مضامین

بھارتیوں میں‌فرقہ وارانہ منافرت کے خالق مغل نہیں؛ انگریز ہیں

شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ

ہندستانیوں کا فرقہ وارانہ اتحاد
مدبرین برطانیہ ہندستانیوں کے آپس کے اختلافات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر ذکر فرمارہے ہیں اور اسی بنا پر اپنے ایفائی وعدہئ آزادی اور اجرائے لوازم جمہوریت سے معذوری کو ہر خاص و عام کے سامنے ظاہر کرتے ہیں حالاں کہ یہ اختلاف برطانیہ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے برطانیہ کے ہندستان میں آنے سے پہلے ہندو اور مسلمان آپس میں نہ جھگڑتے تھے، نہ ان میں منافرت تھی؛ بلکہ شاہان مغلیہ کی اتحادی پالیسیوں نے ہر طرح آپس میں تعلق و ارتباط پیدا کردیا تھا اور یہی تربیت اسلامی چلی آتی تھی۔ جیسا کہ ہم نے اسلامی اصول پہلے ذکر کیے ہیں۔ شہنشاہ بابر نے اپنی وفات کے وقت شاہزادہ ہمایوں کو خفیہ وصیت کی تھی جس کی فارسی عبارت کا ترجمہ حسب ذیل ہے:
”اے پسر! سلطنت ہندستان مختلف مذاہب سے پُر ہے۔الحمدللہ کہ اس نے اس کی بادشاہت تمھیں عطا فرمائی، تمھیں لازم ہے کہ تمام تعصبات مذہبی کو لوح دِل سے دھو ڈالو اور عدل و انصاف کرنے میں ہر مذہب و ملت کے طریق کا لحاظ رکھو، جس کے بغیر تم ہندستان کے لوگوں کے دلوں پر قبضہ نہیں کرسکتے۔ اس ملک کی رعایا مراحم خسروانہ اور الطاف شاہانہ ہی سے مرہونِ منّت ہوتی ہے۔ جو قوم یا ملت حکومت کی مطیع اور فرماں بردار ہے، اس کے مندر اور مزار برباد نہ کیے جائیں۔ عدل و انصاف ایسا کرو کہ رعایا بادشاہ سے خوش رہے۔ ظلم و ستم کی نسبت احسان اور لطف کی تلوار سے اسلام زیادہ ترقی پاتا ہے۔ شیعہ اور سنی کے جھگڑوں سے چشم پوشی کرو؛ ورنہ اسلام کمزور ہوجائے گا۔ جس طرح انسان کے جسم میں چار عناصر مل جل کر اتحاد و اتفاق سے کام کررہے ہیں، اسی طرح مختلف مذاہب رعایا کو ملا جلارکھو اور ان میں اتحاد عمل پیدا کرو، تاکہ جسم سلطنت مختلف امراض سے محفوظ و مامون رہے۔ سرگذشت تیمور کو -جو اتفاق و اتحاد کا مالک تھا- اپنی نظر کے سامنے رکھو، تاکہ نظم و نسق کے معاملات میں پورا تجربہ ہو۔“
(روز نامہ خلافت جلد ۵ نمبر160 مورخہ18/اگست1926ء از پرنسپل راجہ رام کالج ڈاکٹر بال کرشن)
شہنشاہ اورنگ زیب مرحوم نے مندرجہ ذیل مکتوب ابوالحسن حاکم بنارس کو25/جمادی الاوّل 1065ھ میں لکھا تھاکہ:
”ہماری پاک شریعت اور سچےّ مذہب کی رو سے یہ ناجائز ہے کہ غیر مذہب کے قدیمی مندروں کو گرایا جائے۔ ہماری اطلاع میں یہ بات لائی گئی ہے کہ بعض حاکم بنارس اور اس کے گردو نواح کے ہندوؤں پر ظلم و ستم کرتے ہیں اور ان کے مذہبی معاملات میں دخل دیتے ہیں اور ان برہمنوں کو- جن کا تعلق پرانے مندروں سے ہے- ان کو ان کے حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ حکم دیا جاتا ہے کہ آئندہ کوئی شخص ہندوؤں اور برہمنوں کو کسی وجہ سے بھی تنگ نہ کرے اور نہ ان پر کسی قسم کا ظلم کرے۔“ (روزنامہ خلافت)
کپتان الیگزنڈر ہملٹن(Alexander Hamilton) اپنے سفر نامہ جلد ۱صفحہ 127 و128 میں دربارہ شہر ٹہٹہ ملک سندھ لکھتا ہے:
”ریاست کا مسلمہ مذہب اسلام ہے؛ لیکن تعداد میں اگر دس ہندو ہیں، تو ایک مسلمان ہے۔ہندوؤں کے ساتھ رواواری پورے طور پر برتی جاتی ہے۔ وہ اپنے برت رکھتے ہیں اور تہواروں کو اسی طرح مناتے ہیں،جیسے کہ اگلے زمانہ میں کرتے تھے، جب کہ بادشاہت خود ہندوؤں کی تھی۔ وہ اپنے مردوں کو جلاتے ہیں، لیکن اُن کی بیویوں کو اجازت نہیں ہے کہ شوہروں کے مردوں کے ساتھ ستی ہوں۔“
دوسری جگہ جلد اوّل، ص159 میں لکھتا ہے:
”پارسی بھی ہیں اور وہ اپنے رسوم مذہب زردشت کے بموجب ادا کرتے ہیں۔ عیسائیوں کو پوری اجازت ہے کہ اپنے گرجے بنائیں اور اپنے مذہب کی تبلیغ کریں اور بعض مرتبہ وہ اس میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں،لیکن جو لوگ عیسائی ہوجاتے ہیں، ان کے اخلاق اس شہر کے تمام لوگوں سے بدتر ہوتے ہیں۔“
جلد ۱ صفحہ162 میں لکھتا ہے: (دربارہ شہر سورت)
”اس شہر میں تخمیناً سو مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں؛ لیکن ان میں کبھی کوئی سخت جھگڑے ان کے اعتقادات و طریقہ عبادت کے متعلق نہیں ہوتے۔ہر ایک کو پورا اختیار ہے کہ جس طرح چاہے اپنے طریقہ سے اپنے معبود کی پرستش کرو۔ صرف اختلاف مذہب کی بنیاد پر کسی کو تکلیف دینا اور آزار پہنچاناان لوگوں میں بالکل مفقود ہے۔“
یہ مصنف کپتان الیگزنڈر ہملٹن اورنگ زیب مرحوم کے زمانہ میں ہندستان آیا تھا اور پچیس برس ہندستان میں رہا تھا۔ اس نے اپنا سفر نامہ دوجلدوں میں لکھا ہے۔وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم نہیں تھا۔ ڈبلیو ایم ٹارانس(W.M.Torrens) (اپنی کتاب ایشیا میں شہنشاہیت) میں لکھتا ہے:
”شیواجی کو متعصب اور سلطان ٹیپو کو کٹرّ مذہبی کہا جاتا ہے؛ لیکن جس وقت ہم نے جنوبی ہند کی ریاستوں میں دخیل ہونا شروع کیا، اس وقت ان کے یہاں اس قسم کے مذہبی تنفر کا کہیں نام تک نہ تھا۔ جس طرح انگلستان اور یورپ کے تقریباً سب حصوں میں مخلوق کو تباہ کرنا روا رکھا جاتا تھا،جب کہ آئرلینڈ میں کوئی رومن کیتھولک نہ اپنے بزرگوں کی جاگیر کا حق دار سمجھا جاتا تھا، نہ فوج کا افسر ہوسکتا تھا۔ جب سوئڈن میں سوائے لوتھر کے معتقدین کے اور کسی عقیدہ کا کوئی ملازم نہیں ہوسکتا تھا، ٹھیک اس وقت ہندستان کے اندر ہر شہر اور شاہی دربار میں ہندو مسلمان عزت اور سرمایہ کمانے میں اور ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں آزاد تھے۔“
محترم بزرگو! ہندستانیوں کے اندر انگریزی راج سے پہلے نہ یہ فرقہ وارانہ منافرت تھی، نہ آپس میں عداوت اور خوں ریزی ہوتی تھی۔باوجود اختلاف عقائد و اعمال و مذاہب؛ سب شیر و شکر ہوکر محبت اور ہمدردی کے ساتھ گذر بسر کرتے تھے۔ایک دوسرے کی شادی اور غمی میں شریک ہوتا تھا اور ہر ایک دوسرے کی امداد کرتا تھا۔ حکومت کے صیغوں میں کوئی مذہبی امتیاز نہ تھا۔ جہاں گیر کے توپ خانے کا افسر اعلیٰ راجہ بکر ماجیت تھا، جوکہ پچاس ہزار تو پ چیوں کا افسر تھا اور تین ہزار توپیں اس کے زیر کمان تھیں۔ یہ راجہ بکر ماجیت کھتری تھا۔اکبر کے زمانہ میں ترقی کرتا ہوا فیل خانہ کے داروغہ مشرقی سے خدمت دیوانی اور مرتبہ امرائی کو پہنچا تھا۔ فن سپہ گری اور تدابیر جنگ کو خوب جانتا تھا۔ (ترجمہ تزک جہانگیری، صفحہ21)
اسی طرح مرہٹوں کا تو توپ خانہ مسلمانوں کے زیر کمان تھا، حالاں کہ احمد شاہ ابدالی سے لڑائی ہورہی تھی۔ احمد شاہ ابدالی نے ان کو اپنے یہاں بلایا، تو انھوں نے جواب دیا کہ نمک حلالی کے خلاف ہے۔
شاہان مغلیہ کے زمانہ میں ہندوؤں کے اعلیٰ عہدوں کی فہرست حسب ذیل ہے:
نام عہدہ اکبر مرحوم جہاں گیر مرحوم شاہ جہاں مرحوم اورنگزیب مرحوم
ہفت ہزاری ۱ ۰ ۰ ۰
شش ہزاری ۰ ۰ ۰ ۲
پنج ہزاری معلوم نہیں معلوم نہیں معلوم نہیں ۵
چار ہزاری معلوم نہیں معلوم نہیں معلوم نہیں ۵
ساڑھے تین ہزاری معلوم نہیں معلوم نہیں معلوم نہیں ۴
تین ہزاری معلوم نہیں معلوم نہیں معلوم نہیں ۳۱
ڈھائی ہزاری معلوم نہیں معلوم نہیں معلوم نہیں ۵
دو ہزاری معلوم نہیں معلوم نہیں معلوم نہیں ۶۱
ڈیڑھ ہزاری معلوم نہیں معلوم نہیں معلوم نہیں ۷۲
ایک ہزاری معلوم نہیں معلوم نہیں معلوم نہیں ۵۱
(کتاب اورنگ زیب اور اس کا عہد مولفہ ظہیر الدین فاروقی بی اے علیگ بیرسٹر ایٹ لا)
سر سی پی رائے صدر بنگال مسلم فیڈریشن کانفرنس فرماتے ہیں:
”اورنگ زیب کے عہد میں بنگال کے ہندوؤں کو منصب داری اور بڑی بڑی جاگیریں عطا کی گئیں اور بڑے بڑے زمین دار بنا دیے گئے اورنگ زیب نے ہندوؤں کو گورنر بنایا، گورنر جنرل بنایا، وائسرائے بنایا؛ یہاں تک کہ اس نے خالص اسلامی صوبہ افغانستان پر بھی- جو نائب دارالسلطنت مقرر کیا تھا -وہ ہندو راجپوت ہی تھا۔“ (روشن مستقبل،صفحہ28)
یہ حال اس پادشاہ کا ہے، جس کو یورپین پروپیگنڈے میں نہایت متعصب مذہبی اور تنگ دل دِکھلایا گیا ہے اور جس کے ذریعہ سے ہندستانی نوجوانوں کے دلوں میں عداوت کی آگ بھڑکائی جاتی ہے۔اور یہ واقعات اس زمانہ کے ہیں، جب کہ اسلامی اقتدار کا آفتاب انتہائی عروج پر تھا:
”شیر شاہ سوری مرحوم کے بیٹے عادل شاہ نے،جب کہ ہاتھی پر سوار ایک ہندو عورت کو، جو کہ اپنے کھلے ہوئے احاطہ میں نہارہی تھی، دیکھ کر پان کا بیڑا پھینکا تھا، بادشاہ مذکور نے خبر ہونے پر حکم دیا کہ عادل شاہ کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کیا جائے، اس کی بیوی ننگی کی جائے اور اس ہندو عورت کا خاوند اس کو دیکھ کر بیڑا پھینکے۔“ (روشن مستقبل،صفحہ29 و 30)
”شہنشاہ جہاں گیر اور اس کی محبوبہ نورجہاں کا قصہ، جب کہ اس نے ایک ہندو مرد کو، جوکہ بے خبری میں پردہ کی جگہ پر گھس آیا تھا، ریوالور سے قتل کردیا تھا، مشہور و معروف ہے۔ شہنشاہ نے نورجہاں کی مشکیں بندھوا کر قتل کا حکم بطور قصاص دے دیا، جس کو مولانا شبلی مرحوم نے واضح طور پر نقل کیا ہے۔“ (روشن مستقبل، صفحہ30)
یہ اور ایسے بہت سے واقعات ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہندستان میں انگریزی حکومت سے پہلے تمام مختلف المذاہب رعایا کے باہمی تعلقات نہایت خوشگوار تھے اور حکومت کا سلوک بھی غیر مسلم رعایا کے ساتھ اس قدر روادارانہ تھا کہ بعض واقعات میں شرعی معیار سے بھی متجاوز ہوجاتا تھا۔ ہمارا مقصود تاریخی واقعات سے اُس وقت کی انتہائی رواداری دکھلانا اور یہ ثابت کرنا ہے کہ مختلف المذاہب رعایا کی باہمی تلخی اور روزانہ فسادات؛انگریزی حکومت کے ہی ثمرات ہیں۔
سرجان مینارڈ(Sir John Maynard) لکھتا ہے:
”ہندو مسلمانوں کے مابین عام مخالفت برطانیہ کے عہد میں شروع ہوئی۔“ (روشن مستقبل، ازان ہیپی انڈیا لاجپت رائے، صفحہ266)
سرجان میلکم(Sir John Malcolm) کہتا ہے:
”اس قدر وسیع سلطنت میں ہماری غیر معمولی قسم کی حکومت کی حفاظت اس امر پر منحصر ہے کہ ہماری عمل داری میں جو بڑی جماعتیں ہیں، ان کی عام تقسیم ہو اور پھر ہر ایک جماعت کے ٹکڑے مختلف ذاتوں اور فرقوں اور قوموں میں ہوں۔ جب تک یہ لوگ اس طریقہ سے جدا رہیں گے، اس وقت تک غالباً کوئی بغاوت اٹھ کر ہماری قوم کے استحکام کو متزلزل نہ کرسکے گی۔“ (کمپنی کے عہد کی تاریخ تعلیم انگریزی از میجر باسو، صفحہ 187)
سرجان مینارڈ لکھتا ہے (لندن کے اخبار موسومہ معاملات خارجیہ میں) یہ شخص پنجاب اگزیکٹیو کونسل کا سینئر ممبر تھا:
”ہندستان میں خانہ جنگی کی طرف رجحان موجود ہے، جس کا ایک نمونہ ہندو مسلم عناد ہے اور یہ واقعہ ہے کہ یہ رجحان نہ ہوتا، تو ہماری حکومت قائم نہ ہوسکتی، نہ برقرار رہ سکتی۔یہ بھی صحیح ہے کہ ہندو مسلمانوں کے مابین عام مخالفت برطانیہ کے عہد میں شروع ہوئی۔ برطانیہ سے پہلے بھی ظالم سلاطین گزر چکے ہیں، جنھوں نے کبھی غیر مسلمین پر جزیہ لگایا اور کبھی گائے ذبح کرنے پر مجنونانہ جوش میں سزائیں دیں؛ لیکن یہ واقعات گاہے گاہے پیش آتے تھے۔ شجر علم کا پھل چکھنے سے پہلے عوام میں مذہبی افتراق کا احساس نہ تھا۔“(اَن ہیپی انڈیا لاجیت رائے صفحہ408، ح خ،صفحہ52)
لارڈ الفنسٹن(Lord Elphinstone) گورنر بمبئی 14/مئی 1859ء میں لکھتا ہے:
”نفاق ڈال کر حکومت کرنا رومیوں کا اصول تھا اور یہی اصول ہمارا بھی ہونا چاہیے۔“
اسی اصول کو میجر جرنیل ا سمتھ کے۔سی۔بی(Smith K.C.B) لکھتا ہے، جس کو پراسپرس برٹش انڈیا(Prosperous British India) میں ڈگبی(William Digby) نے نقل کیا ہے اور اسی اصول کی تلقین کار نے ٹیکس 1828ء میں کرتا ہے۔
مسٹر چرچل اپنی تقریر مورخہ8/جون1932ء میں فرماتے ہیں:
”وزیر اعظم نے طے کرلیا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ فیصلہ دیں گے۔ میرے نزدیک اس میں سخت خطرہ ہے۔ اگر انھوں نے جملہ جماعتوں کو خوش کرنے کی کوشش کی، تو وہ کسی کو بھی خوش نہ کرسکیں گے۔ اہل روم کا اصول تھا کہ نفاق ڈال کر حکومت کرو؛ لیکن ہم نے بالا تفاق طے کرلیا ہے کہ یہ اصول نامناسب ہے؛مگر اسی کے ساتھ اس اصول کو بھی اختیار نہ کرنا چاہیے، جو اس کے برعکس ہو اور وہ یہ ہے کہ رعایا کو متحد کردیا جائے، جس کا نتیجہ سلطنت سے دست کشی ہوگا۔ دراصل یہ ایک بڑا خطرہ ہے اور اندیشہ ہے کہ ہم اس بڑی غلطی میں نہ پڑجائیں۔‘‘(اخبار لیڈر 14/جولائی1932ء)
حضرات! مذکورہ اقتباسات سے صاف طور سے واضح ہے کہ ہندستان بادشاہوں اور راجاؤں کے زمانہ میں افتراقات اور عام خانہ جنگی سے بالکل پاک و صاف تھا اور ان میں آپس میں اعتماد اور اتحاد ویگانگت کا دور دورہ تھا اور اسی کی بنا پر قدیمی حکومتیں مستحکم اور استوار تھیں؛ مگر مدبرین برطانیہ نے انسانیت سوز اصول اختیار کیا اور افتراق و شقاق کی آگ،اس ملک میں اپنے استحکام کے لیے سلگائی اور اس کے لیے گائے، باجا، تفرقہ انگیز پروپیگنڈا، مذمتوں سے بھری ہوئی کتب ہائے تاریخ، سیاسی افتراقات، فرقہ وارانہ انتخاب وغیرہ پھیلائے گئے۔ اور آج یہ آواز اٹھائی جاتی ہے کہ ہندستانی آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں۔ ان میں فرقہ وارانہ اختلافات ہیں۔ یہ آپس میں متحد نہیں ہیں۔ ان کا نظریہ ایک نہیں ہے؛ اس لیے ہم اپنا قدیمی وعدہ پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ آپ کو خود مسٹر چرچل ہی کے بیان سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ وہ ہندستانیوں کے متحد ہونے کو اپنی حکومت کے زوال کا باعث سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ اتحاد کے مخالف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روزانہ اس قسم کے جھگڑے اور اصول پیدا کیے جاتے ہیں، جن سے اختلاف کی خلیج روز افزوں ہوتی جائے۔ فرقہ وارانہ انتخاب قائم کرنا؛ اسی کا ایک کرشمہ ہے۔ جب بھی کوئی آواز اتحاد کی اٹھائی جاتی ہے، یا سیاسی مطالبات میں سرگرمی دکھائی جاتی ہے، نو ان اختلافات کے نئے نئے واقعات بکثرت پیدا کرلیے جاتے ہیں۔کیا یہ مدبرین برطانیہ ہی کی کارروائی نہیں ہے؛ جس کی وجہ سے عام ہندستانی اور بالخصوص مسلم عوام انتہائی مصائب میں برباد ہورہے ہیں۔
برطانیہ کے چوٹی کے عہدہ دار ادھر تو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہندستانیوں کو متحد ہونا چاہیے اور بڑے زور سے اسی کی ترغیب اور خواہش ظاہر کی جاتی ہے اور بار بار اتحاد کے وعظ سنائے جاتے ہیں اور دوسری قوموں کے سامنے ہندستانیوں کو مجرم اور اپنے آپ کو معصوم بتایا جاتا ہے، اور ہندستانی حقوق جمہوریت کے نہ دینے میں اپنی معذوری ظاہر کی جاتی ہے اور ادھر حالت یہ ہے کہ ڈیوایڈ اینڈرول (Divide and rule)کو اپنی استحکام حکومت کا ذریعہ اور نفاق ڈال کر حکومت کرنا اصل اصول قرار دیا جاتا ہے۔ ہندستانی اتحاد کی انتہائی مخالفت کی جاتی ہے۔ برطانوی ملائے اعلیٰ سے ملائے سافل کو ہندستان میں احکام ایسی حالت میں تفرقہ اندازی کے پہنچنے ضروری ہیں۔ اور اگر نہ بھی پہنچیں، جب بھی اس قدر روشنی ان کو تفرقہ کی جدوجہد کے لیے کافی ہے۔ خلاصہ یہ کہ جو کچھ ہندستان میں تفرقہ اور اختلاف فرقہ وارانہ ہے، اس کا تمام یا اکثر حصّہ برطانیہ ہی کی عنایتوں اور ریشہ دوانیوں سے پیدا ہوا ہے۔ ع
ہوئے تم دوست جس کے اس کا دشمن آسماں کیوں ہو
ہندستانیوں کے سر اس کو تھوپنا سراسر بے راہی اور ظلم ہے۔
(خطبہ صدارت تیرھواں اجلاس عام منعقدہ لاہور ، بتاریخ‌20-21-22 مارچ 1942، از شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ. جمعیت علمائے ہند کے سو سال قدم بہ قدم جلد چہارم : محمد یاسین جہازی)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close