مضامین

الیانع الجنی اوراس کے مصنف شیخ محسن بن یحیی ترہٹی مونگیریؒ

طلحہ نعمت ندوی ،(استھاواں ،بہارشریف)

الیانع الجنی اوراس کے مصنف شیخ محسن بن یحیی ترہٹی مونگیریؒ
طلحہ نعمت ندوی ،(استھاواں ،بہارشریف)
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے خانوادہ کی اسانید کا سب سے مشہور سلسلہ وہ ہے جو حضرت شاہ عبد الغنی مجددی دہلوی کے حوالہ سے علماء دیوبند اور ہندوستان کے دیگر اداروں تک پہنچتا ہے، اس سلسلۂ سند کی سب سے مشہور کتاب الیانع الجنی فی اسانید الشیخ عبد الغنی ہے، جو اسانید کے علاوہ حضرت شاہ ولی اللہ اوران کے خانوادہ کے بزرگوں کے حالات و سوانح پر اختصارکے ساتھ خصوصاً عربی میں ایک اہم ماخذ کی حیثیت رکھتی ہےو اور تذکرہ وسوانح بالخصوص نزہتہ الخواطر میں ان بزرگوں کے حالات میں اس کتاب کے اقتباسات بکثرت نقل کئے گئے ہیں۔ یہ کتاب نہ صرف اپنے مشمولات و مواد بلکہ اپنے عربی اسلوب بیان اور زور انشاء کی بنا پر بھی ممتاز ہے اور ہندوستان کے دور جمود میں عربی زبان میں رواں اور بے تکلف نثر کا کامیاب نمونہ ہے، جس کی تعریف میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علی الرحمۃ(جو عصر حاضر میں عربی زبان و ادب کے مسلم ادیب اور ائمہ فن میں ہیں)بھی رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ حضرت مولانا حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمۃ کی عربی زبان میں اعلی درجہ کی نثر نگاری کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں ’:
’ شاہ صاحب کے بعد بھی سر زمین ہند میں متعدد علماء اور اہل قلم پیدا ہوئے جنہوں نے سوانح نگاری میں شستہ و شگفتہ طرز تحریر کا نمونہ پیش کیا جن کی تحریریں ان کے عرب معاصرین سے بھی ممتاز نظر آتی ہیں ۔ جنہوں نے تاریخ و تذکرہ پر قلم اٹھایا ہے، ان کی تحریروں میں سادگی و شیرینی اور سلاست کا عنصر نمایاں ہے ، ان میں خاص طور پر قابل ذکر علامہ محسن بن یحییٰ ترہتی ہیں ، جن کی کتاب الیانع الجنی فی اسانید الشیخ عبد الغنی ہے،جس میں خالص عربیت کی روح جھلکتی ہے اور وہ اہل زبان کی سلاست وشیرینی کا نمونہ ہے‘‘۔
اور اسانید و فہارس حدیث کے مشہور مورخ مصنف ’’فہرس الفہارس‘‘ علامہ عبد الحي کتانی جزائری نے بھی اس کی عربیت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
” وبالجملة فإن الكتاب المذكور هو أحلى أثبات المتأخرين وأوثقها سياقاً وأعذبها مورداً، وأفصحها كتابة وأصوبها في الضبط، ولا أعجب من إنشاء مؤلفه بالعربي مع أنه عجمي اللسان والنسب ولله في خلقه عجب”.
‘‘خلاصہ یہ کہ مذکورہ بالا ثبت حدیث متاخرین کے تمام اثبات میں سب سے زیادہ پرلطف ودلچسپ ،سب سے زیادہ اپنے سیاق کلام میں قابل اعتماد ہے،اس کی زبان میں بڑی شیرینی،تحریر میں بہت فصاحت ہے،اوروہ کلمات والفاظ کے ضبط وتصحیح میں سب سے زیادہ بہتراور درست ہے،ان سب سے زیادہ عجمی زبان ونسب ہونے کے باوجود مصنف کا اسلوب اور انشاء نگاری باعث تعجب ہے۔اللہ تعالیٰ کی مخلوفات میں ایسے عجائبات بہت ہیں’’۔
ان خصوصیات کے علاوہ حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے فرزندان واہل خاندان کے حالات عربی میں اس کتاب سے پہلے اس تفصیل کے ساتھ کہیں نہیں ملتے ،اسی لئے مولانا سید عبدالحي حسنی نے بھی اس خانوادہ کے بزرگوں کے حالات میں مذکورہ کتاب کے طویل اقتباسات جابجا نقل کئے ہیں،نواب صدیق حسن خاں ابجد العلوم میں شاہ صاحب کا مختصر تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"وذكر له معاصرنا المرحوم المولوي محمد محسن بن يحيي البكري التميمي الترهتي ترجمة بليغة في رسالته اليانع الجني وبالغ في الثناء عليه، وأتى بعبارة نفيسة جداً، أطال في ذكر أحواله الأولى والأخرى وأطاب، فإن شئت زيادة الاطلاع فارجع إليها”.
ہمارے مرحوم معاصر مولوی محمد محسن بن یحیی بکری تیمی ترہٹی نے اپنے رسالہ الیانع الجنی میں ان کا بہت ہی بلیغ اسلوب میں تذکرہ لکھا ہے،ان کی بھرپور مدح وتعریف کی ہے،ان کی عبارتیں بہت ہی فصیح اور معیاری ہیں، ان کے ابتدائی اور اخیر دور کے حالات بہت مفصل اور عمدہ لکھے ہیں، اگر آپ کو مزید ان کے حالات کی تلاش ہو تو ان کی کتاب کی طرف رجوع کریں۔
شیخ محسن کے حالات عام طور پر دستیاب نہیں ، ملکی و بین الاقوامی تصانیف میں اسانید کے تذکرہ میں جہاں ان کا نام آتا ہے وہ قال الفرینی یا قال الترھتی کے الفاظ میں، لیکن ان کے سوانح و حالات کا بہت کم ذکر ہوتا ہے ۔ عام مصنفین کے پیش نظر ان کے حالات کے لئے صرف مولانا سید عبد الحي حسنی کی نزہۃالخواطر ہے اوراس کے علاوہ علامہ عبدالحي کتانی کی مختصر تحریر۔مولاناسید عبد الحي حسنی کا ماخذ خود صاحب سوانح کی کتاب الیانع الجنی ہے جو اس کتاب کی تالیف میں ان کا بہت ہی اہم ماخذ رہی ہے، اس لئے ممکن ہے کہ مولانا حسنی کو کئی بار اس کتاب کے مطالعہ کا اتفاق ہوا ہو،اس لئے اپنی کتاب نزہۃ الخواطر میں شیخ محسن کے تذکرہ میں مولانا نے صرف انہی معلومات کو اپنے الفاظ میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے ،جوخودان کی کتاب میں موجود ہیں۔
