اسلامیات

اوقات مباشرت

قسط نمبر (6) (حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وصایا میں لکھا ہے کہ دو شنبہ کو جماع کرنے سے فرزند قاری پیدا ہوتا ہے۔ اور سہ شنبہ کی رات میں جماع کرنے سے سخی ، اور پنچ شنبہ کی رات میں جماع کرنے سے عالم اور متقی پیدا ہوتا ہے ۔ اور پنج شنبہ کے دن دوپہر سے پہلے جماع کرنے سے عالم اور حکیم پیدا ہوتا ہے اور شیطان اس سے بھاگتا ہے۔ اور جمعہ کے دن نماز جمعہ سے پہلے جماع کرنے سے فرزند سعید ہوتا ہے اور شہادت پر موت ہوتی ہے ۔ اور جمعہ کی رات میں صحبت کرنے سے فرزند مخلص پیدا ہوتا ہے۔
اور جب صحبت سے فارغ ہو تو عورت سے جلد جدا نہ ہو؛ بلکہ اتنی دیر توقف کرے کہ عورت بھی فارغ ہوجائے، ورنہ عورت دشمن ہوجائے گی۔
پھر جب دونوں فراغت پاچکیں، تو دونوں علاحدہ کپڑوں سے اپنے اندام کو پاک صاف کریں۔ دونوں کا ایک ہی کپڑے سے صاف کرنے میں جدائی کا خوف ہے ۔ اور وطی کے بعد مرد پیشاب ضرور کرلیں، ورنہ درد لادوا عارض ہوگا۔ اور عضو تناسل کو نیم گرم پانی سے دھونے سے بدن کو صحیح اور آفات سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اگر نیم گرم نہ ہو، تو تھوڑی دیر کے بعد سرد پانی سے دھونے میں کچھ حرج نہیں۔ ہر مہینے کی پہلی تاریخ اور پچھلی اور درمیان کی رات میں صحبت کرنا مکرو ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ ان راتوں میں شیاطین حاضر ہوکر مباشرت میں شریک ہوتے ہیں ۔ (رفاہ المسلمین)
اور مباشرت کی حالت میں زیادہ باتیں نہ کریں کہ اولاد گونگی پیدا ہوتی ہے۔
نگاہ بر عورات
حتیٰ المقدور ایک دوسرے کی شرم گاہ کو نہ دیکھیں، اگر چہ دیکھنا جائز ہے ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں
مَا رَأیْتُ مِنْہُ وَ لَا أرَیٰ مِنِّیْ
نہ میں نے حضور کی شرم گاہ دیکھی اور نہ حضور نے میری دیکھی۔
ابن ماجہ میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ
مَا رَأیْتُ فَرْجَ رَسُوْلِ الْلّٰہِ ﷺ قَطُّ۔
میں نے رسول اللہ ﷺ کی شرم گاہ کبھی نہیں دیکھی۔
اور ہدایہ میں ہے کہ بہتر یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی کسی کی شرم گاہ کو نہ دیکھے ، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: تم میں سے جوکوئی اپنی عورت کے پاس آئے، تو جہاں تک ممکن ہو پردہ ڈالے اور اونٹ کی طرح بالکل ننگا نہ ہوجائے۔
اور یہ بھی حدیث میں آتا ہے کہ یہ نسیان پیدا کرتا ہے ۔ (رد محتار)
لیکن دیکھنا جائز ہے ، چنانچہ حدیث میں ہے کہ:
اِحْفَظْ عَوْرَتَکَ الَّا مِنْ زَوْجَتِکَ۔
(ترمذی، ابن ماجہ، ابو داود)
اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرو، مگر اپنی بیوی سے ، یعنی میاں بیوی میں کوئی پردہ نہیں۔
درمختار میں ہے کہ مرد اپنی بیوی کی شرم گاہ کی طرف شہوت اور بغیر شہوت کے ساتھ دیکھ سکتا ہے ، مگر بہتر یہ ہے کہ نہ دیکھے ، اس لیے کہ نسیان پیدا کرتا ہے۔
تارتارخانیہ میں ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مرد اپنی عورت کی شرم گاہ کو شہوت برانگیختہ کرنے کے لیے ہاتھ لگائے ، یا عورت اپنے مرد کی شرم گاہ کو ہاتھ لگائے۔
اور کفایہ شعبی میں لکھا ہے کہ جس عورت کی دونوں راہیں ایک ہوجائیں، تو ان سے جماع کرنا جائز نہیں ؛ البتہ اگر خاوند کو یہ معلوم ہوجائے کہ جماع قبل( فرج) میں ہوگا تو درست ہے۔
نوعیت جماع
یوں تو فرج کے اندر ہر طرح سے جماع کرنا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
نِسَاؤُکُمْ حَرْثُ لَّکُمْ فَأتُوْا حَرْثَکُمْ أنّیٰ شِءْتُمْ
( البقرۃ، آیۃ:۲۲۳ )
تمھاری بیویاں تمھارے لیے کھیت کی مانند ہیں، پس تم اپنے کھیت میں جس طرح چاہو آؤ۔
مگر بے ضرر وہی طریقہ ہے جس کا عام رواج ہے۔ دوسرے طریقوں میں کچھ نہ کچھ ضرر ضرور ہے۔ اور مناسب یہ ہے کہ شروع رات میں جماع نہ کرے ؛ بلکہ باوضو سوئے اور اٹھ کر صحبت کرے ، اس لیے کہ باوضو سونے میں بڑی فضیلت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص باوضو سوئے اور اسی رات میں مرے تو درجہ شہادت کا پائے۔
صحبت میں اعتدال
ز اندازہ پیروں مرو پیش زن
نہ دیوانۂ خویشتن را مزن
خزانہ جلالی میں لکھا ہے کہ جماع حلال تصفیہ دل ہے ، اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے یہ کام کیا ہے اور غم اور وسوسہ کو دور کرتا ہے۔ غصہ کو ساکن کرتا ہے۔ گرمی سے پیدا ہونے والے زخموں کو مفید ہے، لیکن بدن افزودگی کو کمزور کرتا ہے۔
حالت حیض و نفاس میں صحبت
حیض ونفاس کی حالت میں عورت سے صحبت کرنا حرام ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
فَاْعْتَزِلُوْ النِّسَاءَ فِی الْمَحِیْضِ ( البقرۃ، آیۃ۲۲۲)
حیض کی حالت میں عورتوں سے دور رہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے حائضہ سے صحبت کی، یا عورت کی دبر (پاخانہ کے مقام) میں آیا، یا کسی کا ہن کے پاس آیا، تو جو کچھ محمد ﷺ پر نازل ہوا ہے ، اس نے اس کا انکار کیا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نفاس والی عورتیں چالیس دن تک انتظار کرے، مگر یہ کہ اس سے پہلے پاکی دیکھے ۔ اگر چالیس روز پہنچنے پر بھی خون بند نہ ہو، تو پھر غسل کرے اور وہ مستحاضہ کی مانند ہوگی ۔(ابن عدی و ابن عساکر)
یعنی نفاس والی عورت حالت نفاس میں نماز ، روزہ چھوڑ دے ۔شوہر اس سے ہمبستر نہ ہو۔ اگر چالیس روز کے اندر ہی خون بند ہوجائے، تو عورت غسل کرے ۔ اب اس کے لیے نماز و روزہ اور صحبت سب جائز ہے ۔ اور اگر چالیس روز گذر جانے پر بھی خون بند نہ ہو، تو وہ غسل کرے۔ اور مستحاضہ کی طرح وہ نماز و روزہ ادا کرے۔ اور مرد اس سے ہمبستر ہو۔
ولیمہ
ولیمہ کرنا سنت ہے۔آں حضرت ﷺ کے قول و فعل سے ولیمہ کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أوْلِمْ وَلَوْ بِشأۃٍ (متفق علیہ)
ولیمہ کر اگرچہ ایک بکری سے ہو۔
خود رسول اللہ ﷺ نے ولیمہ کیا۔ اور جس موقع پر جیسا میسر ہوا، اسی طرح کا ولیمہ کیا۔ حضرت زینبؓ کے ولیمہ میں لوگوں کو آسودہ کرکے گوشت روٹی کھلائی۔(بخاری)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمہ میں ستو اور کھجور کھلایا۔(احمد، ترمذی) ۔ بعض بیویوں کا ولیمہ دو مد جو سے کیا۔
عالمگیری میں ہے کہ شادی کا ولیمہ سنت ہے اور اس میں بڑا ثواب ہے۔ اور ولیمہ یہ ہے کہ جب عورت سے پہلی مرتبہ قربت حاصل کرے، تو اس کے بعد پڑوسیوں ، رشتہ داروں اور دوستوں کی دعوت کرے ۔ اور کھانا تیار کرے اور سب کو کھلائے۔
اور عین العلم میں لکھا ہے کہ آں حضرت ﷺ کے قول و فعل سے ولیمہ کرنا ثابت ہے ، چاہیے کہ نکاح کے بعد پہلے ہی دن ولیمہ کرے اور اگر دوسرے دن ہو تو وہ بھی درست ہے، لیکن تیسرے دن ریا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: اول روز کا طعام حق ہے اور دوسرے دن کا سنت اور تیسرے دن کا ریا ۔ اور جو شخص ریا کاری کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی ریاکاری کی سزا دے گا۔ (ترمذی)
اور رزین العرب نے مشکوٰۃ کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد مسنون ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نکاح کے وقت اور بعض کے نزدیک دونوں وقت مسنون ہے ۔ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ ولیمہ اس کھانے کو کہتے ہیں کہ نکاح سے پہلے یا نکاح کے بعد ادائے شکر کے طور پر تیار کیا جائے۔
لیکن ایسا ولیمہ کہ مال داروں کو دعوت دی جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے، سب سے بد ترین ولیمہ ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: بد ترین طعام وہ طعام ولیمہ ہے ، جس میں مال داروں کو دعوت دی جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے۔ اور جس نے دعوت قبول نہ کی ، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ (بخاری و مسلم)
دعوت ولیمہ
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ولیمہ کی دعوت قبول کرنا واجب ہے ۔ اور رد محتار میں ہے کہ واجب کے قریب ہے۔ اور رحمۃ الامہ میں ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک مستحب ہے ۔ اور امام مالکؒ کے نزدیک واجب ہے ۔ اور امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کا ایک قول وجوب کا ہے ۔ اور بنایہ میں ہے کہ دعوت کا قبول کرنا سنت ہے ، اگر قبول نہ کرے گا تو گناہ گار ہوگا ، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
مَنْ تَرَکَ الدَّعْوَۃَ، فَقَدْ عَصٰی الْلّٰہَ وَ رَسُوْلَہُ
(بخاری و مسلم)
جس نے دعوت قبول نہ کی، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
لیکن دعوت میں شرکت اس وقت درست ہے ، جب کہ وہ مجلس منکرات سے خالی ہو، نہ گانا باجا ہو، نہ ریڈیو، مونوگرام ہو، نہ ڈھول و تاشا ہو، نہ کوئی دوسری چیز شریعت کے خلاف وہاں ہورہی ہو۔ اگر وہاں کوئی چیز شریعت کے خلاف ہو تو ہر گز دعوت میں شریک نہ ہو۔ شرح وقایہ میں لکھا ہے کہ اگر پہلے سے یہ معلوم ہو کہ وہاں شریعت کے خلاف چیزیں جمع ہیں، تو وہاں ہرگز کھانے کے لیے نہ جائے ۔ جان بوجھ کر ایسی جگہ جانا گناہ ہے ۔ اور اگر پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں شریعت کے خلاف ہورہا ہے ، تو اگر وہ مقتدا ہے، یعنی لوگ اس کی باتوں کو سند پکڑتے ہیں اور شریعت کے بارے میں اس کی پیروی کرتے ہیں، تو اس پر لازم ہے کہ اس خلاف شرع چیز کو اپنے ہاتھ سے دور کرے، یا زبان سے منع کرکے دور کرے ۔ پھر وہاں بیٹھے۔ لیکن اگر وہ مقتدا نہیں ہے، لوگ اس کی باتوں کو سند نہیں پکڑتے ہیں اور اس کے روکنے پر وہ قدرت بھی نہیں رکھتا ہے، تو دل سے برا جانے اور ناچاری کو مجبوراً کھالے۔ عامی کو بدعت کی وجہ سے سنت کا چھوڑنا اولیٰ نہیں۔
لیکن اس عامی پر واجب ہے کہ ایسے مقام پر حاضر ہونے کو دل سے برا جانے۔ اگر خوشی سے اس مجلس میں بیٹھے گا اور دل سے اس فعل بد کو برا نہ سمجھے گا، تو اس کے ایمان برباد ہونے کا ڈر ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ رَأیٰ مِنْکُمْ مُنْکَرَاً فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ، فَانْ لَمْ یَسْتَطِعْ، فَبِلِسَانِہِ، فَانْ لَمْ یَسْتَطِعْ،فَبِقَلْبِہِ، ذالِکَ أضْعَفُ الْایْمَانِ۔
(رواہ مسلم)
تم سے جو شخص برائی کو دیکھے تو اس کو ہاتھ سے مٹانا چاہیے ۔ اگر کوئی اس کی طاقت نہ رکھتا ہو،تو زبان سے مٹانا چاہیے ۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو، تو دل سے برا سمجھنا چاہیے۔ اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔
ناجائز دعوت
کچھ لوگ ایسے ہیں ، جن کی دعوت قبول کرنا درست نہیں، جیسے فاسق کی دعوت، شہرت چاہنے والے کی دعوت، مال کا اکثر یا کل حصہ حرام رکھنے والے کی دعوت۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فاسقوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور فرمایا : ایسے دو آدمیوں کی دعوت قبول نہ کی جائے۔ اور نہ ان کا کھانا کھایا جائے جو فخر ونمود کے لیے دعوت کرتے ہیں۔ (بیہقی)
عالمگیری میں ہے کہ جس کا اکثر مال حرام ہے، تو اس کی دعوت قبول نہ کرے، جب تک کہ وہ یہ نہ بتادے کہ میں یہ دعوت اپنے پاکیزہ مال سے کرتا ہوں۔ اور اگر اس کا اکثر مال حلال ہے، تو اس کی دعوت قبول کرے۔ البتہ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ یہ دعوت اپنے حرام مال سے کر رہا ہے، تو اس وقت اس کی دعوت قبول نہ کرے۔
اور ملتقط میں ہے کہ جس کا اکثر مال حلال ہو ، اس کا ہدیہ قبول کرنے اور کھانے میں کچھ حرج نہیں ، اس لیے کہ لوگوں کا مال تھوڑے حرام سے خالی نہیں رہتا ہے ، اس لیے اعتبار اکثر کا ہے۔لیکن خواہ مخواہ لوگوں پر شبہ کرنا اور پوچھ گچھ کرنا درست نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی جب کسی مسلمان بھائی کے پاس جائے تو اس کا کھانا کھائے اور اس سے نہ پوچھے (حلال کا ہے یا حرام کا ) اور اس کے پینے کی چیز پیے اور نہ پوچھے (کیسا ہے)۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
اس لیے کہ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان حلال ہی کھلاتا پلاتا ہے، البتہ اگر ظاہر ہوجائے کہ اس کے پاس حرام مال ہے اور اسی سے کھلاتا ہے، تو پھر ہرگز نہ کھائے، لیکن اگر وہ کہے کہ میں نے دعوت کے لیے یہ خاص طور پر حلال طریقے سے جمع کیا ہے اور تمھارا گمان غالب ہے کہ وہ اس بات میں سچا ہے تو اس کی دعوت قبول کرو۔ ورنہ رد کردو۔ لیکن اس شخص پر تعجب ہے جسے دعوت نہ دی جائے، مگر زبردستی دسترخوان پر جا بیٹھے۔ ایسے کے بارے میں حضور پر نور ﷺ نے فرمایا: جو شخص بغیر دعوت کے کھانے کی مجلس میں گھستے ہیں ، وہ چور بن کر گھستے ہیں اور لٹیرے بن کر نکلتے ہیں۔ (ابو داود)
مرد کا حق عورت پر
اللہ تعالیٰ نے کچھ مردوں کا حق عورتوں پر رکھا ہے ۔ اور کچھ عورتوں کا حق مردوں پر رکھا ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ ، وَالْلّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۔(البقرۃ، آیۃ:۲۲۸ )
جس طرح مردوں کا حق عورتوں پر ہے اسی طرح عورتوں کا حق مردوں پر ہے، شرعی قاعدے کے موافق۔ اور مردوں کا عورتوں کے اوپر درجہ ہے ۔ اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کا حق ایک دوسرے کے اوپر ہے؛ مگر مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے، اس لیے دونوں پر لازم ہے کہ باہم حقوق پہچانیں اور اس کے ادا کرنے کی کوشش فرمائیں۔ ان حقوق کے ادا کرنے ہی سے میاں بیوی کے تعلقات مضبوط رہ سکتے ہیں ۔ اور دونوں کی زندگی پر لطف گذر سکتی ہے ، اس لیے میں یہاں پر اختصار کے ساتھ دونوں کے حقوق بیان کرتا ہوں ۔ اول مردوں کے حقوق کا ذکر کرتا ہوں۔
مرد کا حق عورت پر یہ ہے کہ عورت اپنے خاوند کی خدمت کرے۔ ان کا ادب کرے ۔ نام لے کر نہ پکارے۔ ان کو تکلیف نہ دے۔ ان کی باتوں پر بیجا اعتراض نہ کرے۔کوئی امر خلاف شرع دیکھے، تو میاں کو ادب سے منع کرے۔ اس کے رو برو زبان درازی نہ کرے۔ اس کے رشتہ داروں سے تکرار نہ کرے۔ افلاس یا بد صورتی کی وجہ سے خاوند کو حقیر نہ سمجھے۔ ان کی اطاعت اور فرماں برداری کرے۔ شوہر کا بڑا درجہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَوْ کُنْتُ اٰمُرُ أحَدَاً أنْ یَّسْجُدَ لِأحَدٍ، لَأمَرْتُ الْمَرْأۃَ أنْ یَّسَجُدَ لِزَوْجِھَا (ترمذی)
اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا، تو میں البتہ عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
لیکن چوں کہ شریعت میں خدا کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے ، اس لیے سجدہ کا حکم نہیں دیا۔ اگر سجدہ کرنا جائز ہوتا، تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ، کیوں کہ خاوند کا بڑا مرتبہ ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ اگر خاوند کا تمام بدن زخمی ہواور عورت اپنے شوہر کے زخمی جسم کو زبان سے چاٹے، تب بھی اس کا حق ادا نہ ہو۔ (احمد) مطلب یہ ہے کہ شوہر کی ایسی خدمت کرنا، جس سے طبیعت گھن کرے، جیسے بیماری میں پیشاب پاخانہ کرانا، طہارت کرانا، زخم کو دھونا اور صاف کرنا وغیرہ، ایسی خدمت کے اداکرنے سے بھی عورت اپنے شوہر کے حقوق سے سبکدوش نہیں ہوسکتی ہے ، لہذا عورت کو چاہیے کہ ہر حال میں اپنے میاں کی فرماں برداری کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أیَّمَا اِمْرَأۃٍ مَاتَتْ وَ زَوْجُھَا عَنْھَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّۃَ
(ترمذی)
جو عورت ایسی حالت میں مری کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہے، تو جنت میں داخل ہوگی۔
اور آپ ﷺنے فرمایا:
اَلْمَرْأۃُ ا8ذَا صَلَّتْ خَمْسَھَا، وَصَامَتْ شَھْرَھَا، وَأحْسَنَتْ فَرْجَھَا، وَ أطَاعَتْ بَعْلَھَا، فَتَدْخُلُ مِنْ أیِّ أبْوَابِ الْجَنَّۃِ شَاءَتْ (رواہ ابو نعیم فی الحلیۃ)
جس عورت نے پانچوں وقت کی نماز پڑھی، رمضان کا روزہ رکھا، شرم گاہ کی حفاظت کی، اور اپنے شوہر کی فرماں برداری کی، تو جنت کے جس دروازے سے چاہے گی داخل ہوگی۔
یعنی عبادت گذار ، اطاعت شعار عورتوں کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھلے رہیں گے، جس سے چاہے گی جنت میں داخل ہوگی۔ لیکن اگر شوہر کی اطاعت میں کوتاہی کی، تو اس کے لیے خیر نہیں۔ حدیث میں ہے کہ جو عورت بھی دنیا میں اپنے خاوند کو تکلیف دیتی ہے ، تو اس کی جنت کی بیویاں یعنی حوریں کہتی ہیں : خدا تجھے ہلاک کرے ، وہ تو تیرے پاس چند روز کا مہمان ہے ۔ بہت جلد وہ تجھ سے جدا ہوکر ہمارے پاس آنے والا ہے۔ (ترمذی ، ابن ماجہ)
اور بھی آپ نے فرمایا کہ: تین شخصوں کی نماز قبول نہیں ہوتی ہے اور نہ اس کی نیکیاں اوپر چڑھتی ہیں :
(۱) بھاگا ہوا غلام، یہاں تک کہ اپنے مالک کے پاس آجائے۔ اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیدے۔
(۲) عورت جس سے اس کا شوہر ناراض ہے، یہاں تک کہ وہ اس سے راضی ہوجائے۔
(۳) نشہ والا یہاں تک کہ اس کا نشہ ٹوٹ جائے۔ (بیہقی)
مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر ناراض ہے، تو نہ عورت کی نماز قبول ہے، نہ کوئی دوسری نیکی ، یہاں تک کہ اپنے شوہر کو راضی کرلے، اس لیے عورت پر دنیا میں سب سے زیادہ حق شوہر کا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أعْظَمُ النَّاسِ حَقَّاً عَلیٰ المَرْأۃِ زَوجُھَا، و أعْظَمُ النَّاسِ حَقَّاً عَلَیٰ الرَّجُلِ أمُّہُ۔ (رواہ الحاکم و صححہ)
سب سے بڑا حق عورت پر اس کے شوہر کا ہے ۔ اور سب سے بڑا حق مرد پر اس کی ماں کا ہے۔
اسی لیے حضور پر نور ﷺ نے فرمایا کہ: اگر مرد عورت کو حکم کرے کہ زرد پہاڑ کے پتھر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ کے پتھر سفید پہاڑ پر لے جائے ،تو عورت کو مناسب ہے کہ ایسا کرے۔ (احمد)
مطلب یہ ہے کہ مشکل کام پر بھی نافرمانی کی جرات نہ کرے۔ اور کام کے لیے ہر حال میں تیا ررہے ، چاہے کام بن پڑے یا نہ بن پڑے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ :جب مرد اپنی عورت کو کسی حاجت کے لیے بلائے ، تو فورا حاضر ہوجائے، گرچہ تندور پر ہو۔ (ترمذی)
لیکن گناہ کی باتوں میں فرماں برداری درست نہیں۔ حدیث میں ہے کہ
لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ
کسی کی ایسی طاعت جس سے اللہ کی نافرمانی ہو، درست نہیں ہے۔
یعنی گناہ کی باتوں میں کسی کی اطاعت جائز نہیں: نہ شوہر کی، نہ پیر و استاذ کی۔ باقی دوسری باتوں میں اطاعت سے کوتاہی نہ کرے۔
اگر شوہر ہمبستر ہونا چاہے اور کوئی شرعی عذر نہ ہو تو ہرگز منع نہ کرے۔ حدیث میں ہے کہ:
اذَا دَعَا الرَّجُلُ اِمْرَأتَہُ الَیٰ فِرَاشِہِ، فَأبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ ، لَعَنَتْھَا الْمَلَاءِکَۃُ حَتّیٰ تُصْبِحَ۔ (متفق علیہ)
جب شوہر اپنی عورت کو بستر پر بلائے اور عورت انکار کردے۔ پھر غصہ میں خاوند رات گذارے، تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت کرتے ہیں۔
لیکن اگر صحبت عورت کو مضر ہو بیماری وغیرہ کی وجہ سے، تو پھر مرد کے لیے صحبت کرنا جائز نہیں۔ (تحفۃ الزوجین)
بعضوں نے لکھا ہے کہ میاں کے بیوی پر دس حقوق ہیں:
(۱) پہلا یہ کہ جس وقت خاوند ہمبستر ہونا چاہے، جس حال میں ہو منع نہ کرے؛ مگر حیض و نفاس میں، یعنی عذر شرعی اور طبعی کے علاوہ مانع نہ ہو۔ بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، ایسا کوئی مرد نہیں، جو اپنی عورت کو بچھونے پر بلائے ، پھر وہ انکار کرے، مگر وہ ذات کہ آسمان پر ہے، اس عورت سے ناراض ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ خاوند اس سے راضی ہوجائے۔
(۲) دوسرا یہ کہ خاوند کے گھر سے کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر نہ دے۔ قرآن مجید میں ہے کہ:
فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ الْلّٰہُ
(النساء، آیۃ:۳۴)
سو جو عورتیں نیک ہیں، اطاعت کرتی ہیں۔ اللہ کی حفاظت میں شوہر کے پیچھے عزت و آبرو اور مال کی حفاظت کرنے والی ہیں۔
یعنی نیک عورتیں سامنے اطاعت اور پیٹھ پیچھے مال کی حفاظت کرتی ہیں۔
(۳) تیسرا یہ کہ نفلی روزہ اس کے حکم کے بغیر نہ رکھے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے۔ (ابو داود، ابن ماجہ)
(۴) چوتھا یہ کہ اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ جائے۔
(۵) پانچواں یہ کہ خاوند کا عیب کسی کے آگے بیان نہ کرے۔
(۶) چھٹا یہ کہ حاجت سے زیادہ اس سے کوئی چیز نہ مانگے۔
(۷) ساتواں یہ کہ اس کی خوشی پر خوش اور اس کے رنج پر غمگین ہوجائے۔
(۸) اٹھواں یہ کہ خاوند کو کسی بات پر غیرت نہ دلائے۔
(۹) نواں یہ کہ ہمیشہ اپنے کو پاکیزہ رکھے اور جو کام خاوند کو ناپسند ہو، نہ کرے۔
(۱۰) دسواں یہ کہ اولاد کو بد دعا نہ دے۔ (رفاہ المسلمین)
اور بعضوں نے اس سے بھی زیادہ بیان کیے ہیں ۔ چنانچہ انیس الواعظین میں مرد کے اکیس حق عورت پر اور اسی قدر عورت کے حقوق مردوں پر لکھے ہیں۔ مردوں کے ان اکیس حقوق میں سے دس تو وہ ہیں، جن کا اوپر تذکرہ ہوا۔ اور باقی گیارہ یہ ہیں:
(۱۱) اگر خاوند کسی سے سوال کرے، تو عورت منع کرے کہ سوال کرنے میں بے عزتی ہے ۔
(۱۲) غصہ کے وقت عورت سخت جواب نہ دے۔
(۱۳) فقرو فاقہ کی حالت میں اس کی حقارت نہ کرے؛ بلکہ تھوڑے پر قناعت کرے اور اس کا شکر ادا کرے۔
(۱۴) خاوند بیمار ہو تو اس کی خدمت گذاری میں کوتاہی نہ کرے۔
(۱۵) اگر خاوند کمزوری کی وجہ سے محنت و مزدوری کے لائق نہ رہے، تو خود محنت مزدوری کرے، اور اس کے واسطے کھانا حاضر کرے۔
(۱۶) اس کے واسطے ہمیشہ خیرو برکت کی دعا کرتی رہے۔
(۱۷) ذکر الٰہی میں مشغول رہے۔
(۱۸) دہلیز کے پاس نہ بیٹھے۔
(۱۹) بالا خانہ پر چڑھ کر ادھر ادھر نہ دیکھے اور نہ باہر جھانکے۔
(۲۰) شوہر کے مرنے کے بعد چار مہینے دس روز سوگ کرے یعنی بناو سنگار چھوڑ دے۔مہندی نہ لگائے۔ سرخ چوڑی نہ پہنے۔ زعفرانی رنگ کا کپڑا استعمال نہ کرے۔ سر میں تیل اور آنکھوں میں کاجل نہ لگائے۔ خاوند کے گھر سے باہر نہ جائے۔صبرو سکون سے وہیں رہے۔ چلاکر رونا، چھاتی کوٹنا، کپڑے کو پھاڑنا حرام ہے، ان سے پرہیز کرے۔
(۲۱) جب چار ماہ دس روز پورے ہوجائیں، تو سوگ کو ختم کرے۔ رنگین کپڑے اور چوڑیاں وغیرہ جو سوگ میں حرام تھیں، وہ اب حلال ہوگئیں۔ اب اپنے استعمال میں لائے۔
ان حقوق کو ادا کرنے میں عورتیں کوتاہی کریں، تو اول مرد عورت کو سمجھائے کہ اپنی ناشائستہ حرکت سے باز آجاؤ۔ اگر وہ مان جائے تو بہت بہتر۔ ورنہ اس سے الگ سوئے ۔ ناراضگی کا اظہار کرے ۔اور اس پر متنبہ ہوکر مان جائے تو بہت خوب؛ ورنہ پھر اس کو مارے، دھمکائے اور اس طرح سے اس کو راہ راست پر لائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَاللَّاتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوھُنَّ ، فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلاً،إِنَّ الْلّٰہَ کَانَ عَلِیَّاً کَبِیْرَاً۔ (النساء آیۃ: ۳۴)
اور ایسی عورتیں جن کی نافرمانی کا تم کو ڈر ہے ، پس انھیں سمجھاؤ۔ اور ان سے الگ سوؤ۔ اور انھیں مارو۔ پس اگر وہ تمھاری اطاعت کرنے لگیں، تو (انھیں ایذا دینے کے لیے ) پھر کوئی راستہ مت ڈھنڈو۔ بے شک اللہ بہت بلند عظیم مرتبہ والا ہے ۔
فتاویٰ قاضی خاں میں ہے کہ مرد اپنی عورت کو چار باتوں کے لیے مار سکتا ہے:
(۱) شوہر عورت سے زینت چاہتا ہے اور وہ زینت نہیں کرتی ہے۔
(۲) عورت حیض و نفاس سے پاک و صاف ہے اور مرد ہمبستر ہونا چاہتا ہے اور عورت منع کرتی ہے۔
(۳) عورت نماز نہیں پڑھتی ہے۔
(۴) عورت بے اجازت گھر سے باہر نکلتی ہے۔
اور خازن میں ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مارنا مباح ہے اور نہ مارنا افضل ہے۔
اگر سمجھانے بجھانے ، ڈرانے دھمکانے اور مارنے پیٹنے پر بھی راہ پر نہیں آتی اور نافرمانی کی راہ چلتی ہے، تو طرفین سے پنچ مقرر کرو، تاکہ وہ دونوں کے حق میں بہتر فیصلہ کرے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے کہ:
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوا حَکَمَاً مِّنْ أھْلِہِ وحَکَمَاً مِّنْ أھْلِھَا انْ یُّرِیْدَا إِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ الْلّٰہُ بَیْنَھُمَا انَّ الْلّٰہَ کَانَ عَلِیْمَاً خَبِیْرَاً( النساء، آیۃ ۳۵)
اگر زن و شوہر کے درمیان کشا کشی کا اندیشہ ہو، تو ایک آدمی خاوند کے اہل سے اور ایک آدمی عورت کے خاند ان سے بھیجو۔ اگر دونوں اصلاح کا ارادہ رکھتے ہیں، تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ جاننے والا خبر دار ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جب مرد و عورت میں جھگڑا ہو، تو اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے جانبین سے پنچ مقرر ہو۔ اگر نیت اصلاح کی ہے ، تو اللہ اصلاح کرے گا۔ اور آپس کے اختلاف کو دور کرے گا۔
اگر نیت اصلاح کی نہیں ہے، توپھر تفریق ہوگی۔ بہرحال جو کچھ ہوگا ٹھنڈے دل سے ہوگا۔ اور یہ دونوں کے حق میں بہتر ہوگا۔ مگر آج اس پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ جہاں عورت نے مرضی کے خلاف کیا ، شوہر کا مزاج رنگین ہوا اور طلاق دی۔ اور ایک دم ایک سے تین طلاق پوری کردی۔ جب غصہ فرو ہوا اور نتیجہ پر غور کیا، خون کے آنسو رونے لگے۔ کسی نے مغلظہ کے بعد بھی عورت کو نہ چھوڑا اور زن و شوہر کا تعلق باقی رکھا اور ساری عمر حرام کاری میں مبتلا رہا اور اولاد حرام ہوتی رہی۔
یہ ساری خرابی اسی لیے آئی کہ خدا کے بتائے ہوئے طریقہ پر اختلاف کو دور نہ کیااور نفسانیت میں آکر فورا طلاق دے بیٹھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مرد بنایا تھا، عورتوں پر حاکم، تحمل سے کام لینا چاہیے۔ شیخ سعدی نے فرمایا ہے : ؂
سر پُر غرور از تحمل تہی
حرامش بود تاج شاہنشہی
جو سر غرور سے بھرا ہوا اور برداشت سے خالی ہو، اس پر بادشاہی تاج حرام ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورتوں کے بارے میں تم میری بہتر وصیت قبول کرو۔ عورتیں ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہیں اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھی اوپر کی پسلی ہے( اس لیے خلقۃ عورتیں ٹیڑھے مزاج کی ہوتی ہیں )۔ اگر تم اس کو سیدھی کروگے، تو وہ ٹوٹ جائے گی ( یعنی نوبت طلاق کو پہنچے گی) اور اگر تم نے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا، تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی ، پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت قبول کرو۔ (بخاری و مسلم)
یعنی اس کے مزاج کا خیال رکھتے ہوئے اس کو سیدھی کرنے کی کوشش کرو۔ اس کو سمجھاؤ بجھاؤ، ڈانٹو ڈپٹو، ہلکا مار بھی دو۔ اور اس کے ساتھ اس سے فائدہ بھی اٹھاؤ۔ اچھے سلوک سے اپنی طرف مائل کرو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہے۔ (ترمذی)
(طلاق کا بیان)
بہر حال طلاق ایک آخری چیز ہے۔ جب کسی طرح سے بن نہ پڑے، تو اس کو پاکی کے اندر صرف ایک طلاق دے کر چھوڑ دو۔ یہ سب سے بہتر طلا ق ہے۔ ممکن ہے عورت اپنی ناشائستہ حرکت پر نادم ہو اور اپنے گناہوں پر معافی مانگے اور فرماں برداری کا وعدہ کرے، تو ایک طلاق کی صورت میں جب کہ رجعی ہو، تو اس سے رجعت کرسکتا ہے ۔ اور پھر اس کو بیوی بناکر بغیر نکاح کے رکھ سکتا ہے ، یعنی عدت کے اندر اور عدت کے بعد اس سے نکاح کرسکتا ہے ۔ اور اگر اس طلاق پر بھی نادم نہ ہو، اور اس کا چھوڑنا ہی ضروری ہو تو اس کو چھوڑ دے اور عدت پوری ہونے کے بعد اپنے گھر سے باہر کردے ۔ اب وہ بیوی نہیں رہی۔ یہ فائدے ایک یا دو طلاق رجعی میں حاصل ہوتے ہیں ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ:
اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ، فَامْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أوْ تَسْرِیْحٌ بِاحْسَانٍ (البقرۃ، آیۃ:۲۲۹)
(وہ طلاق جس میں رجوع کرنا درست ہے) وہ دو طلاق ہیں (صریح)۔ پھر قاعدے کے موافق روک رکھنا ہے، یا خوش عنوانی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔
لیکن اگر ایک ہی مرتبہ میں تین طلاقیں دیدی جائیں ،تو پھر رجعت کی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں گناہ بھی ہے۔ چنانچہ حضرت عبدا للہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے پوچھا :یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کی کیا رائے ہے اگر میں انھیں تین طلاق دیدوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا :
اذَاً قَدْ عَصَیْتَ رَبَّکَ وَ بَانَتْ مِنْکَ اِمْرَأتُکَ
(دار قطنی ابن ابی شیبہ)
اس وقت تو اپنے پروردگار کا نافرمان ہوگا اور تیری عورت تجھ سے جدا ہوجائے گی۔
ایک روایت میں ہے کہ کسی شخص نے رسول اللہ ﷺ کو خبر دی کہ ایک شخص نے اکٹھے اپنی عورت کو تین طلاقیں دیں، تو آپ ﷺ غصہ میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا : کیا وہ اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کرتا ہے ، حالاں کہ میں ابھی تمھارے درمیان میں ہوں ۔ اس پر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا میں اسے قتل نہ کردوں؟ (نسائی)
معلوم ہوا کہ تین طلاق اکٹھے دینا قبیح ہے ۔ تین طلاق واقع تو ہوجاتی ہیں ، لیکن ساتھ ہی وہ گناہ گار بھی ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے درجۂ مجبوری میں طلاق کو جائز رکھا ہے۔ حدیث میں ہے کہ :
أبْغَضُ الْحَلَالِ الَیٰ الْلّٰہِ الطَّلَاقُ
( رواہ ابو داود، وابن ماجہ و صححہ الحاکم)
اللہ کے نزدیک طلاق حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند ہے ۔
مطلب یہ ہے کہ ضرورت کے وقت تک طلا ق جائز ہے ، مگر بلا حاجت بہت بری بات ہے، اس لیے کہ نکاح باہم الفت اور محبت کے لیے ہوتا ہے ۔ اور طلاق سے محبت ٹوٹتی ہے اور خدا کی نعمت کی ناشکری ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نکاح کرو، طلاق نہ دو؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بہت مزہ چکھنے والے مرد اور بہت زیادہ مزہ چکھنے والی عورت کو دوست نہیں رکھتا۔
یعنی خواہ مخواہ بیوی کو چھوڑ کر بیوی کرنے والا اور شوہر کو چھوڑ کر شوہر کرنے والی کو خدا ناپسند کرتا ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ عورتوں کو طلاق نہ دی جائے ، مگر بدچلنی کی وجہ سے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بہت مزہ چکھنے والے مرد اور بہت مزہ چکھنے والی عورت کو دوست نہیں رکھتا۔
معلوم ہوا کہ بد چلنی پر طلاق دینا درست ہے ، ویسے طلاق دینا ٹھیک نہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ نکاح کرو، طلاق نہ دو، اس لیے کہ طلاق دینے سے عرش ہلتا ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ شیطان اپنے عرش کو پانی پر رکھتا ہے ۔ پھر اپنے لشکروں کو (بہکانے کے لیے) بھیجتا ہے۔ اور جو جتنا بڑا فتنہ برپا کرتا ہے ، وہ اتنا ہی شیطان کے قریب ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک کہتا ہے کہ ہم نے یہ کیا، اور یہ کیا ، تو شیطان کہتا ہے کہ تو نے کچھ نہیں کیا۔ اور ان میں سے ایک آکرکہتا ہے کہ میں نے فلاں کو پکڑا اور اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال کر ہی چھوڑا، تو اس کو اپنے گلے سے لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں تو نے بہت بڑا کام کیا ۔
واقعی بہت بڑا کام کیا کہ جس متاع سے ایمان کی حفاظت ہوتی تھی، اس کو لوٹ لیا ۔ حدیث میں نکاح کو نصف ایمان کہا ہے ۔ اس طرح اس نے آدھا ایمان برباد کردیا ۔ ائے وائے انسان کے حال پر !کہ طلاق دے کر آدھا ایمان برباد کرلیتا ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ:
أیَّمَا امْرَأۃٍ سَئلَتْ زَوْجَھَا طَلَاقَاً فِیْ غَیْرِ مَا بَاسَ، فَحَرَامٌ عَلَیْھَا رَاءِحَۃُ الجَنَّۃِ ۔
(رواہ احمد والترمذی و ابو داود وابن ماجہ والدارمی)
جو عورت بغیر سخت مجبوری کے طلا ق طلب کرے ، تو جنت کی خوشبو اس پر حرام ہے۔
اس لیے نہ مرد کے لیے روا ہے کہ وہ اپنی عورت کو بغیر مجبوری طلاق دے ۔ اور نہ عورت کے لیے جائز ہے کہ بغیر سخت مجبوری کے وہ طلاق لے اور خلع کرائے؛ بلک ناگوار باتوں کو برداشت کرے اور اچھی باتوں سے فائدہ اٹھائے ۔ ہر ایک کے اندر کچھ نہ کچھ خوبیاں ہیں اور کچھ نہ کچھ برائیاں ، جہاں پھول ہے ، وہاں کانٹا بھی ہے ، جہاں دولت ہے، وہاں اژدہا بھی ہے۔ ؂
خیال اس کا رہے دیکھو گلے جلدی سے مل جانا
اگر آپس میں ہوجائے کبھی تکرار تھوڑی سی
عورت کا حق مرد پر
عورت کا حق ہے کہ جب وہ شوہر کے گھر رہنے لگے، تو شوہر اس کو کھانا، کپڑا، رہنے کے لیے ایک کمرہ دے۔ اس کو دین اسلام کی باتیں سکھائے ۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا عورت کا کیا حق ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :جب تم کھاؤ تو انھیں بھی کھلاؤ ،اور جب پہنو تو انھیں بھی پہناؤ۔ منہ پر نہ مارو۔ انھیں رسوا نہ کرو۔ گھر کے اندر ان سے علاحدگی اختیار نہ کرو۔ (احمد ، ابو داود، ابن ماجہ)
عالمگیری کے اندر ہے کہ عورت کا نفقہ واجب ہے ، خواہ مسلمہ ہو یا ذمیہ، غریب ہو یا امیر، اس کے ساتھ دخول کیا ہو ، یا نہیں، چھوٹی ہو یا بڑی۔
اور تحفۃ الزوجین میں ہے کہ جب کہ عورت قابل جماع ہو اور وہ اپنے کو خاوند کے حوالہ کردے۔ اگرچہ شوہر چھوٹا ناقابل جماع ہو، تو اس عورت کا کپڑا اور رہنے کے لیے ایک مکان علاحدہ جس میں کوئی دوسرا نہ رہتا ہے ، دینا واجب ہے۔اور کھانا ،کپڑا دونوں کے حال کے مناسب ہوگا۔ اور اگر خاوند مالدار ہو، تو ایک خادم بھی دینا ہوگا ۔ لیکن اگر عورت نافرمان ہے، یا صغیرہ ناقابل جماع ، تو اس صورت میں عورت کا نان ونفقہ واجب نہیں۔
اور رفاہ المسلمین میں ہے کہ غسل کے سامان جیسے کھلی، تیل پانی وغیرہ ہر ہفتہ میں فراغت کے ساتھ مہیا کرے ۔ مقدور ہو، تو سونا چاندی کے زیور بھی دے۔ اگر اس کو زیاد ہ جہیز نہ ملا ہے، تو دوسری عورتوں کا جہیز بیان کرکے شرمندہ نہ کرے۔اس کے ماں باپ ، بھائی بہن کے ساتھ احسان و سلوک کرے ۔ ان کو گالی نہ دے ، ورنہ فرشتہ اس پر لعنت کریں گے۔ جب سفر سے واپس آئے، تو اپنی عورت کے لیے کچھ تحفے تحائف بھی ساتھ لائے اور تلطف اور مہربانی سے دل خوش رکھے۔
مولانا تھانوی ؒ امداد الفتاویٰ جلد دوم میں فرماتے ہیں کہ
زوج پر زوجہ کے یہ حقوق ہیں:(۱) حسن خلق۔ (۲) برداشت کرنا ایذا کا مگر باعتدال۔ (۳)اعتدال کرنا غیرت میں، یعنی نہ بدگمانی کرے نہ بالکل غافل ہوجائے۔ (۴) اعتدال خرچ میں، یعنی نہ تنگی کرے نہ فضول خرچی کی اجازت دے۔ (۵) احکام حیض وغیرہ کے سیکھ کر اس کو سکھانا اور نماز اور دین کی تاکید رکھنا اور بدعات اور منہیات سے منع کرنا۔ (۶) اگر کئی عورتیں ہوں ، ان کو برابر رکھنا حقوق میں۔ (۷) بقدر حاجت اس سے وطی کرنا۔ (۸) بدون اجازت عزل نہ کرنا۔ (۹) بدون ضرورت طلاق نہ دینا۔ (۱۰) بقدر کفایت رہنے کو گھر دینا۔ (۱۱) اس کے محارم اقارب سے اس کو ملنے دینا۔ (۱۲) اس کا راز ظاہر نہ کرنا جماع وغیرہ کا ۔ (۱۳) حد سے زیادہ نہ مارنا اور مثل ان کے۔
دو بیویوں کا حق
اگر دو یا دو سے زیادہ بیویاں ہوں، تو ان بیویوں کے درمیان عدل (برابری) کرنا واجب ہے۔ہر ایک کو علاحدہ مکان میں رکھے۔ اور ہر ایک کے پاس رات قیام میں مساوات برتے۔ اگر کسی ایک کے پاس ایک رات گذارے، تو دوسری کے پاس بھی ایک رات گذارے۔ اور اگر ایک کے پاس دو رات گذارے، یا دو سے زیادہ، تو دوسری کے پاس بھی دو رات، یا دو سے زیادہ رات گذارے۔ دونوں کو ایک کوٹھری میں رکھنا، یا شب باشی میں کم و بیش کرنا، یا کھانے ، کپڑے میں کم و بیش کرنا جائز نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
اذَا کَانَتْ عِندَ الرَّجُلِ اِمَرْأتَانِ ، فَلَمْ یَعْدِلْ بَیْنَھُمَا جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ شِقُّہُ سَاقِطٌ۔
(رواہ الترمذی و ابو داود و نسائی و ابن ماجہ)
جب کسی مرد کے پاس دو بیویاں ہوں ، پھر ان دونوں کے درمیان عدل نہ کرے، تو قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا آدھا بدن گرا ہوا ہوگا۔
اور در مختار میں ہے کہ بیویوں کے پاس رات کے رہنے میں اور کھلانے، پلانے، پہنانے اور صحبت میں برابری کرنا واجب ہے۔ محبت اور جماع کرنے میں واجب نہیں ؛ بلکہ مستحب ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ
وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْا أنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْ کُلَّ الْمَیْلِ(النساء، آیۃ: ۱۲۹)
عورتوں کے درمیان تم عدل کرنے کی ہرگز طاقت نہیں رکھتے ہو اگر چہ تم اس کی خواہش کرو، پس کسی ایک طرف بالکل نہ جھک پڑو۔
یعنی محبت، بے اختیاری چیز ہے۔ اس کے اندر تو عدل نہیں ہوسکتا، لیکن اس محبت کی وجہ سے تم دوسری چیزوں میں بھی عدل کرنا چھوڑ دو اور کسی ایک کی ہورہو، ایسا بھی نہ کرو؛ بلکہ دوسرے معاملات میں انصاف کرو۔ اور برابر کا برتاؤ کرو؛ ورنہ قیامت کے دن حدیث کے مطابق برا حال ہوگا۔

Tags

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close