زبان و ادب

انور آفاقی“کی لمسوں کی خوشبو پر ایک نظر

اسلم آزاد شمسی ؔ

دور جدید کے اردو ادب میں یا شاعری کی دنیا میں ایک نمایا اور ممتاز نام انور آفاقی کا ہے، زیر تبصرہ کتاب ”لمسوں کی خوشبو“ انور آفاقی صاحب کا پر خلوص اور محبتوں سے بھرا ادبی تحفہ ہے.کتاب کی ابتداء ونے کپور غافل، ڈاکٹر بختیار نواز اور جاوید انور کی تحریر وں سے ہوتی ہے جنکی تحریر مطالعہ سے قبل مصنف اور کتاب کے بارے میں کافی معلومات مہیا کراتی ہے اور قارئین کو مطالعہ کرنے پر مجبور کرتی ہے اس کے بعد نعت رسول سے شعری حصے کا آغاز ہوتا ہے۔
محمد امام الہد ی المعروف بہ انور آفاقی ریاست بہار کے ان چند شعراؤں میں سے ہیں جنہوں نے ریاست بہار میں اور خصوصا دربھنگہ شہر میں ادبی مسکن قائم کرنے میں نمایا کردار ادا کیا ہے۔
”لمسوں کی خوشبو“ انور آفاقی کی شعری تخلیق کا اولین مجموعہ ہے، جسکا مطالعہ کرنے کے بعد قطعا یہ گمان نہیں ہوتا کہ یہ انکی پہلی تخلیق ہے،کتاب کے بارے میں جناب میکش امروہوی لکھتے ہیں، ”انور آ فاقی“کی شعری حس کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتاہے کہ اپنا مجموعہ کلام شائع کرنے میں انہوں نے تاخیر کردی“۔ انکی اس بات سے متفق ہوتے ہوئے میرا خیال ہے کہ جس طرح انور آفاقی ایک طویل عرصہ سے شعر وشاعری میں طبع آزمائی کر رہے ہیں انہیں اب تک کئی مجموعوں کا مالک ہونا چاہئے تھا۔
میری نظر میں انور آفاقی بنیادی طور پر اصلاح پسند شاعر ہیں لیکن گاہے بگاہے ان کے اشعار میں عشقیہ جہت بھی شامل ہے
انکی شعری تخلیقات میں غزل کو اولیت حاصل ضرور ہے لیکن انہوں نے نظم، گیت اور قطعات وغیرہ میں بھی بہترین کاوش کی ہے انکی شاعری کا اہم وصف یہ ہیکہ انہوں نے اپنی نظموں اور غزلوں میں جن موضاعات کا انتخاب کیا ہے ان موضوعات پر موصوف کا مطالعہ اور مشاہدہ عمیق ہے انکے اشعار میں غربت، بدحالی، کرب کڑھن،رنج والم،پسماندگی اور دکھ درد جیسے موضوعات نمایاں اور سرفہرست ہیں، شاعر موصوف ان موضوعات پر بیحد گرفت رکھتے ہیں اور ان سب سے آزادی اور بہتری کی امید رکھتے ہیں،انکے اشعار میں ایک یقین اور امید نظر آتی ہے جو ان موضوعات پر سبقت اور فتح کی یقین دہانی کراتی ہے۔
شاعر اپنی مٹی اور ملک سے بیحد قریب سے جڑے ہوئے ہیں اور آس پاس اس طرح کی پسماندگی انکی جذبات کو جھنجھوڑتی ہے جسکے عوض شاعر قلم کے ذریعہ سے اپنے دلی جذبات کو ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں،شاعر موصوف کا تجربہ بیحد دراز ہے مشاہد ہ عمیق ہے اور مطالعہ بھی گہرا ہے جو انکی تخلیق کو دوسروں سے منفرد کرتی ہے۔
انور آفاقی نے جدید نظم کو فروغ بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، انکی نیچرل شاعری انہیں بڑا شاعر بناتی ہے،
انکی غزلیہ شاعری میں سادگی،سلاست،گہرائی اور فکری عناصر موجود ہے، رومانیت ہے لیکن عریانیت سے پاک ہے،کرب اور کڑھن کے ساتھ ساتھ اصلاح کی امید بھی ہے،
اور جہاں شاعری کا محور اصلاح ہو وہاں اشعار میں احساسات جذبات اور فکر سے عاری نہیں ہوسکتا۔
انورآفاقی کا ایک لمبا عرصہ وطن عزیز سے دور خلیجی ممالک عرب امارات میں گذرا ہے پیشہ سے انجینئر ہونے کے باوجود بھی شعر وشاعری سے شغف رہا ادب سے محبت اور ادبی لوگوں سے تعلقات انہیں اس طرف مائل کرنے میں میل کا پتھر ثابت ہوئی۔
وہ ایک بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے نثر نگار بھی ہیں،انکی مسلسل کوشش اور محنتوں کا ثمرہ ہیکہ انکی کتاب منظر عام پر آکر داد وتحسین حاصل کرچکی ہے،عنقریب انکا افسانوی مجموعہ منظر عام پر آئیگا، ان شاء اللہ۔
اللہ کی ذات سے امید ہے کہ انکی نثری کاوش کو بھی خوب سراہا جائیگا
پیشِ خدمت ہے انور آفاقی کا چند چنندہ اور بہترین اشعار
جدید نسلوں میں انور ملیگا مشکل سے
وہ احترام جو پہلے بشر میں رہتا تھا
بڑا عظیم تھا فکر ہنر میں رہتا تھا
وہ ایک شخص جو ویران گھر میں رہتا تھا
وہ روتے چہرے کو ہنسنا سکھانے والا بھی
غموں کے گھر میں دکھوں کے نگر میں رہتا تھا
وقت کی تیز کڑی دھوپ میں کمھلایا ہوں
زندگی تب کہیں میں تجھ کو سمجھ پایا ہوں
اپنے افکار کو لفظوں کا کفن پہنا کر
ایسا لگتا ہے مرقد میں لٹا آیا ہوں
کیا کوئی سورج اتر آیا ہے میرے گاؤمیں
کھلبلی سی مچ گئی ہے پیپلوں کے چھاؤں میں
اب کہاں وہ پنگھٹیں ہیں اور کہاں وہ گو پیاں
بانسری خاموش ہے تو چپ ہے پایل پاؤں میں
گاؤں والا شہر جاکر شہری ہی کا ہوگیا
رہ اسکی دیکھتی ہے ایک بالا گاؤں میں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close