مضامین

ہورہا ہے رخصت میر کارواں دھیرے دھیرے ،

ہورہا ہے رخصت میر کارواں دھیرے دھیرے ،

مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ،

درخت کی شاخوں کا سوکھ جانا، پتوں کا مرجھا جانا، کلیوں پر پژمردگی چھاجانا، پھولوں کا بے رونق ہوجانا، چڑیوں کی چہکاریں بند ہو جانا ، بلبلوں کا چہکنا تھم جانا، شاہین کا اپنی پرواز چھوڑدینا، کویل کا، کہو کہو ، بند ہوجانا، جگنوؤں کی جگمگاہٹ کا ماند پڑ جانا، لہلہاتی فصلوں کا برباد ہوجانا، سرسبز و شادابی میں خزاں کا اثر چڑھ جانا، سمندروں کا خشک ہوجانا، زندگی کے فیصلوں کا بگڑ جانا، انسانی جسم میں مختلف مراحل کا آجانا، بڑے بڑے پہاڑوں کا لڑھک جانا، چراگاہوں میں خاموشی چھاجانا، بلند و بالا و خوشنما عمارتوں کا ڈھ جانا، ۔۔۔ یہ سب چیزیں ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے، ایک دن سب کو ختم ہونا ہے، یہاں کسی کو بھی دوام نہیں، دنیا ختم ہونے کا ایک نامعلوم وقت مقرر ہے جب وہ وقت مقرر آئیگا تو پھر ہر چیز فنا ہو جائے گی، جن و بشر اپنے حساب و کتاب کی اور دوڑ رہے ہوں گے، البتہ اس کے کچھ علامتیں ہیں جو ہمیں کتاب و سنت سے سمجھ میں آتی ہیں، ان علامتوں میں سب سے بڑی علامت محسن انسانیت کا ظہور اور اس کے پیغام کی اشاعت ہے، اس کے بعد ایک ایک کرکے ساری نشانیاں ظہور پذیر ہوگیں اور ہورہی ہیں بہت سی نشانیاں ایسی ہیں جو ظہور ہو چکی ہیں اس وقت ایک نشانی کا ظہور ہورہا ہے جس کی طرف بہت کم ہی لوگ توجہ دے رہی ہیں،
آپ علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ، آخری زمانہ میں علم اٹھالیا جائے گا۔۔ مطلب یہ کہ علم صرف کتابوں میں رہ جائے گا اس کے پڑھنے پڑھانے والوں کو اللہ تعالیٰ اٹھا لیں گے، پھر لوگ جاہلوں سے فتویٰ پوچھا کریں گے نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے، لوگ جہالت کی دنیا میں ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہوں گے اور پھر برائیوں، نفسانی خواہشات، شر و فساد کی حکمرانی ہوگی زناکاری ایک فیشن بن جائے گا، سر عام عصمتیں لوٹی جائیں گی، حلال و حرام کو کوئی جاننے والا نہیں ہوگا، لوگ ڈھونڈتے پھریں گے کہ کاش کوئی ایمان دار مل جاتا کوئی پڑھا لکھا شخص مل جاتا جس ہم اپنے مسائل دریافت کرتے مگر کہیں کوئی نظر نہیں آئے گا،آج یہ نشانی بڑی تیزی کے ساتھ ظہور ہورہی ہے، ہر دن کسی نہ کسی بڑے عالم کی وفات کی خبر سننے کو ملتی ہے ، یہ ایک سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس کا اختتام دشوار معلوم ہوتا ہے، کن کن کا نام گنایا جائے، بس جو ذرہ جہاں تھا وہ وہیں آفتاب تھا، اب علم کی شمعیں بجھنا شروع ہوگئی ہیں، علم کا چراغ ٹمٹمانے لگا ہے، ہر فن کے امام اٹھتے چلے جارے ہیں، ہر قوم کا روح رواں میر کارواں اپنے منزل کی طرف رواں دواں ہوگیا ہے، بڑے بڑے اداروں اور شعبوں میں کام کرنے والے اور دنیا بھر میں اپنے علمی کمالات کی بنیاد پر دنیا کو اپنے قدموں میں جھکانے والے، ظالم حکمرانوں کے سامنے سینہ سپر ہوجانے والے، باطل کو للکارنے والے، حق کی صدا بلند کرنے والے، ہمیشہ کتابوں کی ورق گردانی کرنے والے اب ہمارے درمیان سے رخصت ہورہے ہیں، اب دنیا دھیرے دھیرے یتیم ہورہی ہے کیونکہ اس کی روحانی تربیت کرنے والے جدا ہورہے ہیں، ایک وقت آئے گا کہ دنیا علم سے مکمل طور پر یتیم ہوجائے گی اور اسی یتیمیت پر وہ اپنے وجود سے بھی محروم ہو جائے گی،
یقینا ان خالی جگہوں کا پر ہونا بہت مشکل ہے، اگر ہو بھی جائے تو اس میں کافی وقت لگ جائے گا، تب تک دنیا نہ جانے کس موڑ پر جا کھڑی ہو جائے گی، کیوں کہ اس قدر تیزی کے ساتھ علماء کا جانا سب کیلئے حیران کن ہے اس رفتای سی تو ان کی جگہ کو پر نہیں کیا جاسکتا،
گویا اب یوں سمجھ لیا جائے کہ حالات بدل چکے ہیں، دنیا ایک قدم قیامت سے اور قریب ہو چکی ہے ، اس قدر علماء کا دنیا سے جانا قیامت کی ایک نشانی پوری کررہی ہے ، نہیں معلوم اب حالات کیا گل کھلائیں گے، کیسے کیسے مناظر پیش کریں گے انسان کی عقلمندی یہ ہے کہ سب کچھ کے ہونے سے پہلے خود کو تیار کرلے ، اپنا محاسبہ کرنا سیکھے، حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ، عقل مند وہ ہے جو روز اپنا محاسبہ کرتاہے بیجا امیدیں نہیں لگاتا، ایک جگہ اور فرمایا۔۔ اپنا محاسبہ کرلو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، لہذا ۔۔ ہر وقت آنے سے پہلے خود کو تیار رکھیں دنیا اپنے آخری اسٹیچ پر پہنچ چکی ہے، یہ ہر گز خیال نہ ہو کہ ابھی تو دنیا کی عمر بہت باقی ہے، ابھی بڑی بڑی نشانیاں باقی ہیں، نشانیاں کب ظہور ہو جائے کسی کو علم نہیں ، آج بھی ہوسکتی ہے، کل بھی ہوسکتی اسی گھڑی ہوسکتی ہے، ہماری عقلمندی یہ ہے کہ ہم خام خیالی میں نہ رہیں،

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close