اسلامیات

انتخاب امیر شریعت کی تاریخ :ایثار وقربانی اور استغنا کےنقوش

بہ قلم :مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

انتخاب امیر شریعت کی تاریخ :ایثار وقربانی اور استغنا کےنقوش.
بہ قلم :مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گذرگئے

جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں

ایثار وقربانی اور استغناء و بے نیازی اہل ایمان بالخصوص صالحین کے لیے سرمایہ گراں مایہ ہے… عہدہ طلب کر نے کی شناعت اور بغیر مانگے عہدہ ملنے پر قبول کرنے کی ترغیب اور اس سلسلے میں تائید الہی کی بشارت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں موجود ہے…
رسول اللہ ﷺ نے اپنے پیارے صحابی عبدالرحمٰن بن سمرہؓ کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی:
’’یَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَۃَ، لَا تَسْأَلِ الْاِمَارَۃَ، فَاِنَّکَ اِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ مَسْأَلَۃٍ وُکِلْتَ اِلَیْھَا، وََ اِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْأَلَۃٍ أُعِنْتَ عَلَیْھَا(صحیح بخاری، کتاب الأحکام، باب مَنْ سَأَلَ الْاِمَارَۃَ وُکِلِ اِلَیْھَا، بروایت عبد الرحمٰن بن سمرہؓ)
‘یعنی’’ اے عبد الرحمٰن بن سمرہ! کبھی امارت کی درخواست نہ کرنا،کیوں کہ اگر تمھیں یہ مانگنے کے بعد ملے گا تو تم اسی کے حوالے کردئے جاؤگے (اللہ پاک اپنی مدد تجھ سے اٹھالے گا کہ تو جانے تیرا کام جانے) اور اگر وہ عہدہ تمھیں بغیر مانگے مل گیا تو اس میں (اللہ کی طرف سے ) تمھاری اعانت کی جائے گی‘‘۔
اس حدیث میں ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ عہدہ طلب کرنے پر اللہ کی طرف سے مدد بھی اٹھ جاتی ہے اورا نسان آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے لیکن اگر عہدہ بغیر طلب کئے ملتا ہے تو اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔
مشہور صحابی ابوذرؓ نے ایک بار آپؐ سے کسی منصب کی خواہش ظاہر کی. تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:
"یَا أَبَا ذَرٍّ اِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَ اِنّھَا أَمَانَۃُ وَ اِنّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَ نَدَامَۃٌ اِلَّا مَنْ أَخَذَھَا بِحَقِّھَا وَ أَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ فِیْھَا (صحیح مسلم،کتاب الامارۃ، باب کراھۃ الامارۃ بغیر ضرورۃ، بروایت ابوذرؓ)۔
‘یعنی’’ اے ابوذرؓ! تو کمزور ہے اوربلاشبہ یہ (امارت) امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے سوائے اس شخص کے جس نے اس کے حقوق پورے کئے اور اس سلسلہ میں جو ذمہ داریاں اس پر عائد تھیں انھیں ادا کیا‘‘۔
آپؐ نے ایک موقع سے ارشاد فرمایا:

’’لَنْ (أَوْ لَا) نَسْتَعْمِلُ عَلٰی عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَہُ (صحیح بخاری، کتاب استتابۃ المرتدین، باب حُکْمِ الْمُرْتَدِّ وَ الْمُرْتَدَّۃِ، بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ)۔
‘یعنی’’ہم ہرگز کسی ایسے شخص کو عامل مقرر نہیں کریں گے جو عامل بننا چاہے‘‘۔
صحیح ابن حبان کے الفاظ اس طرح ہیں:
’اِنَّا وَ اللّٰہِ لَا نُوَلِّی عَلٰی ھٰذَا الْعَمَلِ اَحَدًا سَاَلَہٗ، وَ لَا اَحَدًا حَرَصَ عَلَیْہِ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذکر الزجر عن سؤال المرء الامارۃ لئلا یوکل الیھا اذا کان سائلا لھا، بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ)۔
یعنی ’’اللہ کی قسم ! ہم اس کام کا نگراں کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کریں گے جو اسے مانگتا ہو اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو مقرر کریں گے جو اس کی لالچ کرتا ہو‘‘۔
ان نبوی ہدایات کے مطابق ہرزمانے کے اہل اللہ نے اجتماعی معاملات میں ایثار وقربانی کی روش اختیار کی.. اور عہدہ ومنصب کے سلسلے میں ہمیشہ استغناء اور ایثار کا رویہ اپنایا اور جب عدمِ طلب کے باوجود عہدہ ملا تو تائید الہی سے مکمل اخلاص وللہیت کےساتھ مفوضہ ذمہ داریوں کو باحسن وجوہ انجام دیا… کبھی ملت کے اعلی مفاد میں حق دار ہونے کے باوجود عہدہ ومنصب کو ترک کر کے اسوہ حسنی کی پیروی کی، تو کبھی نااہلوں کے درمیان امانت کی حفاظت کے لیے امین بن کر سنت یوسفی پر بھی عمل پیرا ہوئے ..
ہندوستان میں مسلم حکم رانی کے زوال کے بعد اکابر علماء نے امارت شرعیہ کی ضرورت کا ادراک کیا… اور عملی شکل میں ابوالمحاسن سید محمد سجاد کی فکر مندی کے نتیجے میں سب سے پہلے بہار (اڑیسہ بہار کا حصہ تھا) میں سنہ انیس سو اکیس میں امارت شرعیہ قائم ہوئی.
امارت شرعیہ ایک ایسا اجتماعی نظام ہے، جس کی بنیاد اخلاص وللہیت پر ہے، جس کا شعار ہمیشہ” کلمۃُ اللہ ھی العلیا "رہا ہے.
کلمہ واحدہ کی بنیاد پر ملت اسلامیہ کو جوڑنے اور ایک امیر کی ماتحتی میں شرعی زندگی گذارنےکی نقیب ہے امارت شرعیہ..
اس کے سو سالہ تاریخ میں امارت شرعیہ کو ایسے خدا ترس، تقوی شعار مخلص اللہ والے امراء شریعت ملے ہیں؛ جو عہدہ طلبی سے کوسوں دور اور استغنا وایثار کے جامع تھے… جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب ذمہ داروں کے اصرار پر عہدہ قبول کیا؛ تو اللہ رب العزت کی ایسی نصرت اور تائید ملی کہ امارت شرعیہ اتحاد امت کی سب سے مضبوط آواز بن گئی اور اس میں خلافت راشدہ کی جھلک نظر آنے لگی..
امارت شرعیہ کی تجویز :
جب جمعیت علمائے ہند کے دوسرے سالانہ اجلاس منعقدہ19، 20، و21/ نومبر1920ء دہلی میں امارت شرعیہ کی تجویز پیش ہوئی تو اس کی اہمیت کے پیش نظر صدر اجلاس شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ نے ودیگر تمام پانچ سو علماء نے اس کی تائید کی. جب امیر الہند منتخب کر نے کی بات آئی تو حضرت شیخ الہند نے شدید علالت کے باوجود فرمایا کہ
”میری چارپائی اٹھا کر جلسہ گاہ لے چلو، میں پہلا شخص ہوں گا، جو امیر کے ہاتھ پر بیعت کرے گا۔“(تاریخ امارت شرعیہ ص53)
متعدد اسباب کی وجہ سے ملکی پیمانے پر جب امارت شرعیہ کا قیام نہیں ہوسکا توحضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کی بصیرت ودور اندیشی کے مطابق انھیں کی تحریک پر 23،24/ شعبان، 1339ھ مطابق 2،3/ مئی 1921ء کو دربھنگہ کے جمعیت علمائے صوبہ بہار کے اجلاس عام کے موقع پر امارت شرعیہ کے قیام کی تجویز منظور کی گئی۔“ تجویز کے الفاظ یہ تھے :
”جمعیت تجویز کرتی ہے کہ صوبہ بہار و اڑیسہ کے محکمہ شرعیہ کے لیے ایک عالم اور مقتدر شخص کا امیر ہونا انتخاب کیا جائے، جس کے ہاتھ میں تمام محکمہ شرعیہ کی باگ ڈور ہو۔ اور اس کا ہر حکم مطابق شریعت ہر مسلمان کے لیے واجب العمل ہو، نیز تمام علما و مشائخ اس کے ہاتھ پر خدمت و حفاظت اسلام کے لیے بیعت کریں جو سمع و طاعت کی بیعت ہوگی، جو بیعت طریقت سے الگ ایک ضروری اور اہم چیز ہے۔ جمعیت علما متفقہ طور پر تجویز کرتی ہے کہ انتخاب امیر محکمہ شرعیہ کے لیے ایک خاص اجلاس علمائے بہار کا بمقام پٹنہ وسط شوال میں کیا جائے۔“ (تاریخ امارت، ص/58)
حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رح نے صرف امارت شرعیہ کا خاکہ تیار کرنے پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ اکابر علماء، خانقاہ کے سجادہ نشینوں، دانشوروں اور مولانا ابوالکلام آزاد سے نجی ملاقات کرکے قیام امارت شرعیہ کے لیے راہ ہموار کی، معاملہ مولانا ابوالکلام آزاد کی رانچی نظر بندی کی وجہ سے ٹلتا رہا، ١٩٢٠ء میں یہ نظر بندی ختم ہوئی، تو مولانا نے ١٩/ شوال ١٣٣٩ھ مطابق ٢٦/جون ١٩٢١ء کو محلہ پتھر کی مسجد پٹنہ میں اس سلسلے کی مٹنگ بلائ، مولانا ابوالکلام آزاد کی صدارت میں منعقد اس اجلاس میں مختلف مکتبہ فکر کے کم و بیش پانچ سو علماء، مشائخ اور دانشور ان جمع ہوئے،
بیرون ریاست کے شرکاء میں مولانا آزاد کے علاوہ مولانا آزاد سبحانی اور مولانا سبحان اللہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں..
خود مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے خطبہ صدارت لاہور میں حضرت مولانا محمد سجاد سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :اسی زمانے میں میرے عزیز ورفیق مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب رانچی میں مجھ سے ملے تھے اور اسی وقت سعی وتدبیر میں مشغول ہوگئے تھے، میں نہیں جانتا کن لفظوں میں میں حضرات علمائے بہار کو مبارکباد دوں کہ انھوں نے سبقت بالخیر کا مقام اعلیٰ حاصل کیا اور جمعیت علمائے بہار کے جلسے میں تین سو کے مجمع علماء نے بالاتفاق اپنا امیر شریعت منتخب کرلیا.. (خطبات آزاد ص 126)
علماء ومشائخ کے علاوہ دیگر شرکاء کی تعداد تقریباً چار ہزار سے متجاوز تھی. شرکاء اجلاس نے اتفاق رائے سے حضرت مولانا شاہ بدرالدین قادری کو امیر شریعت اور حضرت مولانا سجاد کو (جو اس وقت جمعیت علماء بہار کے ناظم تھے) نائب امیر شریعت منتخب کیا
لیکن خود ان اکابر کا رجحان عہدہ قبول کرنے کی طرف نہیں تھا بلکہ بادل ناخواستہ علماء ومشائخ کے اصرار پر ان دونوں حضرات نے عہدہ قبول کیا.
حضرت شاہ بدرالدین نے حضرتِ سجاد کے دعوت نامے کے جواب میں جو مکتوب تحریر فرمایا، اس میں انھوں نے امیر شریعت کے لیے قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری رح کے نام کی سفارش کی.
لکھتے ہیں: میں جمعیت علماء بہار کے اس جلسے میں حاضر ہونے سے معذور ہوں؛ البتہ محکمہ شرعیہ کے امیر کے لیے میری رائے میں جو پانچ صفات ہونی بتائی گئی ہیں، بہت مناسب ہیں. اس صوبہ بہار میں ان صفات سے موصوف اس وقت جناب شاہ محمد علی رحمانی کے سوا دوسرے کسی کو نہیں پاتا.. اس لیے میری رائے ہے کہ اس منصب پر وہی مقرر کیے جائیں…. (تاریخ امارت شرعیہ ص47)
لیکن جب ان کی خواہش کے برعکس انھیں کو امیر شریعت منتخب کرلیا گیا؛ تو انھوں نے لکھا :میں نے اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا… اور اپنی رائے تحریر کردیا تھا کہ جناب مولوی سید شاہ محمد علی رحمانی کو میں اس منصب کا اہل جانتا ہوں آج معلوم ہوا کہ قرعہ فال بنام من دیوانہ زنند جب آپ لوگوں کی بالاتفاق یہی رائے ہے تو اب قبول کرنے کے سوا کیا چارہ ہے. اگر اللہ کی مشیت یہی ہے تو افوض امری الی اللہ… (تاریخ امارت ص 82)
یہ تو رہا پہلے امیر شریعت کے ایثار استغنا اور انکساری کا واقعہ.
