مضامین

کچھ دیر ”کیا ہوئے یہ لوگ“کے ساتھ

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی خادم تدریس جامعہ نعمانیہ، ویکوٹہ، آندھرا پردیش

شخصیات پر لکھنے کا تین طریقہ ہمارے ہاں رائج ہے، سوانح نگاری، خاکہ نگاری اور تائثر نگاری، اردو زبان میں ان تینوں طریقوں میں بے شمار کتابیں دستیاب ہیں، اس وقت فدوی کے سامنے ثانی الذکر "خاکہ نگاری” سے متعلق ایک کتاب بنام "کیا ہوئے یہ لوگ” ہے، اس کے مصنف علم و فن کی جگہ سرزمین "دیوبند ” سے تعلق رکھنے والے ملک کے نامور ادیب و اریب ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف، قلم و قرطاس کے عظیم تاجور ازہر شاہ قیصر کے فرزند ارجمند مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحب دامت برکاتہم (استاذ:دارالعلوم وقف دیوبند) ہیں۔
مولانا موصوف اس وقت ملک عزیز کے گنے چنے اردو ادیبوں میں سے ایک باکمال ادیب ہیں، آپ کے خوشبو ریز قلم سے جو بھی کتاب منظر عام پر آتی ہے وہ ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہے، اور ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے بلکہ آن کے آن میں ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے۔
"کیا ہوئے لوگ” گذشتہ دن چند بیٹھک میں مطالعہ کیا، یہ 216/صفحات پر مشتمل ہے، سن اشاعت:مارچ 2021/ء،مطابق :شعبان المعظم 1442/ھ، اور ناشر:مکتبۃ الانور، دیوبند ہے۔
مصنف کے اس سے قبل بھی اس عنوان پر کتابیں آچکی ہیں جیسا کہ "سفر خامہ” کے تحت موصوف خود رقم طراز ہیں:
*شخصیات پر لکھے گئے مضامین کے انتخاب کا سفر میرے عہد کے لوگ سے“سے شروع ہوا”جانے پہچانے لوگ“، ”اپنے لوگ“، ”خوشبو جیسے لوگ“سے گذر کر ”کیا ہوئے یہ لوگ“تک آپہنچا ہے۔*
اس کتاب میں 36/شخصیات کا مختصر مگر جامع و مانع خاکہ ہے، اکثر علماء کرام ہیں، چند اردو ادباء بھی ہیں اسی طرح ایک غیر مسلم اردو ادیب ، نیز ایک دو شخصیتوں کا تکرار کے ساتھ بھی تذکرہ ہے۔
کتاب پر مقدمہ خاندان انوری کے علمی شاہین، تحریر و تقریر کے بحر ناپید کنار "حضرت مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی صاحب دامت برکاتہم (شیخ الحدیث وناظم تعلیمات :دارالعلوم وقف دیوبند)کے گہر بار قلم سے ہے، حضرت والا دامت برکاتہم صاحب کتاب اور ان کے طرز نگارش کے بارے میں لکھتے ہیں: *مولانا نسیم اختر شاہ صاحب یوں تو ہر طرح کے موضوعات پر لکھنے کی قدرت رکھتے ہیں اور متعدد کتابیں دیگر موضوعات پر بھی آئیں، مگر شخصیات پر ان کا قلم اپنی انفرادیت کے پھریرے اڑاتا اور علو شان کے جلوے دکھاتا ہے، زبان و ادب پر ان کی جیسی پکڑ ہے اور جس طرح کی چاشنی آمیز تحریر وہ لکھتے ہیں ان کے اقران میں یہ بات نہیں پائی جاتی، وہ جوں ہی قلم سنبھالتے ہیں فکرو خیال الفاظ کا روپ دھار لیتے ہیں، جملوں کی بارش ہونے لگتی ہے، حسین تراکیب اور دل نشیں بندشیں ان کی منتیں کرنے لگتی ہیں، زبان و بیان میں ندرت و اسلوب اظہار میں نزاکت تو ہے ہی، بڑی بات یہ ہے کہ ان کے مشاہدات بھی بڑے عمیق ہیں، اور یہ سارے رنگ مل کر ان کی پیکر تراشیوں کو قوس قزح بنا دیتی ہیں۔* (14)
مذکورہ بالا تعارف تحریر کا نمونہ اس کتاب میں ہر قاری محسوس کریں گے۔
ماشاءاللہ کتاب باطن کی طرح ظاہر میں بھی قابل صد تحسین ہے، زبان و بیان کیا کہنا، پڑھیں تو پڑھتے چلے جائیں۔
ہم بلا جھجک یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتاب اردو زبان وادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایک بیش بہا اور قیمتی تحفہ ہے، اللہ تعالی مصنف کے قلم کو دیر تک آباد و شاداب رکھے۔ (آمین)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
%d bloggers like this: