق فقاتل فقتل فہو شہید‘‘۔( ابو داؤد ۲ ؍ ۶۵۸، ترمذی :۱ ؍ ۲۶۱)
جان کی حفاظت تو ظاہر ہے ، مال کی حفاظت میں یقینا دوکان، کاروبار، سواریوں وغیرہ کی حفاظت شامل ہے ، دین کی حفاظت میں مساجد و مدارس ، خانقاہیں ، مسلمانوں کے مقابر اور مسلمانوں کے مذہبی پیشوا سب شامل ہیں ؛ کیوں کہ یہ سب شعائر دین کا درجہ رکھتے ہیں؛ اس لئے ان سب کی حفاطت مسلمانوں کا فریضہ ہے اور اگر ان کی حفاظت و صیانت میں کسی مسلمان کی جان جاتی ہے تو یقینا وہ شہید ہے ، اہل و عیال کی حفاظت میں ان کے جان ومال کے ساتھ ساتھ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت بھی شامل ہے ؛ کیوں کہ عزت و آبرو کی اہمیت انسان کے حق میں اس کی جان اور زندگی سے کم نہیں ؛ بلکہ ایک غیرت مند انسان کے لئے بعض اوقات جان کا دیدینا عزت و آبرو کی پامالی کو قبول کرنے سے زیادہ آسان ہوتا ہے ۔
تحمل و بردباری الگ چیز ہے ، بزدلی اور خود سپردگی الگ چیز ، کسی بھی قوم میں بزدلی کا پیدا ہو جانا ، ایک ایسا مرض ہے جو اس کو میدان عمل میں تگ و دو سے روک دیتا ہے ، شجاعت وبہادری ، بلند حوصلگی ، قوت ارادی کسی بھی زندہ قوم کے لئے ضروری وصف ہے ، مسلمان مختلف آزمائشوں سے گزرتے ہیں ؛ لیکن مؤرخین نے سب سے زیادہ ماتم تاتاری فتنہ کا کیا ہے ، تاتاریوں کے حملہ نے مسلمانوں کو صرف پسپا ہی نہیں کیا ؛ بلکہ ان کو کم ہمت اور پست حوصلہ کر کے بھی رکھ دیا تھا اور نوبت یہ تھی کہ ایک ایک تاتاری عورت بیسیوں مسلمان مردوں کو کھڑا کر دیتی اور اپنے گھر سے ہتھیار لے کر آتی، پھر باری باری انہیں تہہ تیغ کرتی اور یہ مسلمان نہایت بزدلی اور دون ہمتی کے ساتھ قتل ہوتے رہتے اور مدافعت کی کوئی کوشش نہیں کرتے ۔
اسی حق مدافعت کا نام ’’ حفاظت خود اختیاری‘‘ ہے ، جسے دنیا کے تمام مذاہب اور جدید وقدیم نظامہائے قانون میں تسلیم کیا گیا ہے ، جس کا مقصد ظلم کو روکنا اور امن کو پائیدار بنانا ہے، نہ کہ امن کو پارہ پارہ کرنا اور دوسروں پر ظلم و جور کو روا رکھنا ، حفاظت خود اختیاری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کسی قوم کے کچھ لوگوں نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہو تو ہم قصور وار و بے قصور اور مجرم وبے گناہ میں فرق کئے بغیر اس قوم کے لوگوں پر ہلہ بول دیں اور قتل و غارت گری مچائیں ، اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ اگر کچھ لوگوں نے اپنی خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورتوں کو بے آبرو کیا ہو تو مسلمان بھی ایسی ہی ناشائستہ اور غیر شریفانہ حرکت پر اتر آئیں ، یہ وہی ’’ اعتداء ‘‘ یعنی حد سے گزر جانا ہے ، جس کو قرآن مجید نے منع کیا ہے ؛ لیکن جو لوگ واقعی مجرم اور قصور وار ہوں ، ان سے اپنی حفاظت اور ان کے خلاف مناسب رد عمل ایک مذہبی اور انسانی فریضہ ہے ، جس سے پہلو تہی کسی طور مناسب نہیں ۔