ان کی پیدائش صاحب نزہۃالخواطرنے پورنیہ ذکر کی ہے ، لکھتے ہیں’’ ولد ونشأبفورنیہ من ارض ترہت‘‘۔ یہ بظاہر صاحب نزہۃ الخواطر کا اپنا اضافہ معلوم ہوتا ہے ، لیکن در حقیقت یہ بھی مصنف کے اس ضمنی اشارہ سے ماخوذ ہے جو انہوں نے اپنی کتاب کے سرورق پر اور کتاب کے آغاز میں ان الفاظ میں درج کیا ہے ’’محسن بن یحیی الترھتی الفرینی‘‘۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی علاقائی عالم سے انہیں اس کی اطلاع ملی ہو۔ وفات کا ذکر علامہ عبد الحي کتانی نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے جو علاقائی اطلاع سے ہم آہنگ نہیں ہے، تفصیل وفات کی بحث میں درج کی جائے گی ۔ ا س کے علاوہ ایک مختصر تعارف حضرت مولانا سید منت اللہ صاحب رحمانیؒ کی ایک تحریر میں ملتا ہے ، جس میں کچھ حالات کا اضافہ ہے، مولانا لکھتے ہیں:
’’ آپ کے والد منشی غلام یحییٰ موضع مظفرہ متصل بیگوسرائے ضلع مونگیر کے رہنے والے تھے اور انگریزی حکومت میں ناظر کے منصب پر سرفراز تھے، ملازمت کے سلسلہ میں ایک عرصہ تک پورنیہ میں بھی رہے ، ملازمت کے علاوہ بڑی جائیداد کے مالک تھے، جوانی ہی میں مظفرہ سے خضر چک آکر مقیم ہو گئے تھے، اس وقت خضر چک کا علاقہ سرکار ترہٹ میں تھا، اپنے صاحبزادے مولانا محسن کی تعلیم پر دل کھول کر خرچ کیا ،مولانا علیہ الرحمۃ نے ابتدائی تعلیم کلکتہ میں اور انتہائی تعلیم دلی میں حاصل کی اور حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلوی کے ارشد تلامذہ میں تھے ،آپ ہی نے الیانع الجنی فی اسانید الشیخ عبد الغنی لکھی، ہندوستان سے مروجہ تعلیم کی فراغت کے بعد مکہ معظمہ چلے گئے اور وہاں کے شیوخ سے استفادہ کیا اور مسلسل سات سال مکہ مکرمہ میں مقیم رہے اور مسجد حرام میں درس دیتے رہے، وہیں سے کتابیں جمع کرنا شروع کیں،حجاز کے کتب خانوں میں جو نایاب کتابیں تھیں ان کی نقلیں کرائیں ،اور مطبوعہ کتابیں بازار سے لیں ، اور ہندوستان واپس آئے تو ایک قیمتی کتب خانہ بھی ساتھ لائے جسے اپنے مکان واقع خضر چک ضلع مونگیر میں مرتب کیا اور سجایا، ایک روایت کے مطابق کتب خانہ میں کتابوں کی تعداد تقریباً بیس ہزار تھی، تعداد جو بھی ہو کتب خانہ وسیع اور قیمتی تھا ، خصوصاً فن حدیث کا بہترین متداول اور نایاب ذخیرہ یہاں موجود تھا، ۱۹۰۰ء میں ہندوؤں نے بعض اختلافات کی بنا پر گاؤں پر حملہ کیا ، باغوں کے درخت تک کاٹ ڈالے اور کتابوں کو دریا میں ڈال دیا اور پھاڑ دیا، پھر بھی پانچ ہزار کتابیں رہ گئی تھیں ، حیدرآباد سے شائع شدہ مستدرک حاکم کی جن نسخوں کو سامنے رکھ کر تصحیح کی گئی ان میں سے ایک نسخہ حضر چک کے کتب خانہ سے بھی گیا تھا ، مولانا سید ہاشم ندوی نے مستدرک حاکم مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد میں خاتمہ الکتاب میں لکھا،’’اناجمعنا نسخاًعدیدۃ لمستدرک الحاکم من مکاتیب بمبئی۔۔۔منھا نسخہ ۔۔۔۔ ناقصہ من مکتبہ امیر الدین اشرف الکیلانی‘‘۔یہ امیر الدین اشرف امیر موصوف کے بھانجے تھے ، ان کے مکتبہ سے مراد کتب خانۂ خضر چک ہی ہے ‘‘۔
ان معلومات کے علاوہ صاحب سوانح کا ایک مختصر تعارف ایک جگہ مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ کے قلم سے بھی ملتا ہے ، مولانا کی ان سے بہت قریبی نسبت و قرابت تھی، لیکن اس میں تقریباًوہی باتیں ہیں جو مولانا رحمانی کی تحریر میں گذر چکیں ۔ منشی بہاری لال فطرت نے بھی ان کا ذکر اپنی کتاب’’ آئینۂ ترہٹ‘‘ میں ڈیرھ سطروں میں کیا ہے لیکن ان کی باتیں افواہی رویات اور ان معتبر مآخذ کے خلاف معلوم ہوتی ہیں اس لئے قابل قبول نہیں ۔ مآخذ کی اس تفصیل کے بعد اب ذیل میں انہی کی روشنی میں ان کے حالات لکھے جاتے ہیں۔
شیخ اور ان کے والد کانام مختلف تحریروں میں مختلف الفاظ میں مذکور ہیں ، عام طور پر ان کانام محسن اور ان کے والد کا نام یحییٰ مشہور ہے، مولانا سید منت اللہ رحمانی نے ان کے والد کا نام یحییٰ کے بجائے غلام یحییٰ لکھا ہے،لیکن ان کی کتاب کے پہلے ایڈیشن (بریلی۱۲۷۸ھ)کے سرورق پر یہ الفاظ درج ہیں :’’تالیف العبد الفقیر الی ربہ الغني محمد بن یحییٰ المدعو بالمحسن التیمی ثم البکری، الترہتی ثم الفرینی عفا اللہ عنہ وعن سلفہ ومشائخہ وذویہ ،امین‘‘،یہ ا لفاظ بہ ظاہر خود مصنف کے قلم سے ہیں،شیخ عبدالجلیل برّادہ کے نسخہ میں نادرۃ عصرہ وفرید دہرہ کا اضافہ ہے ، کاتب نسخہ مصنف کے معاصر ہیں اور تصنیف کے صرف تین ماہ بعد ہی انہوں نے یہ نسخہ نقل کیا ہے ، انہوں نے لکھا ہے :’’الیانع الجنی فی اسانید الشیخ عبدالغنی متعنا اللہ ببقائہ وطیب الخافقین بعرف ثناء ہ ،تالیف فرید العصر ونادرۃ الدھر الشیخ محمد بن یحییٰ المدعو بمحسن التیمی ثم البکری، الترھتی ثم الفرینی عفا اللہ عنہ وعن سلفہ وعن مشائخہ وذویہ ،امین ‘‘۔