خود بانی امارت شرعیہ مولانا محمد سجاد جو جمعیت علماء بہار کے ناظم کے طور پر داعی اجلاس بھی تھے ان کا حال یہ تھا کہ وہ چاہتے تو پہلے امیر شریعت بن سکتے تھے، علماء ومشائخ انھیں پلکوں پر بٹھاتے؛ کہ امارت کا عظیم تصور انھیں کی فکر رسا کا پیش کیا ہوا تھا؛ لیکن ہمیشہ عہدہ ومنصب سے دور رہ کر محض خلوص وللہیت کی بنیاد پر کام کر نے والی شخصیت کو یہ کب گوارا ہوسکتا تھا.. بقولِ مولانا رحمانی :حضرت مولانا محمد سجاد کو نائب امیر شریعت منتخب کیا گیا. جب کہ حضرت مولانا سجاد کسی عہدہ کے لیے راضی نہ تھے.. لیکن شرکاء کے دباؤ میں آپ نے نائب امیر شریعت کا عہدہ قبول کیا… اور امیر شریعت کی نیابت میں حاضرین سے سمع وطاعت کی بیعت لی.
دوسری طرف حضرت مولانا مونگیری رح نے مولانا سید شاہ بدرالدین قادری رح کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اس منصب جلیلہ کو قبول کرلیں؛ حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری کے بارے میں ، حضرت مولانا مونگیری نے لکھا تھا کہ”یہ فقیر اپنے خاص محبین سے اتنا اور کہتا ہے کہ اس وقت جوامیر شریعت ہیں انہوں نے میرے ہی کہنے سے اس امارت کو قبول کیا ہے اب میں تمام محبین سے باصرارو منت کہتا ہوں کہ اس میں کسی قسم کا اختلاف نہ کریں”
حضرت قطب عالم محمد علی مونگیری ، حضرت امیر شریعت اول شاہ بدرالدین قادری اور نائب امیر شریعت حضرت مولانا ابو المحاسن سید محمدسجاد رح کےسوز دروں اخلاص وللہیت اور عملی جد و جہد اور پوری ریاست کے علماء ومشائخ کے اعتماد کے نتیجہ میں امارت شرعیہ نے عوام و خواص میں کم وقت میں مضبوط پکڑ بنالی.
امیر شریعت ثانی کا انتخاب:
امیر شریعت اول مولانا شاہ بدر الدین کے انتقال کے بعد،19/ صفر1343 ھ (19/ ستمبر1924ء) کو منعقد جمعیت علمائے بہار کی مجلس منتظمہ میں امیر شریعت ثانی کے انتخاب کے لیے 8، و 9/ ربیع الاول1343ھ (مطابق 7/8 اکتوبر1924ء) کو پھلواری شریف پٹنہ میں ایک اجلاس عام کرنے کا فیصلہ کیاگیا. چنانچہ انتخاب امیر کے اس جلسہ میں
”تقریبا ڈیڑھ سو علما کے اسماء پیش کیے گئے کہ وہ امیر شریعت کو منتخب کریں۔اس اجلاس کے مجلس استقبالیہ کے صدر مولانا شاہ قمرالدین پھلواروی تھے اور اس کی صدارت حضرت مولانا محمد علی مونگیری کی نیابت میں ان کے بڑے صاحبزادے سید شاہ لطف اللہ رحمانی نے کی اور حضرت مونگیری کا تحریر کیا ہوا وقیع خطبہ صدارت پڑھ کر سنایا… یہ جامع ومدلل خطبہ صدارت بعد میں امارت شرعیہ کی طرف سے شائع بھی ہوا.
