نبی اکرم ﷺ نے معاہدہ حدیبیہ کے ذریعہ اسلام اور مسلمان کو کفار کے ممکنہ حملوں سے محفوظ کردیا، تو مختلف ممالک کے بادشاہوں کو دین کی دعوت دینے کے لیے اپنے سفیروں کو روانہ کیا۔ آپ ﷺ نے ان صحابہ کو سفارت کے لیے منتخب فرمایا، جو ان علاقوں کی زبان، کلچر اور رسوم ورواج سے واقف تھے۔ اور ان صحابہ کرام نے بھی نبی اکرم ﷺ کے پیغامات کو پہنچانے کے لیے دشوار ترین اسفار طے کیے اور اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر متعلقہ بادشاہوں تک پہنچ کر مکتوبات نبوی ان کے حوالے کیے۔
اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ تھی کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کوروم کے بادشاہ ہرقل کو دعوت اسلام دینے کے لیے بھیجا۔ جب خط اس تک پہنچا تو اس نے حضرت ابو سفیان ؓؓ جو اس وقت روم میں ہی تھے، بلاکر نبی اکرم ﷺ کے حالات معلوم کیے۔ حالات معلوم ہونے کے بعد ہرقل نے کہا کہ
ان یک ماتقول حقا فانہ نبی و لیبلغن ملکہ ما تحت قدمی۔
جو تم کہتے ہو اگر یہ سچ ہے، تو وہ یقینا نبی ہیں اور ان کی سلطنت ضرور میرے قدموں کے نیچے کی زمین تک پہنچ جائے گی۔
کہا جاتا ہے حضرت خواجہ معین الدین اجمیری ؒ کو خواب میں سرور کائنات ﷺ نے تبلیغ اسلام کے لیے بھارت کا سفر کرنے کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ حضرت اجمیری یہاں تشریف لائے اور تقریبا نوے لاکھ لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ حوالے اور بھی ہیں، لیکن طوالت کے خوف سے انھیں ترک کیا جاتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کے دعوتی اسلوب اور خواجہ اجمیری کے کارناموں کے تناظر میں مسلمانوں کے موجودہ حالات کا تجزیہ اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں سے تین بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور یہ ایسی غلطیاں ہیں، جن سے اسلام خاتمہ کے دہانے تک پہنچ سکتا ہے۔
غلطی نمبرایک
غیر مسلم اکثریتی ماحول میں مسلمانوں کا بنیاد فرض یہ بھی تھا کہ وہ انھیں مسلسل اسلام کی دعوت دیتے۔ اور دعوت دینے میں حضرت خواجہ کا کردار اپنایا جاتا۔ بتایا جاتا ہے کہ حضرت خواجہ نے بھارت کے لوگوں کو اپنے سے قریب کرنے کے لیے، ان کی طرز زندگی، ان کے لباس اوران کی زبان کو اختیار کیا۔ عام لنگر میں گوشت کا استعمال ترک کردیا اور ایسا کھانا تیار کرایا، جنھیں بلا تفریق مذہب سبھی لوگ کھاسکیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ غیر قوم کو لباس، تہذیب اور زبان وغیرہ سے قدرتی طور پر جو وحشت یا نامانوسیت ہوتی ہے، وہ اپنائیت اور قربت کی وجہ بن گئی۔ اور جب لوگوں نے حضرت کو قریب سے دیکھا، تو بھارت میں بھی وہی تاریخ دوہرائی گئی، جو صلح حدیبیہ کے بعد اسلام کی اشاعت کے حوالے سے پیش آئی تھی۔صلح حدیبیہ کے بعد جب لوگوں نے اسلام اور مسلمانوں کو قریب سے جانا پہنچانا، تو فوج درفوج اسلام قبول کرنے لگے اور اس کے بعد چار سال میں جتنے لوگوں نے اسلام قبول کیا، اس سے پہلے انیس سال کی محنت میں بھی اتنے لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
