اہم خبریں

آج جمعیت علمائے ہند کو سو سال مکمل

آئیے دیکھتے ہیں کہ آج سے سو سال پہلے آج کی رات کو تاریخ میں کیا انقلاب ہوا تھا

اقتباس از
جمعیت علمائے ہندکے سو سال…… قدم بہ قدم

محمد یاسین جہازی، خادم جمعیت علمائے ہند
1919ء

منظر، پس منظر، تاسیس اور تنظیم جمعیت علمائے ہند

قسط نمبر1 / ازاقساط: 101

بیسویں صدی کے آوائل میں بھارت اور مسلمان

انگریزوں نے بھارت پر، سیاسی اور اقتصادی طور پر مکمل جابرانہ قبضہ کے ساتھ ساتھ مذہبی تسلط قائم کرنے اور مختلف مذاہب کو ختم کرکے عیسائیت کے فروغ کے لیے باقاعدہ انگلینڈ سے تربیت یافتہ پادریوں کو بلایا،جنھوں نے گلی چوراہوں سے لے کر اندرون خانہ تک عیسائیت کی تبلیغ کی انتھک کوشش کی۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیں: تاریخ جمعیت علمائے ہند)

ادھر دوسری طرف علما کے باہمی مسلکی اختلافات سے ملت اسلامیہ کو عظیم نقصان پہنچ رہا تھا۔ علمائے کرام فروعی مسائل میں آپسی اختلافات سے اس قدر دور ہوگئے تھے کہ بقول صاحب تحریک خلافت:

”بعض بعض کی تکفیر بھی کرنے لگے تھے اور گروہ بندی اور مناظروں کے اکھاڑے روز مرہ کی زندگی بن گئے تھے؛ حتیٰ کہ مسجدوں میں لوگوں سے مارپیٹ اور کہیں کہیں کشت و خون کی بھی نوبت آئی“۔ (تحریک خلافت، ص/40)

جمعیت علما کی فکری تخم ریزی

بیرونی سازش اور اندرونی اختلافات کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ کئی لوگوں کے دلوں میں یہ خیالپیدا ہوا ہو کہ مختلف العقائد و مسالک کے علماکو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ؒ خطبہ صدارت میں تحریر فرماتے ہیں کہ

”1911ء سے لے کر آج تک یہ مقصد میرے دل کی تمنّاؤں اورآرزوؤں کا مطلوب اور میری روح کی عشق و شیفتگی کا محبوب رہا ہے۔ خدا کی کوئی صبح مجھ پر ایسی طلوع نہیں ہوئی، جب اس مقصد کی طلب سے میرا دل خالی ہوا ہو، اور کوئی شام مجھ پر ایسی نہیں گزری، جب میں نے اس کی تمنّا میں اپنے بستر غم واندوہ پر بیقراری کی کروٹیں نہ بدلی ہوں۔ میں نے اپنی آزادی کی تمام فرصت اسی کے عشق میں بسر کی، اور نظر بندی و قید کے چار سال بھی اسی کے فراق میں کاٹے:

یذکرنی طلوع الشمس صخرا

واذکرہ بکل غروب شمس!

پس اے بزرگانِ ملّت! اگر آج علمائے اُمت کی یہ نہضتہ مبارکہ جمعیت علما کی شکل میں طالع و نظر افروز ہوئی ہے، تو مجھے کہنے دیجیے کہ یہ میرے دہ سالہ سوالوں کا جواب ہے، میری تمنّاؤں اور آرزوؤں کا ظہور ہے، میری فریادوں اور التجاؤں کی قبولیت ہے، میرے لیے ماتشتہیہ الانفس و تلذ الاعین ہے، اور یقینا میری امیدوں کے خواب قدیم کی تعبیر ہے: ہذا تاویل رؤیای من قبل، قد جعلہا ربی حقا!۔“

(خطبہ صدارت، تیسرا اجلاس عام، منعقدہ:19-20-21/نومبر1921ء)

قاضی محمد عدیل عباسی صاحبلکھتے ہیں کہ

”علمائے کرام کے باہمی افتراق سے ملت کو جو عظیم نقصان پہنچ رہا تھا اور دنیا میں امت مسلمہ کی حالت اس درجہ نازک تھی کہ یہ بہت ممکن ہے کہ ہرطبقہ خیال کے علما کو یک جا کرنے کا خیال بہت سے اصحاب فہم و بصیرت کے دماغ میں آیا ہو؛ لیکن سب سے پہلے مولانا عبدالباریؒ نے1919ء میں دلی کی ایک مشہور درس گاہ سید حسن رسو ل نما میں چند علما کو جمع کرکے وقت کی نزاکت و ضرورت کے پیش نظراتفاق و اتحاد کی اہم ضرورت بتلائی۔“ (تحریک خلافت، ص/39)

اور مولانا حفیظ الرحمان واصف صاحب کے بقول

”آپ (مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحبؒ) جب 1918ء میں رسالہ ”شیخ الہند“ کی تالیف فرمارہے تھے، اس وقت سے آپ کی یہ خواہش تھی کہ شیخ الہندؒ کی رہائی کے لیے جو کوشش کی جائے، وہ ایسے پلیٹ فارم سے کی جائے، جو تمام علمائے ہندستان کا مشترکہ پلیٹ فارم ہو“۔ (مختصر تاریخ مدرسہ امینیہ اسلامیہ شہر دلی، ص/ 44)۔

اورتاریخی شواہدکے مطابق عملی طور پر اولیت کا فخر ابو المحاسن حضرت مولانا محمد سجاد علیہ الرحمہ کو حاصل ہواہے۔تفصیلات پیش ہیں:

مولانا مفتی اختر امام عادل قاسمی صاحب نے جمعیت علمائے ہند کے زیر اہتمام بسلسلہ تقریبات صد سالہ جمعیت علمائے ہند،بتاریخ 15-16/ دسمبر 2018ء، منعقد سیمینار بر مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد علیہ الرحمہ میں پیش کردہ مقالات کا مجموعہ ”تذکرہ ابوالمحاسن“ میں اپنا مقالہ ”مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن سید محمد سجاد صاحب اور جمعیت علمائے ہندمیں لکھتے ہیں کہ:

”مولانا سجاد صاحب غیر اسلامی ہندستان میں نصب امیر کو مسلمانوں کا ملی فریضہ تصور کرتے تھے، مگر اس کے لیے علما کا اتحاد ضروری تھا،چنانچہ 1917ء سے بہت قبل ہی مولانا نے جمعیت علمائے ہند کی تاسیس کا پروگرام بنایا، علما کو خطوط لکھے اور ملک کے مختلف حصوں کے دورے کیے، اور اس تعلق سے پیدا ہونے والے شبہات کے جوابات دیے۔ ان مراسلات و اسفار کے اخراجات آپ کے خصوصی مسترشد اور شہر گیا (بہار) کی متمول شخصیت مولانا قاضی احمد حسین صاحبؒ نے برداشت کیے۔ مگر علما کے مسلکی اور نظریاتی اختلافات کی بنا پر کافی دشواریوں کا سامنا ہوا۔ مختلف الخیال اور مختلف المشرب علماکو ایک جگہ جمع کرنا آسان نہیں تھا۔ علاوہ اکثر علما کو سیاست سے دلچسپی نہیں تھی۔ بعض کے نزدیک تو یہ شجر ممنوعہ تھا اور علما کی شان کے منافی تصور کیا جاتا تھا۔ (ص/ 433)

اس کی تائید و توثیق کے لیے مفتی صاحب نے درج ذیل تین حوالے پیش کیے ہیں:

(1) ایک اقتباس از: حسن حیات، ص/ 44، مرتبہ شاہ محمد عثمانی۔

(2) ایک اقتباس از: حیات سجاد، ص/68، 69، مضمون حضرت امیر شریعت ثانی مولانا شاہ محی الدین پھلواری۔

(3) حیات سجاد، ص/ 2، تا/5، تصنیف: مولانا عظمت اللہ صاحب ملیح آبادی۔

جمعیت علمائے بہار کی تاسیس

اس عنوان کے تحت مفتی اختر امام عادل صاحب رقم طراز ہیں کہ:

”آخر ایک روز مولانا محمد سجاد صاحبؒ نے قاضی احمد حسین صاحبؒ سے کہا کہ ”علمائے ہند کو جمعیت علماکے قیام پر انشراح نہیں ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ گیا میں علمائے بہار کا جلسہ بلاؤں“۔ قاضی صاحب نے اتفاق کیا اور اجلاس کے انعقاد میں اپنا پورا تعاون پیش کیا۔ چنانچہ30/ صفر المظفر1336ھ، مطابق 15/ دسمبر 1917ء کو مدرسہ انوارالعلوم گیا کے سالانہ اجلاس کے موقع پر جمعیت علمائے بہار کی بنیاد پڑی۔ اور اس کا صدر مقام مدرسہ انوارالعلوم قرار پایا۔ اس کا ابتدائی نام ”انجمن علمائے بہار“ رکھا گیا۔“ (کتاب الفسخ والتفریق، ص/43، مصنفہ مولانا عبد الصمد رحمانیؒ۔ تاریخ امارت شرعیہ، ص/41، مصنفہ مولانا عبد الصمد رحمانی۔ حسن حیات، ص/ 45، مرتبہ شاہ محمد عثمانی ؒ۔ حیات سجاد، ص/68،مضمون حضرت امیر شریعت ثانی مولانا شاہ محی الدین پھلواریؒ، بحوالہ:تذکرہ ابو المحاسن، ص/434)

درج بالا حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد1911ء سے ہی علما کی جمعیت کی ضرورت محسوس کر رہے تھے، لیکن عمل کی طرف قدم نہیں بڑھایا۔ مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحبؒ کے ذہن میں کل ہند سطح پر ایک مشترک پلیٹ فارم بنانے کا خیال1918ء میں آیا۔ اور مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ کے دماغ میں 1919ء میں آیا، جب کہ حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد علیہ الرحمہ نے پہلے کل ہند سطح پر جمعیت علمائے ہند کو قائم کرنے کی کوشش کی، جن کے لیے انھوں نے بقول حضرت مولانا شاہ محی الدین پھلواری: ”جمعیت علمائے ہند کے قیام کے لیے اکثر صوبوں میں سفر کرکے علما میں اس کی تبلیغ کی اور لوگوں کو آمادہ کیا“۔ (حیات سجاد، ص/ 68، 69)

لیکن علما نے مولانا کی باتوں پر توجہ نہیں دی۔ مولانا شاہ محمد عثمانی لکھتے ہیں کہ

”مولانا سجادؒ کی کوششوں اور افہام و تفہیم سے ضرورت تو بہت سے علما محسوس کرنے لگے تھے؛ لیکن قابل عمل نہیں سمجھتے تھے۔ (حسن حیات، ص/ 44)۔

جب کل ہند سطح پر جمعیت علما کی تنظیم قائم کرنے پر مولانا سجاد ؒ کا کسی نے ساتھ نہیں دیا، تو انھوں نے ریاستی سطح پر سب سے پہلے بہار میں 15/ دسمبر 1917ء کو ”جمعیت علمائے بہار“ کی داغ بیل ڈالی۔

مولانا مناظر احسن گیلانی رقم طراز ہیں کہ

”ابھی (مونگیرمیں) چند مہینے ہوئے تھے کہ وہی استھاواں کا الکن خطیب مونگیر اسی غرض سے آیا ہوا تھا کہ علما کی منتشر اور پراگندہ جماعت کو ایک نقطہ پر خاص سیاسی حالات کے ساتھ جمع کیا جائے، اس وقت تک دلی کی جمعیۃ العلماء کا خواب بھی نہ دیکھا گیا تھا۔ طے ہوا کہ صوبہ بہار کے علما کو پہلے ایک نقطہ پر متحد کیا جائے، پھر بتدریج اس کا دائرہ بڑھایا جائے۔“ (حیات سجاد، ص/51۔ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد، ص/63، مرتبہ: مولانا طلحہ نعمت ندوی۔ مفکر حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد ؒ اور جمعیۃ علماء ہند، ص/5، تذکرہ ابوالمحاسن، ص435)

مورخ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب ؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ

”بیسویں صدی عیسوی کا بیسواں سال(1919ء) ہمیشہ آزاد ہندستان کی تاریخ میں ”صبح صادق“ تسلیم کیا جائے گا؛ کیوں کہ اسی1919ء کے مارچ میں ستیہ گرہ کی تجویز منظور کی گئی۔ اسی سال جمعیت علمائے ہند کے نظام جدید کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔“ (الجمعیۃ، مجاہد ملت نمبر، ص/41، مطبوعہ26/فروروی1963ء)۔

ظاہر سی بات ہے کہ نظام جدید اسی وقت ہوسکتا ہے، جب کہ اس کا سلسلہ پہلے سے جاری ہو، تو گویا جمعیت علمائے ہند، جمعیت علمائے بہار کا جدیداور توسیعی نظام ہے۔

حیات سجاد میں ہے کہ

”پہلا اجلاس ہندستان میں جمعیت کا بنام انجمن علمائے بہار شہر بہار میں بزمانہ عرس حضرت مخدوم الملکؒ منعقد ہوا۔ اس کے بعد جمعیت علمائے ہند قائم ہوئی اور اس کے بعد مختلف صوبوں میں شاخیں قائم ہوئیں۔ اور پھر علما نے مستعد ہوکر کام شروع کردیا۔ اور الحمد للہ کہ آج ہندستان کے ہر صوبہ میں جمعیت علما قائم ہے۔“ (ص/ 69۔ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد، ص/55، تذکرہ ابوالمحاسن، ص435)

یہ تمام شواہد گواہ ہیں کہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ ہی وہ پہلی شخصیت تھی، جنھوں نے سب سے پہلے جمعیت علمائے ہند کے نظریہ کی تخم ریزی کی اور بہار کی سرزمین سے عملی طور پر اس کا آغاز کیا۔

جمعیت علمائے بہار سے جمعیت علمائے ہند کی طرف

چوں کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سمیت پورا عرب ترکوں کے زیر حکومت تھا، اس لیے عالم اسلام کی نگاہوں میں ترکی حکومت کو ’حکومت اسلامیہ‘ اور اس کے خلیفہ کو ’خلیفۃ المسلمین‘ کہاجاتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم (28/ جولائی 1914ء، 11/ نومبر 1918ء)میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا تھا۔ترکی کے جنگ میں شامل ہونے کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کو تشویش ہوئی کہ اگر برطانیہ کامیاب ہو گیا، تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ بھارتی مسلمانوں نے برطانیہ کے وزیر اعظم لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ رہے گی؛ لیکن برطانیہ نے فتح ملنے کے بعد وعدہ خلافی کرتے ہوئے عربوں کو ترکی کے خلاف جنگ پر اکسایا، جس کے نتیجے میں بہت سے عرب مقبوضات ترک سلطان کے ہاتھ سے نکل گئے، جس پر بعد میں انگریزوں نے قبضہ کرلیا اور پھر ترکی کو تقسیم کرکے خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کردیا۔ انگریزوں کی اس بد عہدی نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو غم و غصہ سے بھر دیا،جس کے نتیجے میں ’تحریک خلافت‘ رونما ہوئی۔ اسی تحریک کا پہلا اجلاس”آل انڈیا خلافت کانفرنس“ کے نام سے بروز اتوار، پیر،23/24/ نومبر1919ء مطابق 29/ صفر و یکم ربیع الاول 1338ھ کوبمقام کرشنا تھیٹر، پتھر والا کنواں دہلی میں ہورہا تھا، جس میں بھارت کے کونے کونے سے مختلف مسلک و مشرب کے علمائے کرام شریک تھے۔

علمائے کرام کے باہمی مسلکی اختلاف،عالمی منظر نامے اور خود غلام بھارت کے پر آشوب حالات نے انھیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر ہم یوں ہی عقیدہ و فرقہ کا کھیل کھیلتے رہے، اورایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوئے، تووہ دن دور نہیں، جب ہمارا وجود بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ چنانچہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 22/ نومبر1919ء بروز سنیچرحضرت مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ کی ہدایت کے مطابق مولانا احمد سعید اور مولانا آزاد سبحانی صاحبان نے خلافت کانفرنس میں تشریف لائے علمائے کرام کی قیام گاہوں پر جاکر فردا فردا ملاقات کی اوربڑی راز داری کے ساتھ انھیں ایک تنظیم کی نیو رکھنے کی دعوت دی۔ حکومت برطانیہ چوں کہ علما پر بہت گہری نظر رکھے ہوئے تھی، اس لیے خطرہ تھا کہ اگر کہیں انگریزوں کو بھنک بھی پڑ گئی تو علما پر حکومت کے قہر و جبر کی قیامت ٹوٹ پڑے گی، اس لیے23/ نومبر1919 بروز اتوار بعد نماز فجرپچ کوئیاں روڈ دہلی میں واقع سید حسن رسول نما کے مزار پرحاضر ہوکر سب نے رازداری کا حلف لیتے ہوئے یہ عہد لیا کہ

”ہم سب دہلی کے مشہور ومقدس بزرگ کے مزار کے سامنے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر یہ عہد کرتے ہیں کہ مشترک قومی و ملی مسائل میں ہم سب آپس میں متحد ومتفق رہیں گے اور فروعی و اختلافی مسائل کی وجہ سے اپنے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں کریں گے، نیز قومی و ملکی جدوجہد کے سلسلے میں گورنمنٹ کی طرف سے جو سختی اور تشدد ہوگا، اس کو صبرو رضا کے ساتھ برداشت کریں گے اور ثابت قدم رہیں گے۔ جماعت کے معاملہ میں پوری پوری رازداری اورامانت سے کام لیں گے۔ (تحریک خلافت، ص/40: قاضی محمد عدیل عباسی)

مولانا حفیظ الرحمان واصف صاحب اس خفیہ اجتماع کی تفصیل بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

”اس میں بہار سے صوبائی ذمہ دار کی حیثیت سے حضرت مولانا محمد سجادؒ بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس کے اختتام پر چند مخصوص علما کا خفیہ اجتماع بوقت صبح دہلی کے مشہور بزرگ سید حسن رسول نماؒ کی درگاہ پر مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ کے زیر قیادت منعقد ہوا۔ تمام حاضرین نے جن کی تعداد دس بارہ (12) سے زائد نہ تھی، جمعیت کے قیام سے اتفاق کیا۔ جلسہ کا آغاز مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسریؒ کی تحریک اور مولانا منیر الزماں اسلام آبادی وغیرہ کی تائید سے ہوا۔“ (جمعیت علمائے ہند پر ایک تاریخی تبصرہ، ص/ 44)

جو علمائے کرام فروعی اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے سے اس قدر دور ہوگئے تھے کہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے نہیں تھکتے تھے اور ایک دوسرے کو سلام تک کرنا گوارا نہیں کرتے تھے؛ حلف راز داری کے بعد اسی روز، یعنی 23/ نومبر1919ء مطابق یکم ربیع الاول بروز پیر بعد نماز عشا مسجد درگاہ سید حسن رسول نما میں ایک ساتھ ایک دل اور ایک جان ہوکر بیٹھے اور پوری قوت کے ساتھ میدان عمل تیار کرنے کے لیے درج ذیل پانچ فیصلے کیے:

(1) جشن صلح کے مقاطعہ کا فیصلہ کیا اور اس میں شرکت کے عدم جواز پر ایک فتویٰ بھی دیا گیا۔

(2) جمعیت علمائے ہند کے قیام پر کافی بحث و مباحثہ ہوا اور بالآخر اس کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔

(3) تمام حاضرین جمعیت کے رکن بنے اور آواخر دسمبر میں امرتسر میں جلسہ کرنے کی تجویز پاس کی۔

(4) حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب کوعارضی صدر اور حافظ احمد سعید صاحب کو عارضی ناظم بنایا گیا۔

(5) جمعیت کے مقاصد و ضوابط کا مسودہ تیار کرنے کا فیصلہ لیا اور مفتی محمد کفایت اللہ صاحب اور مولانا محمد اکرام خاں صاحب ایڈیٹر اخبار محمدی کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی۔

اس تاسیسی اجلاس میں مختلف العقائد کے درج ذیل ۵۲/علمائے کرام شریک تھے:

(1) حضرات مولانا عبد الباری،(2) مولانا سلامت اللہ، (3)مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ، (4) پیر محمد امام سندھی،(5) مولانا اسد اللہ سندھی،(6) مولانا سید محمد فاخر، (7) مولانا محمد انیس، (8)مولانا خواجہ غلام نظام الدین،(9) مولانا محمد کفایت اللہ، (10) مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی، (11) مولانا احمد سعیددہلوی،(12) مولانا سید کمال الدین،(13) مولانا قدیر بخش، (14)مولانا تاج محمود،(15)مولانا محمد ابراہیم دربھنگوی،(16) مولانا خدا بخش مظفر پوری، (17)مولانا مولا بخش امرتسری،(18) مولانا عبد الحکیم گیاوی،(19) مولانا محمد اکرام،(20) مولانا محمد منیرالزماں،(21) مولانا محمد صادق،(22) مولانا سید محمد داؤد،(23) مولانا سید محمد اسماعیل،(24) مولانا محمد عبداللہ،(25) مولانا آزاد سبحانی۔(مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند، از ص/2، تا5)۔