انتخاب کنندگان کی مجلس 3/ بجے دن سے منعقد ہوئی اور عشا تک ہوتی رہی اور حضرت مولانا شاہ محی الدین صاحب امیر شریعت ثانی منتخب کیے گئے۔“ (جمعیت و امارت تاریخ کے آئینہ میں، ص/7)
اس اجلاس میں تقریباً چار ہزار علماء، صوفیا اور دانشوران شریک ہوئے (محاسن التذکرۃ. ص 507)
آپ کے عہد میں امارت شرعیہ نے کافی ترقی کی اور آپ ہی کے عہد میں امارت شرعیہ نے مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بھی قائم کی اور محمد یونس وزیر اعلی کی قیادت میں بہار میں اس کی حکومت بھی قائم ہوئی.خود وزیر اعلیٰ نے امیر شریعت ثانی کے ہاتھ پر سمع وطاعت کی بیعت کی .. اس اجلاس میں جمعیت علمائے ہند کے نائب صدر سبحان الہند مولانا احمد سعید دہلوی اور مولانا عبدالحلیم صدیقی ناظم جمعیت علماء ہند بطورِ مہمان خصوصی ومشاہد کے شریک ہوئے.. حضرت شیخ الاسلام مدنی علیہ الرحمہ کو بھی شرکت کرنی تھی لیکن عین وقت پر ریلوے لائن خراب ہونے کی وجہ سے عدم شرکت اور نیک خواہشات کا پیغام بھیجا.
حضرت مولانا شاہ محی الدین قادری اپنے والد امیر شریعت اول کے عہد میں حضرت کے دست راست اور بیرونی کاموں کے لیے نفس ناطقہ تھے، تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات میں مولانا ہی خانقاہ مجیبیہ اور صاحب سجادہ کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتےرہے، ۱۹۲۰ء ١٩٢١ء میں تمام ملی وسماجی سرگرمیوں میں آپ کی فعال شرکت رہی.
انہوں نے امارت شرعیہ کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے ابو المحاحسن حضرت مولانا محمد سجاد ؒ کے ساتھ غیر منقسم بہار کے اسفار کیے، اور لوگوں تک امارت شرعیہ کے پیغام کو پہونچانے میں مولانا کے معاون رہے، امیر شریعت اول کی وفات کے بعد؛ عہدہ و منصب سے بے نیاز ہونے کے باوجود جب یہ ذمہ داری آپ کے گلے ڈال دی گئی؛ جس کے آپ پوری طرح مستحق تھے تو آپ نے اپنے کلیدی خطبے میں بحیثیت امیر شریعت ارشاد فرمایا:

” جب آپ حضرات اتفاق رائے سے مجھ پر یہ بار ڈال رہے ہیں، تو میں صرف اس لیے کہ میرے انکار سے تفرقہ کا خوف ہے، مجبور ہوکر قبول کرتا ہوں،”
آپ کا عہد امارت 23سالوں پر محیط ہے .

امیر شریعت ثالث کا انتخاب

شاہ محی الدین قادری کی وفات کے بعد 26، 27/ جون1947ء کو ڈھاکہ ضلع مشرقی چمپارن میں جمعیت علمائے صوبہ بہار کا عظیم الشان اجلاس عام ہوا۔ مولانا سید محمد میاں صاحب ناظم جمعیت علمائے ہند نے اجلاس عام کی صدارت کی۔ خطبہ استقبالیہ و خطبہ صدارت کے علاوہ مزید تقریریں ہوئیں۔ 27/ جون 1947ء کو 8/ بجے صبح سے مجلس منتظمہ جمعیت علمائے بہار کا اجلاس عام ہوا۔ تین گھنٹے کے کامل آزادانہ غوروفکر کے بعد حضرت مولانا شاہ قمر الدین صاحب کو ارباب حل و عقد اور مجلس منتظمہ کے ارکان و مدعوین نے باتفاق صوبہ کا امیر شریعت منتخب کرلیا۔“ ، مجلسِ استقبالیہ کے صدر شیخ التفسیر حضرت مولانا ریاض احمد صاحب سنت پوری تھے(جمعیت و امارت تاریخ کے آئینہ میں، ص/8)