بھارت میں علما اپنے مخصوص لباس سے باہر آجائیں، تو عوام تو کجا؛ بعض علما کی نگاہ میں بھی کفر سے کم نہیں ہے۔ اس اصرار نے غیر قوموں سے تہذیبی وحشت پیدا کردیا اور ایک دوسرے کے قریب آنے سے غیر مانوسیت محسوس کرنے لگے۔ اسی طرح اردو زبان کی شدت نے افہام و تفہیم کا دروازہ بند کردیا، یا پھر غیرقوم کو ان کی زبان میں اسلامی تعلیمات پیش نہ کرنے کی وجہ سے اسلام کی خوبیوں سے ناواقف رہے؛ بلکہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شاطر دماغوں نے ان کی بھاشا میں اسلام کو خوب بدنام کیا اور ایک شدت پسند مذہب کے طور پر متعارف کرایا، جس کا نتیجہ آج سامنے ہے کہ برادران وطن مسلمانوں کو ”کٹوا“ بلاتے ہیں۔ اور یہی کچھ حال ہمارے کھانے پینے کا بھی ہے؛ بلکہ ہندو شدت پسند حضرات اپنی قوم کو گائے ذبیحہ کے نام پر یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ اسلام ایک خوں ریز مذہب ہے، جس میں جانوروں کے خون بہانے اور ہماری گائے ماتا کو کاٹنے پر ثواب ملتا ہے۔
راقم کا ماننا ہے کہ کم از کم انھیں تین: زبان، طعام اور لباس کے اعتبار سے نرم روی اختیار کیا جائے، تو غیر قوم کو اپنے قریب لانے میں زیادہ کامیاب ہوسکتے ہیں اور پھر اسلام کی خوبیوں سے متعارف کراتے ہوئے تبلیغ کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ اس سے قوی امید ہے کہ جس طرح حضرت خواجہ کے دور میں نوے لاکھ لوگ مسلمان ہوئے تھے، ایسا کرنے سے یہ ہدف حاصل ہوسکتا ہے۔
دوسری غلطی
جمہوری بھارت میں حکومتی سسٹم کا حصہ بننے کے لیے سب کو برابر کا حق ملتا ہے۔ اس کی صرف ایک ہی شرط ہے کہ متعلقہ شعبے کے فرائض ادا کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ آزادی کے بعد مسلمانوں نے اپنے تعلیمی اداروں کو دینی مدارس کا نام دے کر عصری اداروں اور علوم و فنون سے اس درجہ الگ کرلیا کہ دونوں اداروں کے فارغین ایک دوسرے سے اجنبیت محسوس کرنے لگے۔ تعلیم کی زبان اور منہج فکرکے اختلاف نے دونوں کے درمیان ایک خلیج حائل کردی، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مدارس کے فضلا،جہاں ایک طرف عصری تعلیم یافتہ افراد کو اسلام کی خوبیوں سے متعارف کرانے میں ناکام رہے، وہیں دوسری طرف مقتضایات زمانہ کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کے مین اسٹریم سے کٹ گئے، اور دائرہ عمل محدود ہوکر رہ گیا۔ آج کے علمابالعموم یا تو مدارس کی چہار دیواری میں ہی اپنی سرگرمیاں محدود رکھتے ہیں یا پھر مسجد کی امامت سے مقتدی حضرات تک اپنی تعلیمات پہنچاپاتے ہیں۔ ان کے علاوہ عمومی افادے استفادے کی راہیں، یا تو ہیں ہی نہیں، یا اگر ہیں، تو جلسے جلوس سے زیادہ نہیں ہیں۔اور ان میں بھی مخاطب صرف اپنے ہی لوگ ہوتے ہیں، غیر نہیں ہوتے۔ اور ظاہر ہے کہ ان راستوں سے بھارت میں تبلیغ کی جتنی ضرورت ہے اور جس قسم کی ضرورت ہے، اس کا ایک فی صد بھی کام نہیں ہورہا ہے۔ اور اس کا نتیجہ سامنے ہے کہ غیروں کوتو کیا مسلمان بنائیں گے، اپنے ہی لوگ از خود رفتہ رفتہ اسلام سے خارج ہوتے جارہے ہیں۔
راقم کا ماننا ہے کہ اگر ہمارے تعلیمی ادارے عصری اداروں سے اٹیچ ہوتے، یا پھر مدارس دینی تعلیمات کی تکمیل کے بعد یا ساتھ ساتھ عصری اداروں کے مساوی تعلیم بھی فراہم کرتے، تو آج مدارس کے فضلا بڑی تعداد میں حکومتی سسٹم میں موجود ہوتے اور مدارس و مساجد کے علاوہ بھی ان کا دائرہ عمل وسیع ہوتااور یہ جہاں بھی ہوتے، وہاں اسلام کی روشنی پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرتے۔ اورپھر اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں یا پیدا ہوگئی ہیں، انھیں دیکھ کر یا پرکھ کر کافی حد تک ختم ہوجاتیں۔
تیسری غلطی
ہم نے عمومی طور پر یہ سمجھ لیا ہے کہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام صرف مولویوں کا ہے۔ ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ نماز صرف مولوی پڑھیں گے۔ روزہ بھی صرف مولوی کے ذمہ ہوگا۔ اسی طرح دیگر اسلامی تشخصات کو برقرار رکھنا صرف ایک مولوی ہی کے لیے ضروری ہے۔ باقی ہمارے اوپر نہ تو نماز فرض ہے، اور نہ روزہ رکھنے کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور مولوی کی بھی بات کریں، تو اسی یا نوے فی صد مولویوں کا اسلامی کردار صرف مدارس اور مساجد تک محدود ہے، ان سے باہر قدم رکھتے ہی کوئی بھی اسلامی کردار پیش نظر نہیں رکھتا۔ شادی بیاہ اور دنیا کے دیگر معاملوں میں مولوی بھی دوسرے افراد سے کم نظر نہیں آتے؛ قصہ مختصر یہ ہے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنے اور مشترک سماج میں ہمیں انفرادی طور پر جس طرح اسلامی کردار پیش کرنا چاہیے، ہم نے کبھی نہیں کیا۔ تجارت میں جھوٹ بولنے سے پرہیز نہیں کیا۔ لین دین میں سود کی حرمت کی عملی مثال پیش نہیں کی۔ صفائی ستھرائی کو نصف ایمان کے نظریہ سے نہیں دیکھا، اپنے اخلاق حسنہ سے کبھی غیروں کو تو کیا، اپنے کو بھی متاثر نہ کرسکے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ غیروں نے ہمیں بھی اور ہمارے مذہب کو بھی تچھ سمجھا اور ہمارے کردار سے یہ یقین کرلیا کہ اسلام میں کوئی خوبی نہیں ہے، یہ تو جھوٹوں، مکاروں اور گندوں کا مذہب ہے۔ اور جس مذہب کے بارے میں یہ تاثر قائم ہوجائے، بھلا وہ مذہب کون اختیار کرنا چاہے گا۔
راقم کا خیال ہے کہ جس مشترک سماج میں ہم لوگ رہتے ہیں، اگر ہر شخص عملی طور پر اسلام کا نمونہ پیش کرے، تو تبلیغ کی کسی تحریک کے بغیر ہی برادران وطن ہمارے قریب آسکتے ہیں۔ اور جب وہ قریب آجائیں گے، تو آپ کا عملی کردار انھیں اسے قبول کرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور جب ایسا ہوجائے گاتو موجودہ بھارت کا سماجی، مذہبی اور سیاسی نقشہ کتنا بدل سکتا ہے، اس کا اندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں۔
یہ یقین مانیے کہ بھارت میں مسلمانوں کا تحفظ صرف اور صرف دامن اسلام سے عملی طور پر وابستگی میں مضمر ہے۔ یہ رشتہ جتنا کمزور ہوگا، اتنے ہی مسلمانوں پر حالات آئیں گے اورجتنے مسلمان اسلام کا عملی کردار پیش کریں گے، وہ اتنا ہی بھارت اور پوری دنیا میں محفوظ رہیں گے۔ اس اصول کی روشنی میں یہ کہنا خلاف واقعہ نہیں ہوگا کہ موجودہ حالات بھی ہماری اسی کمزوری کا پیش خیمہ ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ درج بالا تینوں اعتبار سے ہوئی غلطیوں کو سدھار کر مستقبل کو سنوار سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم نے حالات نہیں بدلے، اور موجودہ کردار سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے، تو شاید ماضی قریب و یابعید میں ہمارا وجود ہٹنے بڑھنے کے لیے بھی نہ بچے، فتدبر یا اولی الالباب!!!!!!۔
ماشاء اللہ مضمون بہت اچھا ہے