مصنف کے نسخہ کا اب بظاہر کوئی سراغ نہیں ملتا اس لئے یہی نسخہ سب سے قدیم اور معتبر مانا جاتا ہے ،ہندوستان کا مطبوعہ اولین نسخہ جومولانامحمد احسن نانوتوی کے زیر اہتمام ان کے مطبع صدیقی بریلی سے شائع ہوا تھا اس میں بھی یہی الفاظ ہیں ،جو عبدالجلیل برّادہ کے نسخہ میں ہیں ،اس میں فریددہر ہ کے الفاظ زائد نہیں ہیں،اس لیے راقم کا خیال ہے کہ یا تو خودنسخۂ مصنف ناشر کے پیش نظر رہا ہوگا یا پھر انہوں نے حجاز سے اس کی نقل منگوائی ہوگی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نام محمد تھا ،اور محسن ان کا لقب تھا، لیکن بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان کا نام ہندوستانی ذوق کے مطابق محمد محسن اور ان کے والد کا نام غلام یحییٰ تھا، اور انہوں نے اپنی تالیف میں اہل عرب کے ذوق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنا نام اور ولدیت اس طرح لکھا ،یہ روح عربیت ان کی پوری کتاب میں غالب نظر آتی ہے،وہ ہندوستانی علماء کا نام بالکل عربی ذوق کے مطابق اس طرح لکھتے ہیں جیسے اہل عرب ،اور یہی ان کی کتاب کا اصل امتیاز ہے۔ شیخ نسباً صدیقی تھے، اسی لئے نام کے ساتھ اہل عرب کے مطابق اپنی نسبت البکری لکھی ہے، اور اپنے دیگر صدیقی النسب اساتذہ اور بزرگوں کا بھی جہاں ذکر کیا ہے وہاں ہندوستانی اصطلاح صدیقی کے بجائے البکری کالفظ ہی استعمال کیا ہے، اسی طرح فاروقی النسب بزرگوں کے لئے ہندوستانی اصطلاح فاروقی کے بجائے عربی اصطلاح العمری کا استعمال ہرجگہ ملتاہے۔اور سیدنا ابو بکر کی نسبت تیمی تھی اس لئے البکری کے ساتھ التیمی کا بھی اضافہ کیا گیاہے۔
مولاناکے دادا کا نام ایک وقف نامہ کی تصریح کے مطابق’’ کردگار بخش‘‘ تھا،یہ وقف نامہ شیخ محسن کے والد نے ان کی وفات کے فورا بعد تحریر فرمایا تھا ،جو مونگیر کلکٹریٹ میں محفوظ ہے ،اس کی کاپی ان کے خاندانی عزیز سید مصباح الدین اشرف کے توسط سے راقم کی نظر سے گذری ہے،اس سے اوپر کا نسب نامہ حضرت ابو بکرؓ تک نہیں ملتا،ویسے اس علاقہ میں عام طور صدیقی خانوادے موجود ہیں ،اور سادات خاندان میں ان کی قرابتوں سے بھی اس توثیق ہوتی ہے۔ مولانا دو بھائی تھے ،ایک محسن دوسرے احسن ،مولانا کا جوانی میں انتقال ہوگیا اور دوسرے بھائی مفقود العقل تھے ،اس لئے ان کے والد نے اپنی جائیداد کار خیر اور اپنے صاحبزادے کے ایصال ثواب کے لئے وقف کردی تھی۔مولانا کے وطن کے لئے بھی دو نسبتیں ذکر گئی ہیں ، ایک ترہٹی دوسرے فرینی یعنی علاقہ ترہٹ اور پورنیہ کی طرف نسبت ہے، پورنیہ ترہٹ سے الگ ہے، لیکن جیسا کہ مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کی تحریر میں گذر چکا کہ ان کا اصل وطن سرکار(ضلع) ترہٹ کا ایک گاؤں حضر چک ہے اور ان کے والد ملازمت کے سلسلہ میں پورنیہ میں ایک زمانہ تک مقیم رہے تھے،اور یہ بھی ممکن ہے کہ شیخ محسن کی پیدائش پورنیہ ہی میں ہوئی ہو،کیونکہ ان کی جائے پیدائش اور تاریخ ولادت کی کوئی صراحت دستیاب مآخذ میں نہیں ملتی۔لیکن اگر وفات کے وقت تقریبا۸۲۔۱۲۸۱ھ (۶۷۔۱۸۶۶) میں ان کی عمر (جیسا کہ علامہ کتانی نے تصریح کی ہے)تیس سال تھی تو اس حساب سے تقریبا ۱۲۵۰ھ (۱۸۳۶) ان کا سنہ ولادت قرار پاتا ہے۔
شیخ کے اساتذہ کا ذکر مولانا سید عبد الحي حسنی نے اپنی کتاب نزہۃ الخواطر میں کیا ہے ، لیکن جیسا کہ اوپر گذر چکا وہ شیخ کی تصنیف میں خود ان کی درج کردہ اجمال کی تفصیل ہے ۔ شیخ محسن حضرت شاہ عبد العزیز صاحب کا ذکر کرتے ہوئے ان کے تلامذہ کے ضمن میں مولانا سلامت اللہ کانپوری کے تذکرہ میں لکھتے ہیں:
وھو من أجلةأشیاخي في الھند، انتفعت بهكثیراً وصحبته نحو سنتیں، وسمعت علیه منأوائل کتاب البخاري ومن غیرہ سماعاً لیس بالمنتظم”.
پھر اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں :
"أجلّ مشائخي الذین کثر بھم انتفاعی ولو قلیلاً من الزمان ھولاء الذین ذکرتھم علی الترتیب، فأولھم الصدر رکن الدین القرشي الترھتی ثمّ الشریف عبد الغني المفتي السارني و علي جواد السلھطي البنجالي ثم الفقیه المدرّس الأجلّأبوالفضل محمد المدعو بوجیه الدین البکري الترھتي ثم الكلكتي، ثمّ سعید بن الواعظ علي البکري العظیم آبادي، أخذت عن ھؤلاء النحو والعربية، ثمّ ارتحلت إلی الشیخ سلامة اللہ صاحب الترجمة وانتفعت به فی أنواع العلوم ثمّإلی أبي العلاء الفضل بن الفضل العمري ثم بالواجد(كذا في النسخ) علي بنإبراهیم بن عمر البنارسي العمري رحمھم اللہ تعالی وأثابھم الجنة وجزاھم عني خیرالجزاء”.
اسی عبارت کو مولانا سید عبد الحي حسنی کچھ وضاحت کے ساتھ اپنے الفاظ میں اس طرح لکھتے ہیں:
"وأخذ عن الصدر رکن الدین القرشي الترھتي ثم الشریف عبدالغني المفتي السارني وعلي جوادالسلھتي والفقیه محمد….البکري الترھتي ثمّ الشیخ محمد سعید بن واعظ علي العظیم آبادي، أخذ عن ھؤلاءالنحو والعربیة ثمّ سافر إلی کانفور، ولازم الشیخ سلامةاللہ الصدیقي البدایوني، وصحبه نحو سنتین، وسمع علیه من أوائل کتاب البخاري سماعاً لیس بالمنتظم، وانتفع به فيأنواع العلوم ثمّ لازم العلامة فضل حق بن فضل إمام الخیر آبادي وقرأ علیهم،ثمّ قرأ علی المفتي واجد علي بن إبراهیم بن عمر البنارسي، ثم منّ اللہ علیه بالحج والزیارۃ فسافر إلى الحرمین الشريفین وأخذ عن المحدث عبد الغني بن أبي سعیدالعمري الدھلوی بالمدینة المنورة”.
ان دونوں اقتباسات کی روشنی میں ان کی تعلیم کے سلسلہ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی ابتدائی تعلیم پورب( مشرق) میں اور اعلی تعلیم مغرب اور حجاز میں ہوئی، علوم عربیہ آلیہ کی تحصیل انہوں نے اپنے وطن اور اطراف میں اورپھر بقول مولانا منت اللہ رحمانی کلکتہ میں کی۔ اوپر جن علماء کے نام آئے ہیں ان میں کچھ شخصیتیں کلکتہ ہی مقیم تھیں ، اور کچھ نام معروف اور کچھ غیر معروف ہیں ، پہلا نام الصدر رکن الدین قریشی ترہتی متعارف نہیں ، یہ شیخ کے علاقہ ہی کے بزرگ معلوم ہیں ، ممکن ہے مکتب یا ابتدائی کتابوں کے استاذ ہوں، اس لئے اتنا متعارف نہیں ہو سکے ، دوسرے بزرگ مفتی عبد الغنی سارنی بھی ان کے قریب الوطن ہی ہیں ،یعنی ضلع سارن (چھپرہ وسیوان )ان کا وطن تھا اس لئے قرین قیاس ہے کہ شیخ نے ان سے بھی اپنے وطن یا علاقہ میں رہ کر ہی استفادہ کیا ہوگا۔ سعید بن واعظ علی عظیم آبادی عظیم آباد کے مشہور عالم و بزرگ اور مدرس مولانا سعید حسرت عظیم آبادی ہیں ، ان کا قیام عظیم آباد ہی میں رہا ہے ،جہاں ان کا ایک بڑا مدرسہ تھا ،وہ علم حدیث کے ممتاز علماء و مدرسین میں ہیں ، خطۂ عظیم آباد کے ممتاز محدث مولانا ظہیر احسن شوق نیموی علیہ الرحمۃ بھی ان کے خوشہ چیں ہیں ،اس لئے بہ ظاہرعظیم آباد ہی میں صاحب سوانح نے ان سے کسب فیض کیا ہوگا ،مولانا سعید نے حضرت شاہ سلامت اللہ بدایونی سے بھی استفادہ کیا تھا اور حجازجا کرمحدثین حجاز سےبھی اکتساب علم کیا تھااس لئے یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ مولانا سلامت اللہ سے صاحب سوانح کے استفادہ اورسفرحجاز دونوںمیں ان کا مشورہ شریک رہا ہو۔ البتہ دو نام ایسے ہیں جن کے بارے میں بہت حد تک امکان ہے کہ ان سے کلکتہ جا کر استفادہ کیا ہو، محمد المدعو بوجیہ الدین سے مشہور عالم مولاناوجیہ الدین کلکتوی مراد ہیں جن کا وطن گرچہ ترہٹ ہی ہے ، لیکن کلکتہ میں مستقل قیام اور مدرسہ عالیہ میں تدریس کی بنا پر اسی شہر کی نسبت سے مشہور ہوئے ، اسی طرح ایک اور عالم علی جواد سلہٹی(بنگالی) سے بھی شاید کلکتہ ہی میں استفادہ کا موقع ملا ہوگا ، یہ بھی ممکن ہے کہ ان دونوں بزرگوں سے مدرسہ عالیہ ہی میں رہ کر استفادہ کیا ہو۔
خود صاحب سوانح کے بقول ان بزرگوں سے انہوں عربی زبان اور قواعد کی تحصیل کی ، اس لئے اس میں کسی شک یا اضافہ کی گنجائش نہیں ، لیکن ناموں کی ان فہرست اور اس میں شامل القاب وآداب کو پیش نظر رکھتے ہو ئے یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ انہوں ان بزرگوں سے فقہ کی بھی گرچہ ابتدائی ہی صحیح کچھ تعلیم ضرورحاصل کی ہوگی، جیساکہ اس دور کا معمول تھا۔ ایک اور عالم شیخ واجد علی فاروقی بنارسی سے بھی استفادہ کا ذکر ہے،ان کی مسند درس بھی چھپرہ ہی میں آراستہ تھی اور وہیں ان کا انتقال بھی ہوا۔ البتہ ہندوستان میں ان کے اصل استاذ ابتدائی علوم کی تحصیل کے بعد دو ہی ہیں ، ایک مولانا فضل حق خیرآبادی ،دوسرے مولاناسلامت اللہ بدایونی، خود صاحب کتاب نے ثم کے لفظ سے جو ترتیب ذکر کی ہے اس کا اقتضا ہے کہ پہلے مولانا سلامت اللہ بدایونی سے منقولات کی تکمیل کی ہوگی،اس کے بعد مولانا فضل حق خیر آبادی کی خدمت میں حاضر ہوئے ہوں گے،مولانا فضل حق جس علم کے ماہر کی حیثیت سے مشہور ہیں وہ معقولات کا علم ہے جس کے اہم اسکول سلسلہ خیرآباد کی وہ آخری کڑی ہیں ،لیکن اس کے ساتھ ان کو ادب میں بھی کامل دستگاہ تھی اس لئے عجب نہیں کہ ان سے اس فن کی بھی تحصیل کی ہو۔ہندوستان میں جس شخصیت نے ان پر سب سے زیادہ اثر ڈالا اور جن کی صحبت وعلم سے انہوں نے سب سے زیادہ استفادہ کیا وہ مولانا سلامت اللہ بدایونی ثم کانپوری ہیں ،شیخ محسن کو ان کی خدمت میں طویل عرصہ تک رہ کر ان سے اکتساب فیض کا موقع ملا ،شیخ اپنی مذکورہ بالاتحریر میں ان سے بہت متاثر اور ان کے احسانات سے زیر بار نظر آتے ہیں ۔پہلے اپنی کتاب کے متن میں ان کا ذکر ضمنا کیا اور لکھا کہ ’’ وہ میرے جلیل القدر اساتذہ میں ہیں ،میں دو سال ان کی صحبت میں رہا ،اور ان کی صحیح بخاری اور دیگر کتابوں کی غیر منظم ہی شکل میں سہی سماعت کی ‘‘۔جیسا کہ اوپر گذرچکا
اس کے بعدحاشیہ میں اپنے دیگر اساتذہ کا ذکر کرنے کے بعد مولانا سلامت اللہ کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ثم ارتحلت الی الشیخ سلامۃ اللہ صاحب الترجمۃ وانتفعت بہ فی انواع العلوم ‘‘ (اس کے بعد میں نے مولانا سلا مت اللہ کی خدمت میں حاضری دی اور ان سے مختلف علوم میں استفادہ کیا )۔
مولانا سلامت اللہ سے استفادہ کے بعد ان کا تعلیمی سلسلہ بہ ظاہر ہندوستان میں ختم ہوجاتا ہے،لیکن اس سلسلہ میں چند سوالات ذہن میں آتے ہیں ۔کیا وہ تعلیم کے فورا بعد ہی حجاز گئے یا ہندوستان میں کچھ مدت تک تدریس وافادہ کی خدمت بھی انجام دی؟۔سفر حجاز کااصل مقصد استفادہ تھا یا حج کے لئے تشریف لے گئے اور ضمناوہاں کے علماء سے استفادہ بھی کیا؟۔کیا حجاز کے علاوہ بھی ان کا کہیں کا سفر ہوا تھا؟ان تمام سوالات کے جواب کے لئے ہمارے پاس کوئی معتبر ماخذ نہیں ہے۔تحصیل علم کے بعد سے وفات تک ان کے حالات میں جو چند سطریں مختلف کتابوں میں محفوظ ہیں ان میں بہت اختلاف اور تضاد نظر آتا ہے۔ذیل میں ان متضاد بیانات کا تجزیہ کرکے اپنی رائے پیش کی جارہی ہے،نیز کچھ خاندانی روایات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
مولانا منت اللہ صاحب رحمانیؒ کا اقتباس گذرچکا کہ انہوں نے مکہ میں سات سال رہ کر وہاں کے علماء وشیوخ سے استفادہ کیا تھا اور حضرت شاہ عبدالغنی سے دہلی میں استفادہ کیا ،لیکن بہ ظاہر دہلی میں حضرت شاہ عبدالغنی سے استفادہ کی بات درست نہیں ،کیوں کہ ان کے حسب تصریح (جیسا کہ گذرچکا)ان کی انتہائی تعلیم مولانا سلامت اللہ بدایونی کے یہاں کانپور میں ہوئی تھی ،وہ دہلی میں مقیم نہیں تھے،مولانا کو شاید اس لئے غلط فہمی ہوئی کہ حضرت شاہ عبدالغنی کی مسند درس دہلی ہی میں آراستہ تھی ،لیکن وہ جنگ آزادی کے بعد اسی سال یعنی ۱۹۵۷ء(۷۳۔۱۲۷۲ھ)میں حجاز ہجرت کرگئے تھے،جس وقت شیخ محسن کی عمر تقریبا تیرہ ،چودہ سال رہی ہوگی جس میں عام طوعر پر علم حدیث کی تحصیل کااتفاق کم ہی ہوتا ہے ،پھر اگر انہوں نے ان سے دہلی میں تعلیم حاصل کی ہوتی تو جہاں اپنے اساتذہ کا ذکر کیا ہے ان کا تذکرہ ضرور کرتے ، اس لئے اس کا بہت ہی کم امکان ہے کہ انہوں نے حضرت شاہ عبدالغنی سے دہلی میں تعلیم حاصل کی ہوگی،اس لئے امکان یہی ہے کہ بہ ظاہر انہوں نے ان سے حجاز ہی میں استفادہ کیاہے، ان کے علاوہ حجاز میں کن علماء سے استفادہ کیا اس کی تفصیل نہیں ملتی ،شیخ نے جہاں اپنے اساتذہ کا ذکر کیا وہاں صرف ہندوستانی اساتذہ کا ذکر ہے ،حضرت شاہ عبدالغنی سے استفادہ کا بھی وہاں ذکر نہیں ،اس لئے یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ انہوں نے ان کے علاوہ حجاز میں کسی اور سے اکتساب علم نہیں کیا،لیکن اس کی تفصیل نہیں معلوم۔
حضرت امیر شریعت مولانا رحمانی خاندانی قرابت اوران کے متعلق یہ تفصیلات ذکر کرنے کے باوجود ان کی تاریخ وفات اور جائے وفات کے سلسلہ میں خاموش ہیں ،اس یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شاید انہیں اس کا علم نہیں ہوگا۔البتہ ایک دوسری تحریر میں جو شیخ کے ایک معاصر اوران کی وفات کے وقت کے چشم دید گواہ کے قلم سے ہے اس کا ذکر ملتا ہے۔مسلسلات واثبات کے مشہور عالم علامہ عبدالحي کتانی اپنی مشہور کتاب فہرس الفہارس میں ان کے تذکرہ میں لکھتے ہیں :
"ووجدت بخط مجیزنا أبی الحسن علی بن أحمد بن موسى الجزائری علی ھامش ’”قطف الثمر”‘في حق محمد یحییٰ المذکور نقلا عن شیخنا أبی الحسن علي بن ظاهرالوتري أنه توفي بالمدینة المنورۃ فيأوائل العشرۃ الأخیرۃ من القرن المنصرم بحرق أنوار جذب عرضت له، رحمه اللہ، لم یطق حملھا،قال عالجت تسکینه فأعیانی أمرہ وقويحالهإلیٰ أن کانت به منیتهوهو فی حدود الثلاثین من عمرہ”
میں نے اپنے استاد (جن سے اجازت حاصل کی ہے) شیخ ابوالحسن علی بن ظاہر وتری جزائری کی تحریر جو انہوں نے قطف الثمر کے حاشیہ پر لکھی ہے دیکھی، اس میں انہوں نے شیخ محمد یحییٰ مذکور کے بارے میں لکھا ہے کہ موصوف کا انتقال گذشتہ صدی کی آخری دہائی کے اوائل میں مدینہ منورہ میں ہوا،اور اس طرح کہ جذب کے انوار جو ان کو پیش آئے ان انوار کی تاب نہ لاکر انہیں میں جل گئے،شیخ مذکور نے یہ بھی لکھا ہے کہ میں نے ان کے ان حالات جذب کو تسکین دینے اور غلبہ کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اتنے قوی تھے کہ ان پر غلبہ پانا میرے بس کی بات نہ تھی، ان کی یہ کیفیت بڑھتی ہی رہی یہاں تک کہ اسی میں ان کی وفات ہوگئی،اس وقت ان کی عمر تیس سال کے قریب تھی۔
اس تصریح کے مطابق اگر ان کا انتقال حجاز ہی میں تسلیم کیا جائے تو پھر مولانا منت اللہ رحمانی کے بیان کے مطابق ایک زبردست کتب خانہ کا ذکر بے معنی ہوجائے گا ،جب کہ مولانا ان کے عزیزوں میں ہیں اور ان کا وطن میں حجاز سے کتب خانہ لانا اور اس کو مرتب کرنا معلوم ومعروف ہے، نیز مولانا گیلانی نے بھی اس کا اور ہنود کے اس کے بڑے حصہ کو ضائع کرنے کا ذکر کیا ہے،اس کے علاوہ بھی مولانا کی تحریروں میں جابجا اس کتب خانہ کا ذکر ہے،اس لئے نہ مولانا منت اللہ کے بیان کو نظر انداز کرنا ممکن ہے نہ ہی علامہ کتانی کا شیخ جزائری کے حوالہ سے ان کی وفات کا چشم دید مشاہدہ قابل انکار ہے ۔
ایسی صورت میں دونوں میں تطبیق کی یہی شکل نظر آتی ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ شیخ محسن ہندوستان میں تعلیم کی تکمیل کے بعد حجاز گئے ،وہاں انہوں نے محدثین وعلماء سے استفادہ کیا ،کتابیں نقل کروائیں ،اوراگر ان کے اعزہ کا بیان تسلیم کرلیا جائے تو پھر انہوں نے وہاں سے قلمی کتابوں کے حصول اور مطالعہ کے لئے مصر اور دیگر ممالک بشمول یورپ کا سفر بھی کیا اور اپنے پورے کتب خانہ کو لے کر ہندوستان آئے ،جو ۸۰۔۱۲۷۸ھ؁(۶۶۔۱۸۶۳ء؁ )کے درمیان ممکن ہے،اور یہاں اپنے وطن میں اپنے کتب خانہ کو بنا سنوار کر جلد ہی کسی ضرورت سے یا حج کی غرض سے یا مزیداستفادۂ علم کے لئے دوبارہ حجاز تشریف لے گئے اور اسی سفر میں کچھ دنوں کے بعد ان کا انتقال ہوگیا ،علامہ کتانی نے شیخ جزائری کے حوالہ سے مدینہ منورہ میں ان کی وفات کا ذکر کیا ہے ،جس میں تاریخ کی تحدید نہیں کی گئی ہے بلکہ فی اوائل العشرۃ الاخیرۃ من القرن المنصرم لکھا ہے،یعنی تیرہویں صدی کی آخری دہائی کے آغاز میں ،آخری دہائی سے ایک دہائی قبل کو بھی کبھی آخری دہائی کہہ دیا جاتا ہے ، علامہ عابد سندھی کے تذکرہ میں سائدبکدش صاحب نے عربی میں الشیخ محمد عابد السندی الانصاری نامی ایک ضخیم کتاب لکھی ہے ،جو دارالبشائر الاسلامیہ بیروت سے شائع ہوئی ہے ،اس میں (ص ۱۵۷)انہوں نے ایک جگہ شیخ محسن کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ’’المتوفی تقریبا سنۃ ۱۲۹۳ھ‘‘،لیکن یہ کوئی تحدید نہیں بلکہ فہرس الفہارس ہی قول کی بنا پر ایک اندازہ ہے،انہوں نے شیخ محسن کے حالات کے لیے حاشیہ میں صرف انہیں دو کتابوں کے نام ذکر کئے ہیں،اس لئے اس سے بھی ان کی تاریخ وفات کی تحدید نہیں ہوتی ،لہذا راقم کی رائے ہے کہ شاید ۸۲۔۔۱۲۸۰ھ؁ کے درمیان ان کی وفات ہوئی ہوگی ۔
اس کی توثیق اس بات سے بھی ہوتی ہے (جیسا کہ ان کے عزیز وہم وطن سید مصباح الدین اشرف صاحب نے بتایا )کہ ۱۸۷۰ء میں ان کے نام سے ان کے والد نے جائیداد وقف کی تھی،اس کی رو سے قانون وقف کے مطابق اس سے پہلے ان کا انتقال ہوچکا ہوگا۔۱۸۷۰ء؁ سے قبل یعنی ۱۸۶۸ء؁ یا اس کے قریب کا سن ۱۲۸۲ھ؁ یا ۱۲۸۱ ھ؁ کے مطابق ہے ،اس لئے قرین قیاس یہی ہے ۔ہندوستان اور ان کے وطن وعلاقہ کی معاصر تحریروں میں ان کا کوئی ذکر نہیں نظر آتا اور ایسا کسی معروف عالم کے اپنے علاقہ میں رہتے ہوئے بہت کم ہوتا ہے۔۱۲۸۰ھ؁ میں انہوں نے اپنی کتاب لکھی ہے ،اور اسی سے شیخ عبدالجلیل برّادہ نے تین ماہ بعد اس کو نقل کیا ہے ،اس وقت تک موصوف کی حیات کا پتہ چلتا ہے لیکن اس کے بعد ان کی کوئی سرگرمی نہیں نظرآتی ،نہ ہندوستان اور ان کے علاقہ میں ان کا کوئی ذکر ملتا ہے،اگر وہ طویل عرصہ تک حیات رہتے اور یہاں قیام رہتا تو ناممکن تھاکہ ایسے فاضل کا تعارف نہ ہوسکے۔۱۲۸۷ھ؁میں مولانا محمد احسن صاحب صدیقی نانوتوی نے اپنے مطبع صدیقی بریلی سے اس کتاب کا پہلا ایڈیشن شائع کیا تھا ،جو بالکل اصل نسخۂ مصنف پرمبنی معلوم ہوتا ہے،لیکن اس میںبھی کہیں سے مصنف کی حیات کا اشارہ نہیں ملتا ،نہ مصنف کے متعلق کوئی اطلاع موجود ہے،اس کے سرورق پر جو الفاظ ہیں وہ گذرچکے ہیں وہ نسخۂ مصنف کی نقل ہیں،شیخ عبدالجلیل برّادہ نے تصنیف کے تین ماہ بعد جو نسخہ نقل کیا ہے اس میں بھی یہی الفاظ ہیں ،صرف انہوں نے ایک دو الفاظ اپنی طرف سے اضافہ کئے ہیں جس کا تذکرہ گذرچکا ہے۔اس تفصیل کے بعد ریاض ترہٹ کے مصنف کا یہ بیان افواہی روایت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ کنویں میں گر جنون کی حالت میں ان کی وفات ہوئی، وقف نامہ کی اطلاع کے مطابق ان کی وفات تو جوانی میں ہوگئی تھی اور ان کے دوسرے بھائی مفقود العقل تھے ،اس لئے ان کے والد نے ان کی وفات کے بعد ان کے نام سے ایک مدرسہ کے لئے تمام جائداد وقف کردی تھی ،ممکن ہے ریاض ترہٹ کے مصنف کو ان کے بھائی کے مفقود العقل ہونے کی اطلاع غلطی سے خود شیخ محسن کی نسبت ہوگئی ہو۔
شیخ محسن نے بہت کم عمری میں انتقال فرمایا اس لئے ان کے علمی کمالات سے لوگ زیادہ واقف نہیں ہوسکے ،لیکن ان کی عبقریت کی شہادت ان کی کتاب سے تو ملتی ہی ہے ،اس کے علاوہ ان کے معاصرین میں شیخ عبدالجلیل برادہ سے قلم سے ان کے نام کے نادرۃ عصرہ وفرید دھرہ کا اضافہ ان کے اعتراف کمال کا غمازہے۔شیخ ابوالحسن بن ظاہر وتری کی عبارت بھی گذرچکی ہے،جس سے ان کی روحانی عظمت و بلندی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اور علامہ کتانی نے ان کوالشاب المحدث البارع العلامة لکھاہے۔
حجاز کے معروف عالم شیخ عبدالوہاب صدیقی دہلوی بھی ان کے کمالات کے معترف ہیں،لکھتے ہیں’’”کان ھذا ۔۔من اھل الحدیث وکان عالما کبیرا وذکیا” (وہ اہل حدیث علماء میں تھے اوربہت بڑے عالم اوربڑے ذہین تھے)،یعنی حدیث سے ان کا خصوصی موضوع تھا ،کیوں وہ بہ ظاہر فقہ حنفی کے پابند تھے ۔ان کے علاوہ کسی اور کی شہادت ہمارے علم میں نہیں۔حیرت ہے انہی مولانا عبدالوہاب صدیقی دہلوی کے صاحبزادے مولانا عبدالستار ابوالفیض صدیقی دہلوی ہیں ،جنہوں نے الیانع الجنی کے کام کو آگے بڑھا کر الموردالہنی فی اسانید الشیخ عبدالغنی لکھی ،اوراپنے معاصر اورماقبل عہد کے علماء کا جامع تذکرہ بھی عربی میں فیض الملک المتعالی بابناء القرن الثالث عشر والتوالی کے نام مرتب کیا جو ابھی چند سال قبل تین جلدوں میں مرتب ہوکر آگیا ہے ،لیکن مصنف الیانع الجنی سے واقفیت کے باوجود بھی ان کا ذکر نہیں کیا ،حالاں کہ وہ جا بجا ان کا حوالہ بھی دیتے ہیں،اور ان کو ان کے قیام حجاز کے واقعات شیخ محسن سے ملنے والوں سے معلوم ہوئے ہوں گے ،جیسا کہ کتاب کے بعض اشارو ں سے معلوم ہوتا ہے ،نیز انہوںنے ان کے اساتذہ مولانا سلامت اللہ بدایونی کانپوری اور مولانا سعید حسرت عظیم آبادی کا بڑے اہتمام سے ذکر کیا ہے اور الیانع الجنی کے اقتباسات بھی نقل کیے ہیں۔شیخ ابوالحسن علی بن ظاہر وتری جن کی عبارت شیخ محسن کے سلسلہ میں گذرچکی ہے،ان کے بارے میں شیخ عبدالستار نے لکھا ہے: "سمع من (من الشيخ عبدالغني) جمیع المسلسلات التي في آخر حصر الشارد مرتین ،إحداھما حین قدم علیه الشیخ محسن بن یحییٰ البکري الصدیقي مؤلف الیانع الجني المدینة المنورۃ، قرا علیه الستة بکمالها وغیرھا”
یعنی شیخ عبدالغنی شیخ علی بن ظاہر الوتری حصرالشارد فی اسانید محمد عابد میں موجود تمام مسلسلات کی سماعت کی، ایک مرتبہ اس وقت جب حضرت شاہ عبدالغنی کی خدمت میں شیخ محسن صدیقی مدینہ منورہ آئے اور ان سے پوری صحاح ستہ اور دیگر روایات کی سماعت کی۔
اس سے ضمنا اس کی صراحت ہوگئی کہ شیخ محسن نے صحاح ستہ مکمل ان کی خدمت میں پڑھ کر سند لی تھی ،نیز مسلسلات وغیرہ کی بھی قراء ت کی تھی،لیکن حیرت ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں صرف صحاح ستہ کی اسانید لیں دیگر اسانید واجازات بالکل چھوڑدیں۔علامہ عبدالحي کتانی کو بھی اس پر حیرت ہے ،انہوں نے حضرت شاہ عبدالغنی کی اسانید واجازات حرم شریف میں دیکھی تھیں اور ان الفاظ میں اس پر تعجب کا اظہار کیا ہے ۔
"وعندي صورة إجازتهما له والعجب من عدم إدراجها في اليانع الجني في أسانيد الشيخ عبدالغني”.
مولانا سید منت اللہ رحمانی ان کی مکہ اور حرم میں تدریس کا بھی ذکر کیا ہے ،اگر یہ صحیح ہے تو اس سے ان کے فضل وکمال کی ایک اہم شہادت ہاتھ آتی ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ طول مدت کی وجہ سے بعض غلط اطلاعات ،اور کبھی لاعلمی اور اجمالی واقفیت کی وجہ سے مبالغہ آرئیاں بھی زبان زد ہوجاتی ہیں ،پھر وہی ایک مدت کے بعد تحریر کا قالب اختیار کرلیتی ہیں ،اس طرح کی اطلاعات قابل غور ہوتی ہیں ۔
کتاب کی خصوصیات کے متعلق حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒاورعلامہ عبدالحی کتانی جزائری کی تحریریں گذرچکی ہیں۔نواب صدیق حسن خاں نے ابجدالعلوم اور الحطہ وغیرہ میں اس سے فائدہ اٹھایا ہے ،اور انساب اور نسبتوں کی تحقیق میں اس کے حوالے دئے ہیں،مولانا سید عبدالحی حسنی نے تو نزہۃ الخواطر میں جا بجا اس کی عبارتیں نقل کی ہیں ،فیض الملک المتعالی میں بھی اس عبارتیں ہیں،فہرس الفہارس میں بھی علامہ عبدالحی کتانی نے ہر جگہ اس کا حوالہ دیا ہے۔
حضرت شاہ عبدالغنی دہلوی کے اسانید کی وجہ سے اس کتاب کو علمی حلقوں میں مقبولیت حاصل ہوئی،لیکن اس کو حضرت شاہ عبدالغنی کا مکمل مجموعہ اسانید کہنادرست نہیں۔انہوں نے صرف صحاح ستہ اور موطا امام مالک کی اسانید کتاب میں درج کی ہیں ،اور ہر سند کے بعد صاحب کتاب کا تذکرہ کیا ہے ،لیکن ہر کتاب کی صرف ایک ہی سند ذکرکی گئی ہے ،دیگراسانید کوچھوڑدیا گیاہے،البتہ رجال کی بعض تحقیقات بہت اہم ہیںجواس کتاب کا امتیاز کہا جاسکتا ہے ،ورنہ اس کے مقابلہ میں شیخ عبدالستار صدیقی دہلوی کی مرتب کردہ الموردالہنی فی اسانید الشیخ عبدالغنی زیادہ جامع ہے ،اور اس میں حضرت شاہ عبدالغنی کی بیاض میں موجود تمام اسانید کو موضوع وار مرتب کیاہے، جن میں کتب ستہ کے علاوہ قراء ت اور مسلسلات کی اسانید بھی شامل ہیں ،لیکن حیرت ہے کہ نہ اس کی کتاب کی طرف توجہ ہے نہ اب تک یہ کتاب شائع ہوکر منظر عام پر آسکی ہے۔الیانع الجنی کی مقبولیت کا راز حضرت شاہ عبدالغنی کی زندگی ہی میں اس کی تحریر واشاعت اور ان کی پسندیدگی کے علاوہ اس کی رواں اور سلیس زبان ،بعض آراء ومقامات کی تحقیق اور حضرت شاہ ولی اللہ او ر کے خانوادہ اور سلسلہ کے افرادکے مفصل وجامع تذکرہ میں پنہاں ہے۔
الیانع الجنی میں اسانید کے تذکرہ کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے فرزندان وتلامذہ کا مفصل تذکرہ جس میں مصنف کے اسلوب کی سلاست وروانی قابل دید ہے ،اور شاید اسی حصہ کی وجہ سے اس کتاب کو مقبولیت حاصل ہوسکی۔مصنف نے اخیر میں لکھا ہے :
"قال مؤلف هذه العجالة وملفق ھذہ الرسالة وقاہ اللہ تعالیٰ شرّ نفسه وجعل یومه خیراً من أمسه، ھذا آخر ما أرد اللہ سبحانه مني من جمع أسانید الکتب السبعة وما یتعلق بها ومن تراجم أصحابها والثناء علی مصنفاتهم ثم من تذکرۃ بعض المشائخ رحمهم اللہ تعالیٰ، ولهالحمد علیٰ ما أسعدنی علیه، وکذا علیٰ سائر نعماءه التي لا یحصیها إلاّ ھو سبحانه، ولقد نفعنی الربّ عند جمعها بکتب مفیدۃ من کتب المتقدمین من العلماء والمتأخرین منهم الخطابی والنووي،والعراقي،وابن حجر،والأسیوطی،والقطب ولي اللہ وابنه عبدالعزیز،وعابد السندی والشوکاني والفلاني والفاسي وغیرهم، رحمهم اللہ تعالیٰ جمیعا،وجزاهم عني خیرالجزاء،وأرجو أن أکون قد تحریت فیها الصواب وبالغت في الاحتیاط،فمن اعتمد علیٰ شیء من ذلك رجوت أن یسوغ لهإن شاء اللہ تعالیٰ.
وأمّا وفیات رجال الأسانید وتحقیق أنسابهم فلیس بتلك المثابة فإنما ألحقتها ملتقطا لها من نسخة لم أحسن قراءتها،ولم آمن علیهاالغلط من الناسخ، وکنت عند ذاك مستعجلا لما یطول شرحه،وکذلك التذییل إلیٰ آخرہ،فإنما أملیت أکثرہ علیٰ الکاتب إملاء من لفظي من غیر سبق مسودۃ مني،ولابدّأن یکون فیه غلط ولحن، فمن وقفعلیٰ شیء منی فالیأخذبسیرۃالکرام ولیعذرنی،فإنی لم استاهل لما انتصبت له،ولم أعرف بذلك ولا بما هو دونه،واللہ المستعان۔
وقد وافق الفراٖغ منها عشیة یوم الأربعاء لإحدی عشرۃ لیلة بقیت من رجب سنة ثمانین ومائتین وألف بالمدینة المنورۃ النبویة علی صاحبها السلام والتحیة”.
اس کتاب کا سب سے پہلا ایڈیشن مطبع صدیقی بریلی سے ۱۲۸۷ھ میں یعنی سنہ تحریر کے سات سال کے بعدمدیر مطبع مولانا محمد احسن نانوتوی کی نگرانی میں شائع ہوا تھا۔گرچہ کچھ اہل علم کی رائے ہے کہ اس وقت تک مصنف حیات تھے اور یہ کتاب ان کی تصحیح کے بعد شائع ہوئی ہے ،لیکن کتاب میں کہیں کوئی ایسی تصریح نہیں ملتی جو اس دعویٰ کی تصدیق کرسکے،مصنف اس سے قبل ہی وفات پاچکے تھے،البتہ اتنا طے ہے کہ مصنف کا نسخہ ان کے پیش نظر رہا ہے، کیوں کہ اس کا نسخۂ مصنف تادم تحریر دستیاب نہیں ،اس کے بعد کا سب سے قدیم مخطوطہ وہ ہے جو مصنف کے رفیق علامہ عبدالجلیل برادہ مدنی کی کتابت میںہے اور کتاب کی تکمیل کے صرف تین ماہ کے بعد نقل کیا گیا ہے ۔جس کی تفصیل گذرچکی ہے۔
مطبوعہ نسخہ کے سرورق پر نیچے اشعار کے زیر عنوان یہ دو شعر ہیں :
أيَا طَالِبًا عِلْمَ الحَدِيثِ مُسَلْسَلاً وبالسَّنَدِ العَالي المُعَنْعَنِ قَدْ عُنِي
عَلَيْكَ إذَا مَا رُمْتَ تَظْفَرَ بالمُنَى وتَجْنِي ثِمارَ العِلْمِ باليَانِعِ الجَنِي
شیخ عبدالجلیل برادہ کے نسخہ میںبھی یہ دونوں شعر اسی طرح ہیں لیکن ان کے اوپر ’’لمحررہ الفقیر عبدالجلیل برّادہ عفی اللہ تعالیٰ عنہ وعن والدیہ ‘‘تحریر ہے،نیز مخطوطہ کے سرورق پر دوسرے اشعار بھی اوپر اور نیچے لکھے ہیں۔
مخطوطہ کے اخیر میں بھی تاریخ کتابت کے ساتھ حضرت شاہ عبدالغنی کی الحزب الاعظم کی سند ہے ،اور اس کے بعد اخیر میں چار شعرہیں ،جن سے پہلے لکھا ہے: ’’ولکاتبہ المذکور غفر اللہ لہ ولوالدیہ والمسلمین‘‘۔
مطبوعہ نسخہ میں کتاب کے اخیر میں ترقیمۂ کاتب کے بعد کتاب کی تعریف میں شیخ عبدالجلیل برّادہ کی نظم ہے ،جو خود ان کے اپنے مکتوبہ نسخہ میں شامل نہیں ہے،اور اس سے قبل ان کی نثری عبارت بھی ان کے تعارف کے ساتھ ہے ،( ص ۱۴۰)پوری عبارت حسب ذیل ہے:۔
"وهذہ صورۃ ما کتبه الحبرالجلیل والفاضل النبیل أخونا في اللہ السید عبدالجلیل بن عبد السلام المدني مقرّظاً علی هذہ الرسالة”.
"الحمدللہ تعالیٰ وصلی اللہ علی سیدنا ومولانا محمد وآله وصحبه وسلم،یقول أسیر ذنبه المفتقر إلی عفو ربه عبدالجلیل بن عبدالسلام برّادہ المدني، لما سرحت الطرف في هذہ الخبیلة وأجلت طرق الفکر في محاسنها الجمیلة قیدت هذهالأبیات الحریة بعدم الإثبات راجیاً ممن نظر إلیها أن یسبل ذیل إغضاءه علیها، وهي:
لا یفتخر أحد بالنظم للدرر لم یبق ذاك النثر فخر لمفتخر
وکیف لا وبه حسن النظام حویٰ إسناد أستاذنا عبدالغني العمري
هادي الطریقة منهاج الشریعة بل حامی الحقیقة حقاً مقتفي الأثر
حویٰ أسانید کتب سبعة جمعت أصح ما جاء عن الهادی من الخبر
موصولة دون قطع صحّ مرسلها وهو الغریب أتی فی أحسن الصور
یرویٰ لنا وبه یرویٰ غلیل صدی ري البقاع أتاها رائق المطر
سلک منظم من زهر النجوم فما أزهار روض أریض طیب عطر
إن تشتهي الیانع الداني الجني فخذ في حصر شاردہ واقطف من الثمر
إنی ومبدع هذاالحسن محسن من أتی بکلّ عجیب الصنع مبتکر
ذاک السمیدع رب الفضل من شهدت له الأفاضل من بدو ومن حضر
أبقاہ ربي لأهل الفضل قدوتهم یهدي الفضائل في الآصال والبکر
آمین
اس کے بعد اخیر میں تین صفحہ کی عربی عبارت ہے جس میں پہلے ڈھائی صفحات میں پورا سلسلہ ٔ طریقت نقل کیا گیا ہے جس میں تقریبا ساٹھ اشعار ہیں ،شاعر کانام درج نہیں ،سلسلہ حضرت ابوبکر سے شروع ہوکر حضرت شاہ ابو سعید تک منتہی ہوتا ہے جو حضرت شاہ عبدالغنی کے والد ہیں ،اس کے بعد اختتام سے پہلے ایک شعر میں حضرت شاہ عبدالغنی کا ذکر ہے جس کے بارے میں ناشر کتاب شیخ احسن صدیقی نے لکھا ہے کہ ہذ الشعر الحقتہ لتتمیم السلسلۃ الی شیخنا العلامۃ۔
بہر حال یہ پوری عبارت جو اس نظم اورخاتمۃ الطبع اورقطعہ تاریخ پر مشتمل ہے یہاں پیش کی جاتی ہے۔
خاتمة الطبع
حامداً ومصلیاً وبعد، فیقول العبدالضعیف محمد أحسن الصدیقی غفر اللہ له ولوالدیه، أحسن إلیهما وإلیه،إنه للہ درّالمؤلف ما ألطف کلامه وأطیب مرامه
ألفاظ تحکي علوّالصانع معناہ أحلی من قطوف الیانع
ولکن لما اقتصرر حمه اللہ في هذہ الأرجوزۃ علی تقیید سلسلة شیخنا العلامة الظاهریة أردت أن أوشیها بطراز سلسلته الباطنیة لتکون الصحیفة مجمع البحرین ویستفید منها کل من سلكإحدی الطریقتین فاکتفیت من سلاسله بهذہ الشجرۃ المنظومة المجددیة لواحد من أصحاب أبیه فإنها إن شاء اللہ تعالی تکفي الطالب وتغنيه
القصیدۃ في السلسلة النقشبندیة المجددیة.
ربي بسرّ الذات عالي الشان وحبيبك المختار من عدنان
وكذا أبي بكر خليفته الذي فضـ ل الصحاب براجح الإيمان.
وكذا بسابق فارس من عدّ من آل الرسول المصطفى سلمان
وبقاسم أحد الكبار السبعة الفقهاء بحر العلم والعرفان
أيضاً بباب مدينة العلم الإمام عليّ الكرّار بالمطعان
وكذا بمن لطفاً تنزل عن خلافة جدّه الحسن العليّ الشان
وبسيّد الشهدا الحسين المجتبى من كربه ينسي كرى الأجفان
وكذا بزين العابدين عليّهم وبباقر من للمعالم بان
وبمجمع البحرين جعفر من من الصديق طامي والفتى الربّاني
وكذا بسائر آل بيت المصطفى سفن النجاة أئمة الأعيان
وبقطب بسطام جناب أبي يز يد من سما بشواهد الإحسان
وكذا بمن يعزى لفارمد جناب أبي عليّ زال سرّ تدان
وبرأس سلسلة الشيوخ الغجدواني عبد خالق إنسهم والجان
وكذا بريوكريهم بحرالفضائل عارف بالله عن وجدان
وبمن إلى ابحير فغنى ينتمي محمود سيرة السرى الصمدانى
وعليّ الراميتني النساج قطب أعزة منحوا فيوض تهاني
ومحمد بابا السماسيّ الذي أسنى العوالم فيضه النوراني
وبسيّد السادات حبرهم كلال منبع العرفان ذي البرهان
وكذا بهاء الدين شاه النقشبد محمد غوث الورى السبحاني
وعلاء دين الحقّ عطارالوجود محمد بنقائح الرحمن
والمجتبى يعقوب الصرخيّ من شرف الوجود بفضله الإنساني
وكذا بناصر ديننا العالي عبيد الله من حاز المقام الداني
وهو الذي فلك العلى كحبابة في قلبه الطامي بفيض معان
ومحمد ذاك السمّي بزاهد في ما سواك من الحديث الفاني
وكذا بدرويش محمد الذي رقّى القلوب بنفحه الروحانيّ
ومحمد ذاك الشهير بخواجكي ومحمد الباقيّ بربّ داني
وكذا مجدد ألفنا الثاني المسمّى بأحمد قيّومنا الربّاني
ذاك الذي حاز المعارف والعلوم بكشف حقّ عنده وبيان
والعروة الوثقى المتين محمد معصوم سرّ شاع في كتمان
وكذا محمدهم سعيد من حوى سرّاً أنيقاً جلّ عن أذهان
وكذا بعبد مهيمن أحد علا و محمد هو عابد حقاني
وكذا بسيف الدين ثمّ بسيّد السادات نور محمد البدواني
وبمن سما فلك الشهادة شمس دين مظهر الأنوار ذي فيضان
وهمامهم أعني غلام عليّ المقدام قطب عوالم الإمكان
وأبي سعيد من له اسم محمد نجل المجدد قبلة الأعيان
وبنجله عبدالغنيّ من الذي فاق الوری في العلم والعرفان
جد يا إلهي منه وتفضلاً بفيوض نور أقدس لجناني
أنا عبدك الجاني المسيئ بذنبه ولأنت ذو الإكرام والإحسان
ما لي جميل صالح أدنو به فامنن عليّ بفضلك الرحمانيّ
وصلاتك العظمى على طه ومن تبع الهدى بمحبة الإيمان
هذا، ولما کانت هذہ الرسالة تشتمل علی خبیات الأسرار مبنیً وتحتاج لکشف الأستار فی بعض المواقع معنیً رفعت اللثام عن وجوہ خرائدھا ووضعت علیٰ طرف الثمام کنوزفرائدھا، وأضفت منهیات المؤلف کما کانت في المنقول عنه مسطورۃ خصوصا علی الأسما(کذا) البلاد الهندیة المشهورۃوللہالحمد علی الإتمام وحسن الاختتام.
قطعة
تاللہ أحسن تحفة من محسن أکرم به لوذعيّ متقن
أتممتها طبعاً وقلت تیمنا أعني لعام الطبع عن عبدالغني
1287ھ
وآخردعوانا أن الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ علی سیدنا و مولانا محمد وآله وصحبهأجمعین”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close