اس انتخابی جلاس میں امیر شریعت کے لیے چار نام، مولانا منت اللہ رحمانی، علامہ سید سلیمان ندوی،مولانا قاضی سید نور الحسن، مولانا سید شاہ محمد قمر الدین،ان کے علاوہ مولانا ریاض احمد صاحب سنت پوری چمپارنی اور مولانا عبد الصمد رحمانی (مانڈر، کھگڑیا) نائب امیر شریعت کے اسماء گرامی قدر پیش ہوئے، ان میں آخر کے دوناموں کا اضافہ مجلسِ استقبالیہ نے کیا تھا؛ گویا کہ امیر شریعت کے لیے چھ نام پیش ہوئے، لیکن چونکہ تمام اکابر اخلاص وللہیت کے پیکر تھے. ان میں کوئی بھی عہدہ کا طلب گار اور منصب کا خواہش مند نہیں تھا،، اس لیے کوئی جھگڑا، انتشار، اور افتراق نہیں ہوا. ان چھ ناموں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کے لیے انتخابی اجلاس نے ایک نو(٩) نفری کمیٹی بنائی، جس نے امیر شریعت ثالث کی حیثیت سے مولانا شاہ قمر الدین کو منتخب کرلیا، اجلاس کی توثیق کے بعد بیعت سمع و طاعت لی گئی۔
امیر شریعت ثالث ؒکو امارت کی خدمت کے لیے زندگی کے دس سال ملے، کمی صرف یہ تھی کہ سابق دونوں امیر شریعت کے دور میں بانی امارت شرعیہ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒموجود تھے اور ان کی فکری بصیرت اور عملی تگ و دو سے کام آگے بڑھتا تھا، امیر شریعت ثالث کے دور سے پہلے ہی ان کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا؛ لیکن اس کمی کو حضرت سجاد کے تربیت یافتہ دیگر علماء بالخصوص حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی اور قاضی احمد حسین نے پورا کیا ۔
امیر شریعت ثالث کے انتخاب کے صرف ڈیڑھ ماہ کے بعد ملک آزاد ہوا اور تقسیم وطن کا درد بھی جھیلنا پڑا… تقسیم کے رد عمل میں ملک فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آگیا، پورے ہندوستان میں عموماً اور بہار میں خصوصاً فرقہ وارانہ فسادات کا ایک خونی سلسلہ شروع ہوگیا ،
یہ دور کتنی آزمائش کا تھا اس کا اندازہ سبحان الہند احمد سعید دہلوی کے ان جملوں سے لگایا جا سکتا ہے :
” وہ نظم امارت میں بھی اپنی امارت شرعیہ کے فرائض انجام دینے میں امیر اول اور امیر ثانی کے نقشہائے قدم کی پیروی فرمائی حالانکہ ان کا دور سخت نازک دور تھا اور امت محمدیہ ان کے مختلف مصائب اور ہر قسم کے فتنے میں مبتلا تھی اور پوری امت وجعلنابعضکم لبعض فتنہ کی مظہر بنی ہوئی تھی ایسے نازک اور زمانہ فتن میں امیر ثالث کی ہمت کو شاباش ہے کہ انھوں نے ہر قسم کے خطرات میں امت کی صحیح رہنمائی فرمائی. "نی(ہفت روزہ نقیب بابت ٢١ فروری ١٩٥٧ ء)
ایسے میں امیر شریعت ثالث نے اپنے رفقاء کے مشورے سے اہلِ اقتدار بالخصوص گاندھی جی کو اس صورت حال کی طرف مضبوطی سے متوجہ کیا،اس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور مرکزی قائدین نے ان علاقوں کا دورہ کیا.. امارت شرعیہ کی طرف سے ریلیف کا زبردست کام ہوا. اور اکابر امارت نے مصیبت کی اس گھڑی میں اہل ایمان کو جمانے اور حوصلہ دینے کا کام کیا.
امیر شریعت رابع کا انتخاب
”24/ مارچ 1957ء کو سوپول ضلع دربھنگہ میں ارکان جمعیت علمائے بہاراور ارکان شوریٰ امارت شرعیہ کا اجتماع شیخ التفسیر مولانا ریاض احمد صاحب چمپارنی کی صدارت میں ہوا۔ مجلس نے بحث و تمحیص کے بعد مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی کا نام امیر شریعت کے لیے منتخب کیا۔“
مولانا حفظ الرحمن صاحب ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند کی شرکت بحیثیت مشاہد ہوئی تھی،چار اکابر کا نام امیر شریعت کے طور پر پیش کیا گیا. مولانا شاہ نظام الدین قادری مولانا امان اللہ قادری. مولانا منت اللہ رحمانی ..اور نائب امیر شریعت حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی…. آخر الذکر نے پہلے ہی امیر کا عہدہ قبول کرنے سے معذرت کر لی… بعدازاں ارکان میں سے ایک مخصوص کمیٹی نے کامل غور و خوض کے بعد اتفاق رائے سے حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی کو امیر شریعت رابع منتخب کرلیا.. تمام حضرات نے سمع وطاعت کی بیعت کی. شرکاء میں ، مولانا محمد عثمان غنی ناظم امارت شرعیہ، مولانا عبد الرحمن صاحب گودنا(جو پہلے نائب امیر شریعت بعد میں امیر شریعت خامس بنے) قاضی احمد حسین صاحب، مولانا مسعود الرحمن، مولانا محمد عثمان سوپول رحمھم اللہ وغیرہ بطور خاص شریک تھے۔.. امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کے عہد کو امارت شرعیہ کا عہد زریں کہاجاسکتاہے.. آپ کے عہد میں ظاہری ومعنوی دونوں سطح سے امارت کی ترقی ہوئی…
جب اللہ کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو رفقاء کار بھی اسی انداز اور اسی معیار کے عطا فرماتا ہے، چنانچہ حضرتِ رحمانی کو مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ اور مولانا سید نظام الدین صاحب جیسے عالی حوصلہ رفقاء کار ملے. حضرت امیر شریعت رابع کی فکر و تحریک کو ان حضرات نے زمین پر اتارنے اور آپ کے خاکوں میں رنگ بھری کازبردست کام کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امارت شرعیہ کا کام بہار واڑیسہ سے نکل کر پورے ملک میں جانا پہچانا جانے لگا. بلکہ اس کی صدائے باز گشت بیرونی ممالک میں بھی سنی جانے لگی . امیر شریعت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکرٹری کے طور پر حضرت مولانا منت اللہ رحمانی نے پورے ملک کے انقلابی اسفار کیے جس سے امارت کی شناخت مستحکم ہوئی.. آپ کا عہدِ امارت تقریباً چونتیس سال پر محیط ہے..

امیر شریعت کاانتخاب پہلے جمعیت علمائے بہار کی مجلس منتظمہ، یا پھر اس کے ساتھ ساتھ ارکان شوریٰ امارت شرعیہ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعہ ہوا کرتا تھا۔… امیر شریعت رابع تک یہ سلسلہ بدستور قائم رہا… امیر شریعت رابع کی وفات کے بعد جمعیت علماء کا حلقہ اسی طریقے کو جاری رکھنے پر مصر تھا تو امارت شرعیہ کے عہدے داران وارکان شوری اپنے طور پر امارت کے اندر انتخاب امیر کے مسئلے کو حل کرنا چاہتے تھے.. چنانچہ چوتھے امیر شریعت کے انتقال کے بعد جمعیت علمائے صوبہ بہار کے صدر مولانا سید شاہ عون احمد قادری رح کے حکم پر ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے بہار مولانا ازہر صاحب رانچوی نے 24/ اپریل 1991ء کو جمعیت علمائے بہار کی مجلس منتظمہ کا اجلاس طلب کیا۔ ادھر دوسری طرف اس وقت کے ناظم امارت شرعیہ مولانا سید نظام الدین صاحب نے انتخاب امیر کے لیے 31/ مارچ1991ء کو امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کرلیا. جمعیت علمائے بہار کی طرف سے اجلاس طلب کرنے کے باوجود ناظم امارت شرعیہ کی طرف سے دوسرا اجلاس طلب کرنے کے پیچھے شکوہ یہ تھا کہ جمعیت نے امارت شرعیہ سے مشورہ نہیں کیا۔ بہر کیف بعد میں 30/ مارچ 1991ء کو دونوں کے درمیان مصالحت ہوگئی. ایک معاہدہ کے تحت دونوں نے اپنے اپنے اجلاس ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا…..بعد ازاں حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کی تحریک اور ناظم امارت شرعیہ مولانا نظام الدین اور قاضی القضاۃ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کی تائید سے ارکان شوری ومدعوین نے 31/ مارچ 1991ء کو احاطہ امارت شرعیہ پھلواری شریف میں منعقد اجلاس میں نائب امیر شریعت مولانا عبد الرحمن (جو 1973 سے ہی اس عہدہ پر تھے) کو امیر شریعت خامس منتخب کرلیا۔ اس کے بعد جمعیت علمائے بہار، امیر شریعت کے انتخاب سے بالکل علاحدہ ہوگئی۔
امیر شریعت خامس کا عہد امارت تقریباً سات سال ہے.. آپ کے عہد میں بھی امارت کی ترقی کاسفر جاری رہا. باضابطہ مجلس ارباب حل وعقد کے نام سے ایک دستوری مجلس تشکیل دی گئی.. پانچویں امیر شریعت حضرت مولانا عبد الرحمان ؒ کے بعد یکم نومبر 1998ء کو نائب امیر شریعت مولانا نظام الدین صاحب کو حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کی تحریک اور اربابِ حل وعقد کی تائید سے چھٹا امیر شریعت بنایا گیا۔اس وقت ایک بڑا طبقہ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کو امیر شریعت بنانا چاہتا تھا اور حضرت مولانا محمد ولی رحمانی اپنے تجربات اور ہمہ جہت خوبیوں کے مد نظر اس کے مستحق بھی تھے لیکن آپ نے نے اکابر کی روایات کے عین مطابق ایثار وقربانی کی راہ اپناتے ہوئے مولانا نظام الدین کا نام پیش فرما کر ایک تاریخ رقم کردی.حضرت مولانا نظام الدین صاحب کا عہد امارت سترہ سال ہے آپ کے عہد میں بھی امارت کی ترقی کی رفتار تیز رہی. المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء اور دار العلوم امارت شرعیہ ودیگر معیاری اداروں کا قیام عمل میں آیا .علمی فکری اور قائدانہ محوریت کے لحاظ سے آپ کا عہد ممتاز ہے… مسلم پرسنل لا بورڈ کی صدارت ونظامت اعلی دونوں امارت شرعیہ میں جمع ہوگئی.. مولانا نظام الدین صاحب؛ َنائب امیر شریعت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کو بنانا چاہتے تھے؛ لیکن قاضی صاحب اس کے لیے تیار نہیں تھے.. بلکہ قاضی صاحب نے ایثار کی راہ اپناتے ہوئے حضرت مولانا اشتیاق احمد مظفرپوری خلیفہ حضرت شیخ زکریا رح کی نشاندہی کی.چنانچہ ان بزرگوں کی طرف سے . حضرت مولانا اشتیاق صاحب کی خدمت میں مفتی نسیم احمد سابق نائب ناظم کی قیادت میں ایک وفد ارسال کیا گیا.. حضرت مولانا اشتیاق احمد نے بکمال تواضع وانکساری نائب امیر بننے سے معذرت کرلی تو مولاناسید نظام الدین صاحب نے 9ربیع الاول 1420 ھ کو قاضی مجاہد الاسلام کو باصرارنائب امیر شریعت نامزد فرمایا…. پھر حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب کی وفات کے بعد 3 اپریل 2005 ء میں مجلس شوریٰ میں حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کو نائب امیر شریعت نامزد فرمایا… مولانا سید نظام الدین رح کی وفات کے بعد اتفاق رائے سے مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب ساتویں امیر شریعت منتخب ہوئے ۔آپ کا انتخاب19/ نومبر2015ء کو ارریہ کے ایک عظیم الشان اجلاس میں کیا گیا۔ حضرت کے عہد میں امارت شرعیہ نے کئی عظیم کارنامے انجام دیے. اور کئی جہات سے بے مثال ترقی کی .. جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے.. مورخہ 3 اپریل 2021 ء کو آپ کی وفات حسرت آیات سے یہ عہدہ خالی ہوگیا. آپ پانچ سال چار مہینہ امیر شریعت رہے. حضرت کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے؛ وہ پوری امت بالخصوص امارت شرعیہ کے لیے عظیم خسارہ ہے… اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ وہ اس ادارے کی ضرور حفاظت کرے گا اور” مردے از غیب بیرون آید "کے مطابق ایثار وقربانی اور استغناء کی عظیم روایات کے مطابق. ان شاء اللہ امارت شرعیہ کے آٹھویں امیر شریعت منتخب ہوں گے.. اور ان کی سربراہی میں نہ صرف یہ ہے کہ امارت شرعیہ اپنی عظمتوں کو برقرار رکھے گی بلکہ اس میں مزید فروغ ہوگا.. وما ذلک علی اللہ بعزیز.
khalidnimvi@gmail.com
9905387547
صدر جمعیت علماء بیگوسرائے بہار
رکن انٹر نیشنل یونین فار مسلم اسکالر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close