حفاظت خود اختیاری کے مختلف ذرائع ہیں ، اول خود اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنا کہ ناگہانی حملوں کا مقابلہ کر سکیں اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی حفاظت کے اسباب مہیا رکھنا ؛ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کھیلوں کی حوصلہ افزائی فرمائی، جن سے جسم میں توانائی پیدا ہو ؛ چنانچہ آپ نے کُشتی، دوڑ ، گھوڑ سواری وغیرہ کو پسند کیا اور اس کی حوصلہ افزائی فرمائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ طاقتور مؤمن کمزور مومن سے بہتر ہے : ’’ المؤمن القوی خیر من المومن الضعیف‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسباب حفاظت کا اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ استنجاء کے لئے تشریف لے جاتے تب بھی نیزہ ساتھ ہوتا ؛ تاکہ کیڑے ، مکوڑوں سے حفاظت ہو سکے ، یہ رجحان کہ گھر میں سانپ مارنے اور کتوں کو بھگانے کے لئے لاٹھی تک میسر نہ ہو، نہایت ہی غیر دانشمندانہ بات ہے ، ہاں یہ ضرور ہے کہ جو کچھ ہو قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہو ۔
حفاظت خود اختیاری میں یہ بات بھی داخل ہے کہ مسلمان اپنے محلہ میں اجتماعی مدافعت اور حفاظت کا ماحول بنائیں ، یعنی اگر ایک بے قصور شخص پر حملہ ہو ، یا محلہ کے کسی مکان پر یلغار ہو جائے تو تمام لوگ جان پر کھیل کر اس کی حفاظت کریں ، ہر شخص اس کو اپنے آپ پر حملہ تصور کرے اور مقابلہ کرنے کے لئے اُٹھ کھڑا ہو ، یہ بات کہ ہر آدمی اپنی باری کا انتظار کرے اور یکے بعد دیگرے خود سپردگی اختیار کرتا جائے ، غیر دانشمندانہ ، خود غرضی اور ہلاکت خیز بزدلی بلکہ خود کشی ہے ، اجتماعی قوت مؤثر بھی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شریک حال رہتی ہے، اسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جماعت کے ساتھ اللہ کی مدد ہے : ’’ید اﷲ عـلی الـجمـاعـۃ‘‘البتہ یہ ضروری ہے کہ ایسی اجتماعیت کی قیادت صالح ، سنجیدہ اوردور اندیش لوگوں کے ہاتھوں ہو، نہ کہ شر پسند، بدمعاش اور مشتعل مزاج لوگوں کے ہاتھ میں؛ کہ ایسی صورت میں فائدہ سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے ۔
حفاظت کا تعلق آبادیوں کی ہیئت سے بھی ہے ، جہاں فرقہ وارانہ تناؤ کا ماحول ہو اورمفسد مزاج لوگ امن کو درہم برہم کرنے کے در پے رہتے ہوں ، وہاں خاص کر مسلمانوں کو اپنے ہم مذہب لوگوں کے درمیان آباد ہونا اور مسلم آبادی کے جز یرے بناناضروری ہے ، اس سے وہ اپنی جان و مال ، کاروبار اور عزت و آبرو ہی کی حفاظت نہیں ؛ بلکہ اپنے عقیدۂ و ایمان اورتہذیب و ثقافت کی بھی حفاظت کر سکیں گے ؛ اسی لئے حضرات انبیاء کو ایسے شہروں سے ہجرت کرنے کا حکم دیا جاتا تھا ، جہاں دین حق سے عداوت و عناد رکھنے والوں کا غلبہ ہو، اور اہل ایمان کو اپنی بستی بسانے کی تلقین کی جاتی تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا کہ جو مشرکین کے ساتھ اپنا رہن سہن رکھے، میں ا س سے بری ہوں ۔
حفاظت کا تعلق قانون و آئین سے بھی ہے ، یہ بد قسمتی ہے کہ قانونی پیشہ اختیار کرنے کا رجحان مسلمانوں میں کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے ، مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر قانون ملکی کا شعور پیدا کریں ، کون سے جرم پر کون سی دفعہ عائد ہوتی ہے ؟ کس دفعہ کے تحت اپنا مقدمہ درج کرایا جائے ؟ پولیس میں فرقہ پرست عناصر دھوکہ دینے اور مقدمہ کو کمزور کرنے کے لئے کیا انداز اختیار کرتے ہیں اور شہادتوں کو کس طرح کمزور کرتے ہیں ؟ مسلمانوں کو اس سے آگاہ ہونا چاہئے ، یہ نا آگہی مجرموں کی جرأت بڑھا تی اور مظلوموں کی بیکسی میں اضافہ کرتی ہے ۔
حفاظت کا تعلق قیادت سے بھی ہے ، اس بدبختی پر جس قدر رویا جائے کم ہے کہ مسلمان نہایت تکلیف دہ حالات سے گزرنے کے باوجود اپنے مشترک مسائل کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا نہیں جانتے، اشتراک اور اجتماعیت سے قیادتیں بنتی اور اُبھرتی ہیں؛ اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ قیادت سے اجتماعیت پیدا ہوتی ہے اور اطاعت و فرمانبرداری سے قیادت طاقتور ہوتی ہے : ’’ لا جماعۃ الا بامارۃ ولا امارۃ الا بطاعۃ‘‘ جب آپ کا ایک یا ایک سے زیادہ لیڈر ہو ، یا کوئی مشترکہ پلیٹ فارم ہواور اس کے ساتھ پوری قوم کا اعتماد اورتائید و تقویت ہو تو اس سے اس قیادت کا وزن حکومت میں اور دوسری قوموں میں بھی محسوس کیا جاتا ہے ، اس کی بات سنی جاتی ہے ، اس کی رائے کو وزن دیا جاتا ہے اور اس کی آواز کی قوت محسوس کی جاتی ہے ، گجرات کے فساد نے خاص طور پر اس حقیقت کو واضح کیا کہ وہاں مسلمان قیادت کے فقدان کی وجہ سے فرقہ پرست حکومت اور پولیس نے اپنے آپ کو پوری طرح آزاد سمجھ لیا اور اس نے جوا بدہی کے تصور سے خالی اور بے پروا ہو کر مظالم ڈھائے ، اگر ذرائع ابلاغ نے ان کے ان مظالم کو آشکارانہ کیا ہوتا تو پتہ نہیں اور کیا حال ہوتا ۔
حفاظت خود اختیاری میں یہ ساری باتیں شامل ہیں، جسمانی طور پر اپنی حفاظت کی صلاحیت، قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی حفاظت و بچاؤ کے اسباب کا مہیا رکھنا ، مسلمانوں کا اپنی آبادیاں اور بستیاں بسانا، کسی حادثہ کے موقع پر اجتماعی طور پر حفاظت کے لئے ذہن کو تیار رکھنا ، مسلمانوں میںجرم و سزا کے قانون کا شعور پیدا کرنا اور ایک مؤثر اور اجتماعی قیادت کو کم سے کم مقامی سطح پر وجود میں لانا اور اسے تقویت پہنچانا ، یہ سب دین و ایمان ، جان و مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کے لئے ضروری تدابیر ہیں اور امکان بھر حفاظت کی تدابیر اختیار کرنا اور اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق مدافعت ، دشمن کا مقابلہ اور ظلم سے پنجہ آزمائی صرف مصلحت کا تقاضا نہیں ہے؛ بلکہ ایک مذہبی اور انسانی فریضہ بھی ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close