اسلامیات

شب برأت کی فضیلت اور کرنے کے اعمال

مفتی محمد حفظ الرحمن قاسمی استاد دارالعلوم حیدرآباد

شعبان کی پندرہویں شب”شب برأت“کہلاتی ہے۔یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔ ۔تقریبًادس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب کومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آرام گاہ پرموجودنہ پایاتوتلاش میں نکلی، دیکھاکہ آپ جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں، پھرمجھ سے فرمایاکہ؛ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورقبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتاہے۔“دوسری حدیث میں ہے”اس رات میں اس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے،اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں،اورتمہارارزق اتاراجاتاہے۔“
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ” اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے ( ١)مشرک،(٢)والدین کانافرمان،(٣)کینہ پرور،(٤)شرابی،(٥)قاتل،(٦)شلواروغیرہ کوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا (٧)چغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔
اورحضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے کون ہے جوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟

ان احادیث کریمہ اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اوربزرگانِ دین رحمھم اللہ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں:

۱۔قبرستان جاکرمردوں کے لئے ایصال ثواب اورمغفرت کی دعا کی جائے؛لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےپوری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے۔اس لئے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سےچلاجائے تواجروثواب کاباعث ہے؛ لیکن پھول پتیاں، چادر چڑھائی اور چراغاں کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااس کوشب برأت کے ارکان میں داخل کرنایہ ٹھیک نہیں ہے۔جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے اسی کانام اتباع اوردین ہے۔

۲)۔اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا۔لیکن اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے، یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کرتاہے۔اس لیےنوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھروں میں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب، میلےاوراجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں؛ بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات مضبوط کرنے کے قیمتی لمحات ہیں جن کی حفاظت کی ضرورت ہے اس فضول کاموں میں مصروف ہو کران کوضائع ہونے سے بچائیں۔

۳) ۔دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(١٥،١٤،١٣)تاریخوں کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے ،لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثوب ہوگا۔باقی اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔

بہر حال اس رات کی فضیلت بے اصل نہیں ہے اس لیے سلف صالحین کی طرح ہمیں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانا چاہیے، اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنا خاص کرم فرمائے اور اس بابرکت موقعہ کو ہماری نجات کا ذریعہ بنائے آمین ثم آمین _

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close