اس فہرست میں گرچہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ کا نام نہیں ہے؛ لیکن اس میٹنگ میں شریک مولانا احمد سعید صاحبؒ کی شہادت یہ ہے کہ وہ سید حسن رسول نما کے مزار پر حلف راز داری کی اس خفیہ میٹنگ میں شریک تھے اور انھوں نے ایک دل پذیر تقریر بھی فرمائی۔ (حیات سجاد، ص/ 101)۔ اور بعد عشا کی میٹنگ میں مولانا عبد الحکیم گیاوی کو اپنا نمائندہ بناکر بھیجا۔ (تذکرہ ابو المحاسن، ص/424، مطبوعہ جمعیت علمائے ہند)

جمعیت علمائے ہند کا پہلا اجلاس اور تجاویز

جمعیت علمائے ہند کے قیام کے محض35/ دن بعد،28، 31/ دسمبر1919ء اور یکم جنوری 1920ء کی الگ الگ تاریخوں میں تین نشستوں پر مشتمل اسلامیہ مسلم ہائی اسکول امرتسر میں اس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔28/ دسمبر1919ء بعد نمازعصر کی پہلی نشست میں باون علمائے کرام شریک ہوئے اور جمعیت علمائے ہند کے قیام کی ضرورت و اہمیت پر بحث و گفتگو ہوئی۔

(1) مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے انعقاد جمعیت اور جلسہ دہلی کی مختصر کیفیت بیان کی۔

(2) مولانا ابو تراب محمد عبد الحق صاحب نے سیاست و مذہب کی یگانگت پر تقریر کی۔

(3) مولانا عبد الرزاق صاحب نے انعقاد جمعیت کی ضرورت پر زور دیا۔

(4)جناب سید جالب صاحب ایڈیٹر اخبار ہمدم نے اپنے خطاب میں کہا کہ مختلف صوبائی انجمنوں کی طرح آل انڈیا جمعیت علما کا قیام ضروری ہے۔

(5) مفتی محمد کفایت اللہ صاحبؒ نے جمعیت علمائے ہند کے قیام کی ضرورت پر خطاب کیا۔اور اس کے اغراض و مقاصد کا اجمالی خاکہ بھی پیش کیا۔

(6) جناب غازی محمود صاحب نے مفتی صاحب کی باتوں سے مکمل اتفاق کا اعلان کیا۔

(7) حاذق الملک حکیم حافظ محمد اجمل خاں صاحب نے جمعیت کے انعقاد پر اپنے دلی اتفاق کا اظہار کیا۔ (مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند، ص/ از6، تا /11)۔

اس میں گرچہ مولانا محمد سجاد صاحبؒ کا نام نہیں ہے؛ لیکن مولانا احمد سعید صاحب ناظم اول جمعیت علمائے ہند لکھتے ہیں کہ

”جمعیت علمائے ہند کے اس پہلے اجلاس میں بھی حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد مرحوم شریک ہوئے اور انھوں نے اپنے خیالات کا پھر اعادہ فرمایا۔“ (حیات سجاد، ص/102)

ظاہر سی بات ہے کہ یہ خیالات وہی تھے، جن کے لیے پہلے مولانا مرحوم نے بھارت کے اکثر صوبوں میں سفر کیا، لیکن علما نے ضرورت سمجھنے کے باوجود عمل کی طرف قدم نہیں اٹھایا، اور بالآخر انھوں نے ریاست بہار سے اس کی شروعات کردی۔

یہاں اس بات کا تذکرہ فائدہ سے خالی نہیں ہوگا کہ جمعیت علمائے ہند حضرت ابو المحاسنؒ کی فکرو عمل کی پیداوار ہے۔ اور معاصرین کی شہادت کے مطابق تاسیس کی میٹنگوں میں شریک بھی رہے ہیں، اس کے باوجود جمعیت کی بنیادی تاریخی کتابوں میں ان کا تذکرہ نہیں ملتا۔ حتیٰ کہ ”مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند“ میں بھی -جو کہ اسی عہد کی چھپی ہوئی روداد ہے- کے تاسیسی اجلاس اور اس کے بعد امرتسر میں ہونے والے سہ روزہ اجلاس کی پہلی دو نشستوں میں میں موجودنہیں ہے؛ البتہ تیسری نشست کے اسمائے حاضرین میں ان کا نام موجود ہے۔ اس کی وجہ سے بعض محققین کا ماننا ہے کہ مولانا ابوالمحاسن ؒ جمعیت کے تاسیسی رکن نہیں ہیں، جب کہ دوسرے حضرات معاصرین کی شہادتوں سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، مولانا موسس ہیں، البتہ روداد میں ان کا نام چھوٹ گیا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اسے مورخین کی تعصب پرستی کہنا تو خلاف واقعہ ہوگا؛ بات دراصل یہ ہے کہ وہ نام و نمود سے بہت دور بھاگتے تھے اور پس پردہ رہ کر ہر کام کو انجام دیا کرتے تھے، جیسا کہ15، 16/ دسمبر2018ء میں مولانا مرحوم پر ہوئے سیمینار کے تقریبا اکثر مقالہ نگاروں نے اس خصوصیت کا تذکرہ کیا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جمعیت علمائے ہند کا دماغ ہونے اور کہلانے کے باوجود انھوں نے کسی بھی تاریخ میں اپنے نام کو لکھنا یا لکھوانا گنوارا نہیں فرمایا۔ ہمارے اکابرکا یہی اخلاص ان کی دوامی شہرت اورانھیں عقیدت و محبت کا مرکز بنانے پر مجبور کرتا ہے۔ مولانا عطاء الرحمان قاسمی مشہور مورخ اور ادیب محمد اسحاق بٹھی کی کتاب: بزم ارجمنداں کا ایک اقتباس نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ

”محمد اسحاق بٹھی ایک محقق عالم اور دیانت دار صاحب قلم ہیں۔ انھوں نے جمعیت علمائے ہند کے ابتدائی قیام میں شریک بعض قابل ذکر علما کا ذکر ضرور کیا ہے۔ لیکن اس تاسیسی اجلاس جمعیت دہلی میں شریک بعض اہم علما کا نام ان کے قلم سے غیر شعوری طور پر رہ گیا ہے، ان میں ایک اہم نام ابوالمحاسن محمد سجاد بانی امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کا ہے، جو کہ 23/ نومبر1919ء کو قیام جمعیت علمائے ہند میں شریک ہوئے تھے۔“ (تذکرہ ابو المحاسن، ص/527)

31/ دسمبر 1919 کو دوسری نشست ہوئی جس میں تیس علمائے کرام نے شرکت کی۔ اس میں درج ذیل تین تجویزیں منظور ہوئیں:

تجویز نمبر1: جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ کامل ارادت مندی اور خلوص کے ساتھ اظہار کرتا ہے کہ حضرت سلطان المعظم مسلمانوں کے مسلم خلیفہ اور امیر المؤمنین ہیں اس لیے آپ کے نام کا خطبہ پڑھا جائے۔ محرک مولانا محمد اکرم خاں صاحب۔ مؤید مولانا پیر تراب علی صاحب سندھی۔ یہ تجویز بالاتفاق منظور ہوئی۔

تجویز نمبر2: جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ ملک معظم سے استدعا کرتا ہے کہ خلافت و مسائل متعلقہ ٹرکی کا تصفیہ کرنے کے لیے مسٹر لائڈ جارج کے ہمراہ صاحب وزیر ہندو مسلم نمائندے مسٹر اصفہانی و مسٹر بھرگری، مشیر حسین صاحب قدوائی لازمی طور پر صلح کا نفرنس میں بھیجے جائیں؛ ورنہ ہم کو اندیشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملات مذکورہ کا فیصلہ مسلمانوں کے متفقہ مذہبی مطالبات کے خلاف ہوجائے اور ملک معظم کی کروڑوں رعایائے ہند کی سخت بے چینی کا باعث ہو۔ محرک مولوی عبد الرزاق صاحب، مؤید مولوی محمد مبین صاحب۔ یہ تجویز بھی باتفاق منظور ہوئی۔

تجویز نمبر3: جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ تجویز کرتا ہے کہ یہ تجویز نمبر 2، بذریعہ تارک ملک معظم کی خدمت میں روانہ کی جائے۔ اور جلسہ کی کاروائی اخبارات میں بھیجی جائے۔ محرک مولوی محمد منیر الزماں صاحب۔ مؤید مولوی احمد سعید صاحب۔ بالاتفاق منظور ہوئی اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا۔“ (مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند، ص/12)

خدمات و تجاویز پر ایک نظر

31/ دسمبر1919ء کی دوسری نشست کی پہلی تجویز میں ’سلطان المعظم‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس سے مراد سلطان محمد وحید الدین ہیں۔ ان کے متعلق مختصر معلومات درج ذیل ہیں:

”محمد سادس یا محمد وحید الدین (پیدائش: 14 جنوری 1861ء – انتقال: 16 مئی 1926ء) سلطنت عثمانیہ کے 36 ویں اور آخری فرماں روا تھے جو اپنے بھائی محمد پنجم کے بعد 1918ء سے 1922ء تک تخت سلطانی پر متمکن رہے۔ انھیں 4 جولائی 1918ء کو سلطنت کے بانی عثمان اول کی تلوار سے نواز کر 36/ ویں سلطان کی ذمہ داریاں دی گئی تھیں۔ ان کے دور حکومت کا سب سے اہم اور بڑا واقعہ جنگ عظیم اول تھا جو سلطنت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ جنگ میں شکست کے نتیجے میں برطانوی افواج نے بغداد اور فلسطین پر قبضہ کر لیا اور سلطنت کا بیشتر حصہ اتحادی قوتوں کے زیر قبضہ آ گیا۔ اپریل 1920ء کی سان ریمو کانفرنس کے نتیجے میں شام پر فرانس اور فلسطین اور مابین النہرین پر برطانیہ کا اختیار تسلیم کر لیا گیا۔ 10 اگست 1920ء کو سلطان کے نمائندوں نے معاہدہ سیورے پر دستخط کیے، جس کے نتیجے میں اناطولیہ اور ازمیر سلطنت عثمانیہ کے قبضے سے نکل گئے اور ترکی کا حلقہ اثر مزید سکڑ گیا، جب کہ معاہدے کے نتیجے میں انھیں حجاز میں آزاد ریاست کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔ ترک قوم پرست سلطان کی جانب سے معاہدے کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر سخت ناراض تھے اور انھوں نے 23/ اپریل 1920ء کو انقرہ میں مصطفٰی کمال اتاترک کی زیر قیادت ترک ملت مجلس عالی (ترکی زبان: ترک بیوک ملت مجلسی) کا اعلان کیا۔ سلطان محمد سادس کو تخت سلطانی سے اتار دیا گیا اور عارضی آئین نافذ کیا گیا۔ قوم پرستوں نے جنگ آزادی میں کامیابی کے بعد یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا باضابطہ اعلان کیا اور سلطان کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے ملک بدر کر دیا گیا جو 17/ نومبر کو بذریعہ برطانوی بحری جہاز مالٹا روانہ ہو گئے اور بعد ازاں انھوں نے زندگی کے آخری ایام اطالیہ میں گزارے۔ 19 نومبر 1922ء کو اُن کے قریبی عزیز عبد المجید آفندی (عبد المجید ثانی) کو نیا خلیفہ چنا گیا جو 1924ء میں خلافت کے خاتمے تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ محمد سادس کا انتقال 16 مئی 1926ء کو سان ریمو، اٹلی میں ہوا اور انھیں دمشق کی سلطان سلیم اول مسجد میں سپرد خاک کیا گیا۔“(ویکی پیڈیا آزاد دائرۃ المعارف، محمد وحید الدین)

تجویز نمبر 2 میں ملک معظم سے مراد جارج پنجم ہے۔

”جارج پنجم (George V) کا مکمل نام جارج فریڈرک ارنسٹ البرٹ (George Frederick Ernest Albert) ہے۔ مئی 1910 سے اپنی وفات20جنوری 1936 تک برطانیہ اور برطانوی دولت مشترکہ کا بادشاہ اور شہنشاہ ہندستان تھا۔ اس کا پیش رو ایڈورڈ ہفتم اور جانشیں ایڈورڈ ہشتم تھا۔“ (ویکی پیڈیا آزاد دائرۃ المعارف، جارج پنجم)

اسی تجویز میں ’صلح کانفرنس‘ کا لفظ آیا ہے، جس سے مراد معاہدہ سیورے (Treaty of Sevray) ہے، جو 10/ اگست1919 ء کو سیورے کے مقام پر کیا گیا تھا۔ اس معاہدہ سے متعلق مرتضیٰ احمد خاں لکھتے ہیں کہ

”فاتح اقوام کے نمائندوں نے جو معاہدہ تیار کیا تھا، ترکی کے نمائندے کو بلاکر بزور شمشیر اس پر دستخط حاصل کرلیے۔ اس عہد کے نام کی رو سے ترکی پر بھاری تاوان جنگ ڈال دیا گیا۔ اور اس کی وصولی کے لیے ترکی کے ذرائع آمدنی کو اپنے قبضے میں لینا طے کرلیا گیا تھا۔ اور ترکی کے علاقوں پر اس طرح قبضہ طے کیا گیا کہ عراق، فلسطین اور شرق اردن برطانیہ کی عمل داری میں چلے گئے۔ شام و لبنان پر فرانس کا قبضہ مان لیا گیا۔ شریف مکہ حسین کو جس نے ترکوں کے خلاف بغاوت کرکے اتحادیوں کی مدد کی تھی، یہ انعام دیا گیا کہ اسے حجاز کا بادشاہ تسلیم کرلیا گیا۔ اس کے بیٹے امیر فیصل کو عراق کا کٹھ پتلی حکمراں بنا دیا گیا۔ ترکی سے تاوان جنگ وصول کرنے کے لیے برطانیہ، فرانس اور اٹلی کی فوجوں نے قسطنطنیہ پر اپنا قبضہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔“ (تاریخ اقوام عالم، بحوالہ سیاسی ڈائری، ج/ 2، ص/78)

ہندو مسلم نمائندہ مسٹر اصفہانی سے مراد غالبا ابوالحسن اصفہانی ہے۔

”ابو الحسن اصفہانی (انگریزی: Abul Hassan Isphani) ایک پاکستانی قانون ساز اور سفارت کار تھے۔ ان کا تعلق اصفہانی خاندان سے تھا اور وہ سینٹ جانز کالج، کیمبرج سے تعلیم یافتہ تھے۔ ان کا شمار تحریک پاکستان کے اہم رہنماوں میں کیا جاتا ہے۔ ستمبر 1947ء سے فروری 1952ء تک ریاستہائے متحدہ میں پاکستان کے سفیر بھی رہے۔“(آزاد دائرۃ المعارف ویکی پیڈیا، ابوالحسن اصفہانی)

مسٹر بھرگری اور مشیر حسن قدوائی کے بار میں معلومات نہیں مل سکیں۔

جمعیۃ العلماء ہندیا جمعیۃ علماء ہند

جمعیت علمائے ہند کے قدیم و جدید مورخین نے کہیں پر اس کا نام جمعیۃ العلماء لکھا ہے اور کہیں پر جمعیۃ علماء ہند۔ اور بعض حضرات کی تحریروں میں جمعیۃ العلماء ہند بھی لکھا ملتا ہے۔ مورخ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب سابق ناظم اعلیٰ جمعیۃ علماء ہند نے اس کی تاریخ پر لکھی کتاب کا نام”جمعیۃ العلماء کیا ہے“ رکھا ہے۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اگر لوکیشن نام کا حصہ نہیں ہے، تو جمعیۃ العلماء اصل نام ہوگا۔ اور ہند لوکیشن ہوگا۔ لیکن ہند نام کا حصہ ہے، اس لیے یہ ترکیب کسی بھی صورت درست نہیں ہوگی۔ کیوں کہ اگر اسے عربی جملہ مان لیا جائے، تو مبتدا خبر کی ترکیب ہوگی، جو بالکل بھی بے معنی جملہ ہوگا۔ اور اگر فارسی ترکیب تسلیم کیا جائے، تو ایسی ترکیب فارسی زبان و ادب میں ندارد ہے؛ اس لیے بہر صورت جمعیۃ العلماء ہند لکھنا خلاف قاعدہ ہے۔

تحقیقی بات یہ ہے کہ اس کا اصل اور پورا نام جمعیت علمائے ہندہے؛ کیوں کہ جمعیت کی تاریخ پر سب سے پہلی اور مستند کتاب ”مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند“ میں ایسا ہی لکھا ہوا ہے۔ اسی طرح مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ صدر اول جمعیت علمائے ہند نے اس کے پہلے اجلاس میں قواعد و ضوابط کا جو مسودہ پیش کیا ہے۔ اس میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ

”دفعہ نمبر۔1: اس انجمن کا نام جمعیۃ علمائے ہند ہوگا۔“ (ص/16)

جمعیت علمائے ہند کا صحیح املا کیا ہونا چاہیے

جمعیۃ: عربی لفظ ہے، اس لیے عربی زبان و تحریر میں بالیقین اسے تائے مدورہ سے لکھا جائے گا، لیکن اس کی تہنید کردینے کے بعد لمبی تا سے لکھنا ضروری ہوجاتا ہے، جیسے کہ ہم محبت، خدمت، قدرت، رحمت اور ان جیسے ہزاروں الفاظ کو لکھتے ہیں؛ اس لیے ناچیز کی رائے یہی ہے کہ اسے جمعیۃ کے بجائے ”جمعیت“ لکھنا زیادہ موزوں ہے۔

اسی طرح ”علماء“ کی اضافت میں بعض جگہ ایسے ہی لکھا گیا ہے، جب کہ کہیں کہیں ”علمائے“ لکھا ملتا ہے۔ چوں کہ اس کے تینوں الفاظ فارسی ترکیب اضافی پر مشتمل ہیں، اور اضافت کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر اسم کے آخر میں الف ہو، تو اس کی اضافت ”ہمزہ اور ے“ سے ہوگی، اس لیے قاعدہ کے مطابق”علمائے“لکھا جانا چاہیے۔جمعیت کی تاریخ کی بنیادی کتاب کا نام بھی ”جمعیت علمائے ہند“ کے املا کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ اسی طرح دستور اساسی کے مسودہ کی دفعہ نمبر ایک میں بھی ”علمائے“ ہی لکھا ہوا ہے؛ اس لیے جمعیت کو مکمل نام اور صحیح املا کے ساتھ ”جمعیت علمائے ہند“ لکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

جمعیت علمائے ہند کا پہلادفتر

حضرت مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نو راللہ مرقدہ چوں کہ صدر منتخب کیے گئے تھے اور آپ اس وقت مدرسہ امینیہ اسلامیہ کشمیری گیٹ سے وابستہ تھے، اس لیے”اس کا سب سے پہلا دفتر مدرسہ امینیہ کے ایک کمرے میں قائم ہوا۔“ (مختصر تاریخ مدرسہ امینیہ اسلامیہ، ص46)۔

یہ کمرہ آج تک موجود ہے، جس میں سردست مدرسہ کا دفتر اہتمام ہے۔

خلاصہ کلام

انگریزوں نے بھارت پر جابرانہ قبضہ کرکے، یہاں کی عوام بالخصوص مسلمانوں کو سیاسی، اقتصادی اور مذہبی طور پر تباہ کرنے کی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ ادھر دوسری طرف علمائے امت کے مسلکی اختلافوں نے انھیں اور بھی بے جان کردیا تھا۔ ایسے پرآشوب حالات میں مفکر قوم و ملت حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمۃ اٹھے اور بھارت کے اکثر صوبوں میں دورہ کرکے علمائے کرام کو ایک متحدہ پلیٹ فارم تشکیل دینے کی دعوت دی، لیکن کسی نے بھی ان کی آواز پر لبیک نہیں کہا؛ بالآخر مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے آل انڈیا کے بجائے ریاستی سطح پر 15/ دسمبر 1917ء میں ”جمعیت علمائے بہار“ کی داغ بیل ڈالی۔بعد ازاں آل انڈیا خلافت کانفرنس کے موقع پر بھارت کے کونے کونے سے علمائے کرام دہلی میں جمع ہوئے تھے، اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے، مختلف مسالک کے علما سید حسن رسول نما کے مزار پر حاضر ہوکر پہلے رازداری کا حلفیہ لیا۔ پھر اسی روز 23/ نومبر1919ء بعد نماز عشا مسجد درگاہ سید حسن رسول نما میں ایک میٹنگ کی اور ”جمعیت علمائے ہند ”کی تشکیل کی۔ یہ تشکیل ”جمعیت علمائے بہار“ کا نظام جدید اور توسیعی نظام کا حصہ تھا۔ اس کا پہلا اجلاس 28، 31/ دسمبر 1919ء و یکم جنوری 1920ء امرتسر میں کیا گیا، جس میں خلافت اسلامیہ کے خلیفہ محمد وحید الدین خاں کے نام کا خطبہ پڑھنے، صلح کانفرنس میں بھارتی مسلمانوں کے وفد کے بھیجنے اور اس تجویز کو برطانوی بھارتی بادشاہ جارج پنجمکوبھیجنے کی تجاویزمنظور کی گئیں اور پہلی مجلس منتظمہ بنائی گئی۔ اس کا پہلا دفتر مدرسہ امینیہ اسلامیہ کشمیری گیٹ دہلی میں قائم کیا گیا۔ املا کے قاعدہ کی رو سے ”جمعیت علمائے ہند“ لکھنا چاہیے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close