مضامین

یو سی سی پر جمعیت کے 14 دلائل اور 5 اہم اقدامات

لاء کمیشن آف انڈیا کو اپنی رائے بھیجنے کی آخری تاریخ 14 جولائی 2023 ہے.

یونیفارم سول کوڈ کے خلاف جمعیت علماء ہند کی وہ چودہ دلیل جو مسلم پرسنل لاء کے مخالفین کا ناطقہ بند کر سکتی ہے

*منظور کردہ اجلاس مجلس عاملہ بتاریخ ۹ جولائی ۲۰۲۳ زیر صدارت حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب صدر جمعیت علماء ہند*

ہمارا یہ جواب آپ ( لا کمیشن) کے 14.06.2023 کے اس عوامی نوٹس کے پس منظر میں تیار کیا گیا ہے جس کے ذریعہ "یکساں سول کوڈ کے حوالے سے بڑی اور تسلیم شدہ مذہبی تنظیموں اور عوام کے خیالات طلب کیے گئے ہیں۔” اولاً جمعیۃ علماء ہند بلا جواز اس قلیل مدت میں، کسی ٹرمز آف ریفرنس، کسی خاکہ اور منصوبہ کو پیش کیے بغیر جواب حاصل کرنے کے اس عمل پر اپنا اعتراض ظاہر کرتی ہے ۔ ہم پرزور اپیل کرتے ہیں کہ متعلقہ کمیونٹیز، مذہبی گروہوں اور تنظیموں کے اتفاق رائے کے بغیر یوینفارم سول کوڈ کے عمل سے گریز کیا جائے ۔کیوں کہ یہ بہت سنجیدہ اور نازک معاملہ ہے ، اس کے نفاذ کی شکل میں درج ذیل سنگین نتائج پیدا ہوں گے :

1. آئین ہند کی دفعہ 25 اور 26 کے تحت افراد اور مذہبی فرقوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔

2. ملک کا تنوع (جو ہمارے سماجی ڈھانچے کی بنیادی خصوصیت ہے)زد میں آئے گا اور اس سے ہمارے ملک کے قومی یکجہتی پر شدید اثر پڑے گا۔

3. ملک کے مرکز ی اور صوبائی قانون ساز اداروں کے قانون سازی کے اختیارات متاثر ہوں گے جس کا اثرا ہمارے وفاقی ڈھانچے پر پڑ ے گا ۔

4. خاندانی ازدواجی قوانین پر لازمی یکساںسول کوڈ کو فوقیت دینا جمہوری اصولوں پر عمل پیرا ہمارے ملک کے لیے مضحکہ خیز ہوگا ، سیکولرزم ہندوستانی آئین ہند کی بنیادی خصوصیت ہے ، ہندستان ایک ایسا ملک ہے جہاں فوجداری اور دیوانی قانون کے لیے یکساں ضابطہ شروع سے موجود نہیں ہے ، نیز یہ ملک تنوع پر مبنی جامع اور سیکولر اصول کا حامل ہے ۔

5. لازمی یکساں سول کوڈ ایک خاص شناخت کو سب لوگوں پر بالکلیہ طور پرتھوپنے کا سبب بنے گا۔ایک ایسے ملک میں جہاں کے باشندے بے شمار شناخت رکھتے ہیں، یہ ہرگز مناسب نہیں ہے ۔

6. یکساں سول کوڈ ہندوستان کے آئین کے بنیادی حقوق کے باب کے تحت محفوظ ثقافتی حقوق کو بھی شدید متاثر کرے گا۔

7. لازمی یکساں کوڈ ، قانونی تکثیریت کے پسندیدہ اصول کے خلاف ہے۔ عالمی سطح پر متوازی قانونی اساس ، جیسا کہ آج ہمارے ملک میں موجود ہے، ان کے سانچے بن گئے ہیں۔ یکساں سول کوڈ ہمارے ملک کو اجتماعیت اور رواداری سے کئی قدم پیچھے لے جائے گا۔

8. مسلم پرسنل لا (شریعت) کے تحت پورے خاندان کی کفالت کا بوجھ شوہر/والد پر عائد ہوتا ہے ۔ ‘مساوات’ کی سخت تشریح پر مبنی ضابطہ کا مطلب یہ ہوگا کہ نفقہ کا بوجھ بیوی/ماں بھی یکساں طور پر عائد ہوگا۔

9. مسلم پرسنل لا (شریعت) کے تحت، خاتون کی تمام آمدنی/کمائی اور جائیداد پر شوہر یا بچوں کی طرف سے کسی حق کا کوئی دعویٰ قبول نہیں ہے، چاہے وہ نکاح کی مدت میں ہو یا طلاق کے بعد۔ ‘مساوات’ کی سخت تشریح پر مبنی ضابطہ کا مطلب یہ ہو گا کہ عورت اپنی جائیداد پر مکمل حق سے محروم ہوجائے گی۔

10.مسلم پرسنل لا (شریعت) کے تحت، طلاق یا شوہر کی موت کی صورت میں، بچوں کی کفالت کا بوجھ باپ (طلاق دہند ہ شوہر)، دادا، چچا یا بیٹا پر عائد ہوتا ہے جب تک کہ بچے بالغ نہ ہو جائیں۔ایسی حالت میں بھی عورت (بیوہ یا مطلقہ) کی جائیداد محفوظ رہتی ہے اور اس کے بچوں کا کوئی حصہ یا حق نہیں بنتا۔ ‘مساوات’ کی سخت تشریح پر مبنی ضابطہ کا مطلب ایک ایسے نظام کی تخلیق ہو گی جہاں ایک طلاق یافتہ یا بیوہ عورت کو کفالت کا بوجھ بھی اٹھانا ہوگا۔

11. مسلم پرسنل لا (شریعت) کے تحت، عورت کو اس کی عدت کے دوران نفقہ ملتا ہے۔ سیکشن 125 سی آر پی سی کے مطابق، ایک عورت اس طرح کے نفقے کی اہل ہے جب تک کہ وہ دوبارہ شادی نہیں کر لیتی۔ ہماری عدالتوں نے حال ہی میں رائے دی ہے کہ ملازمت کرنے والی مطلقہ عورت بھی اپنے شوہر سے نفقہ مانگ سکتی ہے۔ ‘مساوات’ کی سخت تشریح پر مبنی ضابطہ کا مطلب یہ ہوگا کہ یا تو خواتین اپنے شوہروں کے ذریعہ اس نفقہ کے حق سےمحروم ہوجائے گی یا سماجی و معاشی طور پر کمزور خواتین پر نفقہ کا بوجھ عائد ہو جائے گا ۔

12.مسلم پرسنل لا (شریعت) کے تحت، مرد شادی کے وقت مہر ادا کرتا ہے۔ ‘مساوات’ کی سخت تشریح پر مبنی ضابطہ کا مطلب یا تو یہ ہوگا کہ خواتین اپنے مہر کو ترک کردے یا عورتوں کو بھی مہر ادا کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مہر کے قانون میں تبدیلی مسلم شادی کے معاہدہ کی نوعیت کو بھی متاثر کرے گی۔

13.شریعت کا وراثت قانون اصلی برابری اور عدل کے اصولوں پر مبنی ہے نہ کہ محدود معنی میں مساوات کے اصولوں پر۔ یعنی چونکہ مسلمان مردوں کو خاندان کی دیکھ بھال کی مالی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، اس لیے جائیداد میں ان کے حقوق ان کی بڑی مالی ذمہ داریوں کے لحاظ سے زیادہ رکھے گئے ہیں۔

14.مسلم پرسنل لا کے تحت کوئی شخص اپنی جائیداد ،وصیت کے ذریعے قانونی وارثوں میں سے کسی کے حق میں منتقل نہیں کر سکتا چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ نیز وصیت جائیداد کی ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ کوڈیفائیڈ ہندو قانون کے تحت، اپنے بیٹوں کے حق میں پوری جائیداد کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے — جو کمزور ہندو خواتین کو محروم کرنے کی وجہ بنتی ہے ۔

یونیفارم سول کوڈ کے خلاف جمعیت علما ء ہند کے پانچ بڑے اقدامات

*منظور کردہ اجلاس مجلس عاملہ جمعیت علماء ہند زیر صدارت حضرت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب*

(۱) ماہرین وکلاء کی طرف سے تیارہ کردہ جواب کچھ ردو بدل کے ساتھ منظور کیا گیا ، جسے لاء کمیشن آف انڈیا کے دفتر میں داخل کردیا گیا ہے۔

(۲) یکساں سول کوڈ کے سلسلے میں امت مسلمہ کے متفقہ موقف سے آگاہ کرنے کے لیے تمام وزرائے اعلیٰ اور سیاسی پارٹیوں کے صدور کے نام خط لکھا جائے اور صدر جمہوریہ ہند سے ملاقات کی بھی کوشش کی جائے ۔

(۳) مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے مسلم اور غیر مسلم ممبران پارلیامنٹ کو جمع کرکے ان سے مذاکرہ کیا جائے اور ان کو پارلیامنٹ میں یکساں سول کے منفی اثرات پر آواز بلند کرنے پر آمادہ کیا جائے ۔

(۴) سردست عوامی مظاہروں سے گریز کیا جائے ، تاہم مرکزی اور صوبائی سطح پر نمایندہ مشترکہ اجتماعات منعقد کیے جائیں گے جن میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے افراد اور بااثر شخصیات شریک ہوں گی۔

(۵) یوسی سی کے تناظر میں آئندہ14 ؍ جولائی یوم جمعہ ’ یوم دعاء‘ کے طور پر منایا جائے گا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
%d bloggers like this: