اسلامیات

مرض اور عیادت مریض کا بیان

قسط نمبر (7) (حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)

یماری کیا ہے؟ یہ مسلمان کے لیے ایک بڑی نعمت ہے ۔ یہ کوئی معمولی نعمت نہیں ہے، جو سب کو ملے۔ یہ دولت خدا کے خاص بندوں کو ہی ملتی ہے ۔ جس کا رتبہ جس قدر بلند ہوتا ہے، اس کے مطابق اس کو دکھ تکلیف پہنچائی جاتی ہے ۔ ؂
زمانہ رنج دیتا ہے بقدر حال انساں کو
گدا کو فکر ناں اندیشۂ عالم ہے سلطاں کو
سب سے بڑا مرتبہ سرکار دوجہاں احمد مجتبیٰ محمد مصظفیٰ ﷺ کا ہے، تو آپ کو ایذائیں بھی اسی طرح سب سے زیادہ پہنچائی گئیں۔ چنانچہ پوچھنے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جس قدر مجھے دین کے بارے میں تکلیفیں پہنچائی گئیں ہیں، اتنی تکلیفیں کسی کو نہیں پہنچائی گئی ہیں۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ سے پوچھا کہ
أیُّ النَّاسِ أشَدُّبَلاءً؟
سب سے شدید ترین بلا کس پر آئی؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ فَیُبْتَلَیٰ الرَّجُلُ عَلیٰ حَسَبِ دِیْنِہِ فَإِنْ کَانَ دِیْنُہُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلاؤُہُ، وَإِنْ کَانَ فِي دِیْنِہِ رِقَّۃٌ ھَوَّنَ عَلَیْہِ فَمَا زَالَ کَذٰالِکَ حَتّٰی یَمْشِیْ عَلَیٰ الْأرْضِ مَا لَہُ ذَنْبٌ۔
(رواہ الترمذی، و قال ھذا حدیث حسن صحیح، رواہ ابن ماجہ والدارمی)
یعنی پیغمبر پر ، پھر جو ان کے مثل ہیں، پھر جو ان کے مثل ہیں۔ انسان اپنے دین کے مطابق مصائب میں مبتلا ہوتا ہے ۔ پس اگر وہ اپنے دین میں سخت ہے، تو اس پر بلاء بھی سخت ہے اور اگر وہ دین میں نرم ہے، تو اس پر مصائب بھی آسا ن ہیں۔ اور وہ برابر اسی طرح مصائب پر رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ بے گناہ زمین پر چلنے لگتا ہے ۔
اس لیے ہم کو چاہیے کہ بلاؤں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کریں۔ اور چہرہ مہرہ پر شکن نہ آنے دیں۔ اور یہ سمجھیں کہ ہم خدا کے محبوب بندے ہیں ، جب ہی تو یہ مصائب آئے ہیں ۔ خدا ہم کو بہت بڑے ثواب کا حق دار بنانا چاہتا ہے۔ پھر ہم ان بلاؤں پر کیوں نہ صبر کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
إنَّ عِظَمَ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَاء وَإنَّ الْلّٰہَ إذَا أحَبَّ قَوْمَاً ابْتَلاہُمْ فَمَنْ رَضِيَ فَلَہُ الرَّضَا وَمَنْ سَخِطَ فَلَہُ السُّخْطُ۔
(ترمذی، وابن ماجہ)
بڑی مصیبت کے ساتھ بڑا ثواب ہے۔ لا ریب جب اللہ جل شانہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ان کومصیبت میں مبتلا کرتا ہے ۔ پس جو شخص خوش رہا اس کے لیے خدا کی رضا مندی ہے ، اور جو ناخوش ہوا اس کے لیے خدا کی ناراضگی ہے۔ ؂
شکوہ اچھا ہے کسی سے نہ شکایت اچھی
صبر کی خو ہے بھلی، شکر کی عادت اچھی
اس لیے ہم کو مقدورات الٰہی پر راضی ہونا چاہیے ۔ اور یہ سوچنا چاہیے کہ شاید اللہ نے ہمارے لیے عظیم الشان مرتبہ مقدر کر رکھا ہے اور ہم اس کو اپنے عمل سے حاصل نہیں کرسکتے ہیں ، تو اللہ تعالیٰ اس دکھ اور تکلیف کے ساتھ ہم کو اس بلندی پر پہنچانا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَہُُ مِنَ اللّٰہِ مَنْزِلَۃٌ، لَمْ یَبْلُغْھَا بِعَمَلِہِ، ابْتَلَاہ اللَّہُ فِيْ جَسَدِہِِ، أَوْ فِي مَالِہِ، أَوْ فِيْ وَلَدِہِ،ثُمَّ صَبَّرَہُ عَلَیٰ ذَلِکَ، حَتَّیٰ یُبْلِغَہُ الْمَنْزِلَۃَ الَّتِي سَبَقَتْ لَہُ مِنَ اللَّہِ تَعَالَیٰ۔ ( رواہ احمد و ابو داود)
بے شک بندہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی سے کوئی ایسا مرتبہ مقدر ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے جسم میں، یا اس کے مال میں آفت ڈالتا ہے ۔ پھر اس پر صبر دلاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اس مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے پہلے سے مقدر کر رکھا ہے۔ ؂
مقام شکر ہے غافل مصیبت دنیا
اسی بہانے سے رتبہ بلند ہوتا ہے
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اجر کا انحصار صبر پر ہے ۔ اگر ہم نے صبر کے حصول میں کامیابی حاصل کرلی، تو ہم بے شمار اجر کے حق دار ہوں گے ، جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآ ن میں وعدہ فرمایا ہے ۔ سورہ زمر میں ہے رکوع ۲ میں ہے کہ
انَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ
(آیۃ: ۱۰)
بلاشبہ صبر کرنے والوں ہی کو اجر بے شمار ملے گا۔
اس بے شمار اجرکو دیکھ کر دنیا میں آرام و چین سے زندگی گذارنے والے کہیں گے : ائے کاش! ہماری کھال قینچیوں سے کاٹی جاتی ، تو ہم بھی اس اجر کے حق دار ہوتے۔ (ترمذی)
پھر ہم آج اس دکھ تکلیف پر حرف شکایت کیوں لائیں اور اس نعمت عظمیٰ کی بے قدری کیوں کریں؟ سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر ہر طرح کی بھلائی کا ارادہ کیا اور ہم کو اسی دنیا میں پاک صاف کر رہا ہے ، تاکہ دوزخ کی بھٹی میں ہم کو تپانے کی نوبت نہ آئے اور اس معمولی تکلیف کے بہانے اس بڑی مصیبت سے بچ جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
إِذَا أَرَادَ اللَّہُ بِعَبْدِہِ الْخَیْرَ عَجَّلَ لَہُ الْعُقُوْبَۃَ فِي الدُّنْیَا وَإِذَا أَرَادَ الْلَّہُ بِعَبْدِہِ الشَّرَّ أَمْسَکَ عَنْہُ بِذَنْبِہِ حَتَّیٰ یُوَافِيَ بِہِ یَوْمَ الْقِیامَۃِ۔ (ترمذی)
جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے ، تو اس کو دنیا میں جلدی سے عذاب دے دیتا ہے ۔ اور جب اپنے بندہ کے ساتھ برائی کا ارادہ رکھتا ہے، تو اس گناہ کی سزا اس سے روک لیتا ہے ، تاکہ قیامت کے دن اس کو پوری سزا دی جائے۔
قربان جائیے ارحم الراحمین پر ، وہ ہماری تطہیر کا ارادہ رکھتا ہے اور ہم نادان بچے کی طرح واویلا مچاتے ہیں ، روتے ہیں، چیختے ہیں، چلاتے ہیں۔ ہائے افسوس! یہ تھوڑی سی تکلیف برداشت نہیں ہوتی، تو دوزخ کا عذاب کیسے برداشت ہوگا۔ اس لیے ہمیں شوق سے یہیں پاک صاف ہوجانا چاہیے۔اور اپنی مغفرت حاصل کرلینی چاہیے۔ اور اس کی صورت یہی ہے کہ ہر آنے والی مصیبت پر صبر کریں اور خندہ پیشانی سے اس کا مقابلہ کریں۔ اسی میں ہماری مغفرت پوشیدہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پاک پروردگار فرماتا ہے کہ میری عزت و جلال کی قسم ! میں دنیا سے کسی کو نہیں نکالوں گا ، جس کی مجھے مغفرت کرنی ہے، یہاں تک کہ میں ان تمام گناہوں کا بدلہ نہ لے لوں، جو اس کی گردن پر ہے۔ اس کے بدن میں بیماری کے ذریعے سے، یا اس کی روزی میں تنگی کے ذریعے سے ۔ (رزین)
اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
مَا یَزالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤمِنِ وَالْمُؤمِنَۃِ فِيْ نَفْسِہِ وَوَلَدِہِ وَمَالِہِ حَتَّيٰ یَلْقَی الْلّٰہُ تَعَالَیٰ وَمَا عَلَیْہِ مِن خَطِیْءَۃٍ۔
( رواہ الترمذی، و قال ھذا حدیث حسن صحیح)
ایمان دار مرد یا عورت کے ساتھ اس کی جان مال اور اولاد میں بلائیں ہمیشہ رہتی ہیں ، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں رہ جاتا۔
یعنی گناہوں سے پاک صاف ہوکر مرتا ہے ۔ بخاری مسلم کی روایت میں ہے کہ مسلمان کو جو مصیبت بھی پہنچتی ہے، خواہ دکھ درد ہو، بیماری ہو ، حزن و ملال ہو، تکلیف و اذیت ہو، حتیٰ کہ اس کے ایک کانٹا بھی چبھے، تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس کی خطائیں معاف کردیتا ہے۔ یعنی معمولی سے معمولی اذیت بھی گناہوں کے کفارہ کا کام دیتی ہے ، اس لیے کسی بھی تکلیف دہ چیز کو برا نہ کہے؛ بلکہ اس کو اپنے لیے باعث رحمت سمجھے ۔ ایک عورت نے بخار کو برا کہا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَسُبِّیْ الْحُمّیٰ، فَانَّھَا تُذْھِبُ خَطَایَا بَنِیْ اٰدَمَ کَمَا یَذْھَبُ الْکِیْرُ خُبْثَ الْحَدِیْدِ (رواہ مسلم)
بخار کو برا مت کہو، اس لیے کہ وہ اولاد اآدم کے گناہوں کو دور کرتا ہے، جیسا کہ بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کرتی ہے ۔
معلوم ہوا کہ ہر قسم کی تکلیف خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، گناہوں کو دور کرتی ہے ۔ درجات کو بلند کرتی ہے ۔بے انتہا ثواب کا حق دار بنادیتی ہے ۔
لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ آپ خواہ مخواہ دکھ تکلیف کو دعوت دیں اور اس کے لیے خدا سے دعا کریں ۔ ایسا کرنا شرعا جائز نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں میں سے ایک شخص کی عیادت کی جو کمزور چوزے کے مثل ہوگیا تھا۔ تو اس سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تونے خدا سے کچھ دعا کی تھی؟ اس نے کہا : ہاں میں کہتا تھا: ائے اللہ! جس گناہ کی سزا تو آخرت میں دے گا، اس گناہ کی سزا تو دنیا ہی میں مجھے جلد دیدے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو اس کی طاقت اور استطاعت نہیں رکھتا، تونے کیوں نہیں کہا کہ:
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْأخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا وَ عَذَابَ النَّارِ۔
ائے اللہ تو دنیا میں بھی بھلی زندگی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر ۔ اور دوزخ کے عذاب سے بچا ۔
راوی کا بیان ہے کہ اس نے اسی دعا کے ساتھ اللہ سے دعا کی ، تو اللہ نے اسے شفا دی۔ (مسلم)
معلوم ہوا خدا سے مصیبت کی خواہش کرنااچھی نہیں، البتہ اگر خدا ہی کی طرف سے بلاء آجائے، تو اس پر صبر کرے اور شکوہ و شکایت نہ کرے۔
الصَّبْرُ مِفْتَاحُ الْفَرْجِ۔
صبر کشادگی کی کنجی ہے ۔
عیادت مریض
جو شخص چاہے کہ محنت مشقت کے بغیر بیماروں کے ساتھ ہمدردی کر کے ثواب حاصل کرے، تو اس کو مریض کی عیادت کرنی چاہیے۔ یعنی اس کے پاس جاکر اس کا مزاج پوچھے ۔ اس سے دل خوش کن باتیں کرے۔ اس کو تسلی دے۔ اس کے حق میں دعا کرے ۔ اور اپنے لیے اس سے دعا کرائے۔ مریض کی دعا فرشتوں کی سی دعا ہوتی ہے۔ (ابن ماجہ)
اس لیے کہ وہ دکھ تکلیف اٹھاکر گناہوں سے پاک ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کی حالت زار قابل رحم ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی دعا میں خاص اثر ہوتا ہے ، اس لیے اس سے اپنے لیے دعا کرائے۔
بیمار کے پاس اتنا ہی بیٹھے ، جس سے وہ ملول نہ ہوجائے۔ اگر ہوسکے تو کچھ دعائیں پڑھ کر اس پر دم کردے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کرے اور سات مرتبہ یہ دعا پڑھے:
أسْءَلُ الْلّٰہَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ أنْ یَّشْفِیَکَ۔
تو وہ مریض ضرور شفا پائے گا۔ہاں اگر موت مقدر ہوچکی ہے ، تو دوسری بات ہے ۔( ابو داود، ترمذی)
یعنی موت کے حق میں تو نہ دوا ہے اور نہ دعا؛ لیکن اگر موت مقدر نہیں ہے، تو یہ دعا مرض کو دور کرنے کے لیے کافی ہے۔ جب نبی کریم ﷺ بیمار ہوئے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی:
بِسْمِ الْلّٰہِ أرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ دَاءٍ یُوْذِیْکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ أوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ، الْلّٰہُ یَشْفِیْکَ بِسْمِ الْلّٰہِ أرْقِیْکَ (مسلم)
عیادت مریض کی بڑی فضیلت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص عیادت کرتا ہے ، تو آسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہتا کہ تو خوب ہے ، تیراچلنا خوب ہے، تونے جنت میں اپنا ٹھکانا کرلیا۔ (ابن ماجہ)
دوسری حدیث میں ہے کہ جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور اپنے مسلمان بھائی کی ثواب کی نیت سے عیادت کرے، تو وہ دوزخ سے ساٹھ سال کی مسافت کی مقدار دور ہوجاتا ہے۔ (ابو داود)
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ عَادَ مَرِیْضَاً لَمْ یَزَلْ یَخُوْضُ الرَّحْمَۃَ حَتّیٰ فَاذَا جَلَسَ اِغْتَمَسَ فِیْھَا (رواہ مالک و احمد)
جو شخص عیادت کے لیے جاتا ہے ، وہ رحمت میں گھستا ہوا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ بیٹھ جائے ۔ پھر جب بیٹھ جاتا ہے ، تو رحمت میں ڈوب جاتا ہے۔
یعنی رحمت اس کو ہر طرف سے گھیر لیتی ہے ۔ یہ دوزخ سے دوری اور رحمت کی فراوانی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم ہر کس و ناکس کی عیادت کریں اوراس کا دل خوش کریں۔ دعائیں دیں اور ان سے دعائیں لیں ۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا، تو کل قیامت میں ہم سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا: ائے آدم کے بیٹو! میں بیمار ہوا، تو نے میری عیادت نہ کی۔ بندہ کہے گا : ائے پروردگار! میں کیسے تیری عیادت کرتا ، حالاں کہ تو سارے جہاں کا پالنہار ہے۔ خدا کہے گا: کیا تونے نہ جانا کہ میر افلاں بندہ بیمار ہوا، تو نے اس کی عیادت نہ کی، کیا تونے نہیں جانا، اگر تو اس کی عیادت کرتا، تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ (مسلم)

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close