مضامین

ٹی وی ڈبیٹس اور ہمارے مولانا‎‎

اظفر منصور نائب مدیر ماہنامہ سراغ زندگی لکھنؤ 8738916854

ملک میں نفرت کی ایسی متعدی وبا پھیلی ہے جس نے ہر دوسرے شہری کو اپنے دامن میں کس کےجکڑ رکھا ہے، جس کا اظہار ٹی وی ڈبیٹس، مذہبی و سیاسی پروگرامس، اخبارات اور ٹویٹر و دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شائع موادات ہوتا رہتا ہے، ان موادات سے یہ اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہیں کہ ہندوستان جو کبھی جنت نشان ہوا کرتا تھا آج آتش فشاں بنا ہوا ہے، رانچی کانپور پریاگ راج سہارنپور اسی طرح ملک کے دیگر کئی حصے بلڈوزر کی گھن گرج اور پولیس مظالم کے سائے میں شب و روز گذار رہے ہیں، ملک کی پوری آبادی خوف و ہراس کے ماحول میں اپنی زندگی بسر کر رہی ہے، اسلاموفوبیا کا شکار ہندی میڈیا نے اپنی لایعنی اور فضول بحثوں کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ دیگر برادران وطن مسلمانوں کو بھائی تو دور ایک قلب درد مند رکھنے والا انسان تک تصور کرنے کو تیار نہیں، تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میڈیا کی تحریک بحث کراؤ TRP بڑھاؤ لوگوں کے ذہنوں پر کس قدر اثر انداز ہورہی ہے، لیکن افسوس تو اس وقت بہت ہوتا ہے جب ایسی تحریک کو ہوا دینے کے لیے ہمارے نام نہاد دانشوران ٹی وی ڈبیٹس جبہ قبہ میں ملبوس ہوکر اسلامک اسکالر کا لیبل لگا کر اسلام اور مسلمانوں کی توہین کراتے نہیں تھکتے، جب ان سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو بغلیں جھانکتے ہیں اور پھر پورے ملک کے سامنے اپنے مسخرہ ہونے کا ثبوت دے آتے ہیں، تو ایسے مولانا ؤں کے بارے میں ہماری بلکہ ہر صاحب عقل و فہم کی پہلی اور آخری رائے یہی ہوگی کہ ان کا سماجی بائیکاٹ ہو، جس مدرسہ نے انہیں اپنی سند سے نوازا ہے وہ اسے ضبط کریں، اور ملی قائدین ان کی زبانوں پر قدغن لگانے کے لیے قانونی چارہ جوئی کریں، ورنہ جتنا خسارہ اب تک ملت اسلامیہ ہندیہ کا اب تک ہوا ہے اس سے بہت زیادہ اور ہوگا، کیونکہ ایسے لوگ ہی شان رسالت ﷺ میں گستاخی کرانے کا ذریعہ بنتے ہیں اور ایسے لوگ ہی اسلام اور مسلمانوں کی ناموس کا بیڑہ غرق کرتے ہیں، چنانچہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء اور جمعیت علماء ہند اسی طرح دیگر ذمہ داران کی بہت اچھی پیش قدمی ہے کہ انہوں نے ایسے مولانا ؤں کے خلاف قلم و قرطاس کے ذریعے مورچہ کھولا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close