مضامین

دہشت گردی مخالف امن عالم کانفرنس منعقدہ ۲۲/مارچ 2009ء بمقام کربلا میدان، اعظم گڑھ

پس منظر
عام انتخابات کے تناظر میں کسی بھی اجلاس یا کانفرنس کے تعلق سے دقت یہ ہوتی ہے کہ اسے انتخابی سیاست سے کچھ عناصر جوڑ کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جمعیۃ علماء ہند کے سامنے انتخابات اصل مسئلہ نہیں ہیں، انتخابات ایک وقتی عمل ہے جو مختلف مواقع پر ملک میں کہیں نہ کہیں ہوتے رہتے ہیں، موجودہ حالات میں جمعیۃ علماء کے سامنے اہم ترین مسائل اسلام اور بے قصور مسلمانوں کا تحفظ، اسلام کی شبیہ کو بچانے اور اس کو بگاڑنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے ہیں، نہ کہ کسی پارٹی کی حمایت یا مخالفت، کچھ عناصر ماحول کو جذباتی بناکر مسلمانوں کے مسائل و مشکلات میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں، جمعیۃ علماء اس صورت حال کا مقابلہ کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ جہاں جمعیۃ علماء ملک کو ۰۲۰۲ء تک ترقی یافتہ ممالک کے زمرہ میں دیکھنے کی نیک خواہش رکھتی ہے وہیں ملک میں امن و ترقی، مختلف شعبوں میں مسلمانوں کی متناسب نمائندگی کے ساتھ ان کی سیکورٹی اور باعزت و پرامن زندگی گزارنے کے مسائل اس کی ترحیجات میں ہیں، جمعیۃ علماء ملک و ملت کے مسائل و مشکلات کے سلسلے میں بہت فکر مند ہے، خاص طور سے دہشت گردی، فرقہ پرستی اور مظلوموں کے لیے انصاف کی فراہمی اور محرومی کی مایوسی کو دور کرنے کے سلسلے میں۔ مسلم اقلیت میں مایوسی اور دہشت ہے، اس میں حکومت کے رویہ نے مزید اضافہ کردیا ہے، مسلم اقلیت کے بہت سے ایسے مسائل ہیں جن پر مرکزی وصوبائی حکومتوں کو توجہ دلاکر حل کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے، اس ضمن میں ملک و ملت کے مفاد اور امن و ترقی کے پیش نظر جدوجہد ضروری ہے، دہشت گردی اور فرقہ پرستی ملک کی ترقی اور امن میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس وقت دہشت گردی اور اس کے نام پر ملک کے امن اور ترقی کو پٹری سے اتارنے کی مذموم کوشش ہورہی ہے، دہشت گردی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس کے نام پر اسلام اور پیغمبر اسلام کو سیدھا نشانہ بنایا جارہا ہے، جمعیۃ علماء کے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے نام پر اسلام اور اسلام کے نام پر دہشت گردی دونوں کو پوری قوت سے مسترد کرتے ہوئے ملک کے تمام طبقات کو بلالحاظ مذہب و فرقہ، جدوجہد کے لیے تیار کرنا ہے، دہشت گردی جمعیۃ علماء کو کسی بھی شکل میں قابل قبول نہیں ہے، چاہے وہ فرد کی طرف سے ہو یا تنظیم یا حکومت کی طرف سے، سب کی جمعیۃ علماء یکساں طور پر مذمت کرتی ہے اور اس کے خلاف بلاامتیاز مذہب و فرقہ تمام ہندستانیوں کو ملک و قوم کے مفاد میں اُٹھ کھڑے ہونے اور جدوجہد کی اپیل کرتی ہے۔ دہشت گردی کے نام پر بے قصوروں کی گرفتاری یا کسی مخصوص فرقے کو نشانہ بنانے کو مجرمانہ عمل اور ملک و قوم کے مستقبل کے ساتھ بھیانک مذاق تصور کرتی ہے، جس طرح حیدر آباد اور دوسرے مقامات پر دہشت گردی کے الزام میں ماخوذ تعلیم یافتہ اور مختلف شعبوں سے جڑے ہوئے نوجوانوں کو عدالت نے بری قرار دیا اس کے پیش نظر اس کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ملک کے سسٹم میں خصوصاً پولیس کے سسٹم اور نظام میں ضروری اصلاح اور ملک و قوم کے مفاد کو دیکھتے ہوئے مناسب تبدیلی کی جائے، اس سلسلے میں مختلف کمیشنوں نے اصلاحات کی سفارشات کی ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان پر آج تک توجہ دے کر کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا گیا ہے۔
جمعیۃ علماء جہاں حکومت، پولیس و انتظامیہ اور میڈیا سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ انصاف کی فراہمی، ملک کے امن و قانون اور انسانی حقوق کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا تعمیری رول ادا کریں، وہیں مسلمانوں سے بھی اپیل کرتے ہوئے ان سے اس امر پر خصوصی توجہ چاہتی ہے کہ اپنا محاسبہ کریں اور شریعت کے بتائے شاہراہ اور شراط مستقیم پر چلتے ہوئے ملک کی ترقی اور اس میں رہنے والے باشندوں خصوصاً پسماندہ اور دلت طبقات کی محرومی کو دور کرنے اور ملک کے مشترک مسائل میں اپنا مؤثر اور تعمیری رول ادا کریں، خیر امت ہونے کے ناتے ان کی یہ مذہبی ذمہ داری اور دینی فریضہ ہے، جمعیۃ علماء شدت سے یہ محسوس کرتی ہے کہ جو قوم اپنا محاسبہ کرتے ہوئے زندگی کا سفر طے کرنے میں سنجیدہ نہ ہو، وہ راہ سے بھٹک جاتی ہے، امت مسلمہ کی منزل طے ہے، صرف راہ عمل سنجیدگی سے طے کرنے کی ضرورت ہے، جمعیۃ علماء مذہب اور فرقہ کے نام پر سیاست کرنے کو ملک و قوم کے حق میں تباہ کن سمجھتی ہے، اس کی بلا امتیاظ مذہب و فرقہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی تمام ہندستانیوں سے اپیل ہے کہ عظیم ہندستان بنانے اور عظیم قوم بننے کے لیے متحدہ طور پر آگے آئیں اور انصاف کی فراہمی اور امن و ترقی کے حق میں اور ظلم کے خلاف جدوجہد میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔
اس کے علاوہ جمعیۃ علماء اس کانفرنس کے توسط سے یہ بھی کہنا چاہتی ہے کہ حکومت چاہے وہ مرکزی ہو یا صوبائی، عوامی مسائل و مشکلات کو حل کرنے کے لیے خصوصی توجہ دے کر اقدامات کرے، کسانوں کے مسائل پر توجہ دی جائے، بنکروں کی پریشانیوں کو توجہ دے کر ترجیحات کی بنیاد پر دور کیا جائے، پاورلوم صنعت کو گھریلوں صنعت قرار دیا جائے، پاورلوم صنعت کو فیکٹری ایکٹ سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے اس کی بھی کوشش حکومت کی طرف سے ہونی چاہیے کہ سوت کے ریٹ کو فکس کرنے کے لیے یار ن ملوں (سوت) اور ایجنٹوں کو پابند کیا جائے، اسی طرح مسلمانوں کو تمام شعبہئ ہائے زندگی میں ان کی آبادی کے تناسب سے ریزرویشن دیا جائے، مسلم اوبی سی کا کوٹہ الگ اور متعین کردیا جائے، دفعہ ۱۴۳ میں ترمیم کرکے مذہبی قید ختم کی جائے اور اس میں مسلم محنت کشوں کو بھی شامل کیا جائے، اس ضمن میں سچر کمیٹی اور رنگا ناتھ کمیشن کو پارلیمنٹ کے ٹیبل پر لاکر بحث کرانے کے ساتھ ان پر عملدرآمد کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں، جمعیۃ علماء مرکزی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ وہ یورپی، مغربی طاقتوں اور صیہونی عناصر کے دباؤ میں نہ آئے اور ملک کی سابقہ پالیسی کو بحال کرتے ہوئے فلسطینی کاز اور فلسطینیوں کے لیے خود مختار ریاست کے قیام میں مدد کرے، گذشتہ برسوں سے ملک کی سابقہ پالیسی سے جس طرح انحراف کیا جارہا ہے وہ ملک کو غلامی کی طرف لے جانے والا ہے، ہندستان جیسے بڑے جمہوری ملک کے لیے یہ قطعاً مناسب نہیں اور اس کے وقار کے منافی ہے کہ وہ کسی بڑی طاقت کا دست نگر بن کر رہ جائے۔ ادھر پھر فرقہ پرست طاقتیں فرقہ وارانہ فسادات کراکر ملک کے امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے سرگرم ہوگئی ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں فسادات ہونے لگے ہیں، اس کے پیش نظریہ ضروری ہے کہ ان کی روک تھام کے لیے مؤثر اور کارگر قانون عمل میں لایا جائے، اوقاف کے تحفظ کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے، اس سمت میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں مؤثر اقدامات کریں تاکہ اوقاف کے مقاصد پورے ہوں، اس طرح کے اور بھی بہت سے ضروری قومی اور ملی مسائل ہیں جن پر توجہ دے کر